فرحت کیانی
لائبریرین
میں کیوں اُداس نہیں
لُہولہان مرے شہر میرے یار شہید
مگر یہ کیا کہ مری آنکھ ڈبڈبائی نہیں
نظر کے زخً جگر تک پہنچ نہیں پائے
کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں
میں کیا کہوں کہ پشاور سے چاٹگام تلک
مرے دیار نہیں تھے کہ میرے بھائی تھے
وہی ہوں میں مرا دل بھی وہی جنوں بھی وہی
کسی پر تیر چلے جاں فگار اپنی ہو
وہ ہیروشیما ہو ، ویتنام ہو کہ بٹ مالو×
کہیں بھی ظلم ہو آنکھ اشکبار اپنی ہو
یہی ہے فن کا تقاضا یہی مزاج اپنا
متاعِ درد سبھی پر نثار اپنی ہو
نہیں کہ درد نے پتھر بنا دیا ہے مجھے
نہ یہ کہ آتشِ احساس سرد ہے میری
نہیں کہ خونِ جگر سے تہی ہے میرا قلم
نہ یہ کہ لوحِ وفا برگِ سرد ہے میری
گواہ ہیں مرے احباب ، میرے شعر ثبوت
کہ منزلِ رسن و دار گرد ہے میری
بجا کہ امن کے بربط اُٹھائے آج تلک
ہمیشہ گیت محبت کے گائے ہیں میں نے
عزیز ہے مجھے معصوم صورتوں کی ہنسی
بجا کہ پیار کے نغمے سنائے ہیں میں نے
چھڑک کے اپنا لہو اپنے آنسوؤں کی پھوار
ہمیشہ جنگ کے شعلے بجھائے ہیں میں نے
میں سنگدل ہوں نہ بیگانۂ وفا یارو
نہ یہ کہ میں ہوں کسی خواب زار میں کھویا
تمہیں خبر ہے کہ دل پر خراش جب بھی لگے
تو بند رہ نہیں سکتا مرا لبِ گویا
وہ مرگِ ہم نفساں پر حزیں نہیں ہے تو کیوں
جو فاطمی و لوممبا کی موت پر رویا
دلاورانِ وفا کیش کی شہادت پر
مرا جگر بھی لہو ہے پہ وقفِ یاس نہیں
سیالکوٹ کے مظلوم ساکنوں کے لیے
جز آفریں کے کوئی لفظ میرے پاس نہیں
میں کیسے خطۂ لاہور کے پڑھوں نوحے
یہ شہرِ زندہ دلاں آج بھی اُداس نہیں
جنوں فروغ ہے یارو عدو کی سنگ باری
ہزار شکر کہ معیارِ عشق پست نہیں
دریدہ سر ہیں تو کیا غم شکستہ دست نہیں
مرے وطن کی جبیں پر دمک رہا ہے جو زخم
وہ نقشِ فتح ہے داغِ غمِ شکست نہیں
گریزد از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد ، از قبیلۂ ما نیست
کلام : احمد فراز
×کشمیر کا ایک قصبہ
لُہولہان مرے شہر میرے یار شہید
مگر یہ کیا کہ مری آنکھ ڈبڈبائی نہیں
نظر کے زخً جگر تک پہنچ نہیں پائے
کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں
میں کیا کہوں کہ پشاور سے چاٹگام تلک
مرے دیار نہیں تھے کہ میرے بھائی تھے
وہی ہوں میں مرا دل بھی وہی جنوں بھی وہی
کسی پر تیر چلے جاں فگار اپنی ہو
وہ ہیروشیما ہو ، ویتنام ہو کہ بٹ مالو×
کہیں بھی ظلم ہو آنکھ اشکبار اپنی ہو
یہی ہے فن کا تقاضا یہی مزاج اپنا
متاعِ درد سبھی پر نثار اپنی ہو
نہیں کہ درد نے پتھر بنا دیا ہے مجھے
نہ یہ کہ آتشِ احساس سرد ہے میری
نہیں کہ خونِ جگر سے تہی ہے میرا قلم
نہ یہ کہ لوحِ وفا برگِ سرد ہے میری
گواہ ہیں مرے احباب ، میرے شعر ثبوت
کہ منزلِ رسن و دار گرد ہے میری
بجا کہ امن کے بربط اُٹھائے آج تلک
ہمیشہ گیت محبت کے گائے ہیں میں نے
عزیز ہے مجھے معصوم صورتوں کی ہنسی
بجا کہ پیار کے نغمے سنائے ہیں میں نے
چھڑک کے اپنا لہو اپنے آنسوؤں کی پھوار
ہمیشہ جنگ کے شعلے بجھائے ہیں میں نے
میں سنگدل ہوں نہ بیگانۂ وفا یارو
نہ یہ کہ میں ہوں کسی خواب زار میں کھویا
تمہیں خبر ہے کہ دل پر خراش جب بھی لگے
تو بند رہ نہیں سکتا مرا لبِ گویا
وہ مرگِ ہم نفساں پر حزیں نہیں ہے تو کیوں
جو فاطمی و لوممبا کی موت پر رویا
دلاورانِ وفا کیش کی شہادت پر
مرا جگر بھی لہو ہے پہ وقفِ یاس نہیں
سیالکوٹ کے مظلوم ساکنوں کے لیے
جز آفریں کے کوئی لفظ میرے پاس نہیں
میں کیسے خطۂ لاہور کے پڑھوں نوحے
یہ شہرِ زندہ دلاں آج بھی اُداس نہیں
جنوں فروغ ہے یارو عدو کی سنگ باری
ہزار شکر کہ معیارِ عشق پست نہیں
دریدہ سر ہیں تو کیا غم شکستہ دست نہیں
مرے وطن کی جبیں پر دمک رہا ہے جو زخم
وہ نقشِ فتح ہے داغِ غمِ شکست نہیں
گریزد از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد ، از قبیلۂ ما نیست
کلام : احمد فراز
×کشمیر کا ایک قصبہ