فرخ منظور
لائبریرین
میں گلستاں میں نشیمن ہوں پھر بنانے کو
خبر کرو کسی بجلی کے تازیانے کو
متاعِ درد ملی ہے ہزار جتنوں سے
بہت سنبھال کے رکھا ہے اس خزانے کو
پکارتی ہے تمہیں بام و در کی تاریکی!
کبھی تو روشنی بخشو غریب خانے کو
کہو اندھیروں سے چاہیں تو راستہ روکیں
میں جا رہا ہوں چراغِ وفا جلانے کو
سوائے سنگِ ملامت وہ کچھ بھی لا نہ سکے
گئے تھے چاند پہ جو بستیاں بسانے کو
خدا کرے کہ سلامت رہیں ندیم مرے
تمام عمر پڑی ہے فریب کھانے کو
خبر کرو کسی بجلی کے تازیانے کو
متاعِ درد ملی ہے ہزار جتنوں سے
بہت سنبھال کے رکھا ہے اس خزانے کو
پکارتی ہے تمہیں بام و در کی تاریکی!
کبھی تو روشنی بخشو غریب خانے کو
کہو اندھیروں سے چاہیں تو راستہ روکیں
میں جا رہا ہوں چراغِ وفا جلانے کو
سوائے سنگِ ملامت وہ کچھ بھی لا نہ سکے
گئے تھے چاند پہ جو بستیاں بسانے کو
خدا کرے کہ سلامت رہیں ندیم مرے
تمام عمر پڑی ہے فریب کھانے کو