عاطف بٹ
محفلین
بہت شکریہ شیزان بھائیعمدہ شیئرنگ بھائی جی۔۔
شکریہ قبول فرمایئے
بہت شکریہ شیزان بھائیعمدہ شیئرنگ بھائی جی۔۔
شکریہ قبول فرمایئے
حضور پوشیدگی میں ہی سنیں گے۔اگر آپ ملاقاتوں کے سلسلے کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں تو اس فن کو پوشیدہ ہی رہنے دیں۔
یعنی آپ چاہتے ہیں کہ وہ پوشیدہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہو!حضور پوشیدگی میں ہی سنیں گے۔
شامِ عنایتِ دزدیدہ کی یاد میں بیتا اپنا دنیعنی آپ چاہتے ہیں کہ وہ پوشیدہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہو!
شامِ عنایت کا تو پتہ نہیں مگر آج سہ پہرِ عنایت ہوئی تھی۔شامِ عنایتِ دزدیدہ کی یاد میں بیتا اپنا دن
مت پوچھو کیا جشن سہے ہیں ہجر کی رات منانے میں
(خاکسار)
وہ شام ہی تھی قبلہ۔۔۔ کم از کم روانگی تو آپ کی شام کو ہی ہوئیشامِ عنایت کا تو پتہ نہیں مگر آج سہ پہرِ عنایت ہوئی تھی۔
اس کے شاعر کاملؔ چاندپوری ہیں۔
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ
وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے
ضرور اس کی توجہ کے رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر گیا کیسے
پسِ تحریر: مہدی حسن خان صاحب کی گائی ہوئی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے مگر مجھے اس کے خالق کا نام نہیں پتہ، اگر آپ میں سے کسی کے علم میں ہو تو بتا کر ممنون فرمائیے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ یہ غزل میں نے چند سال قبل یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں جملہ آلاتِ موسیقی کے ساتھ گائی تھی۔
میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے
کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ
وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے
ضرور اس کی توجہ کے رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل
میں آج اس کی گلی سے گزر گیا کیسے
پسِ تحریر: مہدی حسن خان صاحب کی گائی ہوئی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے مگر مجھے اس کے خالق کا نام نہیں پتہ، اگر آپ میں سے کسی کے علم میں ہو تو بتا کر ممنون فرمائیے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ یہ غزل میں نے چند سال قبل یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں جملہ آلاتِ موسیقی کے ساتھ گائی تھی۔
یہ غزل کامل چاند پوری کی ہے
میں ہوش میں تھا تو اُس پہ مر گیا کیسے
یہ زہر میرے لہو میں اُتر گیا کیسے
کُچھ اُسکے دل میں لگاوٹ ضرورتھی ورنہ
وہ میرا ہاتھ دبا کر گُزر گیا کیسے
ضرور اُس کی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
جِسے بھلائے کئی سال ہو گئے کاملٗ
میں آج اُس کی گلی سے گُزر گیا کیسے
کاملٗ چاند پوری
میں نے سمجھا ہے کہ یہ غزل کامل چاندپوری کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ معلومات مجھے انٹرنیٹ سے ملی تھی۔
کامل چاند پوری صاحب کا کلام ہے یہ