ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زیست جو بنی
شور اسی گھڑی کا پھر خامُشی میں بھی جائے کیا
حشر کے لمحے تو ٹھہر! جو ہو قصور وارِ عشق
وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا
ان دو اشعار کے یہ دو مصرعے سنبھال کے رکھیے اور انھیں کے جوڑ اور ٹکّر کے مصرعے بطور گرہ لگائیے -کیونکہ فی الحال یہ دو شعر اپنا مطلب واضح نہیں ادا کر پا رہے -
" ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زیست بن گئی "
--------
"وحشتِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا"
اگر اسکو یوں کردیا جائے
وہ جو تھی حشر کی گھڑی، لے گئی خامشی میں مجھ کو
شور سکوت میں مگر اس گھڑی کا جائے کیا؟
یا
.
وہ جو تھی حشر کی گھڑی، سکتہ ء جان بن گئی
شور نشور کی گھڑی کا خامشی میں بھی جائے کیا
گو کہ میں اسکو غزل سے فی الحال نکال ہی رہی ہوں پر اک کوشش کے ساتھ، دیکھ لیجیے گا
دوسرے شعر کو دیکھیے .....
اے غمِ دل تو ہی ٹھہر، سن لے فسانے درد کے
وحشت ِِ دل سنانے کو غیر کے در پہ جائے کیا