آج صبح سحری کے بعد مزید ایک شعر کی آمد یوں ہوئی کہ
جب بھی چاہت ہوئی تجھے دیکھوں
میں ہوا اپنے ہی جمال میں گم
اس شعر کا مطلب ہر قاری بڑی آسانی سے اپنی صوابدید کے مطابق لے سکتا ہے۔ لیکن اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب بھی تیرا حسن بے مثال کی دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو میں تیری تخلیقات (میں جاری تیری قدرت کاملہ کی کار فرمائیوں) کے حسن و جمال میں ہی کھو کر رہ گیا اور تیرے جلوہ بے مثال کی کہنہ تک پہنچنے سے عاجز رہا۔
ایک دوسرا مطلب یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ میں جب بھی اپنی ذات کے اندر غور و فکر سے نظر کرتا ہوں تو تیرے حسن و جمال کی ایک جھلک مجھے اپنے اندر ہی نظر آ جاتی ہے۔۔۔
مندرجہ بالا دونوں مطالب قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں کہ سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ- سورۃ حٰم السجدہ۔ آیت 53۔
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذات میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔
تکنیکی اعتبار سے پوری غزل کے اشعار میں الفاظ کی نشست و برخاست تو اساتذہ کرام کی شفقت سے ہی اصلاح پذیر ہو گی کیونکہ شاعری کے میدان میں ہم خود کو اناڑی کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔۔۔
(اساتذہ کرام کو ٹیگ کرنے میں ایڈیٹر کا مسئلہ آ رہا ہے)