الشفاء

لائبریرین

میں ہوں تیرے حسیں خیال میں گم
عشق ہے حسن کے کمال میں گم

میں فنا ہو کے بھی رہا باقی
جیسے لمحہ ہو ماہ و سال میں گم

شادئِ وصل کی خبر پا کر
لذّتِ ہجر ہے ملال میں گم

بزمِ کونین کیوں سجائی گئی؟
راز سب ہیں اسی سوال میں گم

جب پکارا شفا نے نام ترا
ساری پستی ہوئی کمال میں گم
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
آج صبح سحری کے بعد مزید ایک شعر کی آمد یوں ہوئی کہ
جب بھی چاہت ہوئی تجھے دیکھوں
میں ہوا اپنے ہی جمال میں گم

اس شعر کا مطلب ہر قاری بڑی آسانی سے اپنی صوابدید کے مطابق لے سکتا ہے۔ لیکن اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب بھی تیرا حسن بے مثال کی دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو میں تیری تخلیقات (میں جاری تیری قدرت کاملہ کی کار فرمائیوں) کے حسن و جمال میں ہی کھو کر رہ گیا اور تیرے جلوہ بے مثال کی کہنہ تک پہنچنے سے عاجز رہا۔
ایک دوسرا مطلب یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ میں جب بھی اپنی ذات کے اندر غور و فکر سے نظر کرتا ہوں تو تیرے حسن و جمال کی ایک جھلک مجھے اپنے اندر ہی نظر آ جاتی ہے۔۔۔

مندرجہ بالا دونوں مطالب قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں کہ سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ- سورۃ حٰم السجدہ۔ آیت 53۔
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذات میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔

تکنیکی اعتبار سے پوری غزل کے اشعار میں الفاظ کی نشست و برخاست تو اساتذہ کرام کی شفقت سے ہی اصلاح پذیر ہو گی کیونکہ شاعری کے میدان میں ہم خود کو اناڑی کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔۔۔:)

(اساتذہ کرام کو ٹیگ کرنے میں ایڈیٹر کا مسئلہ آ رہا ہے)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جب بھی چاہت ہوئی تجھے دیکھوں
میں ہوا اپنے ہی جمال میں گم
اچھی غزل پیش کی ہے کوئی خاص اصلاح کی ضرورت تو نہیں، ماشاءاللہ۔
البتہ سحری والے شعر کے مصرع اولی کا اسلوب ذرا کمزور ہے لفظی طور پر۔ "جب بھی چاہت ہوئی" کے ساتھ "دیکھوں" نہیں آسکتا اس سے مصرع کمزور ہورہا ہے۔۔۔
اس کی ترتیب یا انداز بدلنا چاہیئے ۔ مثلا
جب بھی چاہت ہوئی تجھے دیکھا ۔ یا ۔ جب بھی چاہت ہو تجھ کو دیکھوں میں۔ وغیرہ۔
چاہت اور دیکھنا کو بھی ذرا معنوی طور پر مزید بہتر ہوسکتا ہے ۔ایک رائے۔
 

الشفاء

لائبریرین
اچھی غزل پیش کی ہے کوئی خاص اصلاح کی ضرورت تو نہیں، ماشاءاللہ۔
البتہ سحری والے شعر کے مصرع اولی کا اسلوب ذرا کمزور ہے لفظی طور پر۔ "جب بھی چاہت ہوئی" کے ساتھ "دیکھوں" نہیں آسکتا اس سے مصرع کمزور ہورہا ہے۔۔۔
اس کی ترتیب یا انداز بدلنا چاہیئے ۔ مثلا
جب بھی چاہت ہوئی تجھے دیکھا ۔ یا ۔ جب بھی چاہت ہو تجھ کو دیکھوں میں۔ وغیرہ۔
چاہت اور دیکھنا کو بھی ذرا معنوی طور پر مزید بہتر ہوسکتا ہے ۔ایک رائے۔
جزاک اللہ سید صاحب۔۔۔ جی صبح سے اس مصرع کو چست کرنے کی کوشش تھی۔ اگر اس شعر کو یوں کر دیں تو کیسا ہے کہ
تیرے جلووں کو ڈھونڈنے نکلا
ہو گیا اپنے ہی جمال میں گم
 

الف عین

لائبریرین
اس سے بہتر یہ ہوگا کہ چاہت کی جگہ چاہا لایا جائے۔
جب بھی چاہا کہ تجھ کو میں دیکھوں
یا اس قسم کا کچھ اور۔
باقی اشعار درست بلکہ اچھے ہیں ماشاء اللہ
 

الشفاء

لائبریرین
اس سے بہتر یہ ہوگا کہ چاہت کی جگہ چاہا لایا جائے۔
جب بھی چاہا کہ تجھ کو میں دیکھوں
یا اس قسم کا کچھ اور۔
باقی اشعار درست بلکہ اچھے ہیں ماشاء اللہ
حوصلہ افزائی کے لیے شکر گزار ہوں ، سر ۔۔۔
محترم عاطف بھائی
کی
رائے کے بعد چاہت اور دیکھنا کے الفاظ نکال کر اس شعر کو یوں کر دیا ہے۔
تیرے جلووں کو ڈھونڈنے نکلا
ہو گیا اپنے ہی جمال میں گم
شاید اس سے روانی اور ابلاغ دونوں بہتر ہو جائیں۔۔۔
 
میں ہوں تیرے حسیں خیال میں گم
عشق ہے حسن کے کمال میں گم

میں فنا ہو کے بھی رہا باقی
جیسے لمحہ ہو ماہ و سال میں گم

شادئِ وصل کی خبر پا کر
لذّتِ ہجر ہے ملال میں گم

بزمِ کونین کیوں سجائی گئی؟
راز سب ہیں اسی سوال میں گم

جب پکارا شفا نے نام ترا
ساری پستی ہوئی کمال میں گم
۔۔۔​
واہ سبحان اللہ، ماشاءاللہ، بہت خوب کلام ہے۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔
اساتذہ نے اصلاح کی گنجائش نہیں چھوڑی اس لئے صرف داد پیش کر رہا ہوں۔
سلامت رہیں۔
 

الشفاء

لائبریرین
سبحان اللہ
بہت خوب
بہت دعائیں
جزاک اللہ محترم۔۔۔ :)
واہ سبحان اللہ، ماشاءاللہ، بہت خوب کلام ہے۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔
اساتذہ نے اصلاح کی گنجائش نہیں چھوڑی اس لئے صرف داد پیش کر رہا ہوں۔
سلامت رہیں۔
بہت شکریہ امجد بھائی۔۔۔
خوش رہیں۔۔۔:)
 
Top