میں یونہی تو حضرت کا عقیدت مند نہیں

از وسعت اللہ خان

کوئی پوچھے کہ پاکستانی سیاست میں میرا آئیڈیل کون ہے تو بلا تامل کہوں گا، حضرت مولانا فضل الرحمان۔میں نے بہت سے سابق و حاضر سیاستدانوں اور علما کی زندگی کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے مگر حضرت کا ہمسر دور دور تک نہیں۔دینی معاملات سمجھنے ہوں کہ دنیا کی تہہ چھاننا ہو۔حضرت جیسی پہلودار شخصیت کم ازکم عصرِ حاضر میں تو ناپید ہے۔میں تو اقبال کے اس مصرعے میں بھی حضرت کو ہی دیکھتا ہوں کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
درویش صفت مولانا مفتی محمود مرحوم کے پانچ بیٹوں میں حضرت صاحب سب سے بڑے ہیں۔آپ نے ولی عہد ہونے کے ناطے مفتی صاحب کی جمیعت علمائے اسلام کا بھی ایک مقدس ملکیت کی طرح خیال رکھا۔اور جب مولانا سمیع الحق اور بعد ازاں مولانا عصمت اللہ صاحب نے اپنے دھڑے الگ کرلیے تو باقی جماعت کو ممکنہ انتشار سے بچانے کے لیے آپ نے برادر عطا الرحمان ، برادر لطف الرحمان اور برادر عبید الرحمان وغیرہ کو بھی ان کی استطاعت کے اعتبار سے کاروبارِ سیاست و شریعت کے اسرار و رموز سے روشناس کرایا۔ شنید ہے کہ صاحبزادے اسد الرحمان کو بھی مستقبل شناس تربیت سے گذارا جارہا ہے۔
دین و دنیا سے مالا مال حضرت فضل الرحمان آج جس مقامِ محمود پر فائز ہیں، اس کے پیچھے بڑا کشٹ اور نفس کشی کی تپسیا ہے۔گوتم بدھ نے جو منزل فاقہ کشی سے گذر کے حاصل کی حضرت نے وہی منزل فاقہ شکنی سے گذر کر حاصل کرلی۔حالانکہ ابتدائی سیاسی زندگی پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو سن اکیاسی میں والدِ بزرگوار کی رحلت کے بعد حضرت کو بادلِ نخواستہ جمعیت کا سیکریٹری جنرل بننا پڑا۔یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں تھا۔جنرل ضیا کا دور تھا۔ہر کوئی اپنی قیمت لگا رہا تھا یا لگوا رہا تھا۔مگر حضرت نے دیگر دینی سیاسی جماعتوں کے برعکس خود کو تحریکِ بحالیِ جمہوریت ایم آر ڈی کے کانٹوں میں گھسیٹا اور ضیا الحق سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔جب ضیا الحق کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد انیس سو اٹھاسی میں پہلے جماعتی انتخابات ہوئے تب تک حضرت انیس سو چوہتر سے پچاسی تک مختلف مرحلوں میں چھ سات برس قید و بند کی صعوبتوں کا تجربہ اٹھا چکے تھے۔
تاہم حضرت کی دوربین نگاہوں نے سن ستر سے سن اٹھاسی تک کے تلخ و شیریں تجربات سے بہت کچھ حاصل کیا۔غالباً بہت سوچ و بچار کے بعد حضرت کو عرفان ہوا کہ کیونکہ اب صرف والدِ گرامی کی درویشانہ وراثت ، قید و بند کے تجربے ، محض آئیڈیل ازم ، تحریک کی سختیوں اور حکمران طبقے کے سامنے ڈٹ جانے اور حق بات کہنے والوں کی قدر کرنے والے لوگ اٹھ گئے ہیں۔لہذا باہر بیٹھے بیٹھے سسٹم پر سنگ زنی لاحاصل ہے۔حکمت کا تقاضا ہے کہ موجودہ ناقص اور ریاکارانہ نظام کو اندر سے ہی اسی کی چالیں اسی پر الٹ کے مات دی جائے۔وہ دن اور آج کا دن حضرت نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور خود کو چٹان کی طرح ایک جگہ ساکت رکھنے کے بجائے پانی جیسا کرلیا اور پانی کو بھلا کون روک سکا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کایا کلپ کے بعد حضرت مسلسل مدارج ِ اولی طے کرتے چلے گئے۔انھوں نے دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق و فرائض کے حصول کے لیے بھی خود کو وقف کردیا اور آڑے وقت میں ہر ایک کے کام آنے کو شعار بنایا۔ مقصد اور نیت چونکہ کھرے تھے چنانچہ انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں سات ، انیس سو نوے میں چھ ، انیس سو ترانوے میں چار ، انیس سو ستانوے میں دو ، دو ہزار آٹھ میں چھ اور دو ہزار تیرہ میں چودہ پارلیمانی سیٹیں جیتیں۔سینیٹ میں سات نشستیں حاصل کیں اور اٹھاسی سے اب تک ہونے والے سات انتخابات میں صرف دو مرتبہ اپنی نشست ہارے بلکہ ہروائے گئے۔
بظاہر دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست میں اوسطاً دو سے چودہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کی سو سے زائد سیٹیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے آگے بہت زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔مگر حضرت کبھی بھی عددی چکر کے چکر میں نہیں پڑے بلکہ انھوں نے میدانِ سیاست کے مشاق کھلاڑی کے طور پر اپنی قلیل عددی قوت کے ساتھ ہی حریف پر ایسے ایسے داؤ پیچ ڈالے کہ آخر میں اسے حضرت کے آسمانی اعتماد سے مرعوب ہوتے ہی بنی۔
کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ حضرت اپنی انتخابی نشستوں کو دراصل وہ سیاسی لیموں سمجھتے ہیں جسے کسی کے بھی کھانے پر چھڑک کے شریک ِ ضیافت ہوا جاسکتا ہے۔مگر اس طرح کی باتیں بہتان طرازی کے سوا کچھ نہیں۔یہ نادان نہیں جانتے کہ اگرچہ جدید سیاست کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر کھڑی ہے مگر حضرت نے کبھی بھی اقتدار کو حتمی منزل نہیں جانا۔اگر ایسا ہوتا تو انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے بعد وہ بلا جھجک محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس چلے جاتے۔مگر عورت کی حکمرانی کے جائز و ناجائز ہونے کا شرعی مسئلہ حضرت کے لیے کسی بھی دنیاوی منصب سے زیادہ اہم تھا۔اور جب حضرت کو شرحِ صدر ہوگئی کہ بعض حالات میں زنانہ حکمرانی مجبوری بن جائے تو اسے طوعاً کرہاً قبول کرنا ہی حکمت ہے۔تب بھی حضرت نے محترمہ کی غیر مشروط حمایت کا اتاؤلا پن نہیں دکھایا بلکہ اس یقین دہانی کے بعد ہی ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے کہ بے نظیر حکومت نفاذِ شریعت کے کام میں ہرگز ہرگز پہلو تہی نہیں کرے گی۔اب اگر کوئی پہلو تہی ہوئی بھی تو محترمہ جانیں اور ان کا ایمان جانے۔
چونکہ حضرت ایک وضع دار و حلیم الطبع شخصیت ہیں لہذا ایک دفعہ جس کو اپنا کہہ دیں پھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔چونکہ وہ اور پیپلز پارٹی ایم آر ڈی میں بھی ساتھ تھے۔چونکہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کا پہلے دورِ حکومت میں بھی ساتھ دیا تھا۔ لہذا جب پی پی کا دوسرا دورِ حکومت آیا تو بی بی نے نازک ریاستی معاملات کے بارے میں حضرت پر ہی سب سے زیادہ اعتماد کیا اور نا صرف انھیں قومی اسمبلی کی امورِ خارجہ سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی کی سربراہی پر با اصرار آمادہ کرلیا بلکہ فوج کی تائید سے حضرت کو افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے طالبان کی تخلیق کے کام میں بھی شامل کرلیا۔مولانا نے اس کارِ خیر میں مدارس کے طلبا کو بھی شریک کیا۔ یوں کچھ ہی عرصے میں افغانستان میں عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم ہوگئی اور اس حکومت نے مولانا کے خوابوں کی تعبیر شریعت کے ویسے نفاذ کی صورت میں فراہم کی جیسی تعبیر مولانا پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اس کامیاب تجربے کے بعد اسٹیبلشمنٹ ایک ایسا کمبل بن گئی جس سے حضرت تو جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر کمبل جان نہیں چھوڑ رہا۔
سن ستانوے کے انتخابات میں ان لوگوں نے جنھیں حضرت کی کامیابیاں ایک آنکھ نا بھاتی تھیں، ایک بار پھر سن نوے کے انتخابات کی طرح سازش کرکے انھیں اسمبلی کے درشن سے روک دیا۔مگر حضرت نے یہ پورا عرصہ نہائت خندہ پیشانی سے گذارا اور خود کو دینی خدمات میں منہمک کرلیا۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دورِ مشرف طلوع ہوا اور پھر نائن الیون آگیا اور پھر افغانستان پر امریکا نے چڑھائی کردی۔چنانچہ حضرت کے سامنے دو ہی راستے تھے۔یا تو مصلحت کوشی اختیار کریں یا پھر مظلوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔چنانچہ انھوں نے افغانستان پر امریکی جارحیت کے خلاف دیگر دینی قوتوں کو ساتھ لے کر پورے ملک میں مظاہرے منظم کیے اور امریکا نواز مشرف حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے۔حضرت کو نظربند کردیا گیا۔ان پر غداری ، بغاوت ، لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے سمیت جانے کیا کیا الٹے سیدھے مقدمات بنائے گئے مگر حضرت نے طاغوت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ان کی اس ثابت قدمی سے مشرف حکومت اخلاقی طور پر خود کو نیچ اور کمزور محسوس کرنے لگی۔ لہذا اس نے اپنی خفت مٹانے اور احساسِ جرم کم کرنے کے لیے صرف پانچ ماہ بعد ہی حضرت پر سے سب مقدمات واپس لے لیے۔یہی نہیں بلکہ حضرت کی نگاہوں میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کے لیے اکتوبر دو ہزار دو کے عام انتخابات سے قبل چھ دینی جماعتوں پر مشتمل متحدہِ مجلسِ عمل کی تشکیل میں تکنیکی امداد بھی کی۔
مولانا نے کمال فراغ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ایم ایم اے کی صدارت قاضی حسین احمد کے لیے مان لی اور خود محض اتحاد کا سیکریٹری جنرل بننے پر اکتفا کیا۔جب نیت صاف ہو تو آسمانی و زمینی قوتیں بھی نیک طینتوں کے لیے کمر بستہ ہوجاتی ہیں۔چنانچہ دینی اتحاد کو ساٹھ نشستوں کی شکل میں وہ کامیابی ملی کہ خود حضرت اور ان کے ساتھی بھی ششدر رہ گئے۔انھوں نے با آواز بلند خدا کا شکر اور زیرِ لب احتشام ضمیر وغیرہ کا شکریہ ادا کیا اور صوبہِ سرحد کی حکومت بطور امانت سنبھالی۔ خود یا اپنے کسی قریبی کو وزیرِ اعلیٰ بنانے کے بجائے اکرم خان درانی کو اسی منصب پر متفقہ طور پر بٹھایا جس پر حضرت کے والدِ گرامی نے صرف چند ماہ بیٹھنے کے بعد مارچ تہتر میں بلوچستان حکومت کی بھٹو کے ہاتھوں برطرفی پر اصولوں کی خاطر لات ماردی اور پھر مرتے دم تک اقتدار کی جانب نا دیکھا۔
مگر دو ہزار دو میں ملک چونکہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ انیس ہزار پانچ سو اکتیسویں بار نازک دوراہے پر تھا لہذا حضرت نے نا صرف قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ قبول فرمایا بلکہ امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اوئے میڈم میں وزیرِ اعظم کا امیدوار ہوں۔تم اور تمہارا امریکا روک سکیں تو روک لیں۔
(وکی لیکس میں اگرچہ یہ واقعہ کسی اور طرح سے بیان کیا گیا ہے لیکن ہماری نظر میں وکی لیکس والوں نے حضرت کو تعصب کی آنکھ سے دیکھا ہے لہذا وکی لیکس کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ہے)۔
ہمارا اپنا خیال ہے کہ امریکا نے حضرت کو وزیرِ اعظم بننے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کیونکہ حضرت از قسم ِ ظفراللہ جمالی نہیں تھے۔
مگر حکومتِ وقت بطور اپوزیشن لیڈر حضرت کی اہمیت کیسے نظرانداز کرسکتی تھی۔چنانچہ جب مشرف صاحب بھارت کے دورے میں گند گھول آئے تو دونوں ملکوں کے درمیان خیر سگالی کی فضا بحال کرنے کے لیے مشرف کو بھی مجبوراً حضرت صاحب کی صلاحتیوں کا سہارا لینا پڑا۔آپ نے واجپائی صاحب سے بھی ملاقات کی اور بھارتی میڈیا نے آپ سے یہ بات بھی منسوب کی کہ کشمیر کا مسئلہ مذہبی سے زیادہ علاقائی ہے اور اگر بھارت آمادہ ہو تو ایک آؤٹ آف باکس حل کے طور پر لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد بنانے کا امکان بھی زیرِ بحث آسکتا ہے۔تاہم حکومتِ بھارت نے اس پر بھی کچھ زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔
http://www.express.pk/story/137344/
 
پارٹ ٹو
حضرت کا خیال تھا کہ مشرف جمہوریت جیسی کیسی بھی ہو مکمل آمریت سے پھر بھی بہتر ہے اور ایک نا ایک دن اسی درخت سے مکمل جمہوریت کی شاخ بھی پھوٹے گی۔چنانچہ انھوں نے مستقبل کی خاطر کڑوی گولی نگلتے ہوئے پرویز مشرف کی سترویں آئینی ترمیم کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔حاسدوں نے بعد ازاں یہ تک الزام لگایا کہ حضرت اینڈ برادرز کے نام پر دو ہزار چھ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکڑوں ایکڑ سرکاری زمین الاٹ کرکے مشرف حکومت نے حضرت کے سخت اصولی موقف میں نرمی پیدا کی۔تاہم ہمارے نزدیک یہ الزام بھی اتنا ہی لغو ہے جتنا کہ وہ الزام کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں کروڑوں روپے مالیت کے ایندھنی پرمٹ حضرت کے قدموں میں ڈال دیے گئے۔
تاہم ایسی گھٹیا الزام تراشی بھی حضرت کے پایہ استقلال کو نہیں ہلا سکی۔مگر دو ہزار سات ایک ایسا سال تھا جب چیف جسٹس کی برطرفی کے بعد مشرف حکومت کی اخلاقی حیثیت سوالیہ نشان بن چکی تھی اور لال مسجد کا خونی واقعہ بھی ہوچکا تھا۔پھر بھی حضرت نے محض اور محض مکمل جمہوریت کی منزل حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات بالائے طاق رکھ کے پرویز مشرف کو ایک بار پھر پانچ برس کے لیے صدر منتخب کرانے کی خاطر ایم ایم اے کی اکثریت والی سرحد اسمبلی کو اس لمحے تک نہیں تڑایا جب تک اسمبلی نے مشرف کی صدارت کے لیے ووٹ ڈالنے کی کارروائی مکمل نا کرلی۔یہی نہیں بلکہ بعد ازاں حضرت نے دیگر حلیف جماعتوں کو بھی وقت کی نزاکت سمجھانے کی کوشش کی کہ مشرف کے تحت ہونے والے دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا بائیکاٹ نفاذ شریعت کی تحریک کو آگے بڑھانے کے بجائے اور پیچھے لے جائے گا۔تاہم جماعتِ اسلامی جیسی حلیف اتنی زیرک ثابت نا ہوئی اور اس نے ایم ایم اے کو ہی خیرباد کہہ ڈالا۔
حضرت کے لیے ایک بار پھر بڑی آزمائش تھی کہ اپنے مشن کو آگے بڑھائیں کہ اپنی ساتھی جماعتوں کے نخرے برداشت کریں چنانچہ انھوں نے بدستور ایم ایم اے کے نام کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا اور تمام تر رکاوٹوں اور حوصلہ شکنی کے باوجود اپنی جماعت کو چھ سیٹیں جتوانے میں کامیاب ہوگئے۔بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ مولانا کا تجزیہ درست تھا۔کیونکہ پرویز مشرف کو بلاخر با حسرت جانا پڑا اور آصف علی زرداری کی شکل میں جمہوریت بہترین انتقام ہے والا دور شروع ہوا۔حضرت تو نئی حکومت میں شامل ہوئے بغیر ہی حمایت کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔لیکن جب زرداری صاحب نے بہت ہی ضد کی تو حضرت نے خود فیصلہ کرنے کے بجائے حکومت میں شمولیت کا فیصلہ جمعیت کی مجلسِ شوریٰ پر چھوڑ دیا۔اور جب شوریٰ نے شمولیت کے حق میں فیصلہ دے دیا تو جمعیت کے امیر ہونے کے ناتے انھیں اس فیصلے کا پابند ہونا پڑا۔پھر بھی زرداری صاحب نے انھیں محض قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر ہی ٹرخانے کی کوشش کی اور اپنے تئیں چیئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر کے مساوی کرکے گویا حاتم طائی کی قبر پر لات ماردی۔جب کہ حضرت کی محض یہ خواہش تھی کہ ملک کا قبلہ درست کرنے کے لیے انھیں نا سہی تو ان کے کسی ساتھی کو ہی وزارتِ مذہبی امور مل جائے۔لیکن زرداری صاحب نے اس کا مطلب شاید یہ لیا کہ حضرت مزید عہدے چاہتے ہیں۔چنانچہ ان کے ایک معتمد مولانا محمد خان شیرانی کو بے اختیار اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی اور حضرت کے برادرِ خورد مولانا عطا الرحمان کو وزارتِ سیاحت جیسی ناکارہ چیز تھما دی گئی۔چنانچہ کچھ عرصے بعد ہی حضرت کا پیمانہِ صبر لبریز ہوگیا اور وہ حکومت سے باہر نکل آئے۔البتہ اسلامی نظریاتی کونسل چونکہ آئینی ادارہ ہے لہذا مولانا شیرانی کی حیثیت اور مدتِ عہدہ برقرار رہی اور قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی چونکہ حکومت نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے دی تھی لہذا حکومت سے باہر نکلنے کے فیصلے کا اس پر بھی اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔
وقتی طور پر حضرت اگرچہ ایک بار پھر اقتداری عمل سے بیزار سے ہوگئے مگر اس بیزاری کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ جمعیت کی تنظیم کو حضرت کی پوری توجہ میسر آ گئی اور انھوں نے ملک کے طول و عرض میں ایک بار پھر نفاذ شریعت کے پروگرام میں جان ڈالنے اور دھشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا اصل چہرہ دکھانے اور ڈرون گردی پر نفرین بھیجنے کے لیے اپنی خداداد خطابی صلاحیتوں کا جادو جگایا اور اونگھتی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
حضرت کی پرخلوص محنت رنگ لائی اور لوگوں نے جس والہانہ انداز میں حضرت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس سے حوصلہ پا کر انھوں نے انتخابات سے لگ بھگ ایک ماہ قبل ہی یعنی اپریل کے وسط میں لاہور میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ ضروری نہیں کہ اگلی حکومت میں بناؤں مگر میرے بغیر حکومت بن نہیں سکتی۔اور اگر بن بھی گئی تو جمعیت کی حمایت کے بغیر چلے گی نہیں۔آنے والے دنوں میں حضرت نے نئے نئے جوشیلے عمران خان کی ڈرون دشمنی کا پردہ چاک کرتے ہوئے یہ بھانڈا بھی پھوڑ دیا کہ عمران خان کو مالی طور پر دراصل یہودی لابی سپورٹ کررہی ہے۔عمران خان کو چاہیے تھا کہ اگر انھیں حضرت کی یہ بات بری لگی بھی تو کم ازکم اسی محاورے کو یاد کرلیتے کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔لیکن انھوں نے الٹا حضرت پر جھوٹا اور منافق ہونے کا الزام دھر دیا۔
ہمارا خیال ہے کہ میڈیا نے بھی اپنے تعصب کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کے بارے میں حضرت کے انکشاف کو دبا دیا۔ بصورتِ دیگر خیبر پختون خواہ کے نوجوانوں کو اگر اس کی بروقت خبر ہو جاتی تو تحریکِ انصاف کی وہاں ضمانتیں ضبط ہوجاتیں۔پھر بھی حضرت کو قومی اسمبلی کی پندرہ اور خیبر پختون خواہ اسمبلی کی تیرہ اور بلوچستان اسمبلی کی چھ نشستوں کی شکل میں زبردست فتح ملی۔اگر مسلم لیگ نواز حضرت کی تجویز پر بروقت کان دھر لیتی تو آج خیبر پختون خواہ میں ایم ایم اے حکومت کی طرح فیوض و برکات کا نیا دور شروع ہوسکتا تھا۔مسلم لیگ نواز کی عدم دلچسپی کے باوجود حضرت نے جمہوری اتمامِ حجت کے لیے برادرِ خورد مولانا لطف الرحمان کو خیبر پختون خواہ کی وزارتِ اعلی کے امیدوار کے طور پر کھڑا کردیا۔
اس کے باوجود حضرت کو کوئی کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔مسلم لیگ نواز بھلے وفاق کی سب سے بڑی جماعت ہو لیکن طالبان سے اگر امن مذاکرات کا قفل کھولنا ہے تو حضرت کی چابی استعمال تو کرنا ہی پڑے گی۔ جو لوگ حضرت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انھیں اپنی ذات سے آگے کچھ نہیں سوجھتا،اب وہ کیا کہیں گے جب حضرت نے صرف اور صرف ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد اور نفاذِ شریعت کی آس میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے اسپیکر کے انتخاب اور وزارتِ عظمیٰ کے لیے نواز شریف کی نا صرف غیر مشروط حمایت کی بلکہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر خود کو حزبِ اختلاف کی بنچوں سے اٹھا کر یکطرفہ طور پر حزبِ اقتدار کی بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
اب اور کیا ثبوت چاہیے حضرت کی بے لوث جمہوریت نوازی اور قلندری کا۔۔۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
 

عسکری

معطل
ان حجرے کا کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا ان کو ایک ٹرک شرم و حیا کی گولیاں بھجواؤ کوئی
 
Top