فارسی شاعری می رقصم - شیخ عثمان مروَندی معروف بہ لال شہباز قلندر کی غزل

عتیق منہاس

محفلین
63rrvcr8f
 

طارق شاہ

محفلین
شیخ سید عثمان شاہ مروَندی علیہ الرحمہ معروف بہ لال شہباز قلندر

نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم

نہیں جانتا کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں رقص کر رہا ہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقص کر رہا ہوں۔

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔

تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

تُو وہ قاتل کہ تماشے کیلیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خوں خوار خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں۔

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

آجا جاناں اور دیکھ کہ جانبازوں کے گروہ میں، میں رسوائی کے صد سامان لیے سر بازار رقص کر رہا ہوں۔

اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم

اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں ٹھہرتا لیکن میں وہ قطرۂ شبنم ہوں کہ نوکِ خار پر رقص کرتا ہوں۔

خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

واہ وہ رندی کہ جس کیلیے میں سیکنڑوں پارسائیوں کو پامال کر دوں، مرحبا یہ تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ رقص کرتا ہوں۔

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

نہیں جانوں، بھلا میں کیوں دَمِ دِیدار رقصاں ہوں
مگرنازاِس پہ ہے مجھ کو، کہ پیشِ یاررقصاں ہوں

جوچھیڑے نغمہ وہ ہربار، میں ہرباررقصاں ہوں
کسی بھی طرز پہ چاہے میرا وہ یار، رقصاں ہوں

تُو وہ قاتل، بہائے خُوں تماشے کے لئے میرا
میں وہ زخمی، کہ زیرِ خنجرِخُونْخواررقصاں ہوں

گروہ میں جان بازوں کے، تماشہ دیکھ آ میرا
لئے سو وجہِ رُسوائی سرِ بازار رقصاں ہوں

ٹھہرسکتا نہیں شبنم کا قطرہ گرچہ کانٹے پر
مگرمیں شبنمی قطرہ، بہ نوکِ خار رقصاں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشکّر !
بہ نمشتن دم گرفٌتم،
باقی بروز دیگر ۔
طارق
 

طارق شاہ

محفلین
بہت شکریہ آپ سب دوستوں کا، نوازش آپ کی۔
خوش آں رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

مَعْنٰی از پائیدہ اشعارِ بالا :

خوشا رِندی مِری، توڑے ہے جو سو پارسائی کو
زہے تقویٰ! پہن کے جبّہ ودستار رقصاں ہوں

کہ میں عثمان مروندی، رفیقِ شیخ منصور اب
ملامت پر بھی لوگوں کی، بہ شوقِ دار، رقصاں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تشکّرایک بار پھر سے شیئر کرنے پر
طارق
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
غزل آپی اور مغزل بھائی
آپ دونوں کا بیحد شکریہ اس غزل کا لنک دینے کا
اور وارث بھائی آپ کی اس لاجواب کوشش کے لیے شکریے کا لفظ بہت چھوٹا ہے۔
اور طارق شاہ صاحب آپ نے تو کمال ہی کر دیا ہے۔

یوں تو پوری غزل ہی لاجواب ہے مگر اس شعر نے تو تڑپا کے رکھ دیا ہے۔
اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پویَد بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم
 

الشفاء

لائبریرین
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

تو جب بھی اور جس وقت بھی نغمہ چھیڑتا ہے میں اسی وقت اور ہر بار رقص کرتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو ہمیں رقص کرواتا ہے، اے یار میں رقص کرتا ہوں۔​

واہ۔ بہت خوبصورت کلام۔۔۔

پیش کرنے کا شکریہ۔۔۔وارث بھائی۔۔۔ خوش رہیں۔۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
طارق شاہ صاحب، آپ نے اردو میں بہت اعلیٰ منظوم ترجمہ کیا ہے۔
شکریہ محمد وارث صاحب، اس غزل کو شیئر کرنے کے لیے۔
حسان خان صاحب!
تشکّر اس اظہارِ خیال اور ہمت افزائی پر !

تمام تر کریڈٹ وارث صاحب کو جاتا ہے۔ (شکریہ وارث صاحب)
کہ یہاں، بصورت ترجمہ، مجھے اسے منظوم کرنے کا مواد فراہم رہا
بہت شاداں رہیں
 

باباجی

محفلین
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم

بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم

حق حق حق
سچ کہا
 

حسان خان

لائبریرین
مجھے ایک ایرانی بلاگ پر اس غزل کے کچھ مزید اشعار ملے ہیں۔ پر ان کی صحت کے بارے میں بھی حتماً کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ز عشق دوست هر ساعت درون نار می‌رقصم
گهی بر خاک می‌غلطم گهی بر خار می‌رقصم

شدم بدنام در عشقش، بيا ای پارسا اكنون
نمي ترسم ز رسوایی، به هر بازار می‌رقصم

بیا ای مطرب مجلس سماع و ذوق را در ده
که من از شادی وصلش قلندروار می‌رقصم

مرا خلقی همی گويد، گدا چندين چه ميرقصی؟
به دل داريم اسراری ، از آن اسرار می‌رقصم

ماخذ
 
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوقے کہ پیشِِ یار می رقصم​
مجھےنہیں معلوم کہ آخر دیدار کے وقت میں کیوں ناچ رہاہوں، لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے ناچتا ہوں​
تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم​
تُو وہ قاتل ہے کہ تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خونخوار خنجر کے نیچے ناچتا ہوں​
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم​
آ، اے محبوب ! اورتماشا دیکھ کہ جانبازوں کی بھِیڑ میں، میں سینکڑوں رسوائیوں کےسامان کےساتھ ،سر بازار ناچتا ہوں​
خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم​
واہ ! مے نوشی کہ جس کیلیے میں نے سینکڑوں پارسائیوں کو پامال کر دیا، خوب! تقویٰ کہ میں جبہ و دستار کے ساتھ ناچتا ہوں​
اگرچہ قطرۂ شبنم نپوئید بر سرِ خارے
منم آں قطرۂ شبنم بنوکِ خار می رقصم​
اگرچہ شبنم کا قطرہ کانٹے پر نہیں پڑتا لیکن میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ کانٹے کی نوک پر ناچتا ہوں​
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہر طرزے کہ رقصانی منم اے یار می رقصم​
توہر وقت جب بھی مجھے نغمہ سناتا ہے، میں ہر بار ناچتا ہوں، اور جس طرز پر بھی تو رقص کراتا ہے، اے یار میں ناچتا ہوں​
سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم​
سر سے پاؤں تک جو میرا حال ہےاس بیخودی پر میں قربان جاؤں،کہ پرکار کی طرح اپنے ہی گرد ناچتا ہوں​
مرا طعنہ مزن اے مدعی طرزِ ادائیم بیں
منم رندے خراباتی سرِ بازار می رقصم​
اے ظاہر دیکھنے والے مدعی !مجھے طعنہ مت مار،میں تو شراب خانے کا مے نوش ہوں کہ سرِ بازار ناچتا ہوں​
کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم​
عشق کا دوست تو ہر گھڑی آگ میں ناچتا ہے،کبھی تو میں خاک میں مل جاتا ہوں ،کبھی کانٹے پر ناچتا ہوں​
منم عثمانِ ھارونی کہ یارے شیخِ منصورم
ملامت می کند خلقے و من برَ،دار می رقصم​
میں عثمان ھارونی ،شیخ حسین بن منصور حلاج کا دوست ہوں، مجھے خلق ملامت کرتی ہے اور میں سولی پر ناچتا ہوں​
 

تلمیذ

لائبریرین
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
بہت عمدہ ! اردو ترجے کے ساتھ لُطف دوبالا ہو گیا ہے۔ شئیر کرنے کے لئے شکریہ، جزاک اللہ!
 
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بہ صد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
بہت عمدہ ! اردو ترجے کے ساتھ لُطف دوبالا ہو گیا ہے۔ شئیر کرنے کے لئے شکریہ، جزاک اللہ!
پسند کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

مہ جبین

محفلین
سراپا بر سراپائے خودم از بیخودی قربان
بگرد مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقص
زبردست کلام ، بہترین ترجمے کا تڑکا
 
Top