پہلے سوال کا جواب: نئی بولی بولنے سے
دوسرے سوال کا جواب: زبان آدم
http://en.wikipedia.org/wiki/Adamic_language
یہ دھاگہ نئی زبانوں کی تاریخ اور حقائق سے متعلق ہے۔ آپکے جذبہ ایمانی سے نہیں۔
مولوی نے، اور کس نے؟
غلط! حضرت آدم علیہلسلم کا وجود اگر انسانی ہے تو انکا ایک خاص علاقائی زبان بولنا فطری عمل ہے۔ اگر ہمیں جدید سائنس سے یہ معلوم ہو جائے کہ حضرت آدم علیہلسلم کس علاقہ اور زمانہ تاریخ سے تعلق رکھتےتھے تو ہم اس وقت کی تہذیب کے مطابق انکی بولی کا تعین کر سکتے ہیں۔
غلط! جو زبان بولی جا تی ہے وہ اکثر لکھی بھی جاتی ہے۔
یہ لاپرواہی صرف عربی کیساتھ ہی کیوں؟
The first recorded text in the Arabic alphabet was written in 512. It is a trilingual dedication in Greek, Syriac and Arabic found at Zabad in Syria. The version of the Arabic alphabet used includes only 22 letters, of which only 15 are different, being used to note 28 phonemes
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_the_Arabic_alphabet#Pre-Islamic_Arabic_inscriptions
غلط۔ اوپر پوسٹ دیکھیں۔ جذبہ ایمانی ہی سب کچھ نہیں ہوتا!
یعنی آپکی منطق کے مطابق اگر کسی زبان کی حفاظت کا خاص اہتمام نہ کیا جائے تو وہ تاریخ کیساتھ معدوم ہو جاتی ہے۔ تو پھر عربی آج تک معدوم کیوں نہیں ہوئی؟
نیز اسی خطے کی دیگر سامی زبانیں آج تک موجود ہیں:
http://ur.wikipedia.org/wiki/سامی_زبانیں