الف عین
لائبریرین
ایک نئی غزل حاضر ہے، مشورہ سخن کے لئے بھی، یعنی اعتراضات کی زیادہ ضرورت ہے۔ بہر حال جو کچھ بھی ہے، حاضر ہے
غزل
اعجاز عبید
آج نیزے پہ میرا سر لے جا
میرا چہرہ، مری نظر لے جا
یوں انگوٹھوں کو کاٹتا کیا ہے
چاہئے تو مرا ہنر لے جا
دیکھ زندہ ہوں اپنے باہر میں
جسم گٹھڑی میں باندھ کر لے جا
آج اس طرح لوٹ لے مجھ کو
رخت سب چھوڑ دے، سفر لے جا
مجھ کو بے مایہ اس طرح مت چھوڑ
رہنے دے خواب، چشمِ تر لے جا
میرے حصے کی چھوڑ دے دھرتی
چاہے پھر میرے بال و پر لے جا
۳۰ اکتوبر ۲۰۰۹ء
غزل
اعجاز عبید
آج نیزے پہ میرا سر لے جا
میرا چہرہ، مری نظر لے جا
یوں انگوٹھوں کو کاٹتا کیا ہے
چاہئے تو مرا ہنر لے جا
دیکھ زندہ ہوں اپنے باہر میں
جسم گٹھڑی میں باندھ کر لے جا
آج اس طرح لوٹ لے مجھ کو
رخت سب چھوڑ دے، سفر لے جا
مجھ کو بے مایہ اس طرح مت چھوڑ
رہنے دے خواب، چشمِ تر لے جا
میرے حصے کی چھوڑ دے دھرتی
چاہے پھر میرے بال و پر لے جا
۳۰ اکتوبر ۲۰۰۹ء