محمد شکیل خورشید
محفلین
زخم کے سُکھانے کو کھولنا تو پڑتا ہے
ظلم کے مٹانے کو بولنا تو پڑتا ہے
شاخ سے جدا ہوکے پھول گرچہ مرجائے
سہرے پر سجانے کو نوچنا تو پڑتاہے
رات جس گلی سے ہم خاک چھان آئے تھے
اس گلی کو جائیں پھر؟ سوچنا تو پڑتا ہے
صرف وضع داری میں کتنی دیر نبھتاہے
بے ثمر سے رشتے کو توڑنا تو پڑتا ہے
یاد کے گھروں میں خواہ وحشتیں ہی پلتی ہوں
جھٹ پٹے کے لمحوں میں لوٹنا تو پڑتاہے
ضبط سے بھلے کوئی دل فگار ہوتا ہو
آہ کو نکلنے سے روکنا تو پڑتا ہے
بے غرض کہاں ہیں اب رسم و راہ اے شکیل
سود یا زیاں ہے کم، تولنا تو پڑتا ہے
ظلم کے مٹانے کو بولنا تو پڑتا ہے
شاخ سے جدا ہوکے پھول گرچہ مرجائے
سہرے پر سجانے کو نوچنا تو پڑتاہے
رات جس گلی سے ہم خاک چھان آئے تھے
اس گلی کو جائیں پھر؟ سوچنا تو پڑتا ہے
صرف وضع داری میں کتنی دیر نبھتاہے
بے ثمر سے رشتے کو توڑنا تو پڑتا ہے
یاد کے گھروں میں خواہ وحشتیں ہی پلتی ہوں
جھٹ پٹے کے لمحوں میں لوٹنا تو پڑتاہے
ضبط سے بھلے کوئی دل فگار ہوتا ہو
آہ کو نکلنے سے روکنا تو پڑتا ہے
بے غرض کہاں ہیں اب رسم و راہ اے شکیل
سود یا زیاں ہے کم، تولنا تو پڑتا ہے