عاطف بٹ
محفلین
یوسف بھائی، میں آپ کی سب باتوں سے متفق ہوں مگر فرحت کیانی کی طرح مجھے بھی آپ کے اس جملے سے اختلاف ہے:
فرحت کی یہ بات صد فیصد مبنی بر حقیقت ہے کہاگر انہیں ”اردو میڈیم“ سے پڑھواتا تو میرے لاکھوں روپے تو بچ جاتے، لیکن آج وہ بی اے، بی ایس سی ہی کر رہے ہوتے، جو آجکل ”بےروزگاری“ کی سند مانی جاتی ہے![]()
میں نے خود بھی یہ دیکھا ہے کہ انگریزی میڈیم اداروں میں پڑھنے والوں پر انگریزی کا ٹھپہ تو لگا ہوتا ہے مگر لکھنے کے معاملے میں وہ پیدل ہی ہوتے ہیں اور یقین مانیں میں نے تو کئی ایک کو غلط بولتے ہوئے بھی سنا ہے۔ ان کو محض بےجھجھک بات کرنا سکھایا جاتا ہے مگر بولا ہوا جملہ بھی بجائے خود کیا ہے اور اس میں گرامر کی کتنی غلطیاں ہیں وہ اس بات سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے۔انگریزی میڈیم اداروں کی اکثریت انگریزی بولنے کی استعداد کو تو شاید کافی بہتر کر دیتی ہے لیکن جب لکھنے کی بات آئے تو بہت کم ہی ایسے ادارے ہیں جو بچوں کو لکھنا بھی سکھاتے ہوں۔ یہ جو میڈیکل ، انجینئرنگ والے بھی لوگ ہیں عموماً انگریزی ان کی بھی ایسی شاندار نہیں ہوتی۔ بس ٹھپہ لگنے کی بات ہے۔ ہاں استشنیات ہر جگہ موجود ہیں۔
میں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج لاہور سے گریجوایشن کی تھی جو بعض وجوہات کی بناء پر بہت بدنام ہے مگر میں ہر جگہ بہت فخر سے کہتا ہوں کہ میں اس ادارے سے پڑھا ہوں۔ اگر کسی انٹرویو لینے والے کو ’مشکل‘ ہوتی ہے تو ہوتی رہے مگر میں اپنا ماضی ’چھپا‘ کر مستقبل کی سیڑھی پر نہیں چڑھنا چاہتا!میں نے صرف اس بات سے ”توبہ” کی تھی کہ اپنے کوائف میں اپنے تعلیمی ادارے کا نام لکھ کر انٹرویو لینے والوں کے لئے ”مشکلات“ پیدا نہیں کروں گا۔