نور وجدان
لائبریرین
صُبح سویرے سورج وادیوں سے اُفق پر نمودار ہوا چاہتا ہے ۔ رات کی چاندنی نے سبزہ پُرنور کردیا ہے ۔ شاخیں جھولتے ہوئے باد ء صبا کو سلام کہتی ہیں ۔ پرندے اُمید کی تسبیح میں محو فضاء میں موسیقیت پیدا کر رہے ہیں ۔ نئے سال کی پُرنور وادی میں گُم بُلندو بالا پہاڑ کی چوٹی پر کھڑی نئے سال حاصل ہونے والی خوشی کا تصور کر رہی ہوں ۔ میرے کاندھے پر بُلبل بیٹھی مجھے دیکھ کے مسکرائی اور اڑان بھرلی ۔ اس خواب کے ختم ہوتے ہی میری آنکھ کھُل گئی ۔خواب کیا دیکھنے چاہیے ؟ خواہشات کیا پالنی چاہیں ؟ خوشی حاصل کرنے کے لیے بند آنکھوں سے یا کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا بہت ضروری ہے کہ خواب زندگی ہے ۔
امید کے جگنو ہاتھ میں تھامے مستقبل کے خواب بُن رہی ہوں ۔ میرے سامنے دو سوال ہیں ؟ میں ماضی کی حسین و تلخ یادوں کو بھُلا دو کیا ؟ کیا مستقبل کی آنے والی ساری خوشیاں صرف مجھے چاہیے ہیں ؟ آنے والے لمحات فیصلہ مانگتے ہیں ۔ ماضی کی کتاب کُھولے میں نے دیمک سے اٹے صفحات پھاڑ ڈالے ہیں کہ نئے صفحات رُوشن ہیں ۔ میری خوشیوں کا دارامدار ان مستعمل شُدہ روشنائی سے ہوگا ۔میں نے اُمید کی روشنائی سے ماضی کی سیاہی کا صفحہ پھاڑ ڈالا ہے اور ساری سنہری یادوں کو طُوطے کی مانند پنجرے میں بند کر دیا ہے کہ خوبصورتی کو دوام ہے
اسی موقع پر سانحہ ء پشاور بطور تمثیل یاد آیا ہے جہاں خون میں لت پت لاشے دیکھ کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور اشکوں کی لڑیوں نے سیلاب کا سماں باندھ دیا ۔ ان ظالموں کو یاد کروں یا ان ماوؤں کے عزیم حوصلے کی داد دوں کہ جن کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی ۔ یا ایسے ناگہانی واقعات و آفات جنہوں نے گھروں میں چراغ گل کر دیے ہیں ۔ میں نے تمام واقعات پرکھے ہیں ۔ ان کی چھانٹی کی ہے ۔ ان سب کے مثبت پہلوؤں کو اپنے لیے مشعل ء راہ بنا کے باقی سب باتوں کی راکھ گنگا میں بہا دی ہے ۔
نیا سال میرے لیے کیسا ہوگا ؟ یا سب انسانوں کے لیے کیسا ہوگا ؟ میں اپنا سوچوں یا لوگوں کا سوچوں ؟ اندر کی کشمکش نے مجھے فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ میرا عکس سبھی انسانوں سے مل کر بنا ہے ۔میرا خمیر آدم و حوا سے اٹھا کوئی مختلف نہیں ہے ۔میں نے بھی حوا کی بیٹی ہونے کا ثبوت دینا ہے اور محبت کی تقسیم کرنی ہے ۔ اختلافات کو ختم کرکے ایک ذات کو منفرد جانتے انسانیت سے محبت کرنی ہے تاکہ بلبل کی مدھرتا و موسیقیت سے وادیوں کی حس ء لطافت بڑھتی رہے ،انسانیت خوش ہوتی رہے ۔خوشی کا سفر نئے وقت کے لیے خوشی خریدنے سے کرنا ہے ۔ خوشیوں کی تجارت کرکے دلوں کو اس کے نور سے منور کرنا ہے ۔ میری ذات کا اُجالا کسی اور کے اندھیری زندگی سے بسا ہے ۔ اجالا پھیلانے سے میری ذات کے اندھیرےختم ہو نے ہیں اور روشنیوں کے محل کی جانب سفر کا آغاز ہونا ہے
حکومت پر کیا لکھوں اور سیاست کی کیا برائی کروں ؟ سرمایہ کاروں کو بحث میں کیا لاؤں ؟ کسانوں پر ظلم کی داستان کیا سناؤں ؟ غریب کے گھر کی محرومیت پر کیا کہوں ؟ زمیندار کی عیاری کے قصے بھی پرانے ہیں ۔ انسان کے خدا بننے کی باتیں بھی پرانی ہیں ۔ ایک مخلص کا خود غرض سے اور ایک ظالم کا مظلوم سے کیا مقابلہ ہے ۔مجھے علم کی شمعیں روشن کرکے افراط وتفریط سے پھیلے ظلم کے اندھیرے کو ختم کرنا ہے ۔ میرا مقصد ، میرا عزم خود کو سدھارنے کا ہے اس لیے دوسروں کی باتیں کیا کروں ۔ نئے سال اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ارادوں میں مستقیم رکھیں ۔ آمین
امید کے جگنو ہاتھ میں تھامے مستقبل کے خواب بُن رہی ہوں ۔ میرے سامنے دو سوال ہیں ؟ میں ماضی کی حسین و تلخ یادوں کو بھُلا دو کیا ؟ کیا مستقبل کی آنے والی ساری خوشیاں صرف مجھے چاہیے ہیں ؟ آنے والے لمحات فیصلہ مانگتے ہیں ۔ ماضی کی کتاب کُھولے میں نے دیمک سے اٹے صفحات پھاڑ ڈالے ہیں کہ نئے صفحات رُوشن ہیں ۔ میری خوشیوں کا دارامدار ان مستعمل شُدہ روشنائی سے ہوگا ۔میں نے اُمید کی روشنائی سے ماضی کی سیاہی کا صفحہ پھاڑ ڈالا ہے اور ساری سنہری یادوں کو طُوطے کی مانند پنجرے میں بند کر دیا ہے کہ خوبصورتی کو دوام ہے
اسی موقع پر سانحہ ء پشاور بطور تمثیل یاد آیا ہے جہاں خون میں لت پت لاشے دیکھ کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور اشکوں کی لڑیوں نے سیلاب کا سماں باندھ دیا ۔ ان ظالموں کو یاد کروں یا ان ماوؤں کے عزیم حوصلے کی داد دوں کہ جن کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی ۔ یا ایسے ناگہانی واقعات و آفات جنہوں نے گھروں میں چراغ گل کر دیے ہیں ۔ میں نے تمام واقعات پرکھے ہیں ۔ ان کی چھانٹی کی ہے ۔ ان سب کے مثبت پہلوؤں کو اپنے لیے مشعل ء راہ بنا کے باقی سب باتوں کی راکھ گنگا میں بہا دی ہے ۔
نیا سال میرے لیے کیسا ہوگا ؟ یا سب انسانوں کے لیے کیسا ہوگا ؟ میں اپنا سوچوں یا لوگوں کا سوچوں ؟ اندر کی کشمکش نے مجھے فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ میرا عکس سبھی انسانوں سے مل کر بنا ہے ۔میرا خمیر آدم و حوا سے اٹھا کوئی مختلف نہیں ہے ۔میں نے بھی حوا کی بیٹی ہونے کا ثبوت دینا ہے اور محبت کی تقسیم کرنی ہے ۔ اختلافات کو ختم کرکے ایک ذات کو منفرد جانتے انسانیت سے محبت کرنی ہے تاکہ بلبل کی مدھرتا و موسیقیت سے وادیوں کی حس ء لطافت بڑھتی رہے ،انسانیت خوش ہوتی رہے ۔خوشی کا سفر نئے وقت کے لیے خوشی خریدنے سے کرنا ہے ۔ خوشیوں کی تجارت کرکے دلوں کو اس کے نور سے منور کرنا ہے ۔ میری ذات کا اُجالا کسی اور کے اندھیری زندگی سے بسا ہے ۔ اجالا پھیلانے سے میری ذات کے اندھیرےختم ہو نے ہیں اور روشنیوں کے محل کی جانب سفر کا آغاز ہونا ہے
حکومت پر کیا لکھوں اور سیاست کی کیا برائی کروں ؟ سرمایہ کاروں کو بحث میں کیا لاؤں ؟ کسانوں پر ظلم کی داستان کیا سناؤں ؟ غریب کے گھر کی محرومیت پر کیا کہوں ؟ زمیندار کی عیاری کے قصے بھی پرانے ہیں ۔ انسان کے خدا بننے کی باتیں بھی پرانی ہیں ۔ ایک مخلص کا خود غرض سے اور ایک ظالم کا مظلوم سے کیا مقابلہ ہے ۔مجھے علم کی شمعیں روشن کرکے افراط وتفریط سے پھیلے ظلم کے اندھیرے کو ختم کرنا ہے ۔ میرا مقصد ، میرا عزم خود کو سدھارنے کا ہے اس لیے دوسروں کی باتیں کیا کروں ۔ نئے سال اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ارادوں میں مستقیم رکھیں ۔ آمین