اب بولو بھئی
سلام آباد : سابق وفاقی وزیراطلاعات ونشریات سینیٹرمحمدعلی درانی نے بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت سے بحالی کے حق میں4جولائی سے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ بہاولپورکے صوبہ پنجاب میں ادغام قائد اعظم کے وعدہ کے خلاف جنرل یحیی خان کافیصلہ تھا۔نہ صرف بہاولپور کو صوبہ کی حیثیت سے بحال کرکے ریاست پاکستان کے وعدہ کوپورااوربہاولپورکے عوام کے متفقہ اور دیرینہ مطالبہ کوپوراکیاجائے بلکہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان کو بھی صوبہ بنایاجائے اورپھر بتدریج ملک میں16صوبے بنائیں جائیں۔اگر اسلام آباد او رلاہور کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں نے یہ عوامی مطالبہ نہ مانا تو پھر فیصلہ عوامی تحریک کرے گی اور اگر کسی کو کوئی شبہ ہے تو بہاولپور کے عوام کی رائے جاننے کیلئے اس معاملے پر ریفرنڈم کرایا جائے۔
بدھ کو نیشنل پریس کلب کے زیراہتمام "قومی سلامتی کودرپیش چیلنجز اوران کاحل "کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ریاست کی مسلسل وعدہ خلافیوں نے عوام کو مایوسی ،ناامیدی کاشکاربناتے ہوئے لاتعلق کرکے رکھ دیا۔آئین سے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ،بلوچستان اور صوبہ سرحد کو رائیلٹی کی فراہمی،صوبائی خودمختاری سمیت جو دیگر وعدے ریاست کی طرف سے ہوئے تھے ،ان کے پورانہ ہونے کے نتیجہ میں جوناامیدی اور لاتعلقی پیدا ہوئی اس نے قومی سلامتی اور قومی وفاقی وحدت پر کاری ضرب لگائی ہے،ایک خمیازہ ہم مشرقی پاکستان کی صورت بھگت چکے ہیں جبکہ مسلسل بگاڑکے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ نے پورے قومی وجود کوجکڑرکھا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسی ریاستی وعدہ خلافی کی ایک مثال بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت کا جنرل یحیی خان کے ایل ایف او کے ذریعے خاتمہ اور پنجاب میں ادغام بھی ہے جو دراصل بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے بہاولپور کے حوالہ سے وعدہ کے خلاف جنرل یحیی خان کافیصلہ تھا۔یہ وہی یحیی خان تھا جس نے پاکستان دولخت کیا۔اس فیصلہ کے نہ صرف بہاولپور بلکہ پاکستان کے عوام اور پاکستان کے تمام دانشور بھی خلاف تھے۔
انہوں نے ایران ،فرانس،ترکی،بھارت اورافغانستان کی مثالیں دیتے ہوئے کہاکہ صوبہ پنجاب کی آبادی7وسط ایشیائی ریاستوں کی آبادی کے برابر ہے جہاں ایک ریاست کے کئی صوبے ہیں۔ ترکی کے83،انڈیا کے 28،ایران کے30اورافغانستان کے34صوبے ہیں۔ ان ممالک نے انتظامی یونٹوں میں اضافہ سے خاطرخواہ ترقی کی اور نہ صرف اچھی حکومت میں مددملی بلکہ عوام تک ان کے حقوق کی ر سائی بھی یقینی ہوئی۔ بھارت میں سادہ اکثریت سے قانون سازی کے ذریعہ صوبوں کاقیام عمل میں لایا جاسکتاہے تاکہ آئین میں ترمیم کے بجائے یہ کام سادہ قانون سازی سے ہوسکے۔اسی طرز پر پاکستان میں بھی قانون سازی ہونی چاہئیے اوراس ضمن میں وہ سینٹ میں قانون سازی کے لئے تحریک پیش کریں گے کیونکہ چھوٹے انتظامی یونٹوں کی تشکیل سے وسائل کی منصفانہ تقسیم،مئوثر نظم ونسق اور حقوق کی فراہمی یقینی بننے سے عوام کے نہ صرف حکومت میں کھویااعتماد بحال ہوگابلکہ شراکت اقتدار کے نتجہ میں وفاق اوراس کی وحدت مظبوط ہوگی اور عوام کی محرومیوں،غربت،بیروزگاری،دہشت گردی،انتہاء پسندی،ناخواندگی کا خاتمہ ہونے سے ایک نیا قومی جذبہ اور ولولہ بیدار ہوگا ۔
انہوں نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب میں طالبان کے طاقت ور ہونے کاہر سطح پرپروپگنڈہ کیاجارہاہے تو دوسری جانب سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے بجٹ 2009-10ء میں نہ تو جنوبی پنجاب کیلئے مناسب ترقیاتی اہداف مقرر کئے گئے اورنہ ہی نوجوانوں کے روزگار کیلئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقوم مختص کی گئیں بلکہ جنوبی پنجاب کے لئے بجٹ میں کمی کردی گئی،تاکہ ان علاقوں کے پہلے سے پسے اور کچلے عوام کامزید محرومی اور بددلی کا شکارکردیاجائے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے محروم عوام کی حالت زار اور مسلسل محرومیاں اس امر کی متقاضی ہیں کہ علاقہ کے عوام کی خواہش کا احترام اورریاست پاکستان کا وعدہ پوراکرتے ہوئے بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت اسے واپس کی جائے۔سینیٹرمحمدعلی درانی نے کہاکہ اسلام آباد اور لاہور کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کوکچلے اورپسے عوام کے غیض وغضب سے ڈرنا چاہئیے۔انہوں نے کہاکہ سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو دور میں بہاولپور ڈویژن کو سی ایس ایس کے کوٹے میں 12فیصدحصہ دئیے جانے کا فیصلہ ہوچکاتھا لیکن اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔
انہوں نے کہاکہ بہاولپور کے عوام کسی لسانی یا علاقائی تعصب کی بنیاد پر یہ مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اس خطہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ،زیادتیوں اور محرومیوں کی تلافی کے لئے یہ مطالبہ کیاجارہاہے۔ اس موقع پر صحافیوں کے متعدد سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت کے حق میں عوامی رائے کو جاننے کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے، صورتحال واضح ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ مطالبہ نہ صرف بہاولپور کی عوام بلکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں کی رائے کا بنیاد پر کر رہے ہیں۔