نئے صوبے کا مطالبہ زور پکڑ گیا
حکومت کی جانب سے آئین میں وسیع پیمانے پر ترامیم کے لیے دونوں ایوانوں میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ستائیس رکنی کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی جنوبی پنجاب پر مشتمل نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
سرائیکی علاقے پر مشتمل نئے صوبے کی حمایت جہاں مسلم لیگ (ق) کے بعض پارلیمینٹیرینز کرتے ہیں وہاں حزب مخالف کی مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما جاوید ہاشمی اور ان کی جماعت کے جنوبی پنجاب سے منتخب بعض اراکین کے علاوہ حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی اراکین بھی حامی دکھائی دیتے ہیں۔
لسانی بنیاد پر ’سرائیکی صوبہ‘ بنانے کا مطالبہ تو تقریباًگزشتہ پچیس برسوں سے کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض منتخب اراکین اسمبلی نے اب انتظامی بنیاد پر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا مطالبہ ایوانوں کے اندر سے شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں راجن پور سے پیپلز پارٹی کے منتخب رکن اسمبلی سردار اطہر خان گورچانی نے جب جنوبی پنجاب میں غربت، بدحالی، اور بھوک کا ذکر کرتے ہوئے جنوبی پنجاب پر مشتمل نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تو ایوان میں موجود مختلف جماعتوں کے اراکین نے بھی ان کی حمایت کی۔ اٹک سے مسلم لیگ (ق) کے رکن پنجاب اسمبلی ملک شیر علی نے مطالبہ کیا کہ شمالی پنجاب کو بھی ایک صوبہ بنایا جائے کیونکہ وہاں کے عوام کو بھی حقوق نہیں ملتے۔
اطہر گورچانی کی اس بات پر مسلم لیگ (ن) کے وارث کلو سے تلخ کلامی بھی ہوئی اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بھی ملکی حالات کے پیش نظر متنازع معاملات کو نہ چھیڑنے کا کہتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔ لیکن اطہر گورچانی کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ صوبائی اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھائیں گے۔
بدھ کو لاہور سے فون پر بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں سولہ اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب کے لیے پانچ ارب روپے کا پیکیج دیا گیا ہے جب کہ لاہور میں رنگ روڈ پر صرف چھبیس ارب روپے لگے ہیں۔ ’جنوبی پنجاب کوئی تحصیل نہیں ہے سولہ اضلاع ہیں اس کے لیے پانچ ارب روپوں سے کیا بنے گا۔ یہ رقم تو ایک تحصیل کے بجٹ کے برابر ہے؟‘۔
انہوں نے کہا کہ ہم لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ انتظامی بنیاد پر پنجاب کی تقسیم چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ’اگر بھارتی پنجاب جو آبادی اور آراضی کے لحاظ سے پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہے، انتظامی بنیاد پر تقسیم ہوسکتا ہے تو ہمارا پنجاب کیوں نہیں ہوسکتا۔ ہمارا آدمی صادق آباد سے دس گھنٹے کی مسافت کے بعد بمشکل لاہور پہنچتا ہے اور اگر کسی کو تفتیش تبدیل کروانی ہو تو چار سے چھ روز لاہور میں گزارنے پڑتے ہیں اور پورے مہینے میں جتنی ان کی آمدن نہیں ہے وہ انہیں ایک ہفتے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘
ایک سرائیکی قوم پرست رہنما تاج محمد لنگاہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا ’بریک تھرو‘ ہے کہ جو بات سرائیکی علاقے کے ان جیسے سیاستدان، شاعر، دانشور، ادیب، غریب اور متوسط طبقے کے لوگ کرتے تھے آج اس کی گونج منتخب ایوانوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
’یہ عوام کے دباؤ کا نتیجہ ہے کہ آج سرائیکی علاقے سے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ہوں، شاہ محمود قریشی یا پھر مسلم لیگ (ن) کے رانا محمود الحسن، تہمینہ دولتانہ یا مسلم لیگ (ق) یا کوئی اور جماعت ان کے لوگوں نے سرائیکیوں کو حقوق دلوانے کے نام پر ووٹ لیے ہیں اور آج اگر ان میں سے کسی نے سرائیکی صوبے کی مخالفت کی تو انہیں آئندہ ووٹ ہی نہیں ملیں گے۔‘
تاج محمد لنگاہ نے بتایا کہ آئینی ترامیم کے لیے بنائی گئی ستائیس رکنی پارلیمانی کمیٹی کو وہ خط بھیج رہے ہیں کہ سرائیکی صوبے کی شق اس میں شامل کریں۔ تاج لنگاہ نے کہا کہ ان سمیت کئی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اس لیے یہ ضروری ہے کہ پارلیمانی کمیٹی عوامی سماعت کر کے عوام کی رائے جانے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
’اسفند یار ولی ہوں یا مولانا فضل الرحمٰن یا الطاف حسین انہوں نے سرائیکی صوبے کی حمایت کی ہے اور اب بھی وہ حامی ہیں۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ سرائیکی صوبے کی شق آئینی ترامیم کے پیکیج میں شامل کریں۔ کوئی جماعت اس کی مخالفت کی جرات نہیں کرے گی۔‘
جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے حوالے مسلم لیگ (ق) سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات محمد علی درانی کہتے ہیں کہ پنجاب کو انتظامی بنیاد پر پانچ صوبوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق بہاولپور، ملتان، شمالی پنجاب کو صوبہ بننا چاہیے۔’ قائد اعظم نے بہاولپور کو صوبہ بنانے کا عہد کیا تھا جس کی یحیٰی خان نے عہد شکنی کی۔ انیس سو چون میں جب ون یونٹ بنا تو بہاولپور بھی اس میں شامل ہوگیا لیکن جب ون یونٹ ختم ہوا تو یحیٰی خان نے بہاولپور ریاست کو علیحدہ صوبہ بنانے کے بجائے پنجاب میں ضم کردیا۔‘
سینیٹر درانی نے بتایا کہ بہاولپور کو انتظامی حکم کے ذریعے پنجاب کا حصہ بنایا گیا اس لیے اگر وزیراعظم چاہیں تو وہ ایک انتظامی حکم کے ذریعے بہاولپور کی صوبائی حیثیت بحال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک آئینی ترمیم کا بل پیش کرنے والے ہیں جس کے تحت کسی صوبے کو انتظامی بنیاد پر تقسیم کرنے کا اختیار متعلقہ صوبے کی اسمبلی کو سادہ اکثریت کی بنیاد پر دیا جائے گا، جیسا کہ بھارت اور دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔ تاکہ انتظامی بنیاد پر صوبہ بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہ پڑے۔‘
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما جاوید ہاشمی نے دو روز قبل اسلام آباد پریس کلب میں ’میٹ دی پریس‘ میں پنجاب کو تقسیم کرکے مزید صوبے بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب کہ اس طرح کا مطالبہ پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار سردار قیوم جتوئی، رکن قومی اسمبلی جمشیدی دشتی اور بعض دیگر اراکین کے علاوہ مسلم لیگ (ق) سردار بہادر خان سِیہڑ اور ریاض پیرزادہ، مسلم لیگ (ف) کے رکن قومی اسمبلی جہانگیر خان ترین اور رکن پنجاب اسمبلی مخدوم احمد محمود بھی کرتے رہے ہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جس طرح بلوچستان میں آئے دن وفاق کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے اُسے روکنے کے لیے پنجاب کو کم از کم دو حصوں میں تقسیم کرکے صوبوں کو زیادہ خودمختاری دینے کی ضرورت بعض ملکی سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی محافظ پاک فوج کو بھی محسوس ہو رہی ہے۔
ماخذ:
بی بی سی اردو