نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ۔۔۔۔ (اشوک کھوسلہ )

ظفری

لائبریرین
یہ غزل میں نے اسکول کے دور میں سنی تھی ۔ اشوک کھوسلہ نے اس غزل کے ساتھ کیسا انصاف کیا ہے ۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں ۔ پھر یہ غزل برسوں بعد سنی ۔ اس بار اس غزل کو خلیل حیدر نے گایا ۔ سن کر طبعیت اتنی بے مزہ ہوئی کے سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیسے کیسے لوگ اب مشہور ہوجاتے ہیں ۔

 

طالوت

محفلین
کوئی شبہ نہیں ، خلیل کے مقابلے میں اشوک نے اس غزل کو زیادہ بہتر گایا ہے ۔ ایسے بہت سے گیت غزلیں ہیں جیسے شوکت علی یا تصور خانم کے گائے ہوئے گیت غزلیں ۔ لتا و نورجہاں کے گیت غزلیں وغیرہ ۔ ویسے یہ ناصر کاظمی کی غزل ہے نا ؟
وسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی یہ ناصر کاظمی کی غزل ہے۔

غزل
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں

ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے

(ناصر کاظمی)



 
Top