پاکستان کے شہر کراچی میں رینجنرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹر اور سیکریٹیریٹ پر چھاپہ مارا ہے اور وہاں سے’سزایافتہ ٹارگٹ کلرز‘ کی گرفتاری اور غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے بعد شہر میں بیشتر کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم نے الزام عائد کیا ہے کہ رینجرز نے نائن زیرو پر چھاپے کے خلاف احتجاج کرنے والے کارکنان پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا ایک کارکن ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
رینجرز کے ترجمان کرنل طاہر نے نائن زیرو کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو میں دو گھنٹے تک کارروائی کی گئی جس میں انھیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
رینجرز کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ آپریشن کے دوران سزائے موت پانے والے قیدیوں اور ایسے افراد کو بھی حراست میں لیا گیا جن کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کسی بھی رکنِ اسمبلی و صوبائی اسمبلی کو حراست میں نہیں لیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان رینجرز کے پاس ہیں جن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
ترجمان کے بقول ’عامر خان صاحب ہمیں بتائیں گے کہ یہ لوگ (جن مجرموں کی میں بات کر رہا ہوں) یہ ان کے پاس کیوں تھے۔
رینجرز کے ترجمان نے کہا کہ کارروائی کے دوران غیرملکی ممنوعہ اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔
’ایسا اسلحہ یہاں موجود ہے جسے پاکستان میں درآمد کرنا ممنوع ہے، میرے ذاتی خیال سے نیٹو کنٹینروں سے چوری شدہ اسلحہ بھی یہاں موجود ہے۔‘
بریفنگ کے بعد رینجرز ترجمان کی جانب سے جاری کردہ تحریری بیان میں ان اہم مجرموں کے نام بتائے گئے جنھیں خورشید میموریل ہال سمیت نائن زیرو سے ملحقہ علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا۔
رینجرز کے مطابق مطابق فیصل موٹا کو ولی خان بابر کے قتل کیس میں سزائے موت دی گئی تھی
بیان کے مطابق فیصل موٹا کو ولی خان بابر کے قتل کیس میں سزائے موت دی گئی تھی۔ نادر نامی مجرم کو 13 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ زیرِحراست دیگر افراد میں فرحان شبیر، عامر اور عبید کے ٹو کی شناخت ہوئی ہے۔ رینجرز کا کہنا ہے گرفتار ہونے والے مزید افراد کی شناخت کا سلسلہ جاری ہے۔
بریفنگ کے دوران کرنل طاہر نے میڈیا کو بتایا کہ کم از کم 12 مشکوک افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس اطلاعات آ رہی ہیں کہ رابطہ کمیٹی کے رکن عامر خان کو پوچھ گچھ کے لیے رینجرز نے اپنے ہمراہ رکھا ہے تاہم ان سمیت کوئی بھی رکن حراست میں نہیں ہے۔
حیدر عباس رضوری نے تصدیق کی کہ ایم کیو ایم کا سیکریٹیریٹ ’خورشید بیگم میموریل‘ سیل کر دیا گیا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کا مرکز نائن زیرو پولیس کی تحویل میں نہیں ہے۔
ادھر ایم کیو ایم کے رہنما نے رینجرز کی کارروائی پر شدید تنقید کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے دفتر میں موجود اسلحہ پارٹی نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا گیا جو لائسنس یافتہ تھا اور رینجرز اس سے آگاہ تھی۔
کرنل طاہر نے کہا کہ نائن زیرو کے اردگرد بیریئر لگا کر 21 گلیاں بند کر دی گئی تھیں جب کہ رینجرز کا مینڈیٹ ہے کہ شہر سے ہر قسم کے ’نو گو ایریاز‘ ختم کیے جائیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم سے کہا گیا ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ بیریئر ہٹا دیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
کرنل طاہر نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے دفتر کو بھی سیل کر دیا گیا ہے اور اسے وقتی طور پر پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ ’اس دفتر کو وقتی طور پر پولیس کے حوالے کیا جائے گا کیونکہ ابھی ہم نے اس کی مزید چھان بین کرنی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کارروائی رینجرز نے سیاسی بنیادوں پر نہیں کی بلکہ یہاں لوگوں کی موجودگی کی پہلے سے اطلاعات تھیں۔
الطاف حسین کا ٹیلی فونک خطاب
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے لندن سے ٹیلی فون پر اپنے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ہیڈ کواٹر پر رینجرز کی کارروائی کی شدید مذمت کی۔
انھوں نے الزام لگایا کہ رینجرز نے کراچی کے علاقے عزیز آباد میں نائن زیرو کے علاوہ ان کی بہن کے گھر بھی چھاپہ مارا۔
الطاف حسین نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے اپیل کی وہ رینجرز کی کارروائی کے بارے میں حقائق جانیں اور پوری دنیا کو بتائیں۔
الطاف حسین نے بتایا کہ انھوں نے ہی کراچی میں ہلاکتوں کی وجہ سے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تھا تاہم فوج کے بجائے رینجرز کا آپریشن کروایا گیا۔
انھوں نےسوال کیا کہ کیا کسی اور جماعت کے سربراہ کے گھر کسی نے چھاپہ مارا ہے؟
اس سے قبل ایم کیو ایم کے سینئیر رہنما حیدر عباس رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر صبح ساڑھے چار بجے چھاپہ مارا اور ابھی تک نائن زیرو سے رابطہ بحال نہیں ہو سکا۔
ایم کیو ایم نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغامات میں لکھا ہے کہ رینجرزنے نائن زیرو کے علاقے کامحاصرہ کر کے پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی رہائش گاہ اورنائن زیرو کے مختلف شعبہ جات میں چھاپے مارے۔
’رینجرزکے اہلکاروں نے چھاپوں اورتلاشی کے دوران کمپیوٹرز، ٹی وی اور دیگر سامان توڑ پھوڑ دیا، اور فون اورکیمرے منقطع کر کے تباہ کر دیے۔‘
جماعت کا کہنا ہے کہ نائن زیرو مرکز پر رینجرز کے چھاپے، توڑ پھوڑ اورگرفتاریوں کے خلاف رابطہ کمیٹی آج ملک بھر میں پرامن احتجاج کرے گی۔
ایم کیو ایم نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ رینجرز اہلکار نائن زیرو میں داخل ہوتے وقت کمبلوں میں غیر قانونی اسلحہ لے کر آئے تھے جسے اب ایم کیو ایم سے منسلک کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ تاجر اور ٹرانسپورٹ برادری سے بطور احتجاج اپنا کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند رکھنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
تاہم اپنے بیان میں ترجمان رینجرز نے تاجر برادری سے درخواست کی کہ وہ اپنا کارروبار جاری رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی جماعت کو نقضِ امن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
رینجرز نے اسلحہ دکھایا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے دفاتر سے برآمد ہوا ہے
ایم کیو ایم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کمیٹی کی جانب سے وزیراعظم کے نام پیغام میں لکھا ہے کہ ’وزیراعظم محمد نواز شریف قائد الطاف حسین کے گھر، اس کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے، گرفتاریوں اور مظالم کا فی الفورنوٹس لیا جائے۔‘
رینجرز کے ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر اور سیکریٹیریٹ پر چھاپے کے بعد شہر میں صبح سے بیشتر کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کافی کم ہے۔
اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی کم ہے اور بیشتر پیٹرول پمپس بند ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم کراچی کے بازارِ حصص میں کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔