نائن زیرو

x boy

محفلین
-PAXP-deijE.gif
 
پاکستان کے شہر کراچی میں رینجنرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹر اور سیکریٹیریٹ پر چھاپہ مارا ہے اور وہاں سے’سزایافتہ ٹارگٹ کلرز‘ کی گرفتاری اور غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے بعد شہر میں بیشتر کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم ہے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم نے الزام عائد کیا ہے کہ رینجرز نے نائن زیرو پر چھاپے کے خلاف احتجاج کرنے والے کارکنان پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا ایک کارکن ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔

رینجرز کے ترجمان کرنل طاہر نے نائن زیرو کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو میں دو گھنٹے تک کارروائی کی گئی جس میں انھیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

رینجرز کے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ آپریشن کے دوران سزائے موت پانے والے قیدیوں اور ایسے افراد کو بھی حراست میں لیا گیا جن کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کسی بھی رکنِ اسمبلی و صوبائی اسمبلی کو حراست میں نہیں لیا گیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان رینجرز کے پاس ہیں جن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

ترجمان کے بقول ’عامر خان صاحب ہمیں بتائیں گے کہ یہ لوگ (جن مجرموں کی میں بات کر رہا ہوں) یہ ان کے پاس کیوں تھے۔

رینجرز کے ترجمان نے کہا کہ کارروائی کے دوران غیرملکی ممنوعہ اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔

’ایسا اسلحہ یہاں موجود ہے جسے پاکستان میں درآمد کرنا ممنوع ہے، میرے ذاتی خیال سے نیٹو کنٹینروں سے چوری شدہ اسلحہ بھی یہاں موجود ہے۔‘

بریفنگ کے بعد رینجرز ترجمان کی جانب سے جاری کردہ تحریری بیان میں ان اہم مجرموں کے نام بتائے گئے جنھیں خورشید میموریل ہال سمیت نائن زیرو سے ملحقہ علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا۔

150311131320_mqm_worker_439x549_bbc_nocredit.jpg

رینجرز کے مطابق مطابق فیصل موٹا کو ولی خان بابر کے قتل کیس میں سزائے موت دی گئی تھی
بیان کے مطابق فیصل موٹا کو ولی خان بابر کے قتل کیس میں سزائے موت دی گئی تھی۔ نادر نامی مجرم کو 13 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ زیرِحراست دیگر افراد میں فرحان شبیر، عامر اور عبید کے ٹو کی شناخت ہوئی ہے۔ رینجرز کا کہنا ہے گرفتار ہونے والے مزید افراد کی شناخت کا سلسلہ جاری ہے۔

بریفنگ کے دوران کرنل طاہر نے میڈیا کو بتایا کہ کم از کم 12 مشکوک افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس اطلاعات آ رہی ہیں کہ رابطہ کمیٹی کے رکن عامر خان کو پوچھ گچھ کے لیے رینجرز نے اپنے ہمراہ رکھا ہے تاہم ان سمیت کوئی بھی رکن حراست میں نہیں ہے۔

حیدر عباس رضوری نے تصدیق کی کہ ایم کیو ایم کا سیکریٹیریٹ ’خورشید بیگم میموریل‘ سیل کر دیا گیا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کا مرکز نائن زیرو پولیس کی تحویل میں نہیں ہے۔

ادھر ایم کیو ایم کے رہنما نے رینجرز کی کارروائی پر شدید تنقید کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے دفتر میں موجود اسلحہ پارٹی نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا گیا جو لائسنس یافتہ تھا اور رینجرز اس سے آگاہ تھی۔

کرنل طاہر نے کہا کہ نائن زیرو کے اردگرد بیریئر لگا کر 21 گلیاں بند کر دی گئی تھیں جب کہ رینجرز کا مینڈیٹ ہے کہ شہر سے ہر قسم کے ’نو گو ایریاز‘ ختم کیے جائیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم سے کہا گیا ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ بیریئر ہٹا دیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

کرنل طاہر نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے دفتر کو بھی سیل کر دیا گیا ہے اور اسے وقتی طور پر پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ ’اس دفتر کو وقتی طور پر پولیس کے حوالے کیا جائے گا کیونکہ ابھی ہم نے اس کی مزید چھان بین کرنی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کارروائی رینجرز نے سیاسی بنیادوں پر نہیں کی بلکہ یہاں لوگوں کی موجودگی کی پہلے سے اطلاعات تھیں۔

الطاف حسین کا ٹیلی فونک خطاب
140607011606_altaf_hussain_304x171_mqm_nocredit.jpg

ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے لندن سے ٹیلی فون پر اپنے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے ہیڈ کواٹر پر رینجرز کی کارروائی کی شدید مذمت کی۔

انھوں نے الزام لگایا کہ رینجرز نے کراچی کے علاقے عزیز آباد میں نائن زیرو کے علاوہ ان کی بہن کے گھر بھی چھاپہ مارا۔

الطاف حسین نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں سے اپیل کی وہ رینجرز کی کارروائی کے بارے میں حقائق جانیں اور پوری دنیا کو بتائیں۔

الطاف حسین نے بتایا کہ انھوں نے ہی کراچی میں ہلاکتوں کی وجہ سے فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا تھا تاہم فوج کے بجائے رینجرز کا آپریشن کروایا گیا۔

انھوں نےسوال کیا کہ کیا کسی اور جماعت کے سربراہ کے گھر کسی نے چھاپہ مارا ہے؟

اس سے قبل ایم کیو ایم کے سینئیر رہنما حیدر عباس رضوی نے بی بی سی کو بتایا کہ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر صبح ساڑھے چار بجے چھاپہ مارا اور ابھی تک نائن زیرو سے رابطہ بحال نہیں ہو سکا۔

ایم کیو ایم نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغامات میں لکھا ہے کہ رینجرزنے نائن زیرو کے علاقے کامحاصرہ کر کے پارٹی کے سربراہ الطاف حسین کی رہائش گاہ اورنائن زیرو کے مختلف شعبہ جات میں چھاپے مارے۔

’رینجرزکے اہلکاروں نے چھاپوں اورتلاشی کے دوران کمپیوٹرز، ٹی وی اور دیگر سامان توڑ پھوڑ دیا، اور فون اورکیمرے منقطع کر کے تباہ کر دیے۔‘

جماعت کا کہنا ہے کہ نائن زیرو مرکز پر رینجرز کے چھاپے، توڑ پھوڑ اورگرفتاریوں کے خلاف رابطہ کمیٹی آج ملک بھر میں پرامن احتجاج کرے گی۔

ایم کیو ایم نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ رینجرز اہلکار نائن زیرو میں داخل ہوتے وقت کمبلوں میں غیر قانونی اسلحہ لے کر آئے تھے جسے اب ایم کیو ایم سے منسلک کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ تاجر اور ٹرانسپورٹ برادری سے بطور احتجاج اپنا کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند رکھنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔

تاہم اپنے بیان میں ترجمان رینجرز نے تاجر برادری سے درخواست کی کہ وہ اپنا کارروبار جاری رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی جماعت کو نقضِ امن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

150311094614_mqm-raid-weapons-640.jpg

رینجرز نے اسلحہ دکھایا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے دفاتر سے برآمد ہوا ہے
ایم کیو ایم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کمیٹی کی جانب سے وزیراعظم کے نام پیغام میں لکھا ہے کہ ’وزیراعظم محمد نواز شریف قائد الطاف حسین کے گھر، اس کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے، گرفتاریوں اور مظالم کا فی الفورنوٹس لیا جائے۔‘

رینجرز کے ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر اور سیکریٹیریٹ پر چھاپے کے بعد شہر میں صبح سے بیشتر کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کافی کم ہے۔

اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ بھی کم ہے اور بیشتر پیٹرول پمپس بند ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم کراچی کے بازارِ حصص میں کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔
 
رینجرز اور ایم کیو ایم کے آپس کے جھگڑے میں کراچی کے عام شہریوں کا کیا قصور ہے؟ جن کی دکانیں، ٹرانسپورٹ اور بچوں کے سکول بند کر دیئےجاتے ہیں؟
 

اوشو

لائبریرین
دیکھتے ہیں اس پٹاری میں سے اب کیا کیا برآمد ہوتا ہے۔
اس واقعہ پر کاشفی جی کے تبصرہ کی ضرورت محسوس کرتا ہوں :)
 

x boy

محفلین
نائن زیرو چھاپہ: اس کارروائی کے وقت پر سوالات
12 مارچ 2015
news-1426142701-9201.jpg



اسلام آباد(قدرت نیوز)حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپہ مار کارروائی کرنے پر رینجرز حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس کارروائی کے وقت پر سوالات اُٹھائے۔ سینیٹ میں اپنے آخری دن جوشیلی تقریریں کرنے کے بعد ایم کیو ایم کے سینیٹرز نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے حکومتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے پر بطور سزا یہ کارروائی عمل لائی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکن نے بھی رینجرز کی اس کارروائی کی مذمت کی اور ایم کیو ایم کے سینیٹروں کے واک آؤٹ میں ان کا ساتھ دیا۔ تاہم قائدِ ایوان راجہ ظفرالحق نے ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپے میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا ’’میں ان الزامات کو سختی کے ساتھ مسترد کرتا ہوں۔ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ راجہ ظفرالحق نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رضاربّانی کی سینیٹ کے چیئرمین کے لیے نامزدگی کی وزیراعظم نواز شریف نے ذاتی طور پر توثیق کی تھی اور زرداری ہاؤس کا دورہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مقررہ طریقہ کار کے تحت دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبوں میں کیپٹن کا کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ سندھ کے وزیراعلیٰ سے رابطہ کریں گے اور ایوان میں اپنی مشاورت کی تفصیلات پیش کریں گے۔ یہ معاملہ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی کی جانب سے اُٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کی پارٹی کو سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے ایک اچھے امیدوار کی حمایت پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ طاہر مشہدی نے کراچی آپریشن کو ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اس آپریشن کو ’’سیاست سے دور‘‘ رکھا جائے۔ ایم کیو ایم کے بابر غوری نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات اور اس میں ملوث افراد کی گرفتاری کا حکم دیں۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’کیا یہ کارروائی جنرل راحیل شریف کی منظوری کے ساتھ شروع کی گئی تھی؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ کیا ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا ملک میں خاتمہ ہوگیا ہے۔‘‘ بابر غوری نے الزام لگایا کہ کراچی کے عوام ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کے لوگوں سے بھی بدتر مظالم کا سامنا کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز کے اہلکار پچھلے بائیس سالوں سے کراچی کے اندر ’’پیسہ بنانے میں‘‘ مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اتنی بھی بے وقوف نہیں تھی کہ وہ اپنے دفاتر میں اسلحہ رکھے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حالات میں بہتری نہ ہوئی تو بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ پیپلزپارٹی کے دو سینیٹرز فرحت اللہ بابر اور عبدالقیوم سومرو نے نائن زیرو پر چھاپے کے وقت پر سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت کیا گیا، جب تمام سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے معاملے پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے عبدالقیوم سومرو نے کہا ’’تاریکی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کے دفتر چھاپہ مار کر ایک پیغام دیا گیا ہے۔ کل تمام سیاسی قوتیں متحد تھیں، اور ایسا لگتا ہے کہ کچھ حلقوں کے لیے کہ ناقابلِ برداشت تھا۔‘‘ فرحت اللہ بابر نے کہا ’’قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے اور سیکورٹی ایجنسی کو قانون کی حدود سے تجاوز کرنے اور نگرانی اور محاسبےسےباہر ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کراچی میں لاپتہ افراد سے لے کر پانی کے ٹینکروں اور چھوٹے ماہی گیروں کو ان کے رزق سے محروم کرنے جیسے مسائل کے سلسلے میں رینجرز کے خلاف وسیع پیمانے پر الزامات عائد کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نگرانی کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ رینجرز کے معاملات کو انسانی حقوق کی کمیٹی یا ایون کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر شاہی سید وہ واحد سینیٹر تھے، جنہوں نے ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹرز پر چھاپے کی بالواسطہ طور پر حمایت کی اور رینجرز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ قومی اداروں کا مذاق نہیں اُڑانا چاہیے۔ شاہی سید نے جذباتی انداز میں سوال کیا ’’کیا ایک سیاسی جماعت کو اپنے دفتر اسلحے کا ڈھیر لگانا چاہیے اور مجرموں کو پناہ دینی چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’دہشت گردوں کو ان کی سیاسی وابستگی کا لحاظ کیے بغیر لازماً گرفتار کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔سیاسی جماعتوں کو جرائم پیشہ عناصر سے خود کو پاک کرنا چاہیے۔‘‘ سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد ہونے والے رضا ربّانی نے بطور ایک سینیٹر کے اپنی آخری تقریر میں رینجرز کی اس کارروائی کو ’قابلِ افسوس‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے دفاتر کی حرمت کے لیے جدوجہد کی ہے۔ رضا ربّانی کا نکتہ نظر تھا کہ اگر رینجرز کو نائن زیرو پر روپوش کسی کے بارے میں کوئی اطلاع ملی تھی، تو انہیں ایم کیو ایم کی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایم کیو ایم نے بارہا اپنے بیان میں کہا کہ اس کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے نہایت واضح انداز میں بیان کیا تھا کہ بلدیہ ٹاؤن سانحے میں ملوث مجرموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘ رضا ربّانی نے کہا ’’یہ متحد ہوکر دہشت گردی کی لعنت سے مقابلہ کرنے کا وقت ہے۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو انہتاپسند عناصر سے پاک کرلیں۔‘‘
 

x boy

محفلین
رینجرز کمبل میں اسلحہ چھپا کر نائن زیرو لائی ،الطاف حسین
11 مارچ 2015
news-1426068748-6717.jpg



کراچی ( قدرت نیوز) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے الزام عائد کیا ہے کہ نائن زیرو سے برآمد ہونیوالا اسلحہ رینجرز والے کمبل میں چھپا کر لائے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو جمع ہونے والے کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ رینجرز کمبل میں اسلحہ چھپا کر لائی نائن زیرو پر کوئی مقابلہ نہیں ہوا اگر یہ اسلحہ ہمارا ہوتا تو ہمیں چلانا بھی آتا اور مقابلہ بھی ہوتا انہوںنے کہاکہ برآمد ہونے والے اسلحے سے ایم کیو ایم کا کوئی تعلق نہیں ہے ہم نے ایک گولی بھی نہیں چلائی ایم کیو ایم کے قائد نے پولیس کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ نائن زیرو پر متحدہ کے کارکن وقاص کی ہلاکت رینجرز کی گولی سے نہیں ہوئی انہوںنے کہاکہ رینجرز نے وقاص کو سر میں گولی امری اور موت کے گھاٹ اتار دیا الطاف حسین نے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعتوں کے دفاتر میں گارڈ لائسنس والا اسلحہ نہیں رکھتے کارروائیاں صرف ایک سیاسی جماعت کے خلاف کیوں ہورہی ہیں دوسری جماعتوں کے خلاف آپریشن کیوں نہیں کیا جارہا جبکہ سپریم کورٹ واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں ۔
 

x boy

محفلین
نائن زیرو پر چھاپہ، پی ٹی آئی نے جلتی پر تیل چھڑک دیا
12 مارچ 2015
news-1426142872-8338.jpg



اسلام آباد (قدرت نیوز)پاکستان تحریک انصاف نے متحدہ قومی موومنٹ کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر چھاپے کے بعد برطانوی حکومت سے الطاف حسین کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرکے متحدہ کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ برطانوی حکومت سے الطاف حسین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ تحریک انصاف کی ترجمان ڈاکٹر شیریں مزاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کیا۔ شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ الطاف حسین کے برطانوی شہری ہیں، ان کے گھر سے اسلحے کا ذخیرہ برآمد ہوا ہے، حکومت برطانیہ ایم کیو ایم قائد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان نوک جھونک کافی عرصے سے جاری ہے، تحریک انصاف اس سے قبل بھی متعدد بار الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے لئے برطانیہ کو درخواست کر چکی ہے۔
 

x boy

محفلین
صولت مرزا کو 19 مارچ کو مچھ جیل میں پھانسی دی جائے گی
12 مارچ 2015
news-1426100791-2278.jpg



کراچی……..متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن صولت مرزا کو 19مارچ کو مچھ جیل میں پھانسی دی جائے گی۔ صولت مرزا کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی قدرت نیوز نے حاصل کرلی ہے۔ قدرت نیوز کو حاصل ہونے والی ایف آئی آر 158/1997جو کہ تھانا ڈیفنس میں 5جولائی 1997ءکو درج کی گئی، درج کی گئی۔ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کے تحت ضابطہ فوجداری کی مختلف دفعات 302،148،149 کے تحت ابتداء میں نامعلوم ملزمان کے تحت کاٹی گئی۔یہ ایف آئی آر اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر کے ای ایس سی ملک شاہد حامد سمیت 3افراد کے قتل کے سلسلے میں تھانہ ڈیفنس میں درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر کی مدعی ملک شاہد حامد کی بیوی کی مدعیت میں 5جولائی صبح دس بج کر 30منٹ پر درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں مدعی مقدمے کے مطابق ملک شاہد حامد ڈیفنس میں واقع اپنی رہائش گاہ 75بی، ساؤتھ سی ویو ایونیو سے 5جولائی 1997ء کی صبح 8بج کر 30منٹ پر گارڈ خان اکبر اور ڈرائیور اشرف بروہی کے ساتھ دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلے تاہم گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ہی نامعلوم ملزمان کی جانب سے تینوں افراد پر فائرنگ کردی گئی، فائرنگ کے نتیجے میں گارڈ خان اکبر، ڈرائیور اشرف بروہی موقع پر جاں بحق جبکہ ملک شاہد حامد کو شدید زخمی حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق فائرنگ میں ملوث ملزمان دو گاڑیوں میں سوار تھے جبکہ مقتول ملک شاہد حامد کو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے جان سے مارنے دھمکیاں بھی متواتر دی جارہی تھی، اس کیس سے متعلق پہلی اور آخری گرفتاری نومبر 1998ء میں سامنے آئی جب کراچی پولیس کے شہید افسر چوہدری اسلم نے دبئی سے واپسی پر ایئرپورٹ سے صولت مرزا کو گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر 5ملزمان اسد، دانش، راشد، عمر اور ندیم کو مفرور قرار دیتے ہوئے ملک شاہد حامد کے قتل میں نامزد کر کے 25دسمبر1998ء میں عدالت میں چالان پیش کردیا جس پر عدالت نے مئی 1999ء میں صولت مراز کو ایم ڈی کے ای ایس سی ملک شاہد حامد سمیت 3افراد کے قتل میں سزائے موت سنادی جس کی تکمیل 15سال بعد 19مارچ2015ء کو ہوگی۔
 

x boy

محفلین
کوئی شک نہیں کہ کراچی کا ستیاناس انہی لوگوں نے کیا ہے قتل عام ایم کیوایم کی ولادت سے پہلے پاکستان میں کیا تھا اس کے بعد ہو گیا؟ کیا ؟
 
اسی فقرے میں دو لفظ نکال کر دو شامل کریں تو بھی ایک دم فٹ ہے، کیوں علی بھائی ؟
کوئی شک نہیں کہ(پاکستان) کا ستیاناس انہی لوگوں نے کیا ہے قتل عام (طالبان) کی ولادت سے پہلے پاکستان میں کیا تھا اس کے بعد ہو گیا؟ کیا ؟
 
Top