نادان جوانی کا زمانہ گذر گیا

آوارگی میں حد سے گذر جانا چاہیئے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیئے
مجھسے بچھڑ کر ان دنون کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیئے

لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیئے

اس بت سے عشق کیجیئے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیئے

لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیئے

افسوس اپنے گھر کا پتا ہم سے کھو گیا
اب سوچنا یہ ہے کہ کدھر جانا چاھہیئے

لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیئے

بیٹھے ہیں ہر فصیل پر کُچھ لوگ تاک میں
اچھا ہے تھوڑی دیر سے گھر جانا چاہیئے

لیکن کبھی کبھار گھر جانا چاہیئے
ربَ وصال کا موسم بھی آگیا

اب تو میرا نصیب سنور جانا چاہیئے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چھایئے

نادان جوانی کا زمانہ گذر گیا
اب آگیا بڑھاپا سدھر جانا چاہیئے

لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیئے

بیٹھے رہو گے کب تک دشت میں حسن رؔضا
جینا اگر نہیں ہے تو مر جانا چاہیئے

لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیئے
 
Top