حسن علوی
محفلین
صفحہ:42
تو کیا میں نے اسے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔مرنا ہوتا ھے تو سب ہی مر جاتے ہیں۔ اسے مرنا تھا مسٹر پولیس مین۔۔۔۔ وہاں نہ مرتا کہیں اور مر جاتا۔۔۔!“
“تم حد سے بڑھ رھے ہو۔۔۔۔۔ مجبوراً تمہیں حراست میں لینا پڑے گا۔!“
“یہ بھی کر کے دیکھ لو۔۔۔۔۔ایک گھنٹے سے زیادہ مجھے مہمان نہ رکھ سکو گے۔“ شعبدہ گری میرا پیشہ ھے لیکن جد وقت یہاں کے ڈپٹی کمشنر کو معلوم ہوگا کہ میں تمہاری حراست یں ہوں تو تمہاری کارکردگی کا ریکارڈ گندہ ہو جائے گا۔!“
“دیکھا جائے گا۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی غرا کر ایک ماتحت سے بولا۔ “بند کر دو۔!“
جیسے ہی وہ اٹھا پروفیسر کی نظر اس کے ہرے پر جم گئی۔ وہ جہاں تھا وہیں جم گیا اور سحر زدہ کی طرح پروفیسر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر دھم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر پسینے کی دھاریں رواں تھیں اور آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی جارہی تھیں۔
“یہ کیا ہوا۔۔۔۔!“ صی ایس پی بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “یہ تم نے کیا کیا۔۔۔۔؟“
“میں نے کچھ نہیں کیا۔!“ پروفیسر نے مضحکہ خیز انداز میں کہا۔ “اتنی دور بیٹھا ہوا ہوں۔!“
ماتحت آفیسر کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔ ڈی ایس پی نے بےبسی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر پروفیسر کی طرف دیکھنے لگا۔
“میں جس قوت کے حصار میں ہر وقت رہتا ہوں وہ میری توہین نہیں برداشت کر سکتی۔ مرنے والا زبردستی نہیں لایا گیا۔ اپنی خوشی سے ریکھا کے مقابل رقص کرنے آیا تھا۔ مجھے علم ھے کہ وہ کس کا بیٹا تھا۔!“
“میں پوچھ رہا ہوں کہ اسے کیا ہو گیا ھے۔۔۔۔؟“ ڈی ایس پی نے ماتحت کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔
“ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔!“ پروفیسر نے لاپروائی سے کہا۔ “میری آنکھیں ایسی گستاخانہ نظروں کو اسی طرح کچل کر رکھ دیتی ہیں۔!“
“ڈاکٹر کو فون کرو۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی نے دوسرے آفیسر سے کہا اور وہ باہر چلا گیا۔
“ڈاکٹر اسے ہوش میں نہیں لا سکے گا۔!“
“پروفیسر۔۔۔۔ مجھے غصہ نہ دلاؤ۔۔۔۔!“
تو کیا میں نے اسے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔مرنا ہوتا ھے تو سب ہی مر جاتے ہیں۔ اسے مرنا تھا مسٹر پولیس مین۔۔۔۔ وہاں نہ مرتا کہیں اور مر جاتا۔۔۔!“
“تم حد سے بڑھ رھے ہو۔۔۔۔۔ مجبوراً تمہیں حراست میں لینا پڑے گا۔!“
“یہ بھی کر کے دیکھ لو۔۔۔۔۔ایک گھنٹے سے زیادہ مجھے مہمان نہ رکھ سکو گے۔“ شعبدہ گری میرا پیشہ ھے لیکن جد وقت یہاں کے ڈپٹی کمشنر کو معلوم ہوگا کہ میں تمہاری حراست یں ہوں تو تمہاری کارکردگی کا ریکارڈ گندہ ہو جائے گا۔!“
“دیکھا جائے گا۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی غرا کر ایک ماتحت سے بولا۔ “بند کر دو۔!“
جیسے ہی وہ اٹھا پروفیسر کی نظر اس کے ہرے پر جم گئی۔ وہ جہاں تھا وہیں جم گیا اور سحر زدہ کی طرح پروفیسر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر دھم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر پسینے کی دھاریں رواں تھیں اور آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی جارہی تھیں۔
“یہ کیا ہوا۔۔۔۔!“ صی ایس پی بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “یہ تم نے کیا کیا۔۔۔۔؟“
“میں نے کچھ نہیں کیا۔!“ پروفیسر نے مضحکہ خیز انداز میں کہا۔ “اتنی دور بیٹھا ہوا ہوں۔!“
ماتحت آفیسر کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔ ڈی ایس پی نے بےبسی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر پروفیسر کی طرف دیکھنے لگا۔
“میں جس قوت کے حصار میں ہر وقت رہتا ہوں وہ میری توہین نہیں برداشت کر سکتی۔ مرنے والا زبردستی نہیں لایا گیا۔ اپنی خوشی سے ریکھا کے مقابل رقص کرنے آیا تھا۔ مجھے علم ھے کہ وہ کس کا بیٹا تھا۔!“
“میں پوچھ رہا ہوں کہ اسے کیا ہو گیا ھے۔۔۔۔؟“ ڈی ایس پی نے ماتحت کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔
“ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔!“ پروفیسر نے لاپروائی سے کہا۔ “میری آنکھیں ایسی گستاخانہ نظروں کو اسی طرح کچل کر رکھ دیتی ہیں۔!“
“ڈاکٹر کو فون کرو۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی نے دوسرے آفیسر سے کہا اور وہ باہر چلا گیا۔
“ڈاکٹر اسے ہوش میں نہیں لا سکے گا۔!“
“پروفیسر۔۔۔۔ مجھے غصہ نہ دلاؤ۔۔۔۔!“