نادیدہ ہمدرد (صفحہ 42 تا 61)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسن علوی

محفلین
صفحہ:42


تو کیا میں نے اسے مار ڈالا۔۔۔۔۔۔مرنا ہوتا ھے تو سب ہی مر جاتے ہیں۔ اسے مرنا تھا مسٹر پولیس مین۔۔۔۔ وہاں نہ مرتا کہیں اور مر جاتا۔۔۔!“




“تم حد سے بڑھ رھے ہو۔۔۔۔۔ مجبوراً تمہیں حراست میں لینا پڑے گا۔!“




“یہ بھی کر کے دیکھ لو۔۔۔۔۔ایک گھنٹے سے زیادہ مجھے مہمان نہ رکھ سکو گے۔“ شعبدہ گری میرا پیشہ ھے لیکن جد وقت یہاں کے ڈپٹی کمشنر کو معلوم ہوگا کہ میں تمہاری حراست یں ہوں تو تمہاری کارکردگی کا ریکارڈ گندہ ہو جائے گا۔!“




“دیکھا جائے گا۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی غرا کر ایک ماتحت سے بولا۔ “بند کر دو۔!“




جیسے ہی وہ اٹھا پروفیسر کی نظر اس کے ہرے پر جم گئی۔ وہ جہاں تھا وہیں جم گیا اور سحر زدہ کی طرح پروفیسر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر دھم سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر پسینے کی دھاریں رواں تھیں اور آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی جارہی تھیں۔




“یہ کیا ہوا۔۔۔۔!“ صی ایس پی بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “یہ تم نے کیا کیا۔۔۔۔؟“




“میں نے کچھ نہیں کیا۔!“ پروفیسر نے مضحکہ خیز انداز میں کہا۔ “اتنی دور بیٹھا ہوا ہوں۔!“




ماتحت آفیسر کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔ ڈی ایس پی نے بےبسی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر پروفیسر کی طرف دیکھنے لگا۔




“میں جس قوت کے حصار میں ہر وقت رہتا ہوں وہ میری توہین نہیں برداشت کر سکتی۔ مرنے والا زبردستی نہیں لایا گیا۔ اپنی خوشی سے ریکھا کے مقابل رقص کرنے آیا تھا۔ مجھے علم ھے کہ وہ کس کا بیٹا تھا۔!“




“میں پوچھ رہا ہوں کہ اسے کیا ہو گیا ھے۔۔۔۔؟“ ڈی ایس پی نے ماتحت کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا۔




“ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔!“ پروفیسر نے لاپروائی سے کہا۔ “میری آنکھیں ایسی گستاخانہ نظروں کو اسی طرح کچل کر رکھ دیتی ہیں۔!“




“ڈاکٹر کو فون کرو۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی نے دوسرے آفیسر سے کہا اور وہ باہر چلا گیا۔




“ڈاکٹر اسے ہوش میں نہیں لا سکے گا۔!“




“پروفیسر۔۔۔۔ مجھے غصہ نہ دلاؤ۔۔۔۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 43

“مناسب ہوگا کہ تم بھی اپنا لہجہ ٹھیک رکھو۔۔۔۔!“




“تم قانون کے ایک محافظ سے ہمکلام ہو۔!“




“مجھ سے ابھی تک کوئی غیر قانونی فعل سرزد نہیں ہوا۔!“ پروفیسر نے لاپروائی سے شانوں کو جنبش دی۔




دفعتاً ریکھا بولی۔ “پروفیسر پلیز۔۔۔۔!“




وہ بیہوش آفیسر کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔




“اچھا۔۔۔۔!“ پروفیسر سر ہلا کر بولا۔ پلکیں جھپکائےئ بغیر بیہوش آفیسر کی طرف دیکھنے لگا۔




پہلے اس کی بند آنکھیں متحرک ہوئی تھیں پھر پیشانی پر شکنیں نمودار ہوئیں اور ہلکی سی کراہ کے ساتھ اسکا پورا جسم ہل کر رہ گیا۔ ڈی ایس پی کبھی پروفیسر کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی آفیسر کی طرف۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھولیں۔ چند لمحے یونہی پڑا رہا پھر یک بیک سیدھا ہو بیٹھا۔




“کیا ہوا تھا۔۔۔۔کیا بات تھی۔۔۔۔۔؟“ ڈی ایس پی نے اسے مخاطب کیا۔




“اوہ۔۔۔۔کک کچھ نہیں جناب۔۔۔۔شاید سر چکرا گیا تھا۔!“




اتنے میں وہ آفیسر بھی آگیا جو ڈاکٹر کےلیئے فون کرنے گیا تھا۔




ٹھیک اسی وقت پر آفیسر اٹھتا ہوا بولا۔ “اچھا مسٹر ڈی ایس پی میں تو چلا اب۔۔۔۔وارنٹ کے بغیر تم مجھے گرفتار نہیں کر سکو گے اور اب میں کسی قسم کی بھی جواب دہی کے لیئے ہیڈ کوارٹر نہیں آؤں گا۔!“




“اچھی بات ھے۔۔۔۔ اب یہی ہوگا۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی غرایا۔




“بائی۔۔۔۔بائی۔۔۔۔۔!“ دروازے کے قریب پہنچ کر پروفیسر نے ہاتھ ہلایا تھا۔




ریکھا چودھری بھی اسی کے ساتھ چلی گئی تھی۔




“اس کا ریکارڈ آ گیا ھے جناب۔۔۔۔!“ اس آفیسر نے کہا جو کچھ دیر پہلے باہر گیا تھا۔




“کہاں ھے۔۔۔؟“



“آفس میں۔۔۔!“


“تم نے دیکھا۔۔۔؟“

“یس سر! آپ اس کے لیئے آسانی سے وارنٹ حاصل نہ کر سکیں گے۔ ججوں اور مجسٹریٹوں کی انکھوں کا تارا ھے۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 44

“پتہ نہیں تم کیا بکواس کر رھے ہو۔۔۔۔!“




“جسٹس فضل کریم اس کے گہرے دوستوں میں سے ہیںِ یہ میں پہلے سے جانتا تھا اس کا نام ابھی ابھی ریکارڈ میں دیکھا ھے۔ کرنل جبار غزنوی دوسری جنگ عظیم میں افریقہ کے محاذ پر لڑ چکا ھے۔ یہاں کے بہتیرے سولین آفیسر اس کے ماتحت رہ چکے ہیں۔!“




“اوہ۔۔۔۔!“ ڈی ایس پی اٹھ گیا۔




---------------------------------------------------------





فون کی گھنٹی بجی اور عمران نے ہاتھ برھا کر ریسیور اٹھا لیا۔




“ہیلو۔۔۔۔!“




“ہیلو ہینڈسم۔۔۔۔!“ دوسری طرف سے نسوانی آواز آئی۔




“آپ کی تعریف۔۔۔۔؟“




“عالیہ عمرانہ۔۔۔۔اتنی جلدی بھول گئے۔!“




میں تو سمجھتا تھا کہ شاید اب کبھی ملاقات نہ ہو۔!“




“حالانکہ تم نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا۔۔۔۔۔!“




“کیا تو تھا۔۔۔۔لیکن آجکل کسی بات پر یقین نہیں آرہا۔۔۔۔!“




“کیوں۔۔۔۔؟ کیا ہوا۔۔۔۔!“




“دال ترکاری نے عقل خبط کر کے رکھ دی ھے۔!“




“اپنا بکرا خود ذبح کرنا سیکھو۔۔۔۔!“




“بکرے کی ماں جو خیر مناتی رہتی ھے۔ ترس آجاتا ھے۔۔۔۔خیر اب تم آجاؤ اپنے معاملے کی طرف۔۔۔۔قصابوں سے تو میں سمجھ لوں گا۔۔۔۔۔بکرے کا گوشت چار آنے سیر نہ بکوا دیا تو کچھ نہ کیا۔!“




“دس بجے سی سائیڈ ہیون میں ملو۔۔۔!“




“ناک وہی رھے گی یا دوسری۔۔۔۔؟“




“میری ناک کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔!“




“خطرناک ھے۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 45

“ٹھیک دس بجے۔۔۔۔سی سائیڈ ہیون۔۔۔۔۔!“

“چار چار گاڑیاں میرے پیچھے دوڑتی ہیں اور یہ جلوس مجھے قطعی پسند نہیں آتا۔۔۔۔ تم مخود ہی کیوں نہ آجاؤ یہاں۔۔۔۔!“


“میری دانست میں یہی بہتر ہوگا۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔ “لیکن خیر۔۔۔۔دیکھا جائے گا۔!“


“کہو۔۔۔۔۔۔کہو۔۔۔۔۔کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔۔!“


“کچھ بھی نہیں۔۔۔۔!“ کہہ کر دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔


عمران ریسیور رکھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا تھا۔ نگرانی والے اب بھی موجود تھے۔


لیکن آج ان میں فرق کرنا دشوار تھا کہ کون فیاض کا آدمی ھے اور کون اس نامعلوم شخصیت سے متعلق ھے۔


اسے تو فی الحال فلیٹ تک ہی محدود رہنا تھا۔ ٹھیک دس بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ عمران نے جوزف کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا تھا۔ جوزف پلٹا تو اس کا منہ حیرت سے کھلا ہوا تھا۔

“ایک بوڑھی عورت۔۔۔۔!“ اس نے احمقانہ انداز میں اطلاع دی۔


“الحمدللہ۔۔۔۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔


“وہ تم سے ملنا چاہتی ھے باس۔۔۔۔!“


“اچھا۔۔۔۔!“ عمران نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ “بلاؤ۔۔۔۔۔اور بٹھاؤ۔۔۔۔۔ میں ذرا اپنا حلیہ درست کر آؤں۔۔۔۔!“


اس نے مسکرا کر جوزف کو آنکھ بھی ماری تھی۔ جوزف پر تو جیسے حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔

عمران دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ وہ چند لمحے بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ پھر صدر دروازے کی طرف بڑھا اور معمر خاتون سے بولا۔ “تشریف لایئے محترمہ۔۔۔۔۔!“

عورت بوڑھی ضرور تھی لیکن لباس کے معاملے میں جوانوں سے بھی زیادہ تیز معلوم ہوتی تھی۔

وہ جوزف کی طرف انگلی اٹھا کر بولی۔ “تمہارا مسٹر علی عمران سے کیا تعلق ہو ستکا ھے۔!“
“وہ میرے مالک ہیں۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 46

“لیکن تم تو صورت سے عقلمند معلوم ہوتے ہو۔!“

“آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔؟“ جوزف نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔

“کچھ نہیں۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔!“ وہ ہاتھ ہلا کر بولی۔ “ اسے جلدی بھیج دو میرے پاس وقت کم ھے۔!“

جوزف اس کمرے میں آیا جہاں عمران آئینے کے سامنے کھڑا خود کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

“اسے جلدی ھے باس۔۔۔۔!“ ان نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔

“کس عمر کی ہوگی۔۔۔۔۔؟“

“ساٹھ سال سے کم نہیں معلوم ہوتی۔۔۔۔!“

“ٹھیک ھے اس گھر کو اسی عمر کی عورت سنبھال سکتی ھے۔!“

“کک۔۔۔۔کیا مطلب باس۔۔۔۔۔۔؟“

“جلد ہی دیکھ لو گے کہ میں تم لوگوں سے کس قسم کا انتقام لینے والا ہوں۔!“ جوزف کچھ نہ بولا۔ حیرت سے اُسے دیکھتا رہا۔

“سٹنگ روم میں تمہاری موجودگی ضروری نہیں ہوگی۔!“ کمرے سے نکلتے وقت اس نے جوزف کو مخاطب کیا تھا۔

بوڑھی عورت آرام کرسی پر نیم دراز تھی۔ عمران کو دیکھ کر بھی اس کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔

“آخر کتنی دیر بعد ملاقات ہو سکے گی؟“ اس نے عمران کو گھورتے ہوئے غصیلے لہجے میں پوچھا۔

“کس سے۔۔۔۔؟“ عمران بولا۔


“مسٹر علی عمران سے۔۔۔۔!“

“اوہو۔۔۔ ٹھہریئے۔۔۔ابھی بھیجتا ہوں۔!“ عمران نے کہا اور پھر اسی کمرے میں آیا۔ ڈریسنگ میز کی دراز سے ریڈی میڈ میک اپ نکالا اور اسے ناک پر فٹ کرتا ہوا سٹنگ روم میں داخل ہوا۔

بوڑھی عورت اسے دیکھتے ہی بوکھلا کر کھڑی ہو گئی۔ پھولی ہوئی ناک کے نیچے گھنی مونچھوں کا سائبان خوفناک تھا۔

“کک۔۔۔کون۔۔۔۔؟“ وہ ہکلائی۔
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 47

“کس سے ملنا ھے آپ کو۔۔۔۔۔؟“ عمران میں بدلی ہوئی آواز میں پوچھا۔

“علی عمران سے۔۔۔۔!“
“تو پھر ملیئے۔۔۔۔آپ بہت خوبصورت ہیں۔!“

“تمیز سے بات کرو۔۔۔۔تم عمران نہیں ہو۔!“

“آپ کون ہیں۔۔۔۔۔؟“
“میں کوئی بھی ہوں تمہیں اس سے کیا سروکار۔۔۔۔۔۔!“

ٹھیک اسی وقت فون کی گھنٹی بجی اور عمران نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے کیپٹن فیاض کی آواز سنائی دی تھی۔
“عمران۔۔۔۔!“ وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں کہہ رہا تھا۔ “ڈاکٹر سجاد نے خود کشی کر لی۔!“

“کب۔۔۔۔؟“

“ابھی اطلاع آئی ھے۔!“

“افسوس ہوا۔ اگر تم میری راہ میں حائل نہ ہوتے تو اسکی نوبت نہ آتی۔!“

“اب تو۔۔۔۔۔۔کچھ نہ کچھہونا ہی چاہیئے۔ وہاں کی پولیس کچھ نہیں کر سکتی۔!“

“لیکن میں جو کچھ کروں گا اپنے طور پر کروں گا۔!“

“تمہاری مرضی۔۔۔۔۔میں پہلی فلائیٹ سے سردار گڈھ جا رہا ہوں۔!“ فیاض نے کہا۔

“جاؤ۔۔۔۔شاید وہیں ملاقات ہو۔۔۔۔۔ہاں خود کشی کی نوعیت کیا ھے۔!“

“گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر پھانسی لگا لی۔۔۔۔!

“گلا گھونٹنے کے بعد بھی لٹکایا جا سکتا ھے۔!“

“میں اسی کے امکان پر غور کر رہا ہوں۔!“

“اچھا میں دیکھوں گا کہ کیا کر سکتا ہوں۔!“ عمران نے کہا اور ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔

“ہاں۔۔۔۔۔۔۔تو عالیہ عمرانہ صاحبہ۔۔۔۔۔۔وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔!“ وہ بوڑھی عورت کی طرف مڑ کر بولا۔

“کک۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔؟“

“ڈاکٹر سجاد کو پھانسی دے کر خودکشی کا کیس بنا دیا گیا ھے۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 48

“وہ تو ہونا ہی تھا۔ اگر ت لوگ تیزی نہ دکھاتے وہ شاید زندہ ہوتا۔!“

“تم کس لیئے آئی ہو۔۔۔۔؟“

“کتنی بار پوچھو گے۔۔۔۔۔۔۔تم نے وعدہ کیا تھا۔!“

“اگر تم تمہارے والد بھی اسی طرح مارے گئے تو۔۔۔۔۔؟“

“اللہ مالک ھے۔۔۔۔میں تنگ آگئی ہوں اس زندگی سے۔!“

“اچھا تو پھر مجھے کہاں لے چلو گی۔۔۔۔۔؟“

“سردار گڈھ سے بیس میل ادھر ہی ہمارا فارم ھے۔!“

“سردار گڈھ سے بیس میل ادھر صرف ایک ہی فارم ھے۔ بریگیڈئیر سہراب کا فارم۔۔۔۔!“

“اوہ تو تم جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔!“
“تو کیا تم بریگیڈئیر سہراب کی بیٹی ہو۔۔۔۔۔؟“

دفعتاً اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا اور عمران بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔

جوزف بھی دوسرے کمرے کے دروازے میں آکھڑا ہوا تھا۔ عمران نے اسے ہٹ جانے کا اشارہ کیا۔ سلیمان اس وقت فلیٹ میں موجود نہیں تھا۔

“اس سے کیا فائدہ۔۔۔۔!“ عمران آگے بڑھتے ہوئے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے بولا۔ “پہلے اس کےلیئے کام کرنے پر مجبور تھیں۔ اب اپنے لیئے بھی تھوڑی سی ہمت پیدا کرو۔۔۔۔!“

“مم۔۔۔۔میں خائف ہوں عمران۔۔۔۔اپنے لیئے نہین اپنے باپ کےلیئے۔۔۔۔۔ان کے بعد انیا میں بالکل تنہا رہ جاؤں گی۔ انہوں نے ایک ماں کی طرح میری پرورش کی ھے۔!“

“فکر نہ کرو۔۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔!“

“مگر تم ابھی شاید کیپٹن فیاض سے وعدہ کر چکے ہو۔!“

“اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ معاملہ ایک ہی گروہ کا ھے۔!“

“لیکن جس خدشے کے تحت فیاض نے تمہیں سردار گڈھ نہیں جانے دیا وہی میرے لیئے بھی موجود ھے۔!“

“میں کہتا ہوں تم قطعی فکر نہ کرو۔۔۔۔۔میں کسی نہ کسی طرح تمہارے فارم تک پہنچ ہی جاؤں‌ گا۔ لیکن ایک دشواری ضرور پیش آئے گی۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 49

“وہ کیا۔۔۔۔؟“ لڑکی چونک کر اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔

“ضروری نہیں کہ تمہارے ڈیڈی اس مسئلے پر گفتگو کے لیئے آمادہ ہو جائیں۔!“

“ارے ان کے سامنے تو نام بھی نہ لینا۔۔۔۔!“

“پھر بات کیسے بنے گی؟“

“کیا تم کسی اور طرح مجرم تک نہیں پہنچ سکو گے۔!“

“دیکھوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔!“ عمران نے پُر تفکر لہجے میں کہا۔ “بس اب تم جاؤ زیادہ دیر تک تمہارا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔!“

“میں دراصل کسی نہ کسی طرح تمہیں اپنے ساتھ ہی لےجانے آئی تھی۔ لیکن ڈاکٹر سجاد کے بارے میں معلوم کرکے ہمت چھوڑ بیٹھی۔!“

“میرے لیئے بس اتنہ ہی معلومات کافی ہیں کہ معاملہ بریگیڈئیر سہراب کا ھے اور تم انکی بیٹی ہو۔!“

“تو پھر بہتری کی امید رکھوں۔۔۔۔!“

“صد فی صد۔۔۔۔!“

“لیکن فارم میں مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے گی۔!“

“کیوں۔۔۔۔۔؟“

“اسی بلیک میلر کا حکم ھے کہ فارم میں دور دور رہوں۔۔۔۔۔۔!“

“بڑی عجیب بات ھے اور تمہارے باپ کو معلوم ھے کہ تم کو اس کےلیئے کام کرنا پڑتا ھے۔!“

“ہاں۔۔۔۔آں۔۔۔۔۔۔۔!“

“اتنے زیادہ خائف ہیں۔۔۔۔!“

“ہاں۔۔۔۔۔۔۔ میں یہی سمجھتی ہوں۔!“

“بہر حال۔۔۔۔تم ان سے دور رہتی ہوگی۔!“

“مجھے ویرانے کی زندگی پسند نہیں۔ اس لیئے سردار گڈھ ہی رہتی ہوں۔!“

“وہ بلیک میلر تم سے رابطہ کس طرح قائم کرتا ھے۔!“

“فون پر۔۔۔۔۔!“

“آسانی سے پتہ لگایا جا سکتا ھے کہ وہ کہاں سے فون کرتا ھے۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 50

“سوال یہ ھے کہ پتہ کون لگائے گا۔ اس انداز کی گفتگو ہی نہیں ہوتی کہ ایکس چینچ ہی والوں کو چوکنا پڑے۔ وہ فون پر صرف یہ اطلاع دیتا ھے کہ کسی کام کےلیئے ہدایات کہاں سے ملیں گی۔!“

“مثال کے طور پر بتاؤ کہ مجھے اور کیپٹن فیاض کو اس فارم تک پہنچانے کےلیئے کس طرح ہدایات ملی تھیں۔!“

“فون پر صرف اتنی سی بات کی گئی تھی کہ تمہارے برآمدے میں ستون کے قریب رکھے ہوئے پام کے گملے کے نیچے لفافہ موجود ھے۔!“

“اوہ۔۔۔۔۔تو ہدایات تحریری ہوتی ہیں۔!“

“ہاں۔۔۔۔فون پر کوئی ایسی بات نہیں کہی جاتی۔ جس پر خاص طور سے مشتبہ کیا جا سکے یا توجہ دی جا سکے۔!“

“محفوظ طریقہ ھے۔۔۔۔۔۔!“ عمران نے پُر تفکر لہجے میں کہا۔ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا-“کیا تم اس وقت محض یاد دہانی کےلیئے آئی تھیں۔!“

“نہیں۔ اس لیئے آئی تھی کہ تمہیں ساتھ لے چلوں گی۔ لیکن اب ارادہ بدل دیا ھے-!“

“بھلا کس طرح ساتھ لے جاتیں۔۔۔۔؟“

“ایک ایسے آدمی کے میک اپ میں جو گروہ کےلیئے کام کرتا ھے۔ لیکن آج کل یہاں موجود نہیں ھے۔ وہ ایک آدھ بار میرے ساتھ بھی کام کر چکا ھے۔ اس کی تصویر ھے میرے پاس۔ میرا خیال ھے کہ اس تصویر کے سہارے میک اپ کر سکو گے۔ اگر تمہیں کچھ دشواری ہوگی تو میں مدد کروں گی۔!“

“تصویر نکالو۔۔۔۔۔!“

اس نے وینٹی بیگ سے ایک تصویر نکال کر عمران کی طرف بڑھا دی اور وہ اسے کچھ دیر غور سے دیکھتے رہنے کے بعد بولا۔“میک اپ ممکن ھے مگر اس کا نام کیا ھے۔۔۔۔۔۔۔؟“

“میں اسے آرتھر کے نام سے جانتی ہوں۔۔۔۔۔!“

“خیر۔۔۔۔۔ تو اب میرے لیئے کیا تجویز ھے۔!“

“تم اسی شکل میں کچھ دن ڈیڈی کے فارم پر گزار سکتے ہو وہ اسے اس شخص کے ملازم کی حیثیت سے جانتے ہیں اس لیئے انہیں وہاں تمہارے قیام پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 51

چوہان اور خاور پروفیسر ایکس کی نگرانی کر رھے تھے۔ وہ اپنی رپورٹ جولیا کو دیتے تھے اور جولیا اسے ایکس ٹو تک پہنچاتی تھی۔ جولیا کا قیام ایک ایسے ریسٹ ہاؤس میں تھا جو غیر ملکی سیاحوں کےلیئے وقف تھا۔ مقامی لوگوں کو وہاں نہیں ٹھہرنے دیا جاتا تھا۔

بہرحال اس وقت وہ دونوں پروفیسر کا تعاقب کر رھے تھے۔ دونوں ایک ہی گاڑی میں تھے۔

“کیا خیال ھے تمہارا وہ بے مقصد گھومتا پھر رہا ھے یا نہیں۔۔۔۔۔؟“ خاور بڑبڑایا۔

“ایسا ہی معلوم ہوتا ھے۔!“ چوہان بولا۔

“اگر ایسا ھے تو شاید اسے تعاقب کا علم ہو گیا ھےاور وہ اس سلسلے میں اپنا شبہہ رفع کرنا چاہتا ھے۔ لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی گاڑی کسی اور طرف موڑ لیں۔!“

“ایسی صورت میں یہی مناسب ہوگا۔!“

خاور نے گاڑی ایک کافی شاپ کے سامنے روک دی اور پروفیسر کی گاڑی آگے نکل چلی گئی۔ چوہان نے کافی شاپ کے بیرے کو اشارے سے بلا کر گاڑی ہی میں دو کپ طلب کئے اور خاور سے بولا۔ “اس وقت وہ خلاف معمول تنہا تھا سیکریٹری ساتھ نہیں تھی۔!“

“ایسے جانگلوش کے ساتھ وہ اچھی نہیں لگتی۔!“ خاور نے جماہی لےکر کہا۔

“لیکن وہ سرخ رنگ کی گاڑی پھر اس کے بنگلے میں دکھائی نہیں دی۔!“

“میں اس طرف دھیان نہیں دیا۔!“

“وہ صرف اسی دن بنگلے کی کمپاؤنڈ میں کھڑی نظر آئی تھی۔ جب صفدر کو زبردستی لےجایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے نہیں دکھائی دی۔!“

“ہو سکتا ھے رنگ تبدیل کر دیا گیا ہو۔!“

“اس ماڈل اور میک کی کسی دوسرے رنگ والی گاڑی بھی اب وہاں نہیں ھے۔ تین دن سے تو ہم ہی دیکھ رھے ہیں۔!“
اتنے میں بیرا کافی لے آیا اور وہ خاموشی سے کافی یپیتے رھے۔

شام کے چار بجے تھے۔۔۔۔۔۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔

“اگر کوئی کام نہ ہو تو سردار گڈھ بڑی خوبصورت جگہ ھے۔!“ چوہان بولا۔
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 52

“مگر ابھی تک اس کام کی نوعیت میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔!“ خاور نے کہا۔

“کیوں نہ پروفیسر کی سیکریٹری سے مل بیٹھنے کی کوشش کی جائے۔ شاید اس طرح کام کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکے۔!“

“نہیں۔۔۔!“ خاور نے سر ہلا کر بولا۔ “جتنا کہا گیا ھے اس سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔!“

کافی کے برتنوں کی واپسی کے ساتھ انہوں نے بل کی ادائیگی بھی کی اور وہاں سے چل پڑے۔ پروفیسر کے بنگلے سے ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے چوبی ہٹوں کی ایک مختصر سی بستی تھی۔ جہاں زیادہ سیاح ٹھہرا کرتے تھے۔ ان دونوں نے بھی وہیں ایک ہٹ حاصل کر لیا تھا اور ان میں سے کوئی ایک ہر وقت پروفیسر کے بنگلے کی نگرانی کرتا رہتا تھا۔ یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا تھا جب صفدر کو زبردستی سرخ رنگ کی ایک کار میں کہیں لے جانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس سے پہلے دونوں صفدر ہی کی نگرانی پر لگائے گئے تھے۔ لیکن صفدر کو اس کا علم نہیں تھا۔ ویسے صفدر کی نگرانی کا مقصد یہی تھا کہ اس سے دو چار ہونے والوں پر نظر رکھی جائے لہٰذا ان کو اس کی فکر نہیں تھی کہ صفدر کو ویرانے میں کیوں اتارا گیا۔ وہ تو بس اس گاڑی کا تعاقب کرتے رھے تھے اور پھر وہ گاڑی پروفیسر کے بنگلے کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی تھی۔

انہوں نے اپنی رپورٹ ایکس ٹو تک پہنچائی اور وہاں سے ملی ہوئی ہدایت کے مطابق پروفیسر کے بنگلے کے قریب ہی رہائش اختیار کرلی تھی لہٰذا اس وقت وہیں ان کی واپسی ہوئی۔

جیپ ہٹ کے سامنے روک کر وہ نیچے اترے اور ہٹ کا مقفل دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے ہی والے تھے کہ بائیں جانب سے آواز آئی۔

“اپنے ہاتھ اوپر اٹھاؤ اور چپ چاپ اندر چلے چلو۔۔۔۔۔۔!“

خاور نے مڑ کر دیکھا۔ ایک آدمی انکی طرف ریوالور اٹھائے کھڑا تھا۔ مشینی طور پر انکے ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔ دائیں جانب بھی ایک مسلح آدمی کھڑا انہیں گھور رہا تھا۔ دونوں چپ چاپ ہٹ میں داخل ہوگئے۔ انکے پیچھے دونوں مسلح آدمی بھی تھے۔

“بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔!“ ان میں سے ایک بولا۔

“یہ کتنی دیر میں بتاؤ گے اس پاگل پن کا مقصد کیا ھے۔!“ خاور نے انہیں گھورتے ہوئے کہا۔

“بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 53

“شکریہ۔۔۔۔!“ ‌خاور نے لاپروائی سے طنزیہ لہجے میں کہا اور دونوں بیٹھ گئے۔



مسلح آدمیوں ‌میں سے ایک دروازے ہی کے قریب رک گیا تھا۔ شاید اندر اور باہر دونوں اطراف میں نظر رکھنا چاہتا تھا۔ دوسرا انہیں چند لمحے خونخوار نظروں سے گھورتا رہا پھر بولا۔ “تم دونوں پروفیسر صاحب کی سیکریٹری کا پیچھا کیوں کرتے ہو۔۔۔۔۔۔؟“

“تم نشے میں تو نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔!“ خاور غرایا۔

“میرے سوال کا جواب دو۔۔۔۔۔۔۔!“ وہ ریوالور کو جنبش دے کر سرد لہجے میں بولا۔

“کون پروفیسر اور کیسی سیکریٹری۔۔۔۔۔۔؟“

“اڑنے کی کوشش نہ کرو۔۔۔۔۔۔تمہیں اپنے بارے میں بتانا ہی پڑے گا۔!“

“ہمارے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔؟“ چوہان بول پڑا۔

“ریکھا چودھری کا تعاقب کیوں کرتے ہو۔۔۔۔۔۔؟“

“ہمارے لیئے یہ نام نیا ھے۔!“

“میں پروفیسر ایکس کی سیکریٹری کی بات کر رہا ہوں۔!“

“اچھا۔۔۔۔۔؟“ خاور نے قہقہہ لگایا اور چوہان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ قہقہے کے اختتام پر خاور نے کہا۔ “یہ کہو نا کہ اس شعبدہ باز کا قصہ ھے۔۔۔۔۔بھئی اس بھینسے کے ساتھ وہ ننھی سی خوبصورت فاختہ کچھ اچھی نہیں لگتی۔!“

“میرا خیال ھے کہ تم دونوں کی مرمت ضروری ھے۔!“

“پروفیسر ایکس کی طرف سے“ چوہان نے پوچھا۔ لیکن وہ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اپنے ساتھی سے بولا۔“انہیں کور کئے رکھو۔ میں انکی مرمت کروں گا۔!“

پھر اس نے اپنا ریوالور اور بغلی ہولسٹر میں رکھ لیا تھا۔

خاور نے چوہان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ہی تھا کہ وہ انکے قریب پہنچ کر بولا۔“تم دونوں کھڑے ہو جاؤ۔!“

“ضروری نہیں ھے کہ ہم تمہارے کہنے سے کھڑے ہی ہو جائیں۔!“ خاور مسکرا کر بولا اور ساتھ ہی اچھل کر اسکے سینے پر ایک زوردار لات رسید کی۔ وہ اچھل کر اپنے ساتھی پر جا پڑا جس نے انہیں کور کر رکھا تھا۔دونوں تلے اوپر فرش پر ڈھیر ہوگئے۔ ریوالور نیچے والے کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر پھسلتا چلا گیا۔ چوہان نے جھپٹ کر اسے اٹھا لیا تھا اور انہیں کور کرتا ہوا بولا۔ “بس۔۔۔۔ یونہی چپ چاپ پڑے رہو۔ ہم بھی اس کا استعمال جانتے ہیں۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 54

خاور آگے بڑھا اور جھک کر دوسرے آدمی کی بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکالتا ہوا بولا۔ “اب سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔!“

انہوں نے چپ چاپ تعمیل کی تھی۔!

“اب بتاؤ کہ تمہیں کس نے بھیجا ھے۔!“ خاور نے سرد لہجے میں پوچھا۔

“کسے نے بھی نہیں۔۔۔۔!“ ایک بولا۔

“تو پھر کیا تم خدائی فوجدار ہو۔!“

“نن۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی ریکھا چودھری کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔!“

“خوب۔۔۔۔۔!“ خاور طنزیہ لہجے میں بولا۔ “‌اس وقت تمہاری محبت یا غیرت کو کیا ہو جاتا ھے جب ہزاروں کے سامنے اسٹیج پر اپنے کرتب دکھاتی ھے۔!“

“وہ اور بات ھے۔۔۔۔۔۔!“

“ہم تمہاری ہڈیاں توڑ دیں گے ورنہ اس کا اعتراف کر لو کہ تمہیں پروفیسر نے بھیجا ھے۔!“

چوہان نے ریوالور کو جنبش دے کر کہا۔

“کسی غلط بات کا اعتراف کیسے کر لیا جائے۔ پروفیسر ہمیں جانتا تک نہیں۔!“

“اچھی بات ھے۔۔۔۔۔۔ تو پھر ہم تمہیں پولیس کے حوالے کئے دیتے ہیں۔!“

“نن۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔!“

“کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا تم ہماری تاج پوشی کےلیئے آئے تھے۔!“

“بس اب ہم تم سے نہیں الجھیں گے۔!“

“ان ریوالوروں کے لائسنس ہیں تمہارے پاس۔۔۔۔۔۔۔؟“

“دیکھو مسٹر۔۔۔۔۔۔!“ دوسرا بولا۔ “تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم نے ان ریوالوروں کو اس سے پہلے کبھی دیکھا تک نہیں۔ تم ہمیں راہ چلتے پکڑ کر یہاں لائے ہو اور زبردستی ہم سے پانچ ہزار چھین لیئے۔!“

“رسید بھی لکھ دیں گے پانچ ہزار کی۔۔۔۔۔!“ خاور ہنس کر بولا پھر چوہان کی طرف دیکھ کر بولا۔ “ یہ لوگ ہمیں شریف آدمی سمجھتے ہیں۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 55

“دراصل ہم یہی تو معلوم کرنا چاہتے تھے کہ تم کیسے لوگ ہو۔!“ دوسرا جلدی سے بول پڑا اور خاور نے اسے گھورتے ہوئے سوال کیا۔ “آخر کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟“

“ہم نہیں چاہتے کہ اس لڑکی کے سلسلے میں بہت زیادہ جانیں ضائع ہوں۔!“

“کیامطلب۔۔۔۔۔۔!“

“اس کے پیچھے پڑنے والے حیرت انگیز طور پر مرجاتے ہیں۔ کیا تمہیں اس جوان کا حشر یاد نہیں جو اس کے مقابل رقص کرتے کرتے مر گیا تھا۔!“

“اس سے پہلے کتنے لوگ مرے تھے۔!“

“گنتی بھی یاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بس سمجھ لو کہ بےشمار۔۔۔۔۔۔!“

“کیا مطلب۔۔۔۔؟“

“پستول دکھا کر ہمیں زندہ رکھنا چاہتے تھے۔!“

“اچھا تو تمہارا جو دل چاہے کرو لیکن ہمیں روک نہ سکو گے۔!“

خاور چوہان سے بولا۔ “تم انکے ہاتھ پیر باندھو اور منہ پر ٹیپ چپکا کر دوسرے کمرے میں ڈال دو۔!“

“اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ہم پولیس کے سامنے اپنے اسی بیان پر جمے رہیں گے کہ تم دونوں نے ہمیں لوٹ لیا۔!“

“اگر تم کبھی پولیس کا منہ دیکھ سکے تب نا۔۔۔۔۔۔۔!“ خاور نے سرد لہجے میں بولا۔

“میں پھر سمجھتا ہوں کہ بڑے خسارے میں رہو گے۔!“

“فرض کرو ہمارا تعلق پولیس سے ہی ہو تو۔۔۔۔۔۔!“ چوہان اسے گھورتا ہوا بولا۔

“معلوم نہیں ہوتا۔!“

“فضول وقت نہ ضائع کرو۔!“ خاور بولا۔ “میں نے جو کچھ کہا ھے وہی کرو۔!“

“میری تجویز اس سے مختلف ھے۔!“ چوہان نے کہا۔ “باندھ کر ڈالے رکھنے سے کیا فائدہ۔ گولی مارو اور انکے ریوالور بھی انکے قریب ہی چھوڑ کر نکل چلو۔ لاشیں سڑنے اور بدبو پھیلنے میں تین دن لگ جائیں گے اور اتنے میں ہم اپنا کام بھی نپٹا دیں گے۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 56

“نہیں۔۔۔۔۔!“ وہ دونوں خوفزدہ آواز میں بولے اور پھر ایک نے تھوک نگل کر کہا۔ “ہم سب کچھ بتا دیں گے۔!“

“بس تو پھر بتانا شروع کردو۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔!“ خاور بولا۔

“ہمیں یہ معلوم کرنے کےلیئے بھیجا گیا تھا کہ تم لوگ کون ہو اور پروفیسر کا تعاقب کیوں کرتے ہو۔ اس کی سیکریٹری کی بات تو اپنے طور پر کہی تھی۔!“

“کس نے بھیجا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔؟“

“کاش ہمیں معلوم ہوتا۔!“ وہ دادنت پیس کر بولا۔

“کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔؟“

“ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ھے۔!“

“بلیک میل ہو رھے ہو۔!“

“نہیں خوفزدگی کی بناء پر ہمیں اس کے لیئے کام کرنا پڑتا ھے۔۔۔۔۔ وہ جان سے مار دینے کی دھمکیاں

دیتا ھے۔!“

“وہ کس طرح۔۔۔۔۔۔۔؟“

“پہلے پہل فون پر گفتگو ہوئی تھی اور اس نے کہا کہ جو لوگ میرے لیئے کام کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ پُر اسرار طور پر مر جاتے ہیں۔ پھر اس نے دو چار مرنے والوں کے نام بھی لیئے تھے۔!“

“اور تم سے یہ کام مفت میں لیئے جاتے ہیں۔!“

“جی ہاں۔۔۔۔۔۔ میں نے اسکی آواز بھی ریکارڈ کرلی ھے جس کا ٹیپ میرے پاس موجود ھے۔ اس میں مختلف اوقات کے احکامات ہیں۔!“

“اچھی بات ھے۔۔۔۔۔ اگر تم وہ ٹیپ ہمارے حوالے کردو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے اور تم اس سے یہی کہہ دینا کہ ہم پروفیسر کی سیکریٹری کے چکر میں ہیں۔!“

“ہاں۔۔۔۔۔ یہ ٹھیک رھے گا۔!“ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ “لیکن ٹیپ میرے گھر پر ھے۔!“

“چلو ۔۔۔۔۔۔ میں چلوں گا تمہارے ساتھ اور تمہارا ساتھی ٹیپ ملنے تک یہیں‌رھے گا۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 57

فیاض فون پر آیا تو آمادہ ہو گیا تھا کہ وہ تنہا سردار گڈھ چلا جائے گا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد عمران کے فلیٹ میں پہنچ گیا تھا۔ وہ پُر اسرار لڑکی جا چکی تھی۔ عمران تنہا تھا۔

“ہم ساتھ چلیں گے۔!“ فیاض نے کہا۔ “دو گھنٹے بعد والی فلائٹ پر دو نشستوں کا انتظام ہو گیا ھے۔!“

“اچھی بات ھے۔!“ عمران طویل سانس لے کر بولا۔ “میرا پروگرام دوسرا تھا مگر اب تمہارے ہی ساتھ چلوں گا۔!“

فیاض کچھ نہ بولا۔ بہت مغموم تھا۔ عمران نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ “اب بھی اپنی زبان نہ کھولو گے۔!“

“سنو۔۔۔۔۔۔۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جانتا سجاد نے فون پر مجھے بتایا تھا اس نے بتایا تھا کہ وہ خطرے میں ھے۔ کچھ لوگ اسے دھمکیاں دے رھے ہیں۔ لہٰذا میں کسی طرح اس کے پاس پہنچ جاؤں۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا تھا تم جانتے ہی ہو۔!“

“پھر براہ راست ہمیں دھمکی دی گئی تھی کہ ہم سردار گڈھ سے دور رہیں۔!“

“اب کیا باقی رہا ھے جس کےلیئے احتیاط برتی جائے گی۔!“ فیاض نے طویل سانس لےکر کہا۔

عمران کا پہلے بھی ارادہ نہیں تھا کہ اس لڑکی کے مشورے پر عمل کرے گا۔ البتہ تصویر لےکر رکھ لی تھی۔

دو بجے دونوں ایئر پورٹ پر پہنچ گئے۔ دونوں خاموش تھے۔ جہاز نے دو بج کر بس منٹ میں ٹیک آف کیا اور ٹھیک پچیس منٹ بعد سردار گڈھ کے ایئر پورٹ پر اتر گیا۔ وہ وہاں سے سیدھے ڈاکٹر سجاد کے گھر پہنچے تھے۔ گھر والوں سے اس کے علاوہ اور کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ ڈاکٹر سجاد بہت زیادہ پریشان رہا کرتا تھا۔ لیکن اس نے پریشانی کی وجہ کسی کو نہیں بتائی تھی۔

لاش کا پوسٹ مارٹم غیر ضروری سمجھا گیا تھا اور وہ تدفین کےلیئے تیار تھی۔

“میری دانست میں پوسٹ مارٹم تو ہونا ہی چاہیئے تھا۔!“ فیاض بولا۔

“کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صد فیصد خود کشی ہی کا کیس ثابت ہوگا۔!“ عمران نے کہا۔ “وہ لوگ بے حد چالاک ہیں۔ لہٰذا انہیں اسی خوش فہمی میں مبتلا رہنے دو کہ ڈاکٹر سجاد نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔!“

“کیا مطلب۔۔۔۔۔؟“ فیاض چونک کر اسے غور سے دیکھنے لگا۔

“بتا دوں گا۔۔۔۔۔ فی الحال میری خاموشی ہی بہتر ھے۔!“

“تمہاری مرضی۔۔۔۔۔!“ فیاض نے طویل سانس لی۔
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 58

“تم نے مجھے چاروں طرف سے جکڑ رکھا تھا اس کے باوجود بھی تھوڑا بہت کام تو ہوا ہی ھے۔!“

“مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ لیکن میں کیا کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ہی بتاؤ!“

“اب یہ عالم ھے کہ مجرم قانون کے محافظوں کو چیلنج کرنے لگے ہیں۔!“

“معمولی چور نہیں معلوم ہوتا۔ ایسا ہی ہوگا کہ تم اس پر ہاتھ ڈالنا چاہو اوپر والے تمہارا گلہ دبا دیں گے۔!“

“میرا بھی یہی خیال ھے۔!“

“اب دوسری بات سب سے زیادہ اہم ھے۔ سوال پیدا ہوتا ھے کہ اس نے آخر ہمیں چھڑا ہی کیوں؟ ظاہر ھے سجاد اس بات کو آگے بڑھاتا بھی تو یہ ضروری تو نہیں تھا کہ ہم اس تک پہنچ ہی جاتے۔ اب یہی دیکھ لو کہ وہ ہم کو للکار چکا ھےلیکن ہم ابھی تک کچھ نہیں کر سکے۔!“

“ہاں۔۔۔۔۔ یہ بات تو ھے۔!“

“اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ھے۔!“

“کیا۔۔۔۔۔۔؟“ فیاض اسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔

“جس معاملے کو اس نے سجاد کے توسط سے چھپائے رکھنے کی کوشش کی وی دراصل اس تک ہماری رنمائی کرسکتا ھے۔!“

“میں تو یہ نہیں جانتا کہ سجاد کن حالات سے دو چار تھا۔!“

“اگر تم جانتے ہو تو اس کا مطلب ہوا کہ مجرم سے بھی لا علم نہ ہوگے۔!“

“افسوس تو اسی کا ھے کہ اب بھی وہیں ہوں جہاں پہلے تھا۔ لیکن مجھے یقین ھے کہ وہی معاملہ مجرم تک پہنچنے میں مدد دے گا۔!“

“کوئی اور موقع ہوتا تو فیاض عمران کے سر ہوجاتا۔ لیکن اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ سجاد کے معاملے کی نوعیت کیا تھی۔!“

سجاد کی تدفین کے بعد فیاض نے تو پولیس ہیڈکوارٹر کا رُخ کیا تھا اور عمران اپنے ماتحتوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 59

سردار گڈھ روانہ ہونے سے قبل بحیثیت ایکس ٹو، جولیا، خاور اور چوہان کو مطلع کر چکا تھا کہ اب وہ اپنی رپورٹیں سردار گڈھ میں ہی عمران کو دیں گے اور وہ خود ہی ان سے رابطہ قائم کرلے گا۔!

وہ اس ہٹ تک جاپہنچا جہاں یہ دونوں مقیم تھے۔

“چلو۔۔۔۔۔۔۔بوریت تو دور ہوئی۔!“ خاور اسے دیکھ کر چہکا۔

“تم لوگ روز بروز بے حد کنجوس ہوتے جا رھے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی ٹھہرنے کی جگہ ھے۔!“

عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔

“ہم ڈیوٹی پر ہیں۔ تعطیلات گذارنے نہیں آئے۔!“ چوہان بولا۔

“اچھا اب کام کی بات کرو۔ ہوسکتا ھے اس کے بعد تمہیں کہیں اور جانا پڑے اور میں خود ہی اسے چوہے دان میں رہ پڑوں۔ سنا ھے کہ پروفیسر ایکس کی سیکریٹری بہت دیدہ زیب ھے۔!“

“آپ جیسے قلندروں کےلیئے اس سے کیا فرق پڑے گا۔!“

“ایسا نہ کہو۔۔۔۔۔! بہت دنوں سے کسی شربت کی بوتل کو ترس رہا ہوں۔!“

“وہ وہسکی کی بوتل ھے عمران صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔!“

“استغفراللہ۔۔۔۔۔خیر۔۔۔۔۔ رپورٹ پلیز۔۔۔۔۔!“

خاور نے ان دونوں کی کہانی شروع کردی جنہوں نے آج ان پر حملہ کیا تھا۔ اختتام پر عمران بولا۔ “اور پھر تم نے ریکارڈ اسپول حاصل کرکے انہیں چھوڑ دیا۔!“

“پھر کیا کرتے۔۔۔۔۔۔ ہمیں کسی کو روکے رکھنے یا پولیس کے حوالے کر دینے کا حکم تو نہیں ھے۔!“ چوہان ناخوشگوار لہجے میں بولا۔

“اسی لیئے تو تمہارے گرد گھنٹال نے مجھے بھیجا ھے۔ تاکہ میں ہر طرح کا کام کر سکوں۔!“

“میں نے ان میں سے ایک کا گھر دیکھ لیا ھے۔ بھاگ کر کہاں جائیں گے۔!“ خاور نے کہا۔

ٹھیک ھے۔۔۔۔۔ تم نے اس ٹیپ کو سنا۔۔۔۔۔؟“

“اسی کے گھر پر سنا تھا۔ مختلف اوقات کے احکامات ہیں۔ جن کے ذریعے انہیں پیغامات رسانی کا کام سونپا گیا تھا اور آخر میں آج ہم سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ہدایت تھی اور اب سے زیادہ اہم بات یہ ھے کہ اس آواز سے صاف پتہ چلتا ھے کہ پروفیسر ایکس نے آواز بدل کر بولنے کی کوشش کر ڈالی ھے۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 60

“گڈ۔۔۔۔۔۔ یہ ہوئی نا کام کی بات۔۔۔۔۔۔۔ لاؤ وہ اسپول مجھے دو۔۔۔۔۔۔ میں بھی کہین نہ کہیں اسے ٹرائی کروں گا۔ خیر اب بتاؤ کہ ریکھا چودھری کیا چیز ھے۔!“

“قیامت ھے۔۔۔۔۔۔۔!“ چوہان ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔

“یومِ حساب کو بھی ہر وقت یاد رکھا کرو۔!“ عمران نے کسی واعظ کے سے انداز میں کہا۔

“اب ہمیں کیا کرنا ھے۔!“ خاور نے پوچھا۔

“فی الحال پروفیسر ہی پر نظر رکھو۔۔۔۔۔۔!“

“یہ کس خوشی میں۔۔۔۔؟“

“پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ کہہ رہا تھا خود ایکس ٹو نے اسے پندرہ دن آرام کرنے کو کہا ھے۔“

خاور سے ریکارڈڈ اسپول لیکر وہ جولیا کے ہوٹل پہنچا تھا۔ کمرے کے دروازے پر دستک دی۔

“کون ھے۔۔۔۔۔!“‌اندر سے کسی مرد کی آواز آئی۔

عمران نے آنکھیں نکال کر دروازے کو گھورا اور پھر ڈھیلی ڈھالی آواز میں بولا۔ “ٹیلی گرام ھے۔!“

اور پھر اس نے بڑی پھرتی سے ریڈی میڈ میک اپ نکال کر ناک پر فِٹ کر لیا تھا۔

دروازہ کھلا اور ایک قدآور آدمی سامنے کھڑا نظر آیا۔

“لاؤ۔۔۔۔۔۔!“ وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

“مسز گلارا روشنڈیل کے نام ھے۔!“

میں روشنڈیل ہوں۔۔۔۔۔ لاؤ۔۔۔۔۔ مجھے دو۔۔۔۔۔!“ وہ غرایا اور ساتھ ہی عمران نے بڑی پھرتی سے پیچھے ہٹ کر اسکے پیٹ میں ایک زوردار کِک لگائی۔ وہ اچھل کر کمرے میں جا پڑا۔ پھر اس کے دوبارہ اٹھنے سے قبل ہی عمران نے اندر داخل ہو کر دروازہ بولٹ کردیا تھا۔

عمران نے پہلے ہی اندازہ کرلیا تھا کہ اس کے کوٹ کے نیچے بغلی ہولسٹر بھی موجود ھے۔ لہٰذا اپنا ریوالور نکالنے میں اس نے دیر نہیں‌لگائی تھی۔

“کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔!“ عمران نے سفاکانہ انداز میں سرگوشی کی۔ “نہیں کوئی حرکت نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ تمہارا سینہ چھلنی ہو جائے گا۔!“
 

حسن علوی

محفلین
صفحہ 61

وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ ہی اپنے ہاتھ بھی اوپر اٹھا دیئے۔

“عورت کہاں ھے۔۔۔۔۔۔۔۔؟“

“تت۔۔۔۔ تم کون ہو۔۔۔۔۔۔۔؟“

“میں ہی روشنڈیل ہوں۔۔۔۔۔ اور وہ میری بیوی ھے۔!“

“لل۔۔۔۔۔ لیکن وہ تو کہہ رہی تھی کہ وہ یہاں تنہا ھے۔!“

“کچھ دیر پہلے تھی۔ کیا تم دیکھ نہیں رھے کہ اب میں یہاں موجود ہوں۔ بتاؤ وہ کہاں ھے۔ ورنہ سچ مُچ مار ڈالوں گا۔!“

“اندر ھے۔۔۔۔۔!“

“اور کون ھے وہاں۔۔۔۔۔؟“

“کک۔۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔!“

“چلو۔۔۔۔۔۔!“ عمران نے دروازے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

وہ دروازے کی طرف مڑ گیا۔

جولیا کمرے میں ایک کرسی پر بیٹی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور منہ پر ٹیپ چپکا دیا گیا تھا۔

عمران نے ریوالور کی نال اس آدمی کی گردن پر رکھ کر اس کے بغلی ہولسٹر سے پستول نکال لیا اور پھر اس سے بولا۔ “اس کے منہ پر سے ٹیپ نکال دو۔۔۔۔۔۔۔!“

اس نے بے چون و چرا تعمیل کی۔

“اور اب ہاتھ بھی کھول دو۔۔۔۔۔!“

جب وہ اس کے ہاتھ کھول چکا تو عمران نے کہا کہ اب وہ خود اس کرسی پر بیٹھ کر اپنے ہاتھ بندھوائے۔ پھر جولیا نے بڑی بےدردی سے اس کے منہ پر تھپڑ مارے تھے اور پشت پر ہاتھ باندھنے لگی تھی۔

“اب بتاؤ کیا قصہ تھا۔۔۔۔۔۔۔؟“ عمران نے جولیا سے پوچھا۔

وہ عمران کو اس میک اپ میں بار بار دیکھ چکی تھی۔

“یہ مجھ سے معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں کون ہوں اور ڈاکٹر سجاد سے کیوں ملی تھی۔!“

-------------------------------------------------------------------------------------------------

-ختم شُد-
افففففففف​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top