فرخ منظور

لائبریرین
ناروا کہیے ناسزا کہیے
کہیے کہیے مجھے برا کہیے

تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے
ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے

پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے

آپ اب میرا منہہ نہ کھلوائیں
یہ نہ کہیے کہ مدّعا کہیے

وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے

دل میں رکھنے کی بات ہے غمِ عشق
اس کو ہرگز نہ برملا کہیے

تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے
کہنے والوں کو اور کیا کہیے

وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حالِ دل سب سے جابجا کہیے

مجھ کو کہیے برا نہ غیر کے ساتھ
جو ہو کہنا جدا جدا کہیے

انتہا عشق کی خدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے

میرے مطلب سے کیا غرض مطلب
آپ اپنا تو مدّعا کہیے

صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اسے دیر آشنا کہیے

آگئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیے

آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی اور دوسرا کہیے

ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر
مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور باوفا کہیے


از داغ دہلوی
 

فاتح

لائبریرین
انتہا عشق کی خدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور باوفا کہیے

واہ واہ واہ کیا خوبصورت کلاسیکی کلام تلاش کر کے لائے ہیں۔
فریدہ خانم نے اس کے چند اشعار گائے ہیں‌مگر کمال گائے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
انتہا عشق کی خدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور باوفا کہیے

واہ واہ واہ کیا خوبصورت کلاسیکی کلام تلاش کر کے لائے ہیں۔
فریدہ خانم نے اس کے چند اشعار گائے ہیں‌مگر کمال گائے ہیں۔

بہت بہت شکریہ فاتح صاحب۔ :) آپ جیسے دوستوں کی محبت ہی مجھے مجبور کرتی ہے کہ نئی نئی چیزیں ڈھونڈ کر آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ فریدہ نے اس غزل کے چند اشعار گائے ہیں اور واقعی صحیح فرمایا کہ بہت ہی کمال گائے ہیں، بلکہ پہلی بار اس غزل کا تعارف فریدہ خانم سے ہی مجھ تک پہنچا تھا۔ فریدہ کی گائی ہوئی غزل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں اگر مل گئی تو وہ بھی پوسٹ کردوں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لا جواب، کیا خوبصورت غزل ہے!

شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے، میں نے بھی مکمل غزل پہلی بار پڑھی ہے، پہلے تو فقط سن ہی رکھی تھی، نوازش!
 

فرخ منظور

لائبریرین
لا جواب، کیا خوبصورت غزل ہے!

شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے، میں نے بھی مکمل غزل پہلی بار پڑھی ہے، پہلے تو فقط سن ہی رکھی تھی، نوازش!

بہت شکریہ وارث صاحب۔ اتنے موٹے کلیاتِ داغ ہیں ۔ کوئی بھی غزل ڈھونڈنا گویا جوئے شیر لانا ہے۔ اتفاق سے ہی مجھے یہ غزل کلیات سے مل گئی سو پوسٹ کردی۔ :)
 

کاشفی

محفلین
ناروا کہیئے ناسزا کہیئے - داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ

غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

ناروا کہیئے ناسزا کہیئے
کہیئے کہیئے مجھے بُرا کہیئے

تجھ کو بدعہد و بیوفا کہیئے
ایسے جھونٹے کو اور کیا کہیئے

درد و دل کا نہ کہیئے یا کہیئے
جب وہ پوچھے مزاج کیا کہیئے

پھر نہ رُکیئے جو مدعا کہیئے
ایک کے بعد دوسرا کہیئے

آپ اب میرا مُنہ نہ کھلوائیں
یہ نہ کہیئے کہ مدعا کہیئے

وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیئے

دل میں رکھنے کی بات ہے غم عشق
اسکو ہر گز نہ برملا کہیئے

تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے
کہنے والوں‌کو خیر کیا کہیئے

وہ بھی سن لینگے یہ کبھی نہ کبھی
حال دل سب سے جابجا کہیئے

مجھ کو کہیئے بُرا نہ غیر کے ساتھ
جو ہو کہنا جدا جدا کہیئے

انتہا عشق کی خدا جانے
دمِ آخر کو ابتدا کہیئے

میرے مطلب سے کیا غرض مطلب
آپ اپنا تو مدعا کہیئے

ایسی کشتی کا ڈوبنا اچھا
کہ جو دشمن کو ناخدا کہیئے

صبر فرقت میں آہی جاتا ہے
پر اِسے دیر آشنا کہیئے

آگئی آپ کو مسیحائی
مرنے والوں کو مرحبا کہیئے

آپ کا خیرخواہ میرے سِوا
ہے کوئی اور دوسرا کہیئے

ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر
مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیئے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کے
داغ کو اور باوفا کہیئے
 
Top