نازک مسائل اور ہمارا رویہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نوید ناظم

محفلین
دین میں اخلااقیات انتہائی اہم ہیں مگر اخلاقیات بذاتِ خود کوئی دین نہیں۔۔۔۔ دین کی بنیاد اچھائی اور برائی پر نہیں ہے بلکہ اچھائی اور برائی کے بارے احکمات دینے والے سے متعلق ہے۔ ایک ایسا انسان جو اسلام کی تمام خوبیوں کا قائل ہے اور کلمہ طیبہ کا قائل نہیں ہے تو ہم اسے مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جس کا عمل کمزور ہے مگر وہ کلمہ گو ہے تو وہ مسلمان ہی ہے۔ اسلام ہی میں ایک فرقہ معتزلہ سامنے آیا جو یہ سمجھتا تھا کہ گناہِ کبیرا کے بعد آدمی مسلمان نہیں رہتا اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، مگر اس وقت کے علماء اور اصفیاء نے اس کا بڑھ چڑھ کر رد کیا۔ خاص طور پر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔۔۔۔ آپ کی پیروی کرنے والے اشعریا کہلائے جو تا دیر معتزلہ کی طرف سے پھیلانی جانے والی گمراہیوں کا دفاع کرتے رہے۔
اگر ہم دیکھیں تو آج تصوف کے نام پر جو رویہ اسلام سے اخذ کیا جا رہا ہے وہ قابلِ افسوس ہے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ '' تصوف' حسنِ اخلاق کا نام ہے'' مگر یہ نہیں فرمایا کہ محض حسنِ اخلاق ہی تصوف ہے۔ صرف سچ بولنے والا صوفی نہیں ہوتا' کسی کے حکم پر سچ بولنے والا صوفی ہوتا ہے۔ نیکی وہی ہے جو کسی حکم کے تحت کی جائے۔۔۔۔۔ جب مسلمان کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ اس لیے کرتا ہے کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے' انسانیت کا بھلا بعد کی بات ہے' ظاہر ہے کسی انسان کی مدد کرنے سے انسانیت کا برا تو نہیں ہو سکتا۔ مگر یہاں ایک نکتے کی بات حضرت واصف علی واصف نے بیان فرمائی' فرمایا'' دشمن کی تلوار پر احسان کرو گے تو بھائی کی گردن کا نقصان ہو گا'' اسی ضمن میں ایک حدیث بھی آتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم کی مدد کرو' پوچھا گیا حضور ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ فرمایا گیا اسے ظلم کرنے سے روکا جائے۔ گویا ظالم صرف مظلوم پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر بھی کرتا ہے۔ اسلام دینِ رحمت ہے اور اسی دینِ رحمت میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم بھی ہے حالانکہ چور کو معاف کیا جا سکتا ہے' آخر چور انسان ہی تو ہے۔ مگر یہاں پر ہاتھ کاٹنا رحمت ہے۔ بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے بات میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر آج کے مسلمان کے اندر الجھاؤ اتنے ہیں کہ وہ ہر بات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ علماء کے خلاف جتنی چرب زبانیاں آج سننے کو ملتی ہیں کبھی دیکھیں نہ سنیں۔ علماء جب آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو وہ اختلاف احدیث ہی کی بنا پر ہوتا ہے' اپنی بصیرت اور بساط کے مطابق استدلال کیا جاتا ہے اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ اوائل سے ایسا ہی ہے۔ حتیٰ کہ اصفیاء اور علماء کے درمیان بڑا اختلاف رہا مگر تضاد نہیں رہا۔ حضرتِ منصور حلاج اور حضرتِ سرمد جیسے صوفیا کو قتل کیا گیا اور علماء ہی نے فتوے دیے' مگر ان فتووں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ ان اصفیاء کی بات سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ ہر بات کا ایک راز ہوتا ہے مگر جب اسے ظاہر کیا جائے اور وہ قانون (شریعت) کی زد میں آ جائے تو سزا یقینی ہے۔ اس لیے صوٍفیاء نے جو باتیں علماء کے بارے میں کہیں وہ ہمیشہ جاننے والوں کو کہیں' اپنے صحبت نشینوں کو بتائیں اور ان میں کہیں کسی کی توہین کا پہلو نہ تھا۔ مگر آج ہر کوئی ہر بات کیے جا رہا ہے۔ کسی کے پاس بات سمجھنے کا وقت ہے نہ توفیق۔ ہر کوئی بلھے شاہ جیسی بات کرتا ہے مگر ہر کوئی بلھے شاہ نہیں ہے۔ بات کرنے کے لیے بات کے لحاظ سے منصب اور مقام درکار ہے۔ جج جب عدالت میں کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے تو اس کی بات فیصلہ کہلاتی ہے۔۔۔ اور بغیر کرسی پر بیٹھے رائے تو دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ جسے فیصلہ کرنے کا شوق ہو، وہ پہلے جج بنے۔۔۔۔ ورنہ خاموشی میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔ بقول قبلہ واصف صاحب '' خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم''
 
آخری تدوین:
جج جب عدالت میں کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے تو اس کی بات فیصلہ کہلاتی ہے۔۔۔ اور بغیر کرسی پر بیٹھے رائے تو دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ جسے فیصلہ کرنے کا شوق ہو، وہ پہلے جج بنے۔۔۔۔ ورنہ خاموشی میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔ بقول قبلہ واصف صاحب '' خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم''
زبردست نُکتہ ہے ۔
لیکن یہاں تو ہر طرف اس کے اُلٹ ہی ہو رہا ہے ۔ عوام جج بنی ہوئی ہے ۔ عوام ہی عالم ہے ۔ عوام ہی کُفر کے فتوے لگاتی ہے ۔ عوام ہی سزائے موت تجویز کرتی ہے ۔

اگر دیکھا جائے تو خاموشی بنیادی طور پہ صبر اور برداشت کا دوسرا نام ہے لیکن یہ صبر اور برداشت اس حد تک ہمارے معاشرے میں ناپید ہو چکی ہےکہ ہم منٹوں میں کسی بھی انسان پہ فیصلہ صادر کر کے اسے مجرم ، کافر اور زندیق قرار دے دیتے ہیں ۔
یہاں عُلماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فرقہ پرستی اور فروعی اختلافات کو بُھلا کے اُمت کو اکٹھا کرنے کا سبب بنیں نہ کہ اس اُمت کو حصوں میں تقسیم کرنے کا ۔

یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک مولوی صاحب کسی مسجد میں جُمعے کا خُطبہ دے رہے تھے تو اُنہوں نے فرمایا کہ پچھلے دنوں مجھے ایک ملک میں قیام کرنے اور وہاں کی مسجد میں امامت کرنے کا موقع ملا تو میں حیران رہ گیا کہ وہاں سُنی ، وہابی اور دیوبندی ایک ہی صف میں کھڑے ہو کے نماز پڑھ رہے تھے ۔
یہ سُننا تھا کہ مجمع میں سے غیض و غضب کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں ۔
مولانا صاحب نے فوراََ صورتِ حال کو سنبھالا اور کہنے لگے کہ آپ پریشان نہ ہوں میں اپنے ایک ماہ کے قیام میں انہیں علیحدہ علیحدہ کر کے ہی آیا ہوں ۔ یہ سُنتے ہی مجمع نعرہ تکبیر ۔ اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج اُٹھا ۔ :disapointed:
 

ربیع م

محفلین
ماشاء اللہ اچھی تحریر ہے!
خاص طور پر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔۔۔۔ آپ کی پیروی کرنے والے اشعریا کہلائے جو تا دیر معتزلہ کی طرف سے پھیلانی جانے والی گمراہیوں کا دفاع کرتے رہے۔
اشاعرہ کی نسبت ابوالحسن الاشعری کی جانب ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
یعنی مذہب کا اچھے انسان ہونے سے کوئی تعلق نہیں
زیک بھائی مذہب کا اچھے انسان سے بڑا تعلق ہے شرط یہ کہ اچھے انسان کا تعلق بھی مذہب سے ہو۔ مذہب صرف اخلاقیات کا نام نہیں بلکہ اس میں الہیات بھی ہیں۔ باقی جو انسان مذہب کو نہیں مانتا تو مذہب اس سے اس کے انسانی حقوق واپس نہیں لیتا، مگر یہ ضرور بتاتا ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جو کہ ہمیشہ کے لیے ہے پھر اُس آنے والی زندگی میں نہ ماننے والا ایسے آکوموڈیٹ نہیں کیا جائے گا جیسے اس زندگی میں ہو رہا ہے۔ اللہ نے کہا کہ اُس دن نہ ماننے والے کہیں گے کہ کاش ہم مٹی ہوتے۔ وہ زندگی جو ہے محض ہمارے اخلاق پر ڈیپںڈ نہیں کرتی۔۔۔ مطلب ایک انسان بڑا اچھا ہے سچ بولتا ہے مگر خدا کی جنت کو مانتا ہی نہیں تو اسے اُس جنت میں کیسے بھیجا جائے گا جس کو وہ مانتا ہی نہیں ہے۔۔۔ جس کے بارے میں کہتا ہے کہ ہے ہی نہیں، ہاں سچ بولنے کا جو فائدہ اسے یہاں مل سکتا ہے وہ تو مل جائے گا۔ پھر مذہب نے کبھی بھی صرف اخلاقیات کی تبلیغ نہیں کی بلکہ ہر پیغمبر نے یہی کہا کہ پہلے انھیں as a پیغمبر تسلیم کیا جائے ، خدا کو مانا جائے، اس کے بعد پھر کہا کہ اب سچ بولو کیونکہ یہ خدا کا حکم ہے، لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو، ان کے ساتھ احسان کرو... کیوں کرو؟ کیونکہ یہ خدا کو پسند ہے۔ اخلاق کے لحاظ سے صرف اچھائی اور برائی ہے جس کا تعلق صرف اسی دنیا سے ہے جبکہ مذہب میں اچھائی اور برائی کا تعلق نیکی اور بدی کے تصور سے ہے اور اس نیکی کی جزا اور سزا بھی ہے. اچھا انسان ہونا بڑی اچھی بات ہے اس میں کیا دو رائے ہو سکتی ہے...مگر مذہب کہتا ہے کہ فرشتے ہیں ، آخرت کی زندگی ہے، جنت اور دوزخ ہیں، یہ سب تسلیم کرو اور بغیر دیکھے کرو اور ان کے نہ ہونے کا شک بھی دل میں نہ آئے، یہ سب اسی طرح حقیقت ہے جیسے کہ تمھارا ہونا حقیقت ہے۔ اب اگر کوئی اچھا انسان اپنی اچھائی کے باوجود ان سب کا انکار کرے تو محض اچھائی کی وجہ سے تو اس کو مذہب سے ریلیٹ نہیں کیا جا سکتا نا...!
 

arifkarim

معطل
اب اگر کوئی اچھا انسان اپنی اچھائی کے باوجود ان سب کا انکار کرے تو محض اچھائی کی وجہ سے تو اس کو مذہب سے ریلیٹ نہیں کیا جا سکتا نا...!
یعنی ایک اچھے انسان کی اچھائی کا پیمانہ اسکا مذہب پر ایمان لانا ہے۔ میں اسی نکتہ پر لکھنے والا تھا ، آپنے خود ہی بتا دیا۔ یہیں پر ہم سیکولرز کا دین و مذاہب سے اختلاف شروع ہوتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکی اکثریت ملحد و لادین ہے البتہ اخلاقیات کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔ جھوٹ، چوری، کرپشن، ملاوٹ، فراڈ اور دیگر معاشرتی برائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریب کو اسکا حق ملتا ہے، مظلوم کو انصاف ملتا ہے، کمزور و طاقتور سب قانون کے سامنے برابر ہیں۔ اور کیا چاہئے؟ ہم ان دہریوں کو اسلام کی تبلیغ کس منہ سے کریں؟ وہ جواب میں اسلامی ممالک میں رہنے والے مومنین کے اخلاق عامہ گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
یعنی ایک اچھے انسان کی اچھائی کا پیمانہ اسکا مذہب پر ایمان لانا ہے۔ میں اسی نکتہ پر لکھنے والا تھا ، آپنے خود ہی بتا دیا۔ یہیں پر ہم سیکولرز کا دین و مذاہب سے اختلاف شروع ہوتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکی اکثریت ملحد و لادین ہے البتہ اخلاقیات کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔ جھوٹ، چوری، کرپشن، ملاوٹ، فراڈ اور دیگر معاشرتی برائیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریب کو اسکا حق ملتا ہے، مظلوم کو انصاف ملتا ہے، کمزور و طاقتور سب قانون کے سامنے برابر ہیں۔ اور کیا چاہئے؟ ہم ان دہریوں کو اسلام کی تبلیغ کس منہ سے کریں؟ وہ جواب میں اسلامی ممالک میں رہنے والے مومنین کے اخلاق عامہ گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔
عارف بھائی، ایک اچھے انسان کی اچھائی کا پیمانہ مذہب پر ایمان لانا نہیں کہا، صرف یہ کہا کہ وہ اچھا انسان جو مذہب کو نہیں مانتا، وہ اچھا ہونے کے باوجود اس مذہب سے ریلیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا اسلام، کہتا ہے کہ جھوٹ نہ بولو، حتیٰ کے مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولو، اب ایک ایسا انسان جو جھوٹ نہیں بولتا لیکن وہ اللہ کو نہیں مانتا، پیغمبر اسلام کو نہیں مانتا تو ہم اسے یہ تو کہیں گے کہ یہ آدمی جھوٹ نہیں بولتا مگر ہم اسے مسلمان تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ مسلمان ہونے کے لیے محض جھوٹ نہ بولنا تو کافی نہیں اس کے لیے تو کلمہ بھی چاہیے ہو گا۔ باقی اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس وقت مسلمان ہو گا جب سارے مسلمان بھی عین اسلام پر عمل کرنے لگ جائیں تو میرا خیال ہے یہ بڑا مشکل ہے، ہاں اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اسلام میں آئے اور خود عین اسلام پر عمل کرے نا کہ لوگوں کے کمزور عمل کو اپنے اسلام نہ لانے کی حجت بنا لے۔
 
ہم ان دہریوں کو اسلام کی تبلیغ کس منہ سے کریں؟ وہ جواب میں اسلامی ممالک میں رہنے والے مومنین کے اخلاق عامہ گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔
عارف بھائی، آپ کی اس کشمکش (مجھے کوئی لفظ نہیں سوجھ رہا) کا شاید کچھ اندازہ ہے مجھے۔ میں خود سعودی عرب میں پچھلے تقریباً ۹ سالوں سے مقیم ہوں۔ جس بات کی طرف آپ اشارہ کررہے ہیں میں اس کا تجربہ کر چکا ہوں۔ لیکن ایک بات کہنا چاہوں گا کہ اگر مسلمان صحیح معنوں میں اسلام پر عمل نہیں کر رہے تو اس میں اسلام کا کیا قصور ہے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دین سے بیزار (اصل میں دین کی پابندیوں سے بیزار ہوتے ہیں کیونکہ شادی اور مرگ بغیر مولوی کے پوری نہیں ہوتی) لوگ اسی ایک بات کو بہانہ بنا کر دین پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ دین کی ہر بات، ہر اصول ہر نظریہ کے پیچھے باقاعدہ منطق ہوتی ہے، ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے۔ یہ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں کسی مدرسے کا طالب علم ہوں یا ملا بن گیا ہوں ، بلکہ میں کمپیوٹر سائنس کا گریجویٹ ہوں اور یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں، یہ بات اس لیے بتانی پڑتی ہے کہ جب دین اور اسلام کی بات کی جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ خاص مولوی ذہنیت کا آدمی ہے اور لازمی ہے کہ دنیاوی اعتبار سے جاہل ہوگا اس لیے تمہید باندھنی پڑتی ہے۔
خیر میں کہہ یہ رہا تھا کہ دہریوں کے سوالات کے جوابات الحمداللہ اکابرین امت نے بہت منفرد ، مدلل اور پیارے انداز سے دے رکھے ہیں، مسئلہ ہمارا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی داڑھی والا آدمی ہے اور ذرا نمازی پرہیزی ہے وہ لازمی دین کی ہر بات جانتا ہو گا اور ہم بلا وجہ اس کے ساتھ بحث و مباحثہ میں پڑ جاتے ہیں۔ جبکہ دیناوی کاموں کے لیے ہم بہتر سے بہترین ایکسپرٹ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ عام آدمی تو کیا اکثر علما کی جماعت میں بھی وہ بصیرت خال خال ہی ملتی ہے جس کی ایسی صورت حال میں ضرورت ہوتی ہے ورنہ مجھے خود اس بات کا مشاہدہ ہے کہ بعض مرتبہ کوئی دین کی بات کو سیکھنے کے لیے سوال کرتا ہے اور مولوی صاحب اس پر کفر کا فتوی لگا دیتے ہیں، اس میں مولوی کا قصور نہیں، پوچھنے والے کا قصور ہے کہ اس نے درست سوال غلط شخص سے کیا۔ ایسے سوالات جو دہریے یا دین سے بیزار طبقے والے کرتے ہیں اس میں از خود الجھنے سے بہتر ہے کسی اچھے عالم کی راہنمائی لی جائے اس سے نہ صرف خود اپنے اشکالات دور ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی دوسرے کی ہدایت کا بھی انتظام ہو جائے۔ ورنہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ مادہ پرست دنیا کہ اندر ایسے مباحثوں میں پڑ کر انسان ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کیونکہ اکثر گمراہ کن عقائد ظاہری طور پر ناقابل شکست (ظاہری طور، ورنہ یقین کیجیے ہر فضول دلیل کا توڑ اکابرین نے کر رکھا ہے خالص علمی بنیادوں پر) عقلی دلیلوں کو مباحثوں میں بیان کرتے ہیں جس کی وجہ انسان تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور یہی ابتدا ہوتی ہے انسان کے دہریے ہونے کی (اللہ تعالی محفوظ رکھے)
باتیں بہت ساری ہیں ذہن میں لیکن طوالت سے بچنے کے لیے بس اتنا عرض کروں گا کی تھوڑی سی ہمت کر کے اچھے اکابرین کو تلاش کیجیے ان سے جس قسم کا سوال کریں گے انشاءاللہ تسلی بخش جواب ملے گا صرف دینی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ دنیاوی اعتبار سے بھی۔ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتائے دیتا ہوں کے جو لوگ لندن میں مقیم ہیں وہ اگر علامہ خالد محمود صاحب سابق چیف جسٹس شریعت کورٹ پاکستان جو اکثر لندن اور یورپ کے دوسرے ممالک میں جاتے رہتے ہیں ان سے رابطہ کر کے جو بھی سوال ہو پوچھ سکتے ہیں امید ہے کہ علامہ صاحب اس کا جواب خالص علمی اور تحقیق بنیادوں پر دیں گے اور اس بات پر تو میں خود گواہ ہوں۔
 
یعنی مذہب کا اچھے انسان ہونے سے کوئی تعلق نہیں
متفق۔
ایک انسان بڑا اچھا ہے سچ بولتا ہے مگر خدا کی جنت کو مانتا ہی نہیں تو اسے اُس جنت میں کیسے بھیجا جائے گا جس کو وہ مانتا ہی نہیں ہے۔۔۔
انسان کی عقل کوتاہ ہے۔ جنت کو نہیں مان سکتا تو اسے محروم کرنا کون سا انصاف ہے؟ کوئی اندھا یہ ماننے سے انکار کر دے کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہے تو اسے گھر والے گھسنے سے منع کر دیں گے؟ خدا مجھے کبھی ایسا نا‌انصاف معلوم نہیں ہوا کہ خیر کو چھوڑ مذہبی رسوم و عقائد کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ مذاہب تو محض مختلف شریعتوں یعنی راہوں کے نام ہیں۔ کسی کا جی چاہے تو چلے نہ چاہے تو نہ چلے۔ خود قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مختلف شریعتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ ہم نے اس اختلاف کو خیر‌و‌شر کے تضاد میں بدل دیا ہے۔ حالانکہ کسی مخصوص شریعت کا متبع نہ ہونے سے میری فہم کے مطابق ازرئے قرآن کوئی نقصان انسان کو نہیں پہنچتا اگر وہ صالح ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اسکی اکثریت ملحد و لادین ہے البتہ اخلاقیات کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔
عوام کی بات نہ کیا کریں۔ عوام کا دین کیا اور بے‌دینی کیا؟ وہ کون سا سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں؟ جس روش پر معاشرہ چل رہا ہے اسی پر گامزن ہیں۔ یورپ کا وقت اچھا ہے سو وہاں معاشرہ اصول پر قائم ہو گیا ہے۔ ورنہ اخلاق اور نظم کی یہ روشنی ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک وہاں نہ تھی۔ ہم پر اچھا وقت تھا تو ہمارے لوگ بھی بہت باشعور معلوم ہوتے تھے۔ مگر یہ کمال اصل میں عوام کا نہیں ان لوگوں کا ہے جنھوں نے نظام قائم کیے ہیں۔ نیز یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ خدا کے انصاف سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایک اچھے معاشرے کا ہر شخص نیک قرار پائے گا اور برے معاشرے کا ہر شخص بد۔ کیونکہ قدرت کا تقاضا فرد کی اپنی کاوش سے ہے نہ کہ اس معاشرے کی تربیت سے جس میں ہم اپنے اختیار کے بغیر پیدا ہو جاتے ہیں۔
وہ جواب میں اسلامی ممالک میں رہنے والے مومنین کے اخلاق عامہ گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔
میں نے ابوظہبی میں ایک صبح ایک تماشا دیکھا تھا جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ فجر کا وقت تھا۔ میں کورنیش کے قریب ایک گلی میں باہر بیٹھا تھا۔ میرے آس پاس سے مسجد جاتے ہوئے لوگ گزر رہے تھے۔ اور وہ لوگ بھی گزر رہے تھے جو صبح کی سیر یا دوڑ کی غرض سے نکلے تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ اول الذکر لوگوں میں سے جو اپنے تئیں خدا کی راہ پر چلے جا رہے تھے بہتوں نے مجھے دیکھا ضرور مگر خاموشی سے گزر گئے۔ اور غیرمسلموں میں جو محض اپنی صحت کی خاطر نکلے تھے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے سلام کر کے یا مسکرا کے میری اور اپنی صبح خوشگوار نہ بنانی چاہی ہو۔
زیادہ کیا کہوں؟ دین عبادات کے برتے پر اس تکبر کا نام نہیں تھا۔ مگر جیسا میں نے اوپر کہا عوام کا کیا دین اور کیا بے‌دینی!
 

یاز

محفلین
متفق۔

انسان کی عقل کوتاہ ہے۔ جنت کو نہیں مان سکتا تو اسے محروم کرنا کون سا انصاف ہے؟ کوئی اندھا یہ ماننے سے انکار کر دے کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہے تو اسے گھر والے گھسنے سے منع کر دیں گے؟ خدا مجھے کبھی ایسا نا‌انصاف معلوم نہیں ہوا کہ خیر کو چھوڑ مذہبی رسوم و عقائد کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ مذاہب تو محض مختلف شریعتوں یعنی راہوں کے نام ہیں۔ کسی کا جی چاہے تو چلے نہ چاہے تو نہ چلے۔ خود قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مختلف شریعتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ ہم نے اس اختلاف کو خیر‌و‌شر کے تضاد میں بدل دیا ہے۔ حالانکہ کسی مخصوص شریعت کا متبع نہ ہونے سے میری فہم کے مطابق ازرئے قرآن کوئی نقصان انسان کو نہیں پہنچتا اگر وہ صالح ہے۔

عوام کی بات نہ کیا کریں۔ عوام کا دین کیا اور بے‌دینی کیا؟ وہ کون سا سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں؟ جس روش پر معاشرہ چل رہا ہے اسی پر گامزن ہیں۔ یورپ کا وقت اچھا ہے سو وہاں معاشرہ اصول پر قائم ہو گیا ہے۔ ورنہ اخلاق اور نظم کی یہ روشنی ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک وہاں نہ تھی۔ ہم پر اچھا وقت تھا تو ہمارے لوگ بھی بہت باشعور معلوم ہوتے تھے۔ مگر یہ کمال اصل میں عوام کا نہیں ان لوگوں کا ہے جنھوں نے نظام قائم کیے ہیں۔ نیز یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ خدا کے انصاف سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایک اچھے معاشرے کا ہر شخص نیک قرار پائے گا اور برے معاشرے کا ہر شخص بد۔ کیونکہ قدرت کا تقاضا فرد کی اپنی کاوش سے ہے نہ کہ اس معاشرے کی تربیت سے جس میں ہم اپنے اختیار کے بغیر پیدا ہو جاتے ہیں۔

میں نے ابوظہبی میں ایک صبح ایک تماشا دیکھا تھا جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ فجر کا وقت تھا۔ میں کورنیش کے قریب ایک گلی میں باہر بیٹھا تھا۔ میرے آس پاس سے مسجد جاتے ہوئے لوگ گزر رہے تھے۔ اور وہ لوگ بھی گزر رہے تھے جو صبح کی سیر یا دوڑ کی غرض سے نکلے تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ اول الذکر لوگوں میں سے جو اپنے تئیں خدا کی راہ پر چلے جا رہے تھے بہتوں نے مجھے دیکھا ضرور مگر خاموشی سے گزر گئے۔ اور غیرمسلموں میں جو محض اپنی صحت کی خاطر نکلے تھے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے سلام کر کے یا مسکرا کے میری اور اپنی صبح خوشگوار نہ بنانی چاہی ہو۔
زیادہ کیا کہوں؟ دین عبادات کے برتے پر اس تکبر کا نام نہیں تھا۔ مگر جیسا میں نے اوپر کہا عوام کا کیا دین اور کیا بے‌دینی!
بہت زبردست جناب۔
 
انسان کی عقل کوتاہ ہے۔ جنت کو نہیں مان سکتا تو اسے محروم کرنا کون سا انصاف ہے؟ کوئی اندھا یہ ماننے سے انکار کر دے کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہے تو اسے گھر والے گھسنے سے منع کر دیں گے؟ خدا مجھے کبھی ایسا نا‌انصاف معلوم نہیں ہوا کہ خیر کو چھوڑ مذہبی رسوم و عقائد کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ مذاہب تو محض مختلف شریعتوں یعنی راہوں کے نام ہیں۔ کسی کا جی چاہے تو چلے نہ چاہے تو نہ چلے۔ خود قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مختلف شریعتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ ہم نے اس اختلاف کو خیر‌و‌شر کے تضاد میں بدل دیا ہے۔ حالانکہ کسی مخصوص شریعت کا متبع نہ ہونے سے میری فہم کے مطابق ازرئے قرآن کوئی نقصان انسان کو نہیں پہنچتا اگر وہ صالح ہے۔
راحیل فاروق بھائی آپ مجھ سے علم میں، عمر میں، عمل میں اور تجربے میں بڑے ہیں۔ لہذا انتہائی ادب کے ساتھ کچھ طالبعلمانہ گذارشات کرنی ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو غور کیجیے گا۔
دین اور ضابطے کے لحاظ سے اللہ تعالی قرآن کریم سورۃ آل عمران میں ارشاد فرماتے ہیں
کوڈ:
اِنَّ الدِّینَ عِندَاللّٰہِ الاِسلَامُ
بیشک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے
اور پھر مخصوص شریعت کے متبع ہونے کے بارے میں فرمایا (سورۃ آل عمران)
کوڈ:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
آپﷺ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا
اور سورۃ بقرۃ میں ارشاد فرمایا
کوڈ:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ادْخُلُوا فی السِّلْمِ کَافَّةً
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ
اب اتنی واضح عبارات کے بعد بھی یہ کہنا کہ خدا مذہب کا لحاظ نہیں رکھتا یا مذہب کا لحاظ رکھنا خدا کے لیے نا انصافی ہے کم از کم میری سمجھ سے باہر ہے۔ یہاں پر ’جی‘ کی بات نہیں ہے جو حکم ہے اس کو حکم کے ہے درجے میں رکھنا ہوگا۔ اب چاہے وہ حکم سمجھ آئے یا نہ آئے۔ مثال کے طور انسان کے بنائے ہوئے نظاموں میں ایک اسکول اور کالج کا نظام ہے جس میں طالب علم کو تین طرح کے کام کرنے ہوتے ہیں، ضابطہ اخلاقی کی پابندی، نصابی سرگرمیاں اور غیر نصابی سرگرمیاں۔ اب اگر کوئی بھی طالب علم ضابطہ اخلاق یا نصابی سرگرمیوں کے خلاف چلے یا ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دے تو کیا اسکول کی انتظامیہ ایسے طالب علم کو سال کے آخر میں انعام دے گی؟ سال تو دور کے بات ہے وہ پہلے ہی فارغ کردیا جائے گا۔ اپنے بنائے ہوئے نظام کی پابندی انسان اس سختی سے کروانا چاہتا ہے کہ طالب علم اگر تھوڑا سا مختلف رنگ کا یونیفارم پہن آئے تو پہلے تو نوٹسز بھیجے جاتے ہیں اور پھر بار بار تنبیہ پر بھی باز نہ آئے تو نام ہی خارج کردیا جاتا ہے اور کوئی اس کو ناانصافی نہیں کہتا بلکہ طالب علم اور اس کے والدین کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے ضابطے کی پابندی نہیں کی۔ جب انسان اپنے نظام کی خلاف ورزی برداشت نہیں کر سکتا تو اللہ رب العزت تو زیادہ غیور ہیں اور اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کے نافرمانوں کو سزا دیں۔ اسی طرح اگر طالب علم ضابطے کی پابندی تو کرے لیکن نصابی سرگرمی میں حصہ نہ لے تو یہی معاملہ ہوتا ہے اس کو آپ ادخلو فی السلم کآفة سے تشبیح دے سکتے ہیں۔ رہی بات غیر نصابی سرگرمیوں کی تو اس کے لیے کوئی زور زبردستی نہیں جو کرے گا اس کے اپنے لیے بہتر ہے ، اس کو آپ لا اکراہ فی الدین سمجھ لیجیے۔ لیکن طالب علم کے پاس ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ضابطہ کی پابندی کرے اور نصابی سرگرمیوں میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لے۔
ایک بات اور کہ ایک اسکول کی تقسیم انعامات کی تقریب میں دوسرے اسکول کے بچوں کو انعام نہیں دیا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ایک ادارہ کمپیوٹر سائنس کی تعلیم دیتا ہے ان کے نصاب کے حساب سے کمپیوٹر کا علم نہ رکھنے والا جاہل ہے چاہے وہ کسی دوسرے ادارے میں بیالوجی کا پروفیسر ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل اسی طرح یہ نظام اللہ تعالی کا ہے اور اللہ تعالی نے اس کا نصاب بھی بتا دیا ہے اب اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو انعام کیسا؟
سورۃ البینة
کوڈ:
ِاِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ فِىۡ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ هُمۡ شَرُّ الۡبَرِيَّةِؕ‏
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِۙ اُولٰٓٮِٕكَ هُمۡ خَيۡرُ الۡبَرِيَّةِؕ‏
جَزَآؤُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ۔۔۔
بیشک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے اور مشرکین (سب) دوزخ کی آگ میں (پڑے) ہوں گے وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیں، یہی لوگ بد ترین مخلوق ہیں
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں
ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں ۔۔۔

کتنے واضح الفاظ ہیں، جن کے بعد میرا نہیں خیال کے کسی قسم کے تذبذب کے گنجائش ہے۔
مذاہب تو محض مختلف شریعتوں یعنی راہوں کے نام ہیں۔ کسی کا جی چاہے تو چلے نہ چاہے تو نہ چلے۔ خود قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مختلف شریعتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔
مہربانی فرما کر اس کو حوالہ دیجیے گا تاکہ میں اپنے نظریات پر نظر ثانی کر سکوں۔
میں نے ابوظہبی میں ایک صبح ایک تماشا دیکھا تھا جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ فجر کا وقت تھا۔ میں کورنیش کے قریب ایک گلی میں باہر بیٹھا تھا۔ میرے آس پاس سے مسجد جاتے ہوئے لوگ گزر رہے تھے۔ اور وہ لوگ بھی گزر رہے تھے جو صبح کی سیر یا دوڑ کی غرض سے نکلے تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ اول الذکر لوگوں میں سے جو اپنے تئیں خدا کی راہ پر چلے جا رہے تھے بہتوں نے مجھے دیکھا ضرور مگر خاموشی سے گزر گئے۔ اور غیرمسلموں میں جو محض اپنی صحت کی خاطر نکلے تھے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے سلام کر کے یا مسکرا کے میری اور اپنی صبح خوشگوار نہ بنانی چاہی ہو۔
زیادہ کیا کہوں؟ دین عبادات کے برتے پر اس تکبر کا نام نہیں تھا۔ مگر جیسا میں نے اوپر کہا عوام کا کیا دین اور کیا بے‌دینی!
جناب آپ محض سلام نہ کرنے پر دل برداشتہ ہیں میں تو ریاض شہر میں عربوں کے بچوں کے ہاتھوں پٹ چکا ہوں۔ میری گاڑی روک کر مملکۃ ٹاور کے سامنے روڈ پر انھوں نے مجھے زدوکوب کیا اور پھر گاڑی توڑ کر، گالیاں دیتے رہے۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ سپیڈ بریکر ہونے کی وجہ سے میں گاڑی تیز نہیں چلا سکا اور بد قسمتی سے میں ان کے آگے تھا دائیں بائیں ہو کر رستہ دینے کی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن آپ متضار رویے دیکھیے اس موقع پر ایک اور سعودی نے نہ صرف گاڑی روک کر میری جان چھڑائی بلکہ میرے ساتھ پولیس اسٹیشن گیا، گواہ بننے کو تیار تھا کہ اس نے لڑکوں کی گاڑی کا نمبر بھی نوٹ کر لیا تھا۔ اس نے خود مجھ سے ان لڑکوں کے رویے کی معافی مانگی اور مجھے گاڑی کی مرمت کے لیے پیسوں کی پیش کش بھی کی۔ خیر میں رپورٹ نہیں کروا سکا کیونکہ اگلے ہی دن میری فلائٹ تھی مگر اس نے مجھے اپنا نمبر دیا اور کہا کہ جب بھی ضرورت ہو مجھے بتا دینا میں ان کے خلاف گواہی دینے کے لیے آجاوں گا۔ یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر فرض نماز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے نوجوان چاہے گھٹنوں تک پاجامہ اور بنیان میں ہوں نماز کے لیے ضرور آتے ہیں ممکن ہے وہ لڑکے بھی نماز پڑھتے ہوں لیکن ان کا یہ رویہ کسی طور پر اسلام یا مذہب کی ترجمانی نہیں کرتا۔ میں پھر بھی دل سے ان کو معاف کر چکا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کل قیامت میں میرے گناہوں کوبھی معاف فرما دے گا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو ضرورت بنا رکھا ہے، جب اپنی ضرورت ہوتی ہے اللہ سے بات کر لیتے ہیں ورنہ مقصد ہمارے لیے دنیاہے اور جو لوگ ذرا مذہبی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ صرف نماز، روزہ ہی دین ہے جبکہ قرآن کریم میں عبادات کا درس مختصر جب کہ اخلاقیات و معاشرت کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پھر اخلاق کے بارے میں تو خود آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ
کوڈ:
إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق
کہ آپ تو اخلاق اعلی کی تکمیل کے لیے تشریف لائے۔ اب اگر ہم مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے نہ کہ مذہب اور اسلام کی۔ حقیقت میں مسلمان اور مذہبی تو وہ ہے جو سلامتی پسند ہو یہ ہمارے بنائے ہوئے پیمانے ہیں جس میں ہم ہر تسبیح پکڑے ہوئے شخص کو مذہبی کا لقب دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اخلاق ہی سب کچھ ہیں اور عبادات کچھ نہیں، بلکہ جیسا پہلے عرض کیا کہ کچھ قوانین اور ضوابط ہیں اور کچھ نصاب دونوں ہی ضروری ہیں، ادخلو فی السلم کآفۃ کا مصداق بننے کے لیے۔
بات کچھ طویل ہوگئی اس کے لیے معذرت۔ اگر کوئی بات نا مناسب لگی ہو تو چھوٹا بھائی سمجھ کر معاف کردیجیے گا۔ اللہ تعالی مجھے اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین
 

نوید ناظم

محفلین
متفق۔

انسان کی عقل کوتاہ ہے۔ جنت کو نہیں مان سکتا تو اسے محروم کرنا کون سا انصاف ہے؟ کوئی اندھا یہ ماننے سے انکار کر دے کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہے تو اسے گھر والے گھسنے سے منع کر دیں گے؟ خدا مجھے کبھی ایسا نا‌انصاف معلوم نہیں ہوا کہ خیر کو چھوڑ مذہبی رسوم و عقائد کی بنیاد پر فیصلے کرے۔ مذاہب تو محض مختلف شریعتوں یعنی راہوں کے نام ہیں۔ کسی کا جی چاہے تو چلے نہ چاہے تو نہ چلے۔ خود قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مختلف شریعتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ ہم نے اس اختلاف کو خیر‌و‌شر کے تضاد میں بدل دیا ہے۔ حالانکہ کسی مخصوص شریعت کا متبع نہ ہونے سے میری فہم کے مطابق ازرئے قرآن کوئی نقصان انسان کو نہیں پہنچتا اگر وہ صالح ہے۔

عوام کی بات نہ کیا کریں۔ عوام کا دین کیا اور بے‌دینی کیا؟ وہ کون سا سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں؟ جس روش پر معاشرہ چل رہا ہے اسی پر گامزن ہیں۔ یورپ کا وقت اچھا ہے سو وہاں معاشرہ اصول پر قائم ہو گیا ہے۔ ورنہ اخلاق اور نظم کی یہ روشنی ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک وہاں نہ تھی۔ ہم پر اچھا وقت تھا تو ہمارے لوگ بھی بہت باشعور معلوم ہوتے تھے۔ مگر یہ کمال اصل میں عوام کا نہیں ان لوگوں کا ہے جنھوں نے نظام قائم کیے ہیں۔ نیز یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ خدا کے انصاف سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایک اچھے معاشرے کا ہر شخص نیک قرار پائے گا اور برے معاشرے کا ہر شخص بد۔ کیونکہ قدرت کا تقاضا فرد کی اپنی کاوش سے ہے نہ کہ اس معاشرے کی تربیت سے جس میں ہم اپنے اختیار کے بغیر پیدا ہو جاتے ہیں۔

میں نے ابوظہبی میں ایک صبح ایک تماشا دیکھا تھا جسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ فجر کا وقت تھا۔ میں کورنیش کے قریب ایک گلی میں باہر بیٹھا تھا۔ میرے آس پاس سے مسجد جاتے ہوئے لوگ گزر رہے تھے۔ اور وہ لوگ بھی گزر رہے تھے جو صبح کی سیر یا دوڑ کی غرض سے نکلے تھے۔ اللہ جانتا ہے کہ اول الذکر لوگوں میں سے جو اپنے تئیں خدا کی راہ پر چلے جا رہے تھے بہتوں نے مجھے دیکھا ضرور مگر خاموشی سے گزر گئے۔ اور غیرمسلموں میں جو محض اپنی صحت کی خاطر نکلے تھے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے سلام کر کے یا مسکرا کے میری اور اپنی صبح خوشگوار نہ بنانی چاہی ہو۔
زیادہ کیا کہوں؟ دین عبادات کے برتے پر اس تکبر کا نام نہیں تھا۔ مگر جیسا میں نے اوپر کہا عوام کا کیا دین اور کیا بے‌دینی!
راحیل بھائی آپ کی بات سے یہاں اتفاق کرنا بڑا مشکل ہے،
ایک بات تو یہ کہ آپ نے کہا خدا مذہبی رسوم اور عقائد کی بنا پر فیصلہ نہیں کرتا حالانکہ مذہبی رسوم اور عقائد بذات خود خدا کا فیصلہ ہیں۔ دوسری بات جس طرح نہ ماننے والوں کو جنت میں بھیج کر آپ انصاف کا تقاضا پورا کر رہے ہیں کافی دلچسپ ہے۔ جنت کی تعریف ہی یہ ہے کہ ایسا انعام جو ماننے والوں کو دیا جائے گا۔ البتہ اللہ واقع ہی انصاف کرتا ہے۔ اس نے کہا جو جہنم کو دنیا میں جھٹلاتے تھے انھیں جہنم میں بھیج کر کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ جگہ جس کا تم انکار کیا کرتے تھے، یہ بھی خوب کہا آپ نے کہ مذہب آپشن ہے کوئی چاہے تو چلے چاہے تو نہ چلے اور محض اسی آپشن کی خاطر اللہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے اور لوگ ان انبیاء کے اس آپشن کے باوجود دشمن بنتے رہے حتیٰ کے ناحق قتل کرتے رہے۔ سر یہ شدید فکری مغالطہ ہے۔ جب ایک پیغمبر اعلان نبوت کرتا ہے تو اس کے بعد اس پر ایمان لانا فرض ہوتا ہے۔ اب چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا اللہ کے آخری رسول نے جو پیغام دیا اس کا ماننا ہر فرد پر فرض ہے۔ اوراس تسلیم کا تعلق محض اخلاق کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ خدا کو خدائے واحد تسلیم کیا جائے، اللہ کے رسول جو ہیں ان کو ایز اے اللہ کا رسول اور آخری نبی تسلیم کیا جائے, فرشتوں اور آخرت کے ہونے پر یقین رکھا جائے ...پھر اس کے بعد خیر کے کام کیے جائیں۔ باقی قرآن میں کہیں بھی کسی کافر سے ایسا وعدہ نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کا انکار بھی کر دو اور محض خیر کے کاموں کی وجہ سے تمھیں وہی انعام دیے جائیں گے جو ماننے والوں کو کو ملنے ہیں۔ اللہ ہمیں ماننے والوں' اور اپنے بندوں میں شمار کرے۔ سب پر رحم کرے، سب کا بھلا کرے-
 

ربیع م

محفلین
خود قرآن کہتا ہے کہ ہم نے مختلف شریعتیں مقرر کر دی ہیں تاکہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ ہم نے اس اختلاف کو خیر‌و‌شر کے تضاد میں بدل دیا ہے

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً

اس کی جانب اشارہ ہے؟!
 

با ادب

محفلین
السلام علیکم! کافی علمی مباحثہ ہے اور مجھے اپنی کم علمی میں کوئی شک نہیں. پھر بھی اپنی سمجھ کے مطابق میں کچھ باتوں کو بیان کر نا چاہتی ہوں.
اللہ نے مختلف شریعتیں بنائیں؟ ؟؟
اس ضمن میں میں شریعت اور دین کی کچھ وضاحت کرنا چاہوں گی.
دین کے لغوی معنی ہیں. نظام. جبکہ اصطلاحی معنوں میں دین سے مراد وہ نظام ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت انسان کے لئیے پیدا فرمایا
شریعت ان اسلامی قوانین کا نام ہے جسے قرآن اور حدیث سے اخذ کیا گیا ہے. اور جن پر عمل پیرا ہو کے زندگی گزارنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ نے دیا ہے.
جہاں تک بات ہے دین کی تو حضرت آدم.عہ سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک صرف ایک دین نازل ہوا. اسلام
جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے
اللہ کے نزدیک اگر کوئی دین ہے تو وہ اسلام ہے. اسکا حوالہ محمد عظیم صاحب اوپر دے چکے ہیں.
نہ تو اللہ نے کبھی عیسائیت نازل فرمائی نہ یہودیت نہ ہی کوئی اور مذہب. اور نہ کبھی حضرت عیسیٰ عہ یا حضرت موسیٰ عہ نے کبھی عیسائیت یا یہودیت کا درس دیا. ہر نبی نے اپنی قوم کو اسلام کی تبلیغ دی اور اللہ کی واحدانیت پر ایمان لانے کو کہا.
جہاں تک سوال دین کا ہے تو انسان اللہ کے دین اللہ کے نظام.میں تب ہی داخل ہوگا جب وہ اس کی واحدانیت کا اقرار کرے گا. اگر کوئی انسان یہ ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ ایک ہے یا نہیں اس سے فرق نہیں پڑتا یا اللہ کی ذات سرے سے موجود ہی نہیں تو دین کا منکر اور ملحد ٹہراتا ہے.
اللہ کے دین میں داخلے کا دروازہ کلمہ طیبہ ہے یے اور کلمے کا آغاز لفظ " لا" سے ہوتا ہے.
جب انسان نے دین کے گھر اور اللہ کے نظام.میں قدم.رکھا تو اس نے دینا کی ہر اس شے کو " لا " کہہ دیا جس سے سے اس کے خالق نے اسے منع کیا ہے. دنیا کو اور یہاں کی تمام بے وقعت چیزوں اور ہستیوں کو نہیں کہہ کر وہ اگر yes کہتا ہے تو صرف اللہ کو. اور مانتا ہے تسلیم کرتا ہے کہ اس کے علاوہ باقی سب کو نو لا. نہیں.اور اگر کچھ ماننا ہے تو فقط اللہ کا حکم. اللہ کا نظام.
اب اگر کوئی اللہ کے نظام میں داخل ہو کر کچھ اصول و قواعد کو توڑ ڈالتا ہے یو ان سے روگردانی کر ڈالتا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس نے تمام نظام تمام دین کو جھٹلا دیا.
اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ہم پاکستانی شہری ہیں اور ہم میں سے بہت سے ٹریفک قوانین کو توڑ ڈالتے ہیں بہت سے لوگوں کو ایذاء . پہنچاتے ہیں تو ان کا کو اپنے کئیے ہوئے عمل.کی سزا ملتی ہے. تعزیراتِ پاکستان کے مطابق. نہ کہ انھیں جلا وطن کیا جاتا ہے. موت اور جلا وطنی کی سزائیں بھی تعزیراتِ پاکستان میں موجود ہیں اور ان سزاؤں کا دارومدار ان کے اعمال کی نوعیت کے مطابق ہے. ایسے ہی قوانین دوسرے ممالک میں بھی رائج ہیں. آج تک کسی ملک کے باشندے نے اپنے ملک کے قانون کے خلاف علم.بلند نہیں کیا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ ان سزاؤں میں اس کے معاشرے کی بقا ہے.
یہی مثال دین.کی بھی ہے. اگر ایک مسلمان نماز پڑھتا ہے لیکن تکبر کرتا ہے تو وہ جنت میں ڈائریکٹ نہیں جائے گا بلکہ پہلے اپبی سزا کاٹے گا. دو سال تین سال جتنی بھی اس کے کئے گئے act کی سزا ہے.
لیکن وہ شخص جس نے تمام نظام ہی کا انکار کیا خالق کو بھلا بیٹھا تو انکار کی سزا ضرور پائے گا اور وہ سزا
خلدین فی جہنم یے ابداً ابدا. یعنی منکرین ہمیشہ ہمیشی جہنم.میں رہیں گے.
ایک شخص نے کالج میں داخلہ ہی نہیں لیا لیکن اسے کالج کا نصاب ازبر ہے تو کیا کالج اسے ڈگری عطا کرے گا؟ ؟؟
 

با ادب

محفلین
اب آتے ہیں شریعت کی طرف.
بات کی طوالت پر پیشگی معذرت.
شریعت سے مراد دین نہیں ہے شریعت اسلامی قانون کو کہا جاتا ہے. اسلامی قانون میں اختلاف کی مثال مندرجہ ذیل حکم سے ثابت کی جا سکتی ہے لیکن یہ اختلاف عامیین کے لئیے جائز نہیں جو دینی علم پر عبور نہ رکھتے ہوں.
مثال ...
الحکم الاول.
ھل یقتل الحر بالعبد ' والمسلم بالذمی؟
سوال ہے کہ کیا غلام.کے بدلے آزاد کو اور ذمی یا غیر مسلمان کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ ؟؟
اب جواب میں دو رائے پائی جاتی ہیں. پہلی رائے جمہور علماء کی ہے. جن میں امام مالک ' امام شافعی اور امام احمد بن حنبل شامل ہیں.
جب کہ دوسری رائے امام ابو حنیفہ کی ہے.
رائے الاول.
جمہور کے مطابق غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرنا اور غیر مسلم کے بدلے مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں.
رائے الثانی.
امام ابو حنیفہ کے نزدیک غلام کے بدلے آزاد کو اور غیر مسل کے بدلے مسلمان کو قتل کرنا جائز ہے.
اب ہم دونوں آراء کے دالائل پڑھتے ہیں. جمہور نے بھی اپنی دلیل قرآن اور سنت سے دی ہے اور امام ابو حنیفی نے بھی استدلال ورآن اور سنت سے کیا ہے. اب رائے الراجح کا فیصلہ آپ کر لیجیئے گا اپنے ذہن کے مطابق. یہ الگ الگ شریعت اور شریعت میں اختلاف ہے. دوبارہ وضاحت کر دوں اختلاف ہے مخالفت نہیں.
سب سے پہلے میں جمہور علماء کی دلیل کو بیان کروں گی.
جمہور کہتے ہیں قرآن میں ارشاد ہے سورہ البقرہ آیت ۱۷۸.
کُتِبَ عَلَیکُمُ القِصَاصَ فیِ القُتلی.
یعنی تم پر قتل کے بدلے قصاص لکھ دیا گیا ہے یا فرض کر دیا گیا ہے. اور اس ضمن میں اللہ مساوات کی بات کرتا ہے. جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں.
اَ لحُرُّ بِالحُرِّوَالعَبدُبِالعَبدِ وَالاُنثَیٰ بِالأُ نثَیٰ.

پس آزاد کے بدلے آزاد ' غلام.کے بدلے غلام.اور عورت کے بدلے عورت ہے. تو جمہور فرماتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کو ذمی کے بدلے اور آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جا سکتا.
حدیث سے دلیل دیتے یوئے جمہور بیان کرتے ہیں کہ بخاری شریف میں حضرت علی کرم اللہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لا یقتل مسلم بکافر
یعنی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرو.
اب ہم امام ابو حنیفہ کی دلیل کو بیان کرتے ہیں. قرآن و سنت سے بیان کرتے ہیں.
 
دین اور ضابطے کے لحاظ سے اللہ تعالی قرآن کریم سورۃ آل عمران میں ارشاد فرماتے ہیں
اِنَّ الدِّینَ عِندَاللّٰہِ الاِسلَامُ
بیشک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے
اور پھر مخصوص شریعت کے متبع ہونے کے بارے میں فرمایا (سورۃ آل عمران)
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
آپﷺ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا
اور سورۃ بقرۃ میں ارشاد فرمایا
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ادْخُلُوا فی السِّلْمِ کَافَّةً
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ
بھائی، بڑا تو میں آپ سے کہیں بھی نہیں مگر اپنی رائے ضرور رکھتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں دیکھیے خدا کیا فرماتا ہے:
وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿۱۲۷﴾ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَ۔كَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَاۚ اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿۱۲۸﴾ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلاً مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ ﴿۱۲۹﴾ وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ‌ؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِىۡ الدُّنۡيَا‌ۚ وَاِنَّهٗ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿۱۳۰﴾ اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡ‌ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿۱۳۱﴾ وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُؕ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَ۔كُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَؕ‏‏ ﴿۱۳۲﴾ اَمۡ كُنۡتُمۡ شُهَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِيۡهِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِىۡؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَآٮِٕكَ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۖۚ وَّنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿۱۳۳﴾
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ﴿۱۲۷﴾ اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے ﴿۱۲۸﴾ اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے ﴿۱۲۹﴾ اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہٴ) صلحا میں سے ہوں گے ﴿۱۳۰﴾ جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں ﴿۱۳۱﴾ اور ابرہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے فرزندوں سے یہی کہا) کہ بیٹا خدا نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے تو مسلمان ہی مرنا ﴿۱۳۲﴾ بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں ﴿۱۳۳﴾
- سورۃ البقرۃ
آپ غالباً اسلام، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کی نسبت اکثر لوگوں کی طرح یہی خیال رکھتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ نے خاص ان معنوں میں استعمال فرمائے ہیں جنھیں ہم نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ ورنہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل یعنی آلِ یعقوبؑ کے لیے بھی اسلام ہی پسند کیا گیا ہے۔ آپ کو تو شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ نماز کے آخر میں اکثر سنی جو دعا پڑھتے ہیں وہ قرآن میں جنابِ ابراہیمؑ سے منقول ہے (سورۂِ ابراہیم، آیات ۴۰-۴۱)۔
بھائی، قرآن پڑھا کیجیے۔ ملّا اور اس کی تفسیر و تشریح و تعبیر سے بے‌نیاز ہو کر۔ ربیوں، پادریوں اور پنڈتوں کی طرح دین کو اپنی تعبیر کا محتاج رکھنے اور عوام کو خدا کے نام پر اپنا غلام بنانے والے یہ لوگ خود اسلام کی طرح ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ اصل اسلام کو انھی نے مختلف مذہبوں میں بانٹا ہے۔ یہی اس خدا‌فروشی، ابلہ‌فریبی، دکان‌آرائی اور کشت‌و‌خون کے مجرم ہیں جس کا الزام مومنین پر لگائے جانے کا رواج ہے۔ اسلام تاریخ اور قرآن کی رو سے قطعاٌ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے ہر امت کے لیے اسی کو پسند کیا ہے۔ ہر جگہ اسی کو اس زمانے اور علاقے کی ضرورت کے موافق نازل کیا ہے۔ جیسے پانی مختلف آبخوروں میں مختلف شکل اختیار کرنے کے باوجود پانی ہی رہتا ہے اسی طرح مختلف شریعتوں کی صورت میں نازل ہونے کے باوجود از‌روئے‌قرآن اسلام اسلام ہی رہتا ہے۔ صلوٰۃ صلوٰۃ ہی رہتی ہے، صوم صوم ہی رہتا ہے، ایمان ایمان ہی رہتا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ ہی کی آیت ۶۲:
جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے ﴿۶۲﴾
واضح رہے کہ اس سمیت تمام تراجم مولانا فتح محمد جالندھری کے ہیں۔ میں ان تراجم سے کلی طور پر مطمئن نہیں ہوں مگر فی‌الحال کام چل جائے گا شاید۔ اشارۃً عرض کرنا چاہوں گا کہ مثلاً روزِ قیامت سے مراد آخری آیت میں وہ تصورِ قیامت نہیں جو امتِ مرحوم میں معروف ہے۔ بلکہ اس آیت میں محض ایک بدلہ دینے والے (خدا) اور ایک بدلے کے دن (روزِ آخرت) پر ایمان رکھنے والوں اور اس کے نتیجے میں اعمالِ صالح کرنے والوں کو اجر کی نوید دی گئی ہے۔ عام اس سے کہ وہ ستارے پوجیں یا کعبے کو سجدے کریں۔
بیشک جو لوگ اہلِ کتاب میں سے کافر ہوگئے
یہ آیت خود پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ تمام اہلِ کتاب کافر نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے تمام نام کے مسلمان مسلمان نہیں ہیں۔
مہربانی فرما کر اس کو حوالہ دیجیے گا تاکہ میں اپنے نظریات پر نظر ثانی کر سکوں۔
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً

اس کی جانب اشارہ ہے؟!
جی بھائی۔ سورۂِ مائدہ آیت ۴۸۔
ایک بات تو یہ کہ آپ نے کہا خدا مذہبی رسوم اور عقائد کی بنا پر فیصلہ نہیں کرتا حالانکہ مذہبی رسوم اور عقائد بذات خود خدا کا فیصلہ ہیں۔
پھر یہ تسلیم کیجیے کہ خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار فیصلے فرمائے ہیں صرف ایک نہیں۔ اور ان میں سے عام عقیدے کے بر‌عکس کسی ایک کو بھی قرآن میں جھٹلایا نہیں۔ یعنی قرآن میں کسی شریعت کے منسوخ ہونے کا حکم مجھے آج تک نہیں ملا۔ لہٰذا اپنے سوا باقی سب کو بھی حق دیجیے کہ خود تک پہنچنے والے فیصلے پر عمل پیرا ہوں۔
باقی قرآن میں کہیں بھی کسی کافر سے ایسا وعدہ نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کا انکار بھی کر دو اور محض خیر کے کاموں کی وجہ سے تمھیں وہی انعام دیے جائیں گے جو ماننے والوں کو کو ملنے ہیں۔
کافروں سے تو واقعی کوئی وعدہ نہیں ہے مگر ہر شخص جو امتِ محمدیہؐ سے باہر ہو لازماً کافر نہیں ہوتا۔ اہلِ کتاب سے لے کر صائبین تک کی بابت خدا کی جانب سے نجات کی خوش‌خبریاں میں اوپر نقل کر چکا ہوں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ ہمیں خدا سے اسی کے حکم کے مطابق ڈرنا چاہیے اور اس پر ان باتوں کی تہمت نہیں لگانی چاہیے جو اس نے نہیں کیں بلکہ ہمیں اسلاف یا موجود رہنماؤں سے جھوٹے سچے طور پر معلوم ہوئی ہیں اور ہم ان پر اندھا‌دھند یقین کیے بیٹھے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی قرآن نے بار بار مذمت فرمائی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی نسبت اس نے کہا ہے کہ وہ روزِ محشر ایک دوسرے سے جھگڑیں گے اور الزام لگائیں گے کہ تم نے ہمیں گمراہ کیا۔
 

با ادب

محفلین
أدلتہ حنفیتہ.
امام ابو حنیفہ قرآن سے دلیل دیتے ہوئے سورہ البقرہ کی آیت ۱۷۸ ہی کو بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ
اے لوگو جو ایمان لائے تم پر قتل کے بدلے میں قصاص فرض کیا گیا.
یہ آیت دلالت کرتی ہے قصاص کے اصول پر جو سب کے لئیے ایک جیسا ہے یعنی جان کے بدلے جان ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان وغیرہ کی بنیاد پر. اور یہ حکم عام ہے تمام قاتلوں کے لئیے چاہے وہ غلام ہے آزاد ہے ذمی ہے یا مسلم.
اور جہاں تک تعلق ہے اس آیت کا جس میں
الحر بالحر. . . . . الخ
کا بیان ہے تو اس آیت کا شان نزول یہ تھا کہ دور جاہلیت میں اگر کوئی فریق کسی کو قتل کر ڈالتا تو بدلہ مساویانہ نہیں لیا جاتا تھا بلکہ اگر کوئی فریق کسی غلام.کو مار ڈالتا تو بدلہ لینے والا اپنے غلام کے بدلے آزاد کو قتل.کرتا بعض اوقات ایک کے بدلے دو یا زیادہ افراد کو مارا جاتا. عورت کے بدلے مردوں کو مار ڈالا جاتا. یعنی اپنے نقصان سے دوگنا بدلہ لیا جاتا تھا. جس کے ضمن میں اللہ نے اس آیت کو نازل فرمایا کہ آزاد کے بدلے آزاد؛' غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت. . . . .
امام ابو حنیفہ کی دوسری دلیل.
امام صاحب استدلال کرتے ہیں سورہ مائدہ کی آیت ۱۴۵ سے
وَکَتَبنَا علیہم فیہا ان النفس بالنفس
یعنی ہم.نے ان پر نفس (جان) کے بدلے نفس لکھ (فرض) کر رکھی ہے.
اور یہ آیت امام صاحب کی رائے میں حکم عام ہے اور تمام مقتولین کے لئیے ہے. چاہے وہ آزاد کے بدلے غلام ہو یا غلام کے بدلے آزاد. جس نے جسے قتل کیا وہی اس کا قصاص ہے.

تیسری دلیل.
امام ابو حنیفہ استدلال کرتے ہیں قرآن کی آیت الاسراء آیت نمبر ۳۳ سے
و من قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطنا
جس نے کسی مظلوم.کو قتل.کیا پس اس کا ولی قاضی یا سلطان ہے. یعنی ولی چاہے تو معاف کر کے دیت لے سکتا ہے چاہے تو قصاص طلب کر سکتا ہے. ) بذریعہ عدالت)
چوتھی دلیل.
امام صاحب استدلال کرتے ہیں حدیث سے کہ نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا من قتل عبدہ قتلناہ. و من جدعه جدعناه. . . .
یعنی جس نے کسی انسان کو قتل کیا پس اسے قتل.کیا جائے اور جس نے کسی کا کوئی عضو توڑا اس کا عضو توڑا جائے. . . . .
اس ضمن میں امام ابو حنیفہ تین مزید آراء بھی بیان کرتے ہیں.
) ماخوذ من تفسیر آیات الاحکام من القرآن. بقلم محمد علی الصابونی الجزء الاول. )
 

با ادب

محفلین
اب یہ آیات الاحکام.ہیں جن.میں علماء کا اختلاف موجود ہے. یعنی اسلامی قوانین میں اماموں نے اختلاف کیا تو چار مسالک وجود میں آئے ..اب اگر کوئی یہ بحث کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ حق پر ہیں باقی امام نہیں تو جھوٹ اور اگر کوئی یہ فرماتا ہے کہ امام شافعی حق پر ہیں باقی نہیں تو جھوٹ اسی طرح باقی امام. ہر امام نے رائے قرآن اور حدیث سے دی ہے. ہاں اختلاف بہرحال.موجود ہے. آپ جس رائے کو راجح سمجھیں اسے لے لیں لیکن دین کے اندر رہتے ہوئے دین سے باہر جا کر نہیں.
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top