نوید ناظم
محفلین
دین میں اخلااقیات انتہائی اہم ہیں مگر اخلاقیات بذاتِ خود کوئی دین نہیں۔۔۔۔ دین کی بنیاد اچھائی اور برائی پر نہیں ہے بلکہ اچھائی اور برائی کے بارے احکمات دینے والے سے متعلق ہے۔ ایک ایسا انسان جو اسلام کی تمام خوبیوں کا قائل ہے اور کلمہ طیبہ کا قائل نہیں ہے تو ہم اسے مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جس کا عمل کمزور ہے مگر وہ کلمہ گو ہے تو وہ مسلمان ہی ہے۔ اسلام ہی میں ایک فرقہ معتزلہ سامنے آیا جو یہ سمجھتا تھا کہ گناہِ کبیرا کے بعد آدمی مسلمان نہیں رہتا اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، مگر اس وقت کے علماء اور اصفیاء نے اس کا بڑھ چڑھ کر رد کیا۔ خاص طور پر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے۔۔۔۔ آپ کی پیروی کرنے والے اشعریا کہلائے جو تا دیر معتزلہ کی طرف سے پھیلانی جانے والی گمراہیوں کا دفاع کرتے رہے۔
اگر ہم دیکھیں تو آج تصوف کے نام پر جو رویہ اسلام سے اخذ کیا جا رہا ہے وہ قابلِ افسوس ہے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ '' تصوف' حسنِ اخلاق کا نام ہے'' مگر یہ نہیں فرمایا کہ محض حسنِ اخلاق ہی تصوف ہے۔ صرف سچ بولنے والا صوفی نہیں ہوتا' کسی کے حکم پر سچ بولنے والا صوفی ہوتا ہے۔ نیکی وہی ہے جو کسی حکم کے تحت کی جائے۔۔۔۔۔ جب مسلمان کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ اس لیے کرتا ہے کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے' انسانیت کا بھلا بعد کی بات ہے' ظاہر ہے کسی انسان کی مدد کرنے سے انسانیت کا برا تو نہیں ہو سکتا۔ مگر یہاں ایک نکتے کی بات حضرت واصف علی واصف نے بیان فرمائی' فرمایا'' دشمن کی تلوار پر احسان کرو گے تو بھائی کی گردن کا نقصان ہو گا'' اسی ضمن میں ایک حدیث بھی آتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم کی مدد کرو' پوچھا گیا حضور ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ فرمایا گیا اسے ظلم کرنے سے روکا جائے۔ گویا ظالم صرف مظلوم پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر بھی کرتا ہے۔ اسلام دینِ رحمت ہے اور اسی دینِ رحمت میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم بھی ہے حالانکہ چور کو معاف کیا جا سکتا ہے' آخر چور انسان ہی تو ہے۔ مگر یہاں پر ہاتھ کاٹنا رحمت ہے۔ بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے بات میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر آج کے مسلمان کے اندر الجھاؤ اتنے ہیں کہ وہ ہر بات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ علماء کے خلاف جتنی چرب زبانیاں آج سننے کو ملتی ہیں کبھی دیکھیں نہ سنیں۔ علماء جب آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو وہ اختلاف احدیث ہی کی بنا پر ہوتا ہے' اپنی بصیرت اور بساط کے مطابق استدلال کیا جاتا ہے اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ اوائل سے ایسا ہی ہے۔ حتیٰ کہ اصفیاء اور علماء کے درمیان بڑا اختلاف رہا مگر تضاد نہیں رہا۔ حضرتِ منصور حلاج اور حضرتِ سرمد جیسے صوفیا کو قتل کیا گیا اور علماء ہی نے فتوے دیے' مگر ان فتووں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ ان اصفیاء کی بات سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ ہر بات کا ایک راز ہوتا ہے مگر جب اسے ظاہر کیا جائے اور وہ قانون (شریعت) کی زد میں آ جائے تو سزا یقینی ہے۔ اس لیے صوٍفیاء نے جو باتیں علماء کے بارے میں کہیں وہ ہمیشہ جاننے والوں کو کہیں' اپنے صحبت نشینوں کو بتائیں اور ان میں کہیں کسی کی توہین کا پہلو نہ تھا۔ مگر آج ہر کوئی ہر بات کیے جا رہا ہے۔ کسی کے پاس بات سمجھنے کا وقت ہے نہ توفیق۔ ہر کوئی بلھے شاہ جیسی بات کرتا ہے مگر ہر کوئی بلھے شاہ نہیں ہے۔ بات کرنے کے لیے بات کے لحاظ سے منصب اور مقام درکار ہے۔ جج جب عدالت میں کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے تو اس کی بات فیصلہ کہلاتی ہے۔۔۔ اور بغیر کرسی پر بیٹھے رائے تو دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ جسے فیصلہ کرنے کا شوق ہو، وہ پہلے جج بنے۔۔۔۔ ورنہ خاموشی میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔ بقول قبلہ واصف صاحب '' خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم''
اگر ہم دیکھیں تو آج تصوف کے نام پر جو رویہ اسلام سے اخذ کیا جا رہا ہے وہ قابلِ افسوس ہے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ '' تصوف' حسنِ اخلاق کا نام ہے'' مگر یہ نہیں فرمایا کہ محض حسنِ اخلاق ہی تصوف ہے۔ صرف سچ بولنے والا صوفی نہیں ہوتا' کسی کے حکم پر سچ بولنے والا صوفی ہوتا ہے۔ نیکی وہی ہے جو کسی حکم کے تحت کی جائے۔۔۔۔۔ جب مسلمان کسی کی مدد کرتا ہے تو وہ اس لیے کرتا ہے کہ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے' انسانیت کا بھلا بعد کی بات ہے' ظاہر ہے کسی انسان کی مدد کرنے سے انسانیت کا برا تو نہیں ہو سکتا۔ مگر یہاں ایک نکتے کی بات حضرت واصف علی واصف نے بیان فرمائی' فرمایا'' دشمن کی تلوار پر احسان کرو گے تو بھائی کی گردن کا نقصان ہو گا'' اسی ضمن میں ایک حدیث بھی آتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظالم کی مدد کرو' پوچھا گیا حضور ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ فرمایا گیا اسے ظلم کرنے سے روکا جائے۔ گویا ظالم صرف مظلوم پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ پر بھی کرتا ہے۔ اسلام دینِ رحمت ہے اور اسی دینِ رحمت میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم بھی ہے حالانکہ چور کو معاف کیا جا سکتا ہے' آخر چور انسان ہی تو ہے۔ مگر یہاں پر ہاتھ کاٹنا رحمت ہے۔ بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے بات میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر آج کے مسلمان کے اندر الجھاؤ اتنے ہیں کہ وہ ہر بات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ علماء کے خلاف جتنی چرب زبانیاں آج سننے کو ملتی ہیں کبھی دیکھیں نہ سنیں۔ علماء جب آپس میں اختلاف کرتے ہیں تو وہ اختلاف احدیث ہی کی بنا پر ہوتا ہے' اپنی بصیرت اور بساط کے مطابق استدلال کیا جاتا ہے اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ اوائل سے ایسا ہی ہے۔ حتیٰ کہ اصفیاء اور علماء کے درمیان بڑا اختلاف رہا مگر تضاد نہیں رہا۔ حضرتِ منصور حلاج اور حضرتِ سرمد جیسے صوفیا کو قتل کیا گیا اور علماء ہی نے فتوے دیے' مگر ان فتووں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ ان اصفیاء کی بات سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ راز کی بات یہ ہے کہ ہر بات کا ایک راز ہوتا ہے مگر جب اسے ظاہر کیا جائے اور وہ قانون (شریعت) کی زد میں آ جائے تو سزا یقینی ہے۔ اس لیے صوٍفیاء نے جو باتیں علماء کے بارے میں کہیں وہ ہمیشہ جاننے والوں کو کہیں' اپنے صحبت نشینوں کو بتائیں اور ان میں کہیں کسی کی توہین کا پہلو نہ تھا۔ مگر آج ہر کوئی ہر بات کیے جا رہا ہے۔ کسی کے پاس بات سمجھنے کا وقت ہے نہ توفیق۔ ہر کوئی بلھے شاہ جیسی بات کرتا ہے مگر ہر کوئی بلھے شاہ نہیں ہے۔ بات کرنے کے لیے بات کے لحاظ سے منصب اور مقام درکار ہے۔ جج جب عدالت میں کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے تو اس کی بات فیصلہ کہلاتی ہے۔۔۔ اور بغیر کرسی پر بیٹھے رائے تو دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ جسے فیصلہ کرنے کا شوق ہو، وہ پہلے جج بنے۔۔۔۔ ورنہ خاموشی میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔ بقول قبلہ واصف صاحب '' خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم''
آخری تدوین: