با ادب
محفلین
بھائی، بڑا تو میں آپ سے کہیں بھی نہیں مگر اپنی رائے ضرور رکھتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں دیکھیے خدا کیا فرماتا ہے:
وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ﴿۱۲۷﴾ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَ۔كَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَاۚ اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ﴿۱۲۸﴾ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلاً مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ﴿۱۲۹﴾ وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِىۡ الدُّنۡيَاۚ وَاِنَّهٗ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ ﴿۱۳۰﴾ اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ﴿۱۳۱﴾ وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُؕ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَ۔كُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَؕ ﴿۱۳۲﴾ اَمۡ كُنۡتُمۡ شُهَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِيۡهِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِىۡؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَآٮِٕكَ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۖۚ وَّنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ﴿۱۲۷﴾ اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے ﴿۱۲۸﴾ اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے ﴿۱۲۹﴾ اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہٴ) صلحا میں سے ہوں گے ﴿۱۳۰﴾ جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں ﴿۱۳۱﴾ اور ابرہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے فرزندوں سے یہی کہا) کہ بیٹا خدا نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے تو مسلمان ہی مرنا ﴿۱۳۲﴾ بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں ﴿۱۳۳﴾
- سورۃ البقرۃ
آپ غالباً اسلام، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کی نسبت اکثر لوگوں کی طرح یہی خیال رکھتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ نے خاص ان معنوں میں استعمال فرمائے ہیں جنھیں ہم نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ ورنہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل یعنی آلِ یعقوبؑ کے لیے بھی اسلام ہی پسند کیا گیا ہے۔ آپ کو تو شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ نماز کے آخر میں اکثر سنی جو دعا پڑھتے ہیں وہ قرآن میں جنابِ ابراہیمؑ سے منقول ہے (سورۂِ ابراہیم، آیات ۴۰-۴۱)۔
بھائی، قرآن پڑھا کیجیے۔ ملّا اور اس کی تفسیر و تشریح و تعبیر سے بےنیاز ہو کر۔ ربیوں، پادریوں اور پنڈتوں کی طرح دین کو اپنی تعبیر کا محتاج رکھنے اور عوام کو خدا کے نام پر اپنا غلام بنانے والے یہ لوگ خود اسلام کی طرح ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ اصل اسلام کو انھی نے مختلف مذہبوں میں بانٹا ہے۔ یہی اس خدافروشی، ابلہفریبی، دکانآرائی اور کشتوخون کے مجرم ہیں جس کا الزام مومنین پر لگائے جانے کا رواج ہے۔ اسلام تاریخ اور قرآن کی رو سے قطعاٌ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے ہر امت کے لیے اسی کو پسند کیا ہے۔ ہر جگہ اسی کو اس زمانے اور علاقے کی ضرورت کے موافق نازل کیا ہے۔ جیسے پانی مختلف آبخوروں میں مختلف شکل اختیار کرنے کے باوجود پانی ہی رہتا ہے اسی طرح مختلف شریعتوں کی صورت میں نازل ہونے کے باوجود ازروئےقرآن اسلام اسلام ہی رہتا ہے۔ صلوٰۃ صلوٰۃ ہی رہتی ہے، صوم صوم ہی رہتا ہے، ایمان ایمان ہی رہتا ہے
جناب راحیل فاروق صاحب یہاں تک.تو آپ سے متفق ہوں
وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ﴿۱۲۷﴾ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَ۔كَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَاۚ اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ ﴿۱۲۸﴾ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلاً مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ﴿۱۲۹﴾ وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِىۡ الدُّنۡيَاۚ وَاِنَّهٗ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ ﴿۱۳۰﴾ اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ ﴿۱۳۱﴾ وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُؕ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَ۔كُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَؕ ﴿۱۳۲﴾ اَمۡ كُنۡتُمۡ شُهَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِيۡهِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِىۡؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَآٮِٕكَ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا ۖۚ وَّنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے ﴿۱۲۷﴾ اے پروردگار، ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو۔ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رہیو، اور (پروردگار) ہمیں طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے ﴿۱۲۸﴾ اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے ﴿۱۲۹﴾ اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہٴ) صلحا میں سے ہوں گے ﴿۱۳۰﴾ جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں ﴿۱۳۱﴾ اور ابرہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے فرزندوں سے یہی کہا) کہ بیٹا خدا نے تمہارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے تو مرنا ہے تو مسلمان ہی مرنا ﴿۱۳۲﴾ بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں ﴿۱۳۳﴾
- سورۃ البقرۃ
آپ غالباً اسلام، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کی نسبت اکثر لوگوں کی طرح یہی خیال رکھتے ہیں کہ یہ الفاظ اللہ نے خاص ان معنوں میں استعمال فرمائے ہیں جنھیں ہم نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ ورنہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل یعنی آلِ یعقوبؑ کے لیے بھی اسلام ہی پسند کیا گیا ہے۔ آپ کو تو شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ نماز کے آخر میں اکثر سنی جو دعا پڑھتے ہیں وہ قرآن میں جنابِ ابراہیمؑ سے منقول ہے (سورۂِ ابراہیم، آیات ۴۰-۴۱)۔
بھائی، قرآن پڑھا کیجیے۔ ملّا اور اس کی تفسیر و تشریح و تعبیر سے بےنیاز ہو کر۔ ربیوں، پادریوں اور پنڈتوں کی طرح دین کو اپنی تعبیر کا محتاج رکھنے اور عوام کو خدا کے نام پر اپنا غلام بنانے والے یہ لوگ خود اسلام کی طرح ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ اصل اسلام کو انھی نے مختلف مذہبوں میں بانٹا ہے۔ یہی اس خدافروشی، ابلہفریبی، دکانآرائی اور کشتوخون کے مجرم ہیں جس کا الزام مومنین پر لگائے جانے کا رواج ہے۔ اسلام تاریخ اور قرآن کی رو سے قطعاٌ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے ہر امت کے لیے اسی کو پسند کیا ہے۔ ہر جگہ اسی کو اس زمانے اور علاقے کی ضرورت کے موافق نازل کیا ہے۔ جیسے پانی مختلف آبخوروں میں مختلف شکل اختیار کرنے کے باوجود پانی ہی رہتا ہے اسی طرح مختلف شریعتوں کی صورت میں نازل ہونے کے باوجود ازروئےقرآن اسلام اسلام ہی رہتا ہے۔ صلوٰۃ صلوٰۃ ہی رہتی ہے، صوم صوم ہی رہتا ہے، ایمان ایمان ہی رہتا ہے
جناب راحیل فاروق صاحب یہاں تک.تو آپ سے متفق ہوں