ناز نین بہن کی فرمائش پر ایک ملاقات کا احوال

فہیم

لائبریرین
لین جی نازنین ناز بہنا اتفاق سے آج ہمارے ہاتھ بنا تلاش کیے ہی ایک مزید ملاقات کا احوال لگ گیا:)
اور جو لکھا ہوا بھی ہمارے ہاتھ سے ہے۔
تو سوچا کہ چلو اسے بھی آپ کے ساتھ شئیر کردیا جائے:)

اب ہم مغل بھائی کی ٹکر کا تو نہیں لکھ سکتے۔ اس لیے شاید اس میں آپ کو مغل بھائی کا وہ دلکش انداز نظر نہ آئے جو ان کی تحریروں کا خاصہ ہے :)
 

فہیم

لائبریرین
آفس سے لیٹ آنے کی وجہ سے میرا پروگرام کافی بگڑا ہوا سا ہوگیا تھا۔ساتھ میں کراچی کے حالات کے متعلق بھی سننے میں آیا کہ ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسے میں اور سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کل کیا ہوگا۔
ہونا یہ تھا کہ 22 فروری 2009 بروزِ اتوار میری جناب وکیل صاحب، شامل کے ابا، 3 م والے شاعر اور ضیاء صاحب کے سپرد سے ملاقات طے تھی۔
ان چاروں شخصیات کا میں نہیں سمجھتا کہ تعارف کرانا ضروری ہے
خیر تو رات میں گھر پہنچنے پر نہیں معلوم تھا کہ کل یہ ملاقات ہوبھی سکے گی یا نہیں۔پھر بھی میں نے آج کا کام کل پر نہیں ڈالتے ہوئے رات میں ہی کپڑے پریس کرلیے۔ کہ کیا پتہ صبح ا س کا وقت ملے یا نہیں یا پھر کہیں مشہور زمانہ لوڈ شیڈنگ نہ آڑے آجائے۔
ایک چیز جس کا مجھے بڑا خدشہ تھا وہ تھی میری صبح دیر سے اٹھنے کی عادت اور اتوار کو تو میں عام دنوں کے مقابلے اور بھی دیر سے بستر چھوڑتا ہوں۔
خیر صبح وقت مقرر پر آنکھ کھل گئی۔
سستی کے ساتھ اس ملاقات کی تیاری کرنا شروع کی۔ چند ایک پوسٹس اردو محفل پر کیں۔ اور پھر جب تیاری کو فائنل ٹچ دے رہا تھا تو ضیاء صاحب کے پتر کا میسج موصول ہوا کہ ان صاحب کا پروگرام تقریباً کینسل سمجھوں۔ کیونکہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کیا جائے! کہ مجھے وکیل صاحب کی کال موصول ہوئی کہ ہاں بھئی کب تک پہنچ رہے ہو اور ساتھ میں یہ اطۙلاع بھی ملی کہ 3 م والے شاعر تو روانہ بھی ہوگئے ہیں اس ملاقات میں شرکت کےلیے ۔
اب میں نے سوچا کہ چلو باہر تو نکلا جائے جیسے حالات ہونگے ویسا ہی کرلیا جائے گا۔
گھر سے نکلا ہی تھا کہ پھر ضیاء صاحب کے سپرد کی طرف سے ایک میسج موصول ہوگیا کہ وہ بھی گھر سے نکل رہے ہیں۔ اور میرے سے پوچھا گیا کہ میں کہاں ہوں۔
میں نے بھی بذریعہ میسج اطلاع دی کہ میں بھی گھر سے نکل چکا ہوں۔
چونکہ رات دیر سے آفس سے آنے کی وجہ سے رات والے کام کچھ رہ گئے تھے جن میں ایک کام شیو کرانا بھی تھا۔ اتوار کے دن جلدی نمبر آجانا بھی غنیمت ہی ہوتا ہے ۔
اس لیے میں نظریں دوڑاتا ہوا سفر طے کرتا گیا۔
ایک سیلون میں کم رش نظر آیا وہاں پہنچا تو اتفاق سے شیو کرانے کے لیے ایک سیٹ خالی مل گئی۔
شیو کرانے کے دوران ہی ابن ضیاء نے میسج کرکرکے جو ریڑ ماری ہے کہ بس
شیو بھی کراتا گیا اور ٹیڑھی نظریں کرکے موبائل کو دیکھتے ہوئے جناب کو میسجز کے جواب بھی دیتا گیا۔
وکیل صاحب نے ملاقات کا وقت دوپہر 1:30 منٹ طے کیا تھا۔
میں نے اس بات پر کافی زور دے کر ان سے کہا تھا کہ دیکھ لیں آپ جو وقت کہہ رہے ہیں سب لوگ پہنچ بھی جائیں گے اس وقت؟ تو ان کا جواب تھا کہ ہاں فکر نہ کرو۔
اور سیلون سے نکل کر وقت دیکھا تو 1:20 منٹ ہوچکے تھے۔
جانا بھی بس سے تھا۔ آج کل بائیک پاس نہیں اور نئی کے شوق میں پرانی سے بھی ہاتھ دھولیے ہیں اور اب نئی لیتے ہوئے دس باتیں دماغ میں گردش کرجاتی ہیں۔
بس اسٹاپ پر پہنچ کر تھوڑی دیر دھوپ سے فائدے حاصل کیے۔ اور پھر مطلوبہ منی بس میں سوار ہوکر منزل کی جانب رواں دواں ہوئے۔
کیوں نہ سفر کی باتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے جلد ی سے منزل پر پہنچا جائے۔
بس یہ بتاتا چلو کہ دوران سفر ہی مجھے ضیاء صاحب کے صاحبزاد ے عمار خاں کی طرف سے اطلاع مل گئی کہ وہ مطلوبہ جگہ پہنچ چکے ہیں۔
مطلوبہ جگہ پہنچ کر میں نے پہلے انہیں صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ مطلوبہ جگہ ملیر کا علاقہ تھا۔ شامل کے ابا حضور بھی وہیں رہائش پذیر ہیں اور وکیل صاحب کی رہائش اور آفس بھی وہیں قریب میں ہے۔ ساتھ میں عمار صاحب کی خالہ کا گھر بھی وہیں ہے۔ اوروہ صاحب تب وہیں موجود میٹھے کے مزے میں گم تھے۔
مجھے کہا کہ بس 2 منٹ میں آرہا ہوں۔ اور کوئی 5 منٹ انہوں نے اس میٹھے کو ہڑپنے میں لگائے اور پھر خراما ں خراماں ہماری جانب پیش قدمی شروع کی اور کوئی 8 منٹ بعد مجھے وہ دور سے آتے دکھائی دیئے۔
میں نے سوچا کہ جس رفتار سے وہ آرہے ہیں اسطرح تو یہاں پہنچتے پہنچتے مزید کچھ منٹ ضائع کردیں گے۔ اس لیے میں اپنے مخصوص انداز میں تیز تیز قدم اٹھاتے ان کی طرف چل پڑا اور ان کو راستے میں ہی بغلگیر کرلیا۔
ابھی الگ ہی ہوئے تھے اور عمار نے شامل کے ابا حضور کو خبر دینی ہی چاہی تھی کہ ہم پہنچ گئے ہیں کہ شامل کے ابا حضور جناب فہد کہر صاحب خود ہی آتے دکھائی دے گئے۔ ان سے بغلگیر ہونے اور سلام دعا کے بعد انہوں نے ہمیں بتایا کہ بھائی شریف انسان بنو، قبل اس کے کہ میں جناب سے اس کے متعلق استفسار کرتا انہوں نے کہا کہ یہاں کھڑے کیوں ہو۔ چلو چل کر شریفوں کی طرح پیچھے موجود ہوٹل جس کا نام تو کچھ اور ہے لیکن وہ وہاں “ملوک ہوٹل ” کے نام سے مشہور ہے۔ میں چل کر بیٹھے ہیں۔
ہم ان کی شرافت والی بات کو شرافت سے قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ جاکر ملوک ہوٹل میں نشست پر براجمان ہوگئے۔
وہاں فہد بھائی نے مطالبہ کیا کہ ہم کو کھانا کھالینا چاہیے۔ کیونکہ کھانے کا وقت ہوچکا ہے۔ لیکن چونکہ عمار صاحب تو پہلے ہی میٹھے کو وہ بھی خالہ کے گھر کے اپنے معدے کی زینت بناچکے تھے۔ اور مجھے بھی بھوک نہیں تھی کیونکہ گھر سے ناشتہ کرکے چلا تھا۔ اس لیے ہم فہد بھائی کی اس آفر سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔
دوسری پیشکش کولڈرنک کی ہوئی جسے قبول کرلیا گیا۔
قبل اس کے کہ میں ڈیو یا پیپسی کا نام لیتا معلوم ہواکہ اسپرائٹ اور کوکا کولا میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوگا۔ تو پھر کوک کو ہی شغل کے لیے منتخب کرنا پڑا۔
کولڈرنک کے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا گیا۔ زیادہ تر گفتگو عمار اور ابوشامل صاحب کے درمیان ہوئی درمیان میں تھوڑا حصہ میں نے بھی شامل کیا۔
اور پھر ہم نے وقت کو دیکھتے ہوئے وہ نشست چھوڑ دی۔
باہر آکر ہم نے روڈ کراس کیا اور ایسے چہل قدمی کے انداز میں الٹی طرف پیش قدمی شروع کی۔ راستے میں عمار اور ابوشامل صاحب دو قومی نظریہ پر بات کرتے گئے اور میں احمقوں کے انداز میں آنکھوں کو حلقوں میں گردش دیتا ہوا ساتھ چلتا رہا۔
ابھی تھوڑی ہی دور آئے تھے کہ اچانک ایک موٹر سائیکل قریب آکر رکی جس پر ایک صا حب بڑے بڑے آئینہ نما شیشوں والی پرانے اسٹائل کی گاگل لگائے اور منہ سے دھواں چھوڑتے ہوئے، سوار تھے۔
چونکہ پہلے ان صاحب کو میں تصاویر اور ویڈیو میں دیکھ چکا تھا اس لیے پہچاننے میں کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہوئی کہ یہ 3 م والے شاعر جناب محمد محمود مغل ہیں۔
انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں موٹر سائیکل۔۔۔ ۔ اوہ۔۔۔ سوری۔۔۔ اپنی بلیہ کو سائیڈ اسٹین پر ٹکایا۔ اور اتر کر عمار سے بچھڑے ہوئے دوست کی مانند بغلگیر ہوگئے۔
بعد میں ابوشامل صاحب کی باری آئی۔
اور سب سے آخر میں ناچیز کی۔
مغل صاحب سے بغلگیر ہوتے ہوئے من تو کیا کہ تھوڑا سا طاقت کا مظاہر ہ بھی کیا جائے لیکن پھر ہم نے اپنے خیال کو تبدیل کرتے ہوئے نرم انداز کے مناقعے سے ہی گزارہ کیا۔
اس سارے عمل سے فراغت کے بعد مغل صاحب نے تعارف کی بابت دریافت کیا۔
پھر خود ہی انہوں نے پہلے ابو شامل صاحب کو پہچان لیا۔ اور عمار کو تو وہ جانتے ہی تھے۔
میری طرف نظریں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں کون ہوں؟
شعیب صفدر؟ یا فہیم ؟
ہم نے پہلے والے نام کو اپنے آپ سے منصوب نہ کرتے ہوئے اپنا تعارف پیش کردیا۔

اتنے میں انہیں وکیل صاحب یعنی کہ جناب شعیب صفدر صاحب کی طرف سے کال موصول ہوئی کہ وہ اپنے آفس میں پہنچ چکے ہیں اور اتفاق سے ان کا آفس اسی بلڈنگ کے برابر والی بلڈنگ میں تھا جہاں اس وقت ہم لوگ موجود تھے۔
ان کے آفس تک پہنچنے میں کوئی 5 منٹ لگے۔ راستے میں عمار اور ابوشامل صاحب پھر 2 قومی نظریے کو لے کر بات کرتے رہے، مغل صاحب اپنی بلیہ کو ہاتھ سے تھامے پیروں سے چلتے ہوئے ساتھ چلتے گئے اور میں ایویں ہی یہاں وہاں نظریں دوڑائیں ان کا ساتھ دیتا رہا۔

شعیب صفدر صاحب نے نیچے ہی ہمارا استقبال کیا اور باری باری سب سے بغلگیر ہوئے۔
آخر میں میرا نمبر آیا جب مجھ سے بغلگیر ہوئے تو اس وقت ٹائم کوئی 3 بجے کا ہوا تھا۔
میں نے الگ ہوتے ہی بنا مروت کیے ان کو ان کے 1:30 یاد دلائے۔
جس کو وہ اپنی ہنسی میں اڑاگئے۔
وکیل صاحب کے آفس میں پہنچ کر 1 سے 2 منٹ تو سب کرسیوں پر جمے خاموشی سے اپنے اعصاب کو پرسکون کرتے رہے۔
پھر گفتگو کا آغاز کیا گیا۔
سب سے زیادہ باتیں اخبار کے کالموں او رکالم نگاروں پر ہوئیں۔
جس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے جناب مغل صاحب اور جناب شامل کے پاپا تھے۔ تھوڑا بہت ساتھ عمار صاحب نے بھی دیا۔ شعیب صفدر صاحب خاموشی سے صرف ان کی شکلیں تکتے رہے اور میں چپ بیٹھا صرف سنتا رہا۔
پوری گفتگو اس لیے شئیر نہیں کررہا کہ اب میں لکھتے لکھتے تھک گیا ہوں۔
گفتگو کا احوال آپ کو مغل صاحب کی پوسٹ جو وہ کریں گے اس سے بھی معلوم ہوجائے گا۔
ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جب گفتگو شروع ہوئی تو مغل صاحب نے اپنے شاعرانہ انداز میں بڑی گاڑھی اردو استعمال کرنا چاہی۔
لیکن اس پر شعیب صفدر صاحب کے پسینے چھوٹ پڑے اور انہوں نے پہلے تو فین آن کیا اور بعد میں مغل صاحب کو کہا کہ بھائی ذرا آسان زبان میں بات کریں یہ تو ساری سر پر سے گزر گئی ہے
چونکہ وکیل صاحب کا آفس تھا اس لیے وکیل صاحب نے ہمیں کیلے اور چیکو مکس کا شیک پلوایا۔
مغل صاحب نے ساتھ میں دھواں چھوڑنے کا شغل بھی جاری رکھا۔
پھر مغل صاحب سب سے پہلے اجازت لے کر اٹھ گئے۔

اور بس اب اختتام پذیر کرتا ہوں۔
واقعی بہت تھک گیا ہوں۔
اس کے بعد ظاہر ہے سب کی اپنے گھروں کو واپسی ہوئی۔
 

نازنین ناز

محفلین
بہت خوب فہیم بھائی مزا آگیا پڑھ کر۔ آپ میں تو لکھنے کی خداد داد صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر آپ لکھتے ہیں تو پلیز اسے زوروشور سے جاری رکھیے اور اگر نہیں لکھتے تو یقین کیجئے کہ آپ میں ایک اچھے لکھاری کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں، سو قلم اُٹھائیے اور شروع ہوجائیے اور ہم جیسے علم وادب کی شیداؤں کی علمی تشنگی کو سیراب کرتے رہیے۔ بہت شکریہ فرمائش بلکہ فرمائشیں پوری کرنے کا۔ :)
ایک وضاحت درکار ہے 22 فروری کی ملاقات کس سن میں ہوئی تھی؟ اس کا جواب بھی تدوین کی شکل میں عنایت فرمادیجئے تو ملاقات کا احوال ہر لحاظ سے مکمل ہوجائے۔ :)
 

فہیم

لائبریرین
بہت خوب فہیم بھائی مزا آگیا پڑھ کر۔ آپ میں تو لکھنے کی خداد داد صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر آپ لکھتے ہیں تو پلیز اسے زوروشور سے جاری رکھیے اور اگر نہیں لکھتے تو یقین کیجئے کہ آپ میں ایک اچھے لکھاری کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں، سو قلم اُٹھائیے اور شروع ہوجائیے اور ہم جیسے علم وادب کی شیداؤں کی علمی تشنگی کو سیراب کرتے رہیے۔ بہت شکریہ فرمائش بلکہ فرمائشیں پوری کرنے کا۔ :)
ایک وضاحت درکار ہے 22 فروری کی ملاقات کس سن میں ہوئی تھی؟ اس کا جواب بھی تدوین کی شکل میں عنایت فرمادیجئے تو ملاقات کا احوال ہر لحاظ سے مکمل ہوجائے۔ :)


شکریہ بہنا :)
اتنی تعریفیں سن کر تو مجھے شرم آنے لگی ہے:blushing:
جب تک بلاگ تھا تب تک کبھی کبھار کچھ لکھ لیتا تھا۔
اب بلاگ ہی مرحوم ہوگیا پھر دوبارہ بنایا ہی نہیں۔

باقی آپ کے حکم کی تعمیل کردی ہے :)
 

عثمان

محفلین
ارے آپ نے تو حال ہی میں اردو بلاگران سے ملاقات کی ہے۔ جس کی تصویری فرمائش ہم نے آپ سے کی تھی۔ اگرچہ اب ہم وہ تصاویر دیکھ چکے ہیں۔
لیکن یہ اڑھائی سالہ پرانی ملاقات کا احوال اب ؟ کہیں بال کٹانے کے بعد آپ کی یاداشت ماضی ہی میں تو نہیں اٹک کے رہ گئی ؟ :confused:
 
فہیم بھائی کے بلاگ کے بھی کیا خوب رنگ ہوتے تھے۔ تحریریں بہت جلدی جلدی شائع نہیں ہوتی تھیں لیکن ہر دفعہ نئے رنگ، نئے مزاج، نئے ماحول اور نئے موضوع پر کوئی خوبصورت اور فرحت بخش سی تحریر آ ٹپکتی تھی۔ :)
 

فہیم

لائبریرین
ارے آپ نے تو حال ہی میں اردو بلاگران سے ملاقات کی ہے۔ جس کی تصویری فرمائش ہم نے آپ سے کی تھی۔ اگرچہ اب ہم وہ تصاویر دیکھ چکے ہیں۔
لیکن یہ اڑھائی سالہ پرانی ملاقات کا احوال اب ؟ کہیں بال کٹانے کے بعد آپ کی یاداشت ماضی ہی میں تو نہیں اٹک کے رہ گئی ؟ :confused:

حضرت اس ملاقات کا احوال تو خیر پڑھنے کو مل ہی جائے گا۔ انشاءاللہ
ہمارے ہی نہ سہی کسی اور کے قلم سے سہی۔

لیکن یہ ملاقات کا احوال یوں پیش کیا گیا کہ ہماری بہن کی خواہش تھی کہ کچھ پرانی ملاقات کے احوال پیش کیے جائیں :)
 

فہیم

لائبریرین
فہیم بھائی کے بلاگ کے بھی کیا خوب رنگ ہوتے تھے۔ تحریریں بہت جلدی جلدی شائع نہیں ہوتی تھیں لیکن ہر دفعہ نئے رنگ، نئے مزاج، نئے ماحول اور نئے موضوع پر کوئی خوبصورت اور فرحت بخش سی تحریر آ ٹپکتی تھی۔ :)

:)
آپ کی محبت ہے جناب کہ آپ کو ہماری وہ جھنجلاہٹ میں لکھی گئی تحریریں بھی فرحت بخش لگتی تھیں :)
 

فہیم

لائبریرین
کیا کہنے فہیم ، عمدہ طریقے سے روداد بیان کی ہے.

شکریہ محب بھائی۔
اور آپ کہاں گم صم ہیں آج کل۔
ہمیں یاد ہے کہ ہم نے آپ سے ملاقات کا احوال بھی بیان کیا تھا۔
اور شاید وہ سب سے پہلی کوئی تحریر تھی ہماری جس میں کسی ملاقات کا احوال بیان کیا گیا تھا :)
 

فہیم

لائبریرین
واؤؤؤؤؤؤؤ
یپییی یی کون سی والی کھلا رہے ہیں بھیا


جو تم کہو :)
ویسے یہ فالودہ آئسکریم چلے گی کیا :)
url
 
Top