جاسم محمد
محفلین
ناسا کا خلائی جہاز کامیابی سے مریخی سطح پر اتر گیا
ویب ڈیسک 28 منٹ پہلے
ناسا کے جدید مریخی جہاز پر پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر بھی موجود ہوگا۔ فوٹو: ناسا جے پی ایل
پیساڈینا، کیلیفورنیا: ناسا کی جانب سے مریخ کی جانب روانہ کیا گیا روور (مریخی گاڑی) کسی مشکل کے بغیر مریخی سطح پر اتر گیا ہے۔ پاکستان وقت کے مطابق ایک بج کر 55 منٹ پر اس نے مریخی سطح کو چھوا۔
پاکستانی وقت کے مطابق ایک بج کر 45 منٹ پر خلائی جہاز کروز اسٹیج علیحدگی پر پہنچا۔ ایک بج کر 50 منٹ پر مریخی فضا میں داخل ہوگیا۔اس کے بعد اسے مریخی فضا کے سب سے بڑی رکاوٹ یعنی بلند ترین درجہ حرارت سے گزرنا تھا اور ایک بج کر 50 منٹ پر یہ اس مرحلے سے بھی گزرگیا۔ اگلہ مرحلہ پیراشوٹ کھلنے کا تھا ۔ اس دوران ناسا کے کنٹرول روم میں سکوت طاری رہا اور ماہرین سانس روکے تمام مراحل کو دیکھتے رہے۔
ایک بج کر 53 منٹ پر اس نے پیراشوٹ کھول لیے جو ایک اہم مرحلہ تھا اور کنٹرول روم تالیوں سے گونج اٹھا۔ اگلے چند سیکنڈوں میں حرارتی شیلڈ الگ ہوئی۔ اس کے بعد ہی ریڈار نے اس کی منزل کو لاک کردیا جہاں اسے اترنا تھا۔ اس دوران 90 میٹر فی سیکنڈ کی ولاسٹی سے اس نے مریخ کا رخ کیا۔
اس کے بعد مریخی سطح کا جائزہ لیا ، اس کی پشت کی شیلڈ الگ ہوئی اور قوت لگا کر جہاز نیچے تک گیا۔ یہ تمام عمل ایک بج کر 55 منٹ پر مکمل ہوگیا۔ گیارہویں عمل میں روور یا گاڑی ہوائی کرین سے الگ ہوگئی اور ایک بج کر 56 منٹ پریزرونس خلائی گاڑی مریخی سطح پر جااتری جسے ٹچ ڈاؤن کا نام دیا گیا۔
پاکستانی وقت کے مطابق ایک بج کر 58 منٹ پر پریزرویرنس نے مریخی سطح چھونے کے بعد ہیزرڈ کیمرے سے پہلی تصویر بھیج دی۔ یہ تصویر اس نے مریخ پر اترتے وقت لی تھی لیکن کچھ منٹ بعد زمین پر موصول ہوئی۔
امید اور ناامیدی کے درمیان سات منٹ
گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر ناسا نے خلائی مشن پریزرویئرنس کا ایک ٹریلر جاری کیا تھا۔ اس ٹریلر می پریزرویئرنس مریخی جہاز کے اترنے کے تامام اہم مراحل بتائے گئے تھے۔ ان مراحل کو ناسا کے اندرونی حلقوں نے ’خوف کے سات منٹ‘ یعنی سیون منٹ آف ٹیرر قرار دیا تھا۔ اس دوران معمولی سی بھی غلطی پورے منصوبے کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس کے 12 مراحل میں سے پہلا مرحلہ خلائی جہاز کے مریخی فضا میں داخل ہونے کے بارے میں تھا اور آخری مرحلہ ٹچ ڈاؤن کا تھا۔ لیکن ایک موقع پر مریخی فضائی رگڑ سے پیدا ہونے والی شدید حرارت کو جھیلنا تھا۔ کیونکہ یہ حرارت نازک خلائی جہاز کے تمام سرکٹ کو جلانے کے لیے کافی تھی۔ ناسا کنٹرول روم کے لیے یہ مرحلہ سب سے اہم تھا۔
خلائی حیاتیات اور ہیلی کاپٹر
پریزروینس مشن کو اس بار بطورِ خاص فلکی حیاتیات یعنی ایسٹروبائلوجی کی تحقیق کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کے خاص آلات مریخ کی سرخ مٹی میں کسی پرانے خردنامئے یا حیاتیاتی (آرگینگ) جزو کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو دوسری جانب مریخی سطح اور مریخیات کا احوال بھی معلوم ہوسکے گا۔ یہ مریخی موسم کے قدرے پرانے آثار کی کھوج کرے گا اور آخر کار انسانی مہم جوئی کی راہ ہموار کرے گا۔
پریزروینس کا دوسالہ مشن ہے لیکن مریخ پر یہ ایک سال ہی شمار ہوگا۔ ناسا کی ایک خاتون ماہر کے مطابق یہ روور جدید ترین آلات سے لیس ہے اور اس کا اہم ہدف مریخ پر انسانی بقا اور زندہ رہنے کے امکانات پر غور کرنا ہے۔ لیکن پریزورینس میں پہلی مرتبہ ایک ہیلی کاپٹر بھی مریخ پر بھیجا گیا ہے۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مریخی فضاؤں میں کوئی ہیلی کاپٹر پرواز کرکے دھیرے دھیرے چلنے والی خلائی گاڑی کے مقابلے میں قدرے تیزی سے مریخی سطح کا جائزہ لے گا۔
اگرچہ یہ ہیلی کاپٹر تحقیق میں استعمال نہیں ہوگا لیکن اس سے اگلے مریخی منصوبوں کی راہ ہموار ہوگی۔ اس پر موجود ہائی ڈیفی نیشن کیمرے ہمیں مریخ کی مزید حیرت انگیز تصاویر روانہ کریں گے۔
ویب ڈیسک 28 منٹ پہلے
ناسا کے جدید مریخی جہاز پر پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر بھی موجود ہوگا۔ فوٹو: ناسا جے پی ایل
پیساڈینا، کیلیفورنیا: ناسا کی جانب سے مریخ کی جانب روانہ کیا گیا روور (مریخی گاڑی) کسی مشکل کے بغیر مریخی سطح پر اتر گیا ہے۔ پاکستان وقت کے مطابق ایک بج کر 55 منٹ پر اس نے مریخی سطح کو چھوا۔
پاکستانی وقت کے مطابق ایک بج کر 45 منٹ پر خلائی جہاز کروز اسٹیج علیحدگی پر پہنچا۔ ایک بج کر 50 منٹ پر مریخی فضا میں داخل ہوگیا۔اس کے بعد اسے مریخی فضا کے سب سے بڑی رکاوٹ یعنی بلند ترین درجہ حرارت سے گزرنا تھا اور ایک بج کر 50 منٹ پر یہ اس مرحلے سے بھی گزرگیا۔ اگلہ مرحلہ پیراشوٹ کھلنے کا تھا ۔ اس دوران ناسا کے کنٹرول روم میں سکوت طاری رہا اور ماہرین سانس روکے تمام مراحل کو دیکھتے رہے۔
ایک بج کر 53 منٹ پر اس نے پیراشوٹ کھول لیے جو ایک اہم مرحلہ تھا اور کنٹرول روم تالیوں سے گونج اٹھا۔ اگلے چند سیکنڈوں میں حرارتی شیلڈ الگ ہوئی۔ اس کے بعد ہی ریڈار نے اس کی منزل کو لاک کردیا جہاں اسے اترنا تھا۔ اس دوران 90 میٹر فی سیکنڈ کی ولاسٹی سے اس نے مریخ کا رخ کیا۔
اس کے بعد مریخی سطح کا جائزہ لیا ، اس کی پشت کی شیلڈ الگ ہوئی اور قوت لگا کر جہاز نیچے تک گیا۔ یہ تمام عمل ایک بج کر 55 منٹ پر مکمل ہوگیا۔ گیارہویں عمل میں روور یا گاڑی ہوائی کرین سے الگ ہوگئی اور ایک بج کر 56 منٹ پریزرونس خلائی گاڑی مریخی سطح پر جااتری جسے ٹچ ڈاؤن کا نام دیا گیا۔
پاکستانی وقت کے مطابق ایک بج کر 58 منٹ پر پریزرویرنس نے مریخی سطح چھونے کے بعد ہیزرڈ کیمرے سے پہلی تصویر بھیج دی۔ یہ تصویر اس نے مریخ پر اترتے وقت لی تھی لیکن کچھ منٹ بعد زمین پر موصول ہوئی۔
امید اور ناامیدی کے درمیان سات منٹ
گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر ناسا نے خلائی مشن پریزرویئرنس کا ایک ٹریلر جاری کیا تھا۔ اس ٹریلر می پریزرویئرنس مریخی جہاز کے اترنے کے تامام اہم مراحل بتائے گئے تھے۔ ان مراحل کو ناسا کے اندرونی حلقوں نے ’خوف کے سات منٹ‘ یعنی سیون منٹ آف ٹیرر قرار دیا تھا۔ اس دوران معمولی سی بھی غلطی پورے منصوبے کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس کے 12 مراحل میں سے پہلا مرحلہ خلائی جہاز کے مریخی فضا میں داخل ہونے کے بارے میں تھا اور آخری مرحلہ ٹچ ڈاؤن کا تھا۔ لیکن ایک موقع پر مریخی فضائی رگڑ سے پیدا ہونے والی شدید حرارت کو جھیلنا تھا۔ کیونکہ یہ حرارت نازک خلائی جہاز کے تمام سرکٹ کو جلانے کے لیے کافی تھی۔ ناسا کنٹرول روم کے لیے یہ مرحلہ سب سے اہم تھا۔
خلائی حیاتیات اور ہیلی کاپٹر
پریزروینس مشن کو اس بار بطورِ خاص فلکی حیاتیات یعنی ایسٹروبائلوجی کی تحقیق کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کے خاص آلات مریخ کی سرخ مٹی میں کسی پرانے خردنامئے یا حیاتیاتی (آرگینگ) جزو کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو دوسری جانب مریخی سطح اور مریخیات کا احوال بھی معلوم ہوسکے گا۔ یہ مریخی موسم کے قدرے پرانے آثار کی کھوج کرے گا اور آخر کار انسانی مہم جوئی کی راہ ہموار کرے گا۔
پریزروینس کا دوسالہ مشن ہے لیکن مریخ پر یہ ایک سال ہی شمار ہوگا۔ ناسا کی ایک خاتون ماہر کے مطابق یہ روور جدید ترین آلات سے لیس ہے اور اس کا اہم ہدف مریخ پر انسانی بقا اور زندہ رہنے کے امکانات پر غور کرنا ہے۔ لیکن پریزورینس میں پہلی مرتبہ ایک ہیلی کاپٹر بھی مریخ پر بھیجا گیا ہے۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مریخی فضاؤں میں کوئی ہیلی کاپٹر پرواز کرکے دھیرے دھیرے چلنے والی خلائی گاڑی کے مقابلے میں قدرے تیزی سے مریخی سطح کا جائزہ لے گا۔
اگرچہ یہ ہیلی کاپٹر تحقیق میں استعمال نہیں ہوگا لیکن اس سے اگلے مریخی منصوبوں کی راہ ہموار ہوگی۔ اس پر موجود ہائی ڈیفی نیشن کیمرے ہمیں مریخ کی مزید حیرت انگیز تصاویر روانہ کریں گے۔