ناعمہ عزیز
لائبریرین
نو کمنٹس۔ آئی ایم سپیچ لیس سلمان بھیا
اختلاف میں کچھ لکھنے لگا تھا مگر یہ نوٹ پڑھ کر ارادہ ترک کر دیا۔نوٹ- یہ تحریر ایک دوست علی کے والد کے انتقال کی اطلاع ملنے پر لکھی گئی ہے۔ ہر پڑھنے والے سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ ساتھ دوست کے گھر والوں کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی دعا بھی کر دیجئے گا۔ شکریہ
میرے والد کی وفات بھی میرے یہاں پہنچنے کے ایک ہفتے بعد ہوئی تھی، تاہم اللہ کا شکر ہے کہ مجھے آپ کی آخری لائن والی سوچ کبھی نہیں آئیلاجواب
ابو کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ہی پاکستان سے واپس آئی تھی اور ایک ہفتے بعد ان کی ڈیتھ ہو گئی میں نہیں جا سکی تھی اور مجھے آج تک ایسا ہی لگتا ہے کہ ابو کہیں گئے ہی نہیں امی فون اٹھانے میں دیر کردیں تو ہزار وسوسے دل میں اٹھتے ہیں ہم لوگوں کا المیہ یہ ہے جو لوگ چلے جاتے ہیں ہم انہیں کبھی بھیج ہی نہیں پاتے وہ جدائی جو پاکستان رہنے والوں کے لیے ایکبار ہی آتی ہے وہ ہمارا ساتھ ہی نہیں چھوڑتی ہر بار ایک فرد ، ایک چہرہ بچھڑ جاتا ہے اب تو پاکستان واپسی سے ائیرپورٹ پر ہی سوچنا شروع کر دیتی ہوں اگلی بار جانے کونسا چہرہ نہیں دیکھ پاوں گی
زیک بھائی کھل کر لکھیں. اب ایسا بھی کیا پردہاختلاف میں کچھ لکھنے لگا تھا مگر یہ نوٹ پڑھ کر ارادہ ترک کر دیا۔
کچھ تو بول ہی سکتی ہو لالینو کمنٹس۔ آئی ایم سپیچ لیس سلمان بھیا
آمین اور جزاک اللہاللہ تعالیٰ آپ کے دوست کے مرحوم والد کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر عطا کرے۔
اچھا سوال ہے۔ پھر شاید سکون رہے کچھ عرصہ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مزید مسئلوں اور خواہشات سے واسطہ پڑے۔اگر آپ کے والدین آپ کے پاس وہاں جرمنی قیام کے لیے آجاتے ہیں تو پھر "پردیس" میں رہائش کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہوگی ؟
جی لیکن اتنی دور سے پہنچنا بھی تو ناممکن ہو جاتا ہے بعض اوقات۔ میرے ایک دوست کی والدہ کا انتقال ہوا پچھلے سال اور وہ ما ئیکروسافٹ سیاٹل میں نوکری کرتا تھا اس وقت۔ وہ نہیں پہنچ سکا اور پھر اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ کچھ ماہ بعد نوکری چھوڑی اور پاکستان جا کر وہی پرانی نوکری کرنے لگا۔یہ مسئلہ کچھ حد تک ہے مگر یہ خیال رہے کہ یہ انتہائی ماڈرن مسئلہ ہے۔ ایک دو جنریشن پہلے تو اطلاع بھی وقت پر نہیں ملتی تھی۔
مجھے تمہاری ہر بات سے اتفاق ہے ماہی۔ حقیقتاً پیار کرنے والے ایسے ہی پریشان ہو جاتے ہیں اور بلا شبہ اگر میں یہاں دن میں ایک بار پریشان ہوتا ہوں گھر والوں کا سوچ کر تو میرے گھر والے پچاس بار ہوتے ہوں گے۔ بلکہ والدہ تو ہر لمحہ یہی سوچتی اور دعا کرتی رہتی ہیں کہ میں خیریت سے رہوں۔سلمان بهائی آپ کے دوست کے والد کی مغفرت کے لئیے بہت دعائیں۔ جیسی فکریں پردیسی کو لاحق ہوتی ہیں نا ویسی یہاں ان کے گهر والوں کو بهی ہوتی ہیں۔ کون پہلے یہاں سے جائے گا کون بعد کس کو خبر ہے۔ میں نے اپنے ارد گرد کئی بار ایسی صورتحال بهی دیکھ لی ہے کہ جب یہاں سے کوئی بہن بھائی، بیوی، بچے یا ماں باپ وغیرہ ایرپورٹ کسی کی ڈیڈ باڈی ریسو کرنے جاتے ہیں، اکثر تو گھر والوں کو بے خبر ہی رکھا جاتا ہےجب تک کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں کہ کیا "ہو" گیا، آنے والا کیوں اور کس حالت میں آ رہا ہے۔ یہ تھوڑا خیالی سا لگے گا پر ایسا ہوا ہے۔ خود ہمارے ریلٹوز کے ہاں۔ آپ کہتے ہیں نا کہ فون اٹھانے میں جو کوئی دیر کر دے تو آپ کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں، جب ہمیں کسی اپنے پردیسی کے میسجز یا کالز کچھ دنوں سے نہ آ رہے ہوں یا وہ رپلائی نہ کر رہے ہوں تو ہمارے بھی دل اس وقت ویسے ہی دھڑک رہے ہوتے ہیں۔ ویسے ہی خدشے ہمارے دلوں میں بھی سر اٹھانے لگتے ہیں۔ یہ زندگی اتنی ان سرٹن بنائی ہے نا اللہ تعالیٰ نے کہ ایک دھڑکا سا تو ہر اس شخص کے لئیے لگ جاتا ہے دل کو نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ مجھے نہیں معلوم کے وہاں جرمنی یا کسی اور ملک میں رہتے ہوئے پیچھے گھر والوں کے لئیے دل کیسے پریشان ہوتا ہے۔ ہاں البتہ مجھے یہ پتا ہے کہ وہاں جرمنی یا کسی اور ملک میں رہنے والے اپنوں کے لئیے گھر والوں کا دل کیسے پریشان ہوتا ہے۔
آپ کی تحریر نے تو ایک نئے سرے مجھے پریشان کر دیا ہے۔
نایاب چاچو نے کہا پردیسیوں کو رلانا اچھا نہیں رمضان میں۔ اور چاچو گھر والوں کو رلانا کیسا ہے؟؟؟
میں اس چیز کا قائل ہوں کہ بیماری اور تکلیف کی خبر فوری دینی چاہئے۔ اس طرح دوسرے ملک رہنے والے فرد کو تیاری کا وقت مل جاتا ہے۔ میرے والد کے آپریشن کے بعد مجھے سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی تھی۔ ایک دن سارے گھر والوں کے فون آف تھے، ماموں کو فون کیا تو پتہ چلا کہ ابو کی وفات ہو چکی ہے اور تدفین کے لئے لے جا چکے ہیں اور مجھے بے خبر رکھنے کا فیصلہ بھی انہی ماموں کا تھا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت میرے کیا تائثرات رہے ہوں گےجی لیکن اتنی دور سے پہنچنا بھی تو ناممکن ہو جاتا ہے بعض اوقات۔ میرے ایک دوست کی والدہ کا انتقال ہوا پچھلے سال اور وہ ما ئیکروسافٹ سیاٹل میں نوکری کرتا تھا اس وقت۔ وہ نہیں پہنچ سکا اور پھر اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ کچھ ماہ بعد نوکری چھوڑی اور پاکستان جا کر وہی پرانی نوکری کرنے لگا۔
بات اس کے غلط یا صحیح فیصلے کی نہیں ہے، بات اس انسان کے اندرونی معاملات کی ہے جس پر یہ وقت آتا ہے اور وہ کیسے لے کر چلتا ہے انہیں۔
لیکن گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ باہر بیٹھا پہنچ تو سکتا نہیں ہے تو پریشان ہو گا وغیرہ وغیرہ۔میں اس چیز کا قائل ہوں کہ بیماری اور تکلیف کی خبر فوری دینی چاہئے۔ اس طرح دوسرے ملک رہنے والے فرد کو تیاری کا وقت مل جاتا ہے۔ میرے والد کے آپریشن کے بعد مجھے سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی تھی۔ ایک دن سارے گھر والوں کے فون آف تھے، ماموں کو فون کیا تو پتہ چلا کہ ابو کی وفات ہو چکی ہے اور تدفین کے لئے لے جا چکے ہیں اور مجھے بے خبر رکھنے کا فیصلہ بھی انہی ماموں کا تھا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت میرے کیا تائثرات رہے ہوں گے
بات تو بہت سنجیدہ تھی۔ لیکن۔۔۔۔۔اب تو پاکستان واپسی سے ائیرپورٹ پر ہی سوچنا شروع کر دیتی ہوں اگلی بار جانے کونسا چہرہ نہیں دیکھ پاوں گی
ان للہ و ان الیہ راجعوننوٹ- یہ تحریر ایک دوست علی کے والد کے انتقال کی اطلاع ملنے پر لکھی گئی ہے۔ ہر پڑھنے والے سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ ساتھ دوست کے گھر والوں کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی دعا بھی کر دیجئے گا۔ شکریہ
دیکھئے، میں نے انہیں تفصیل سے بتا دیا تھا کہ میری فلائٹس کی بکنگ، کنکشن وغیرہ پر کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ اس لئے مارجن بھی تھا ان کے پاس۔ لیکن وہی سوچ کہ کیا کرے گا آ کر۔ حالانکہ جب میرے بڑے ماموں کا انتقال ہوا تھا تو یہ والے ماموں بائی روڈ آئے تھے اور عین اس وقت پہنچے جب چند منٹ قبل ہی مٹی ڈالی گئی تھی۔ شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ وہ خود کتنے مایوس ہوئے تھے بڑے بھائی کا منہ نہ دیکھ کرلیکن گھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ باہر بیٹھا پہنچ تو سکتا نہیں ہے تو پریشان ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
ویسے تو میں ابھی تک ایسی خبروں سے محفوظ ہوں لیکن ایک دوست کے دادا ابو کا انتقال ہوا اور وہ ان سے سب سے زیادہ قریب تھا۔ آپ یقین کر سکتے ہیں کہ اسے انتقال کے ایک دو مہینے بعد بتایا گیا وہ بھی باتوں باتوں میں بات کھلی۔ گھر والوں کی منطق الگ ہی ہوتی ہے
میرے والد کے دل کے دورے کا چھپایا گیا تھا مجھ سے لیکن اگلے ہی دن ایک کزن سے پتہ چلا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے وہ اب ٹھیک ہیں لیکن عمر اسی سال کے قریب ہے تو دعا ہی دعا ہے جو کرتا رہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے والد کی مغفرت کرے اور درجات بلند کرے۔ آمین۔
اللہ پاک آپ سب پردیسیوں کو کسی بھی کٹھن صورتحال سے بچائے۔ آمین۔مجھے تمہاری ہر بات سے اتفاق ہے ماہی۔ حقیقتاً پیار کرنے والے ایسے ہی پریشان ہو جاتے ہیں اور بلا شبہ اگر میں یہاں دن میں ایک بار پریشان ہوتا ہوں گھر والوں کا سوچ کر تو میرے گھر والے پچاس بار ہوتے ہوں گے۔ بلکہ والدہ تو ہر لمحہ یہی سوچتی اور دعا کرتی رہتی ہیں کہ میں خیریت سے رہوں۔
اللہ تعالیٰ بس صبر دے، باقی ہم چاہتے تو بہت کچھ ہیں، کر نہیں سکتے تو وہ اور بات ہے۔دیکھئے، میں نے انہیں تفصیل سے بتا دیا تھا کہ میری فلائٹس کی بکنگ، کنکشن وغیرہ پر کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ اس لئے مارجن بھی تھا ان کے پاس۔ لیکن وہی سوچ کہ کیا کرے گا آ کر۔ حالانکہ جب میرے بڑے ماموں کا انتقال ہوا تھا تو یہ والے ماموں بائی روڈ آئے تھے اور عین اس وقت پہنچے جب چند منٹ قبل ہی مٹی ڈالی گئی تھی۔ شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ وہ خود کتنے مایوس ہوئے تھے بڑے بھائی کا منہ نہ دیکھ کر