ناطق لکھنوی : خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے

سید زبیر

محفلین
خون دل کا جو کچھ اشکوں سے پتہ ملتا ہے​
ہم کو جی کھول کے رونے میں مزا ملتا ہے​
ہم سے اس عشق مجازی کی حقیقت پوچھو​
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے​
شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا​
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے​
آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا​
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے​
کند خنجر کی شکایت میں کروں کیوں ناطق​
سچ تو یہ ہے کہ مجہے یوں ہی مزا ملتا ہے​
ناطق لکھنوی​
 

مہ جبین

محفلین
شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے
کند خنجر کی شکایت میں کروں کیوں ناطق
سچ تو یہ ہے کہ مجہے یوں ہی مزا ملتا ہے
بہت خوب انتخابِ کلام سید زبیر بھائی
 

سید زبیر

محفلین
ہم سے اس عشق مجازی کی حقیقت پوچھو​
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے​
شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا​
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے​
آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا​
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے​
سبحان اللہ، بہت خوب انتخاب سید زبیر بھیا! لطف آگیا
 

باباجی

محفلین
ہائے ہائے شاہ جی کیا ہی خوب کلام شیئر کیا

ہم سے اس عشق مجازی کی حقیقت پوچھو
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے
آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے
 
عمدہ انتخاب زبیر انکل:thumbsup:


شوق سے کر مجھے پامال مگر یہ تو بتا
خاک میں ملنے سے میرے تجھے کیا ملتا ہے
آج تک ہم کو تو وہ بت نہ ملا پر نہ ملا
کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا ملتا ہے
کند خنجر کی شکایت میں کروں کیوں ناطق
سچ تو یہ ہے کہ مجھے یوں ہی مزا ملتا ہے
 
Top