نامور مسلم سائنسدان ، قسط اول

حمیر یوسف

محفلین
اس لڑی میں میری کوشش ہوگی کہ دنیائے اسلام کے ان قدیم مایہ ناز سائنسدانوں کا تعارف کروایا جائے ، جنکی خدمات کے متعرف آج بھی سائینسی دنیا خصوصا مغرب حصہ کرتا ہے اور اپنی کتب میں انکا تذکرہ بہت واضح الفاظ میں کرتا ہے۔ یہ وہ سائنسدان تھے ، جنہوں نے اس وقت دنیائے اسلام میں سائنس کا جھنڈا گاڑا جب یورپ اپنی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا اور لندن و پیرس ایک تنگ و تاریک گاؤں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ ان کے کارنامہ پڑھ کر آپ لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ مسلم دنیا بھی سائنسی کارناموں اور تخیلات سے کبھی خالی نہیں رہی۔ جس دین کی پہلی تعلیم کا آغاز ہی "اقراء" سے ہوتا ہو، کیا وہ کبھی "اقراء" سے نابلد رہ سکتی ہے؟ اس لڑی کو مرتب کرنے کے لئے مجھے کافی ساری کتابوں کی مدد لینی پڑی ، جسکا تذکرہ میں انشاء اللہ گاہے بگاہے کرتا رہونگا۔ کافی طویل سلسلہ ہے، اس لئے ایک سے زیادہ حصوں پر مشتمل ہوگا۔جاب کی مصروفیت کی وجہ سے ٹائپنگ میں وقت کی کمی سے پوسٹنگ میں خلل آسکتا ہے، اس لئے اس سلسلے کے لئے ایڈوانس میں معذرت۔

نامور مسلم سائنسدان

کتاب : پروفیسر حمید عسکری۔ (مجلس ترقی ادب)

جابر بن حیان (786 ع)

وہ کیمیا کے تمام تجرباتی عملوں مثلا حل کرنا (Dissolve) ، فلٹر کرنا (Filtrate) کشید کرنا (Distillation ) عمل تصعید (Sublimation (اشیاء کا جوہر اڑانا اور قلماؤ (Crystallization) کے ذریعےاشیاء کی قلمیں بنانا، اس سب سے وہ واقف تھا، بلکہ اپنے کیمیائی تجربوں میں ان سے بکثرت کام بھی لیتا تھا۔ اس نے اپنی کیمیا کی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑے کو رنگنے، دھاتوں کو مصفی کرنے (Metallurgy) موم جامہ بنانے، لوہےکو زنگ سے بچانے کےک لئے اس پر وارنش کرنے، بالوں کو سیاہ کرنے کے لئے خضاب تیار کرنے اور اس قسم کی بیسوں مفید اشیاء بنانے کے طریقے بیان کیئے ہیں۔

سند بن علی (864ع۔ تاریخ وفات)

اس نے ان تمام دھاتوں کے نمونے فراہم کئے جو اس کے زمانے تک دریافت ہوچکی تھیں۔ پھر پانی کو معیار مقرر کرکے اس نے نہایت صحیح طریقے سے ہر دھات کی متعلق یہ معلوم کیا کہ وہ پانی سے کتنے گنا بھاری ہے۔ ہم آج کی اسطلاح میں اس نسبت کو جو کسی شئے کے وزن اور اسکے مساوی الحجم پانی کے وزن میں پائی جاتی ہے، اس شئے کی کثافت اضافی یا وزن مخصوص (Specific Gravity/Relative Density) کہتے ہیں۔ اس نسبت کے ذریعے ہم یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ کوئی چیز پانی کے مقابلے میں کتنا گنا بھاری ہے۔

علی بن عیسیٰ اصطرلابی :

وہ ہئیت کے آلات، بالخصوص اصطرلاب بنانے میں غیر معمولی مہارت رکھتا تھا اور اس وجہ سے "اصطرلابی" مشہور تھا۔ اصطرلاب جسکو انگریزی میں (Astrolabe ) کہاجاتا ہے، دراصل ارسطویا ابرخس یونانی کاایجادکردہ،پیتلکا ایک مدورقرص نماقدیمآلہ تھا جس کےخطوطاورنشاناتکے ذریعےاجرام فلکیکی بلندیاں معلوم کی جاتی تھیں۔ گو اس ایجاد کاسہرا یونانیوں کے سر ہے، لیکن اس کو ترقی دینا اور جدید شکل دینے کی کاوش مسلم سائنسدانوں کے سر کی جاتی ہے۔ اصطرلاب کی سب سے ترقی یافتہ"سدس" کہلاتی تھی۔ اسکی درجہ بردار قوس جس پر زاوئیے کے درجے لگے ہوتے تھے، ایک دائرے کے چھٹے حصے کے برابر ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اسکا نام "سدس" تھا، کیونکہ سدس کے لفظی معنی "چھٹے حصے" کے ہیں۔ لاطینی زبان میں ترجمہ کرنے والوں نے اس "سدس" کو سیکسٹنٹ (Sextant) بنالیا جو آج کل اس آلے کا مروجہ نام ہے اور جسکے لفظی معنی لاطینی میں وہی ہیں جو عربی میں سدس کے ہیں۔

حبس جاصب (830 ع سن وفات)

علم المثلٹ (Trigonometry ) اسکی تحقیقات کا خاص میدان تھا، چنانچہ زاوئیے کی مشہور نسبتوں میں سے اس نے فضل جیوب (Cotangent, Cotθ) اور قاطع (secant, secθکو پہلی مرتبہ ٹرگنومیڑی میں رواج دیا تھا اور اسکے نقشے (Tables) تیار کئے تھے۔
 

حمیر یوسف

محفلین
محمد بن موسیٰ خوارزمی :

خوارزمی کی تحقیقات کا اصل میدان ریاضی ہے۔ ریاضی میں اسکی دو کتابیں "حساب" اور "الجبر و مقابلہ" یعنی "الجبرا (Algebra ) ہے۔ تاریخی حیثیت کی حاصل ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ میں اہل یورپ نے ریاضی میں جتنا کچھ ان کتابوں سے سیکھا ہے، کسی اور کتاب سے نہیں سیکھا۔ یونانیوں اور رومیوں کے زمانے میں سے اہل مغرب اعداد کو رومن طریقے سے لکھتے تھے جن سے حساب کے مختلف اعمال مثلا جمع (Addition)، تفریق (Subtraction) ، ضرب (Multiplication) ، تقسیم (Division) اور تحویل سخت مشکل اور پیچیدہ ہوجاتے تھے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ایک سو ساٹھ (160) سے اڑتیس (38) کو تفریق کرنا مطلوب ہے۔ رومن اور عربی طروز میں یہ سوال یوں لکھا جائے گا۔

عربی رومن

۱۶۰ CLX
۳۸ - XXXVIII -

ان دونوں تحریروں کو دیکھنے ہی سے پتہ چل جائے گا کہ عربی طرز میں تفریق کا عمل چشم زدن میں ہوجاتا ہے۔ رومن طرز میں وہ سخت دقت طلب بن جاتا ہے۔ پھر فرض کریں کہ ان دونوں یعنی ایک سو ساٹھ اور اڑتیس کو ضرب دینا مطلوب ہو۔ عربی طرز میں یہ عمل تین سطروں میں سادہ طور پر ہوجائے گا۔ لیکن رومن طرز میں اسے سرانجام دینے کے لئے بے حد مشکل ہوگی۔

موسیٰ خوارزمی کا "حساب" وہ کتاب تھی، جس سے اہل مغرب نے گنتی کے عربی طریقہ اخذ کیا اور پھر اسے اپنی علامتوں میں تبدیل کرکے رومن طریقے کے بجائے رائج کیا۔ چونکہ یورپ میں ریاضی کی ترقی کا آغاز (جس پر سائنس کی دوسری شاخوں کی ترقی کا انحصار ہے) اسی عہد سے ہوا، جب اہل یورپ نے اعداد کے رومن طریقوں کو ترک کرکے عربی طریقے کو اختیار کیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ کے تمام لوگ کسی حد تک خوارزمی کے احسانمند ہیں۔

یہاں ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یورپ کے محقق گنتی کے موجودہ طریقے کو، جو اب تمام دنیا میں رائج ہے، ایک طویل عرصے تک عربی ہندسے (Arabic Numerals) کہتے رہے۔ لیکن جب صلیبی جنگوں کے دوران میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ پھیلا تو انہوں نے کوشش کی کہ ریاضی میں عربوں کے اس احسان سے، جسکے بوجھ تلے صدیوں سے انکی گردنیں جھکی ہوئی تھیں، چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ فرضی نظریہ وضع کیا کہ گنتی کا یہ مروجہ طریقہ اگرچہ عرب سے یورپ آیا ہے، مگر یہ عربوں کا اپنا طریقہ نہیں ہے بلکہ عربوں نے اس طریقے کو اہل ہند سے سیکھا تھا اور اس لئے گنتی کے اس طریقے کے موجد "اہل ہند " ہیں۔ یہ نظریہ محض اس وجہ سے کہ اس پر مغرب کی چھاپ لگ چکی ہے، آج کل اسلامی ملکوں میں بھی پھیل چکا ہے۔ لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو خود یہ طریقہ ہی زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ اسکی اصل عربی ہے، ہندی نہیں۔ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔

ہندی یعنی دیوناگری اور یورپی یعنی رومن طرز تحریر میں یہ ہر لفظ بائیں سے دائیں طرف (Left to Right) لکھے جاتے ہیں۔ لیکن عربی طرز میں ہر لفظ کے حروف دائیں سے بائیں (Right to Left) طرف کو ملا کر رقم کئے جاتے ہیں۔ یہی صورت حرفی حساب میں بھی برقرار رکھی جاتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ حرفی حساب میں ہم ا (الف) اور ب (باء) یا a اور b کا مجموعہ لکھنا چاہتے ہیں۔عربی طرز میں ہم اسے یوں لکھیں گے (ا +ب) یعنی پہلا حرف دائیں طرف اوردوسرا حرف اسکے بائیں طرف ہوگا۔ لیکن انگریزی طرف میں ہم اسے یوں تحریر کریں گے (a + b) یعنی پہلا حرف بائیں حرف ہوگا اور دوسرا حرف اسکے دائیں جانب ہوگا۔

اب دوہندسوں والے کسی بھی عدد مثلا ۴۷ پر غؤر کریں۔ یہ دراصل ۷اور ۴0کا مجوعہ ہے، اور حرفی رقم (ا +ب) کی وہ خاص صورت ہے، جس میں ا (الف) کی قیمت ۷ اور ب کی قیمت ۴0 لی گئی ہے۔ مثلا (ا + ب = ۷+۴0= ۴۷( اس مثال میں چونکہ الف دائیں کا پہلا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۷ دائیں طرف کو پہلے نمبر پر لکھی جاتی ہے، اور اب چونکہ اسکا بائیں کا دوسرا حرف ہے، اس لئے اسکی قیمت ۴0اس آگے بائیں جانب کو لکھی گئی ہے۔ اور صفر کو حدف کرنے کے بعد ان دونوں کے ملاپ سے ۴۷ کا عدد وجود میں آگیا ہے۔ جس میں اکائی کا ہندسہ ۷اور دہائی کا دوسرا ہندسہ ۴ ہے۔ ان دونوں کی ترتیب دائیں سے بائیں کو ہے، جیسی عربی رسم الخط میں ہوتی ہے۔

اب انگریزی طرز میں اسی عدد ۴۷پر غور کریں۔ یہ اصل میں (a+ b) کی خاص صورت ہے جس میں پہلے حرف a کی قیمت ۷اور دوسرے حرف b کی قیمت ۴0 ہے۔ اس لئے اگر انگریزی طرف کے مطابق ان دونوں کا ملاپ کیا جائے تو اسکی صورت یہ بنتی ہے۔

a + b = 7 + 04 = 74

یعنی چونکہ اس مثال میں پہلا حرف a انگریزی طرز کے مطابق بائیں طرف کے پہلے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت 4 بائیں طرف کو پہلے نمبر پر آتی ہے۔ دوسری حرف bچونکہ بائیں طرف سے دوسے نمبر پر لکھا گیا ہے، اس لئے اسکی قیمت چالیس جسے انگریزی کے اصول کے مطابق 04لکھا جانا چاہئے۔ اس کے آگے بائیں طرف سے دوسرا نمبر پر آنا چاہئے۔ اور دونوں کے ملاپ سے صفر حذف کرنے کے بعد سیتالیس کے عدد کو 74لکھا جانا چاہئے۔ کیونکہ انگریزی طرز تحریر میں ہر لفظ کا پہلا حرف بائیں طرف کا پہلا حرف اور دھائی اسکے دائیں طرف ہونا چاہئے۔

اب دونوں طرز تحریر کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھے کہ جو عدد سیتالیس 47 ہے، انگریزی میں (74) بن جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سیتالیس کو عربی میں ۴۷ لکھا جاتا ہے، اسی طرح انگریزی طریقے کے برخلاف اور عربی طرز تحریر کے مطابق سینتالیس کو 47ہی لکھا جاتا ہے، اسمیں بھی اکائی کا ہندسہ عربی طرز کی پیروی کرتے ہوئے دائیں طرف کا پہلا ہندسہ مانا جاتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے تمام ممالک میں گنتی کا موجودہ طریقہ عربی سے اخذ کیا گیا ہے، جسے وہاں کے ریاضی دانوں نے دائیں سے بائیں طرز میں برقرار رکھا۔ حالانکہ انکی اپنی تحریر کا طریقہ بائیں سے دائیں طرف کا تھا۔

اب یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ سنسکرت اور ہندی طرز تحریر بھی انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں کو چلتی ہے، لیکن گنتی میں وہ بھی عربی طرز کی پیروی کرتے ہیں۔ یعنی انکے ہاں بھی اکائی دھائی سینکڑہ ہزار، دائیں سے بائیں طرف کو لکھے جاتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں انگریزی اور سنسکرت دونوں میں جمع اور تفریق کے عمل بھی عربی طرز تحریر کے مطابقت میں دائیں سے بائیں طرف کو ہوتے ہیں۔

اگر اعداد کے موجودہ طریقے کے موجد عربی بولنے والے عرب نہ ہوتے بلکہ سنسکرت کے بولنے والے اہل ہند ہوتے تو اکائی دھائی سینکڑہ وغیرہ کے ہندسے سنسکرت طرز عمل تحریر کے مطابق بائیں سے دائیں طرف کو آتے اور پہلے عرب اور اہل یورپ انکی پیروی کرتے۔ جسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف انگریزی میں سینتالیس کو 74 لکھا جاتا بلکہ عربی میں بھی اسے ۷۴ہی لکھا جاتا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔ یعنی اہل عرب سینتالیس کو اپنے طرز تحریر کے مطابق صحیح طور پر ۴۷ لکھتے ہیں او ر اہل یورپ بھی انہی کی پیروی کرتے ہوئے اسے 47رقم کرتے ہیں۔

اوپر کی تشریح سےواضح ہوگیا ہوگا کہ اعداد نویس کا موجودہ طریقہ جو مشرق مغرب میں جاری ہے، خود زبانِ حال سے اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ اسکی ایجاد دائیں سے بائیں لکھنے والے عربوں کی رھین منت ہے۔ اور یہ عرب سے یورپ میں وہ ازمنہ وسطی میں پھیلا، مگر ہند میں وہ اس سے قدیم زمانے میں پہنچ گیا تھا۔

خورازمی کے ایک اور رسالے میں زاویوں کے (Sine, Sinθ) اور جیوب (Tangents, tanθ) کے نقشے دئیے گئے ہیں جو ٹرگنومیڑی میں اسکی مہارت کا ثبوت ہیں۔ خورازمی کے الجبرے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہےکہ اس میں الجبرے کے متعدد سوالات کو جیومیٹری کی اشکال سے بھی حل کیا گیا ہے اوریہ خوارزمی کی خاص اختراع ہے، جسکا اتباع مغرب کے ریاضی دانوں نے کیا ہے۔
 

حمیر یوسف

محفلین
یعقوب الکندی (801 – 873 ع)
مسلمانوں میں یعقوب الکندی پہلا شخص ہے جس نے موسیقی پر سائینسی نقطہ نظر سے بحث کی۔ موسیقی میں جن مختلف سُروں کے امتزاج سے نغمے پیدا ہوتے ہیں، ان میں سے ہر سُر کا ایک خاص درجہ (Pitch) ہوتا ہے۔ چنانچہ جس سُر کا درجہ کم ہو وہ کانوں کو بھاری اور جس سُر کا درجہ زیادہ ہو وہ کانوں کو تیز لگتی ہے۔ کسی سُر کا یہ درجہ دراصل اسکی تکرار (frequency) پر موقوف ہوتا ہے۔ جب کسی سُر کی آواز پیدا کی جائے تو ہوا میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہی لہریں جب کان کے پردے سے ٹکراتی ہیں تو آواز کا احساس ہوتا ہے۔ ہر سُر کے لئے ایک سیکنڈ میں پیدا ہونے والی لہروں کی تعداد مقرر ہوتی ہے، جسے اس سُر کی تکرار (frequency) کہتے ہیں۔ اسی تکرار سے سُر کا درجہ (pitch) متعین ہوتا ہے۔ چنانچہ جس سر کی تکرار یعنی فی سیکنڈ پیدا ہونے والی سُروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اسکا درجہ اونچا ہوتا ہے۔ (لگے ہاتھوں یہ بات بھی میں بتا دوں کہ یہ درجہ (Pitch) ہی وہ چیز ہے جس سے مردانہ/زنانہ آوازوں کا فرق پتہ چلتا ہے)

یعقوب الکندی کا کمال یہ ہے کہ اس نے نہ صرف موسیقی کے سُروں کی تکرار معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا بلکہ اس طریقے کو عمل میں لا کر ہر سُر کی تکرار بھی معلوم کی اور اسکا درجہ متعین کیا۔ الکندی نے ہی عود نامی موسیقی کے آلے میں پانچواں تار کا اضافہ کیا۔ ریاضی میں الکندی کا سب سے اہم کام ہندی عدسے (جیسے صفر 0) کا اسلامی دنیا اور بعد ازاں مغرب میں پھیلانے کا اہم کردار رہا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے ایک کتاب بھی لکھی جسکا نام "کتاب فی استعمال الاعداد الہندی" یعنی ہندسی اعداد کے استعمال ، تھا۔ بصریات (Optics) میں بھی الکندی نے کافی کام کیا۔ اور ارسطو اور اقلیدس کے کام کو آگے برھاتے ہوئے اس نے انسانی آنکھ کے دیکھنے کے عمل کا بہتر طریقے سے بیان کیا۔ اور جو جو خامیاں ارسطو /اقلیدس کے کاموں میں پائی جاتی تھیں، انکو دور کیا۔ اس کے اسی کام کا جزوی اثر مشہور بصری ماہر رابرٹ گراسیٹیٹس (Robert Grossetest) نے اپنے بصریات کے متعلق تحقیقی کام میں لیا ، جسکے اثرات طبیعات کی اس شاخ میں آج تک قائم ہیں


محمد بن جابر البتانی (858 – 929 ع)
علم المثلٹ (Trigonometry) میں اسکی دریافتیں نہایت اعلیٰ درجے کی تھیں۔ اس نے زاویوں کی جیوب (Sine, Sinθ) کا نقشہ بنایا اور دیگر نسبتوں کے ساتھ اسکے متعلق بعض اہم مساواتیں معلوم کیں۔ زاویوں کے ظل (Tangent, tanθ) کے نقشے تو اس سے پہلے بن کر رائج ہوچکے تھے، لیکن زاویوں کے ظل التمام (Cotangent, cotθ) کے نقشے سب سے پہلے اسی نے تیار کئے تھے اور انکے استعمال کو رواج دیا۔ وہ ان تین مسلم ریاضی دانوں میں سے ایک ہے جس نے کروی مثلث (Spherical Triange) کے مسئلوں اور زاویوں میں وہ تعلق ثابت کیا جسے انگریزی طرزِتحریر میں مندرجہ ذیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

Cos a = Cosb.Cosc + Sinb . Cosc. Cos A

کئی ازمنہ وسطی کے یورپی سائینسدان جیسے کوپر نیکس (Copernicus) کی کتابوں میں البتانی کی لکھی کتاب "کتاب الز-زج " کے حوالے ملتے ہیں۔ مطلب یہ سائنسدان البتانی کے کام کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس کی مہارت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں اس کی اہم مساواتوں اور نطریات کو دھراتے تھے جو البتانی کی عظمت کا واضح ثبوت ہے۔

محمد بن زکریا رازی (854 – 925 ع)
الرازی نے کیمیائی مادوں کو جمادات، نباتات اور حیوانات میں تقسیم کیا۔ اور اسطرح غیر نامیاتی (Inorganic) کیمیا اور نامیاتی (Organic) کیمیا کی ترقی کی راہ کھولی۔ رازی نے بہت سی اشیاء کا وزن مخصوص (Specific Gravity) معلوم کیا اور اس مقصد کے لئے ایک خاص قسم کا ترازہ ایجاد کرکے اس پر کام کیا، جسکا نام میزان طبعی تھا۔ موجودہ زمانے میں ایسے ترازو کو ماسکونی ترازو ( Hydrostatic Balance) کہتے ہیں۔ رازی کی کتاب "الجدواری والحسبہ" (چیچک اور خسرہ Smallpox and Measles) ان بیماریوں کے متعلق لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی جس میں رازی نے ان بیماریوں کو علیحدہ علیحدہ شناخت کیا تھا اور انکی علامات تحریر کیں تھیں۔ اس کتاب کو درجنوں بار لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ کرکے مغرب میں استعمال کیا گیا تھا، کیونکہ اس وقت یورپی طبیب و ڈاکٹر اس مرض کی علامات سے ناواقف تھے اور اسکے علاج کے طریقوں کو بھی نہیں جانتے تھے۔
 

حمیر یوسف

محفلین
ابوالکامل شجاع حاسب مصری:
خوارزمی کے الجبرے میں جو امور تشنہ تکمیل تھے، انہیں شجاع نے مکمل کیا، مثلا خوارزمی نے دو درجی مساواتوں (Quadratic Equations) کی جو تین قسمیں بیان کی تھیں، ان میں صرف ایک قسم کے دو حل نکالے تھے اور باقی دو قسموں کا صرف ایک ایک حل دینے پر اکتفا کیا تھا، لیکن شجاع نے ہر قسم کی دو درجی مساواتوں کے دو دو حل پیش کرنے کا طریقہ استخراج کیا ہے۔( زیل کی مساوات دیکھئے، پہلے میں اسکا انگریزی طرز میں لکھنا دکھاتا ہوں، پھر اسکا عربی انداز میں طرز تحریر بتاتا ہوں، جسکا مطلب یہ کہ انگریزی میں اسی عربی کی مساوات کو رومنائز کیا گیا ہے جو ابوالکامل شجاع نے پیش کی تھی)

English System of Writing of a Quadratic Equation
x2 + bx + c = 0

عربی طرز تحریر کی مساوات
لا ۲ + ب لا + ج =0

(یہاں لا =x)

درج بالا مساوات کا حل بھی شجاع نے پیش کیا ، جو دراصل خوارزمی کے ہی کام کا اعادہ تھا۔

اور


اسکو انگریزی طرز تحریر میں کچھ اسطرح لکھا جاسکتا ہے

16702943783_92d1f7b7ac_o.jpg


دو درجی مساوات کو حل کرنے کا مندرجہ بالا طریقہ جسکی وضاحت شجاع صاحب نے کی ہے، موجود زمانے کے حساب سے مطابقت رکھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم آج کل جب دو درجی مساوات کا عمومی حل نکالتے ہیں تو اس میں لا2 کا عدد سر الف مقرر کرتے ہیں جس سے یہ مساوات ہوجاتی ہے۔

الف لا2 +ب لا +ج =0 (یعنی ax2 + bx + c = 0)

اور اسکا حل یہ ہوجاتا ہے

اور دوسرا حل


بماطق انگریزی طرز تحریر
17297255816_8ba0d4d1f6_o.jpg


شجاع صاحب نے اپنے الجبرے میں جمع (Addition)، تفریق (Subtraction)، ضرب (Multiply) اور تقسیم (Divide) کے عام فہم قاعدے بیان کرنے کے بعد اس ضمن میں ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور جزری رقوم (Radicals) جن میں

پہلی رقم
17115831797_2188e41764_o.gif


اور دوسری رقم
17135715700_7c5cbc7ded_o.gif


اب انکی جمع کے بارے میں شجاع یہ کلیہ بیان کرتا ہے
17137054779_98ca02c441_o.jpg


اور انکی تفریق کا یہ کلیہ بیان کرتا ہے
16703032723_7fdb3b2792_o.jpg


بماطق انگریزی طرز تحریر
16700836084_6744bf71b9_o.jpg
 
آخری تدوین:
محترم جناب حمیر یوسف صاحب ایک اچھا سلسلہ شروع کرنے پر میری طرف سے بہت داد قبول کیجیے
تصویر شامل کرنے کے لئے اوپر بنے آئی کون میں سے تصویر کے بٹن کو دبا کر تصویر کا ربط وہاں دیجیے تب تصویر محفل میں نظر آئے گی
والسلام
 

حمیر یوسف

محفلین
محترم جناب حمیر یوسف صاحب ایک اچھا سلسلہ شروع کرنے پر میری طرف سے بہت داد قبول کیجیے
تصویر شامل کرنے کے لئے اوپر بنے آئی کون میں سے تصویر کے بٹن کو دبا کر تصویر کا ربط وہاں دیجیے تب تصویر محفل میں نظر آئے گی
والسلام
فاروق احمد بھٹی صاحب، یہی فوٹو اپنے مراسلہ میں شامل کرنا میرے لئے ایک بہت مسئلہ بنا ہوا ہے۔ میں نے ٹیوٹرل دیکھا تھا، جسمیں فوٹو بکٹ کے زریعے تصاویر شامل کرنے کا بتایا گیا تھا۔ شروع کی چند تصاویر کے بعد پتہ نہیں کیا ہوگیا، فوٹو بکٹ بہت سلو ہوگیا اور اس میں ایرر آنے شروع ہوگئے، نیز کافی پیچدہ پراسس ہے۔ آپ نے جو "تصویر" والے بٹن کی بات کی ہے، اس سے کچھ بھی امیج ظاہر نہیں ہوتا۔ میں نے کچھ تصاویر ٍٖفلکر ڈاٹ کام پر اپلوڈ کی تھیں، اور انکا لنک جب میں "تصویر" والے بٹن کا دبا کر انکا یو آر ایل وہاں پیسٹ کرتا ہوں اور پھر داخل ہے کا بٹن دباتا ہوں تو میرے سامنے یہ رزلٹ آتا ہے :confused1:
16700836084
 
آخری تدوین:
جب میں "تصویر" والے بٹن کا دبا کر انکا یو آر ایل وہاں پیسٹ کرتا ہوں اور پھر داخل ہے کا بٹن دباتا ہوں تو میرے سامنے یہ رزلٹ آتا ہے
سر آپ تصویر پہ رائٹ کلک کیجیئے کاپی امیج ایڈریس کیجیئے اور اسے پیسٹ کیجیئے:):)
 
فاروق احمد بھٹی صاحب، کچھ بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا
:cry:
فلکر کی اپلوڈ شدہ تصویر پر جب میں رائٹ کلک کیا تو اسمیں کاپی امیج ایڈریس کا کوئی مینو نہی آیا
سر آپ فی الحال گوگل کو استعمال کر لیں فلکر والے معاملے پہ ابن سعید بھائی سے رائے لیتے ہیں
 
کمال ہوگیا ہے بھائی، یہ کام مجھ سے کیوں نہیں ہورہا؟؟ :excruciating:
سر جو آپ نے گوگل والا ربط دیا تھا اس کو اوپن کیا کاپی امیج ایڈریس کیا اسمائیلیز کے ساتھ بنے تصویر والے بٹن پہ کلک کیا جو ونڈو اوپن ہوئی اس میں تصویر کا ربط دیا اور داخل کریں والا بٹن پریس کر دیا:)
 

حمیر یوسف

محفلین
ابرہیم بن سنات :
اسکا قابل قدر کام قطع مکانی یعنی پیرا بولا (Parabola) ٌپر ہے۔ جسکے بارے میں اس نے ایسے مسائل حل کئے جو موجودہ زمانے میں صرف تکملی احاصہ (Integral Calculus) کی مدد سے حل کئے جاتے ہیں۔

موفق ھروی:
ابو منصور معدنی ادویات میں کپڑے دھونے کا سوڈا۔ سوڈیم کاربونیٹ (Na2CO3) اور پوٹاشئم کاربونیٹ (K2CO3) کے فرق سے اچھی طرح واقف تھا۔ ان میں سے اول الذکر کو وہ "نیترون" اور موخر الذکر کو "الکلی (Al Kali) لکھتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سوڈئیم کا علامتی نشان Na(Natrium) کی پوٹاشئم کا علامتی نشان K (Kalium ) کی یاد دلاتا ہے۔

محمد بن یوسف خوارزمی:
اس دانشور کا کمال اس امر سے ظاہر ہے کہ اس نے دنیا کا پہلا علمی انسائیکلو پیڈیا تالیف کیا تھا۔ یہ عظیم کتاب عربی زبان میں 976ع میں مدون ہوئی اور فاضل مصنف نے اسکا نام "مفاتح العلوم" رکھا۔

محمد بن یوسف خوارزمی کی مفاتح العلوم سے پہلے کے کئے مجموعے دیگر اہل قلم کی کاوش سے نکل چکے تھے۔ جن میں ہر قسم کی سائینسی یا طبی معلومات جمع کی جاچکی تھیں۔ لیکن انکی ترتیب مضامین کے اعتبار سے تھی۔ مفاتح العلوم کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ موجودہ زمانے کی اصطلاح کے مطابق بھی صحیح معنوں میں انسائیکلو پیڈیا ہے، کیونکہ اسکے مندرجات کی ترتیب "الف بائی حروف تہجی (Alphabetical) طریقے سے کی گئی تھی۔ جو انسائیکلو پیڈیا کا خاص انداز ہے۔

موجود زمانے کی انسائیکلو پیڈیا جنہیں علوم کی اشاعت میں مغرب کی قابل قدر اختراع تسلیم کیا جاتا ہے، اصل میں یہ مفاتح العلوم کا چربہ ہیں جسکی داغ بیل محمد بن یوسف الخوارزمی کے ہاتھوں پڑی۔
 

حمیر یوسف

محفلین
ابو الوفا جوزجانی:
جیومیٹری میں دائرے کے اندر مختلف ضلعوں کی منتظم کثیر الاضلاع (Regular Polygone) بنانے کے مسائل قدیم ایام سے ریاضی دانوں میں مقبول تھے۔ ان کثیر لاضلاع میں سے چھ ضلع جسے منتظم سدس (Regular Hexogone) کہتے ہیں۔ سب سے آسانی سے بن جاتا ہے کیونکہ ہر ضلع دائرے کے نصف قطر کے برابر ہوتا ہے۔
IMG]http://
16714659503_09742478dc_o.png
[/IMG

آٹھ ضلعوں کی کثیر الاضلاع کوجسے ہم منتظم مثمن (Regular Octagon ) اسکے بنانے میں بھی کوئی مشکل نہیں تھی، کیونکہ اسکے ہر ضلع کے نقاط دائرے کے مرکز پر 45درجےکا زاویہ بناتے ہیں اور 45 کا زاویہ جو قائمہ (Right angle) کا نصف ہوتا ہے ، پرکار کی مدد سے آسانی سے بن جاتا ہے۔

IMG]http://
17308878896_7e3095f743_o.png
[/img
پانچ اضلاع کی کثیر الاضلاع یعنی (Pentagon) اور دس اضلاع والے کثیر الاضلاع (Decagon) آسانی سے نہیں بن سکتے، کیونکہ انکے ضلع کے دونوں نقاط دائرے کے مرکز پر بالترتیب 5÷360یعنی 72درجے اور10÷360 یعنی 36 کے درجے بناتے ہیں۔ یہ درجے پرکار سے کافی پیجدہ خطوط کھینچنے کے بعد بنتے ہیں، لیکن بہرحال انکا بننا ناممکن نہیں ہے۔

17127413427_0475bfed82_o.png

A Pentagon

IMG]http://
17148624289_88b0a73451_o.jpg
[/img
A decagon

لیکن سات ضلعوں کی کثیر الاضلاع میں جسکو منتظم سبع (Regular Heptagon) کہتے ہیں، ہر ضلع کے دونوں نقاط مرکز پر7÷360 یعنی 51.42درجے کا ذاویہ بناتے ہیں جسکا پرکار سے بنانا، ناممکن ہے۔علاوہ ازیں اسکے ضلعے کے طول کی کوئی سادہ نسبت دائرے کے نصف قطر کے ساتھ نہیں ہے، اس لئے جیومیٹری کے ماہرین کی کوششوں کے باوجود دائرے کے اندر ایک منتظم سبع یعنی سات ضلعوں کی کثیر الاضلاع بنانا، ناقابل حل چلا آرہا تھا۔

16714659583_3dc79a15e0_o.png

ابو الوفا بوزجانی نے نہ صرف اس مسئلے کا حل پیش کیا، بلکہ جتنا یہ مسئلہ پیچیدہ اور مشکل تھا، اتنا ہی اسکا حل سادہ تھا۔ دائرے کے اندر سات ضلعوں کی کثیر الاضلاع یعنی منتظم سبع (Regular Heptagon) بنانے کا ابوالوفاء کا طریقہ یہ تھا ۔

تنصیف کردہ مثلث کا یہ نصف ضلع مطلوبہ منتظم سبع کے ایک ضلع کے برابر ہوگا، اسلئے پرکار کو اسکے برابر کھول کر دائرے کو قطع کرو۔ دائرے کا محیط سات برابر حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، جنکو ملانے سے منتظم سبع بن جائے گا۔

مثلثیات (ٹرگنومیٹری۔ Trigonometry) میں ابوالوفا بوزجانی نے اتنی زیادہ اور اتنے اعلیٰ درجے کی دریافتیں کی ہیں کہ صحیح معنوں میں ریاضی کی اس شاخ کے اولین موجدوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

اس نے زاویوں کی جیب (Sine, Sinθ) معلوم کرنے کا ایک نیاکلیہ معلوم کیا اور اسکی مدد سے 1 درجے سے لیکر 90 درجے کے تمام زاویوں کے جیوب کی صحیح قیمتیں آٹھ درجے اعشاریہ تک نکالیں۔ اس سے پہلے اگر چہ جیوب کے نقشے (Table of Sines)تیار ہوچکے تھے ، مگر انکی قیمتیں انکے درجے اعشاریہ تک نہیں تھیں۔

ٹرگنومیڑی میں اگر چہ دو زاویوں "الف" اور "ب" کی جیب (Sinθ) اور جیب التمام Cosine, Cos) معلوم کرنا ہو تو ان زاویوں کے مجموعے یعنی (الف +ب) کی جیب (Sinθ) ایک کلیئے (formula) کی مدد سے نکالی جاتی ہیں۔ یہ کلیہ جو حسب ذیل ہے، ابوالوفا جوزجانی کی دریافت ہے

جا(الف +ب) =جاالف جتا ب – جا ب جتا الف

انگریزی طرز تحریر میں
IMG]http://
17127476397_8baefe24a7_o.jpg
[/img

16714757703_7a721ca070_o.jpg


اگر دونوں زاویوں "الف" اور "ب" کی جیب (Sinθ) اور جیب التمام (Cosθ) معلوم ہو تو ان زاویوں کے فرق یعنی (الف – ب) کی جیب جس کلئیے سے دریافت کی جاتی ہے، وہ بھی ابوالوفاء بوزجانی کا دریافت کردہ ہے۔

جا (الف - ب) = جا الف جتا ب + جاب جتا الف

انگریزی میں

IMG]http://
17334661581_f3504f5677_o.jpg
[/img

اگر کسی زاویے کی جیب التمام (Cosine, Cosθ) معلوم ہو تو اس زاویئے کے نصف یعنی کی جیب یعنی Cosθکے ساتھ اسکا تعلق مندرجہ زیل کلیہ سے ظاہر ہے۔

IMG]http://
17334463771_436fa1b7b7_o.jpg
[/img

انگریزی کے مطابق
IMG]http://
17147280930_53d378bebc_o.jpg
[/img

اگر ایک زاویہ کے نصف یعنی کی جیب اور جیب التمام (Cosθ) معلوم ہو تو اس زاویہ الف کی جیب کو معلوم کرنے کا کلیہ بھی ابوالوفا بوزجانی نے دریافت کیا تھا۔ یہ کلیہ حسب زیل ہے۔

IMG]http://
17334464001_516fbe8918_o.jpg
[/img

ٹرگنومیٹری کے کلیوں کا انگریزی طرز تحریر میں پاکستان کے ہزاروں طلبہ ہر سال پڑھتے ہیں اور انہیں بے خبری میں مغربی ریاضی دانوں کا کارنامہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ جان کر انکا سر افتخار سے اونچا ہوجائے گا کہ یہ ٹرگنومیٹری کے کلئیے اور اسطرح کے بیسوں کلیئے ، اسلامی دور کے مسلم ریاضی دانوں کے کمال کے رھین منت ہیں۔

ابوالوفاء بوزجانی نے ذاویوں کے ظل (Tangent, tanθ) کا بھی خاص مطالعہ کیا تھا۔ انگریزی کی کتابوں میں Tangents کی اصطلاح آج کل دو معنوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ ایک تو اس سے جاحظ مراد لیا جاتا ہے جو کسی دائرے کے محیط کے ساتھ مس کرے۔ یہ جیومیٹری کا Tangent ہوتا ہے۔

IMG]http://
17127413517_253a8071c5_o.png
[/img

دی گئی تصویر میں لائن ACایک ٹیجنٹ یعنی مماس کو ظآہر کرہی ہے۔

دوسرے اس سے مراد وہ نسبت لی جاتی ہے جو کسی زاویہ کے عمود (Perpendicular ) اور قاعدے (Base) کے درمیان پائی جائے۔ یہ ٹرگنومیٹری کا Tangent ہوتا ہے

IMG]http://
17335133305_5acdfc01bf_o.jpg
[/img

ایک ہی لفظ کو دو مختلف اصطلاحوں کے معنوں میں استعمال کرنا ، اصول اصطلاح سازی کے خلاف ہے۔ لیکن انگریزی میں یہ بے اصولی رائج ہے۔ التبہ ابوالوفاء بوزجانی ایک ترقی پسند سائینسدان کی حیثیت سے اس بے اصولی کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔ بلکہ وہ ان دونوں معنوں کے لئے علیحدہ علیحدہ لفظ بیان کرتا ہے۔ چنانچہ جب tangent سے وہ خط مراد لینا ہو جو دائرے کے محیط کے ساتھ ساتھ ایک نقطے پر مَس کرتا ہے، تو اسکو وہ مماس لکھتا ہے (بعینہ یہی اصطلاح ہماری اردو میں بھی رائج ہے) لیکن جب وہ tangent سے مراد نسبت لینا ہو جو کسی زاویئے کے عموداور قاعدے کے درمیان پائی جاتی ہے تو وہ اسکو "ظل" سے تعبیر کرتا ہے۔(ایک دلچسپ بات یہاں پر یہ ہے کہ "ظل" فارسی میں "سائے Shadow کو بھی کہتے ہیں، اور tanθمیں کسر کےنیچے قاعدے آتا ہے، جو زمین پر یعنی بنیاد، قاعدے پر سائے سے ملتا جلتا ہے، کیونکہ روشنی اوپر سے آئے تو سائے زمین پر نیچے بنتے ہیں) دوسرے الفاظ میں جیومیٹری کے tangentکے لئے وہ "ظل" کا لفط استعمال کرتا ہے۔

ٹرگنومیٹری میں جیب (sine)، جیب التمام (Cosine) ، ظل (Tangent) اور ظل التمام (Cotangent) یہ چار نسبتیں ابو الوفاء بوزجانی سے پہلے شامل ہوچکی تھیں، لیکن قاطع (Secant, Secθ) اور قاطع التمام (Cosecant, Cosecθ) کو سب سے پہلے ٹرگنومیٹری میں اسی نے داخل کیا۔ قاطع اصطلاح میں جیب التمام کے عکس اور قاطع التمام اصطلاح میں جیب کے عکس کو کہتے ہیں۔ چنانچہ

IMG]http://
17308879076_742f2b8a8a_o.jpg
[/img
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
آپکی خدمات ہمارے لئے زبردست معلوماتی ہے ۔
جزاک اللہ
بہت دعائیں۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین
مسلمانوں میں اتفاق پیدا کرے ، آمین
 

حمیر یوسف

محفلین
آپکی خدمات ہمارے لئے زبردست معلوماتی ہے ۔
جزاک اللہ
بہت دعائیں۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین
مسلمانوں میں اتفاق پیدا کرے ، آمین
شکریہ محترم @ایکس بوائے جناب
میں ہمیشہ سے یہی سوچتا تھا کہ ہمارے ذہنوں اور دماغوں پر جو ایک "مغربی" برتری کا بھوت سوار ہے، اسکا کیا علاج کیا جائے؟ حالانکہ جن "کارناموں" کو یہ مغرب والے "اپنا" کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، وہ خالصتا انکے "اپنے" نہیں ہیں، بلکہ اسی طرح دوسری قوموں خصوصا مسلمان قوموں کا بھی ان میں کثیر حصہ ہے، جو اس لڑی کو دیکھنے والے دیکھ کر سمجھ رہے ہونگے۔ تو اس بھوت نکالنے کا یہی حل مجھے سمجھ میں آیا کہ کیوں نہ ہم ان پوشیدہ کارناموں کا دنیا کے سامنے لائیں جو کبھی ہم مسلمانوں کے ذہن سے نکلی تھیں، اور آج جسکو یورپ و امریکہ "اپنا" لیبل لگاکر دنیا کو بیچ رہے ہیں۔ شائد انہیں ہمارے کاناموں کو پڑھ کر ہماری نوجوان نسل کے اوپر جو مغربی برتری کا "رعب" چھایا ہوا ہے وہ کچھ کم ہوجائے اور ہماری ترقی کی گاڑی وہیں سے رواں دواں ہوجائے،جہاں سے ہمارے آباؤ اجداد اسکو چلاکر روک کے آئے تھے۔

ابھی انشاء اللہ اس سلسلے کی شروعات ہے، میری کوشش ہے کہ تمام مسلم سائنسدانوں کے کارناموں کو یہاں اس لڑی میں اجاگر کیا جائے۔ رفتہ رفتہ بہت کچھ یہاں معلومات جمع ہونگی جن کو پڑھ کر سبھی حیران ہونگے کہ جن ایجادات و تصورات و خیالات کو ہم "آج" یورپی سمجھا کرتے تھے، انکی حیثیت ایک مستعار لی گئی چیز سے زیادہ کچھ نہیں۔

دعاؤں کا بہت بہت شکریہ محترم۔ امت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ واقعی اپنا کرم کرے اور ہم سب کو خواب غفلت سے جگائے۔ آمین
 

حمیر یوسف

محفلین
ابن یونس:
ٹرگنو میٹری میں ابن یونس کی تحقیقات بہت قابل قدر ہیں۔ اس نے دو زاویوں الف اور ب کی جیب التمام (Cosine, Cosθ) کی حاصل ضرب کے متعلق مندرجہ زیل کلیہ نکالا۔
17356422711_ca271c7825_o.jpg


انگریزی کے مطابق
17354869022_57ec6185e8_o.jpg

اس فارمولے کو ٹرگنومیٹری میں حاصل ضرب کا قانون (Law of product) کہتے ہیں، جو ہمارے کالجوں میں گیارہوی جماعت میں ریاضی میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے Sinθاور tanθکے بھی قانون ہیں جو ابن یونس کے ہی ذہن کی پیداوار لگتے ہیں۔


ایک ڈگری کے زاویئے کی جیب (Sin10) کے متعلق ابن یونس نے مندرجہ زیل کلیہ کا استخراج کیا

16736394513_785774dcc2_o.jpg


انگریزی میں
17330678146_ac8cba6e2a_o.jpg


کرخی:
ریاضی میں اسکی دو تصانیف مشہور ہیں، جن میں پہلی حساب اور دوسری الجبرے پر مشتمل ہے۔ حساب پر اسکی کتاب کا نام "الکافی فی الحساب" ہے۔ اس کتاب میں اس نے اپنی تحقیق سے 9 اور 11 کے اعداد کے متعلق دو کلیئے بیان کئے ہیں۔

پہلا کلیہ یہ ہے کہ اگر کسی رقم ہندسوں کا مجموعہ 9 پر پورا پورا تقسیم ہوجائے تو ساری رقم 9 پر پوری پوری تقسیم ہوجائے گی۔ مثلا 7452 ایک رقم ہے۔ اسکے ہندسوں کا مجموعہ (7+4+5+2) 18 کے برابر ہے، جو 9 پر پورا پورا تقسیم ہوجاتا ہے ، اس لئے 7452کی رقم بھی پوری پوری 9 پر تقسیم ہوجائے گی

7452/9 = 828

دوسرا کلیہ یہ ہے کہ اگر کسی رقم کے پہلے ، تیسرے، پانچویں وغیرہ ہندسوں کا مجموعہ دوسرے، چوتھے، چھٹے وغیرہ کے ہندسوں کے مجموعے کے برابر ہو یا ان دونوں میں 11 کا فرق ہو تو وہ رقم 11 پر پوری تقسیم ہوجائے گی۔یہاں ایک اٹکل (random) سےایک نمبر لے لیتے ہیں اور اسکو اس اصول کے مطابق دیکھتے ہیں۔ فرض کیا نمبر 26081ہے۔ اسمیں پہلی، تیسری اور پانچویں پوزیشن کے نمبرز بالترتیب 2، 0اور 1 ہیں (انکو سرخ رنگ سے نمایا ں کیا گیا ہے)، جنکا حاصل جمع 3 ہے (2+0+1)۔ اب دوسری اور چوتھی پوزیشن کے نمبرز دیکھئے جو بالترتیب 6 اور 8 ہیں (انکو نیلے رنگ سے نمایاں کیا گیا ہے)۔ انکا حاصل جمع 14 ہے (6+8=14) ۔ اب 14 سے 3 کو تفریق کریں تو جواب 11 آتا ہے۔ مطلب 26081 گیارہ سے پورا پورا تقسیم ہوجانے والا نمبر ہے۔

26081/11=2371

اسطرح کی کئی مثالیں آپ لوگ خود لیکر بار بار اس کلیے کو ثابت کرسکتے ہیں۔موجودہ زمانے کی حساب کی کتابوں میں 9 اور 11 کے متعلق یہ کلیات درج ہوتے ہیں۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک مسلم ریاضی دان محمد بن حسن کرخی کی کاوش کا نتیجہ ہے۔

کرخی کی الجبرے کی کتاب میں اس نے دو درجی مساوات (Quadratic Equation) کے دونوں حل نکالنے کا مکمل کلیہ مع ثبوت پیش کیا تھا۔ اس سے پہلے نویں صدی میں محمد بن موسیٰ خوازمی نے اپنے الجبرے میں ان دو درجی مساواتوں کے حل کرنے کا طریقہ بیان کیا تھا، لیکن اس نے ان مساواتوں کے حل کرنے کا کوئی عمومی کلیہ نہیں نکالا تھا۔ دسویں صدی میں ابوالکامل مصری نے ان دو درجی مساواتوں کے دونوں حل معلوم کرنے کا کلیہ معلوم کیا، مگر کلیئے کا اطلاق صرف ایسی مساواتوں پر ہوتا تھا جن میں "لا " کا عددی سر محض الف ہو ۔ گیارہویں صدی میں کرخی نے اس آگے بڑھایا اور مکمل دو درجی مساواتوں
17170439619_ffdc230b7e_o.jpg


کے دونوں حل پیش کئے

ان مساواتوں کے حل میں اپنی پچھلی پوسٹ (پوسٹ نمبر # 4) میں دے چکا ہوں۔ دیکھئے مسلم سائنسدان ابومسلم شجاع میں تفضیل


ابوالحسن ستوی:
مسلمان سائنسدانوں میں ایک اور گمنام سائنسدان، جسکی ترویج شدہ ترقیمات اور سائنسی علامات (Notations) نے وہ شہرت حاصل کی جو آج تک موجودہ ریاضی اور سائنس کی تقریبا تمام ہی شاخوں میں مسلمہ ہے اور وہ ہے حساب ستین (چھ) اور حساب اعشاریہ میں تطابق پیدا کرنا۔ آج کل سائنس میں ہم چھوٹے چھوٹے پیمانوں کی تقسیم در تقسیم عموما دس دس کی نسبت سے کرتے ہیں۔ مثلا ایک سنٹی میٹر (Centimeter, cm) کو دس پر تقسیم کرنے سے ایک ملی میٹر (Millimeter, mm) اور ایک ملی میٹر کو مزید 10 سے تقسیم کرنے پر 0.1mmبنتا ہے۔ لیکن مسلم دور کے سائنسدان چھوٹے پیمانوں کی تقسیم ساٹھ ساٹھ کی نسبت سے کرتے تھے۔ مثلا وقت کی ایک ساعت یا زاوئیے کے ایک درجے کو وہ ساٹھ پر تقسیم کرتے تھے اور اس ساٹھویں حصے کو وہ "دقیقہ" کہتے تھے، کیونکہ ساٹھ کی اس تقسیم کے بعد یہ حصہ بہت خفیف یا باریک رہ جاتا تھا اور دقیقہ کے لفظی معنی خفیف یا باریک کے ہیں۔ دقیقہ کو جب وہ پھر ساٹھ پر تقسیم کرتے تھے یہ تقسیم دوسری بار ہوتی تھی اور دوسرے کو عربی میں ثانی کہتے ہیں ، اس لئے اس تقسیم کے حاصل کا نام انہوں نے "ثانیہ" رکھا تھا۔بعض اوقات زیادہ خفیف پیمانوں کے لئے وہ ثانیہ کو پھر ساٹھ حصوں تقسیم کرتے تھے۔ چونکہ یہ تیسری تقسیم تھی اور تیسرے کو عربی میں ثالث کہتے ہیں اس لئے اس تقسیم کے حاصل کو ثالثہ کہتے تھے۔

جب ازمنہ وسطیٰ (Renaissance ) میں مسلم سائنسدانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے ترجمہ یورپی زبانوں میں ہوئے تو دقیقہ کے لئے منٹ (Minute) کا لفظ بنایا گیا، کیونکہ منٹ کے معنی بھی خفیف اور باریک کے ہیں ۔ اسی طرح ثانیہ کے لئے سیکنڈ (Second) کا لفظ منتخب کیا گیا کیونکہ Second ثانی کا مترادف ہے۔

اسطرح مسلم سائنسدانوں کی ساٹھ کی تقسیم کے مطابق سیکنڈ اور منٹ کی اکائیاں وجود میں آئیں جو وقت اور زاوئیے کی پیمائش میں آج تمام دنیا میں رائج ہیں، لیکن دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اس امر سے واقف ہیں کہ منٹ اور سیکنڈ کی یہ اکائیاں ، مسلم سائنسدانوں کے وضع کردہ دقیقے اور ثانیے سے ماخوذ ہیں۔ چونکہ پیمانوں کی یہ تقسیم در تقسیم ساٹھ ساٹھ کے حساب سے ہوتی تھی اور لئے اسکو حساب ستین یعنی ساٹھ کا حساب کہتے تھے۔

دسویں صدی میں ساٹھ ساٹھ کے حساب یعنی حساب ستین کے ساتھ ساتھ دس دس کے حساب یعنی حساب اعشاریہ کا رواج بھی مسلم سائنسدانوں میں ہوچکا تھا، چنانچہ ابوالحسن ستوی نے حساب ستین اور حساب اعشاریہ کی رقموں کو ایک دوسرے میں تبدیل کرنے کے نقشے مرتب کئے جنکی مدد سے ریاضی دانوں کے لئے دونوں نظاموں کی باہمی تحویل آسان ہوگئی۔ بعد میں ان ہی نظاموں کی تحویل کے قاعددوں کو دیکھتے ہوئے موجودہ سائنسدان ثنائی نظام (Binary System) ایجاد کرنے کے قابل ہوئے ، جس میں صرف دو عدد، 0 اور 1 استعمال ہوتا ہے۔ اسی حساب ستین اور حساب اعشاریہ کی باہمی تبدیلی سے موجودہ سائنسدانوں کو ثنائی او ر اعشاریہ نظام کی باہمی تبدیلی میں بھی مدد ملی اور دیگر اسی طرح کے تمام نظاموں کو آپس میں تبدیل کرنا سمجھ میں آگیا۔ واضح رہے، کمپیوٹر اور تمام ڈیجیٹل ایجادات ، آج صرف ثنائی نظام کی بدولت اپنا کام کرتے ہیں۔ اگر ثنائی نظام کو اعشاری نظام میں تبدیل کرنے کا طریقہ کار وضع نہ ہوتا تو سائنس کی یہ ترقی شائد آج ہمارے سامنے نہ ہوتی۔
 
آخری تدوین:
Top