نامور مسلم سائنسدان ، قسط اول

حمیر یوسف

محفلین
ابن الھیثم:
کتاب المناظر میں ابن الھیثم سب سے پہلے روشنی کی ماہیت پر بحث کرتا ہے اور اسے توانائی کی ایک قسم بتاتا ہے، جو حرارتی توانائی کے مشابہہ ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ سورج کی کرنوں میں روشنی اور حرارت کے اثر کے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں اور یہی صورت آگ یا چراغ کے شعلے کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روشنی اور حرارت کی نوعیت ایک ہی ہے۔

روشنی کی ماہیت بیان کرنے کے بعد وہ ضو افشاں (Luminous) اجسام اور بے نور (Non Luminous) اجسام کے فرق کی وضاحت کرتا ہے۔ ضو افشاں یا نور افشاں وہ جسم ہے جو خود روشنی دیتا ہو۔ ایسے اجسام کی مثال میں وہ سورج، چاند، ستاروں اور چراغ کا نام لیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے چاند کے بذات خود بے نور ہونے کا علم نہیں تھا۔

روشنی جن اشیاء پر پڑتی ہے ، انکی وہ تین قسمیں بیان کرتا ہے (1) شفاف (Transparent) (2) نیم شفاف (Translucent ) (3) غیر شفاف (Opaque) ۔ ان میں سے شفاف وہ ہے جس میں روشنی گزر جاتی ہے اور دوسری طرف کی اشیاء بخوبی نظر آتی ہیں، مثال ہوا، پانی، شیشہ۔ نیم شفاف اسکے نزدیک وہ شئے ہے جس میں روشنی کچھ گزر جائے کچھ رک جائے۔ اسکی مثال وہ باریک کپڑے کی بتاتا ہے، جسکے دھاگوں سے روشنی رک جاتی ہے لیکن دھاگوں کےدرمیان سوراخوں میں سے روشنی گزر جاتی ہے۔ آجکل ہم نیم شفاف شئے کی مثال عموما رگڑے ہوئے شیشے (Ground Glass) کی دیتے ہیں۔ لیکن شیشے کی اس خاص قسم کا غالبا اسے علم نہیں تھا۔ غیر شفاف شئے کی وہ تعریف یو کرتا ہے کہ جس شئے میں روشنی بالکل نہ گزرسکے۔ اور دوسری طرف کا کوئی جسم اسمیں سے بالکل نظر نہ آئے وہ غیر شفاف ہوتا ہے۔

روشنی کی شعاع کی وہ نہایت صحیح تعریف کرتا ہے اور اسے روشنی کا ایک ایسا راستہ بیان کرتا ہے جو ایک خط کی صورت ہو۔ اسکے بعد وہ روشنی کی اشاعت کے متعلق یہ درست نتیجہ نکالتا ہے کہ روشنی کی شعاع ایک واسطے میں ہمیشہ خط ِ مستقیم میں چلتی ہے۔ یہ روشنی کی ذاتی خاصیت ہے جسکا اسکے واسطے (Medium) پر انحصار نہیں ہے، یعنی روشنی کا واسطہ خواہ کچھ بھی ہو، وہ اس واسطے سے اندر ہمیشہ خطوط مستقیم میں طے کرتی ہے

ابن ہیثم سوئی چھید (Pinhole) کے اصول کا دریافت کنندہ ہے، جسے وہ "ثقالبہ" لکھتا ہے، کیونکہ عربی میں ثقب بہت باریک چھید کو کہتے ہیں، جیسا کہ ایک سوئی سے بنایا جاتا ہے۔ روشنی میں مختلف چیزیں انکھ کو کیونکر نظر آتی ہیں، اسکے متعلق یونانی حکماء کی رائے یہ تھی کہ کب کسی اندھیرے کمرے میں چراغ روشن کیا جائے اور اسکی روشنی دیکھنے والے کی آنکھ پر پڑتی ہے تو آنکھ میں سے نظر کی کرنیں نکلتی ہیں۔ یہ کرنٰیں جس شئے پر پڑتی ہیں وہ شئے آنکھ کو نظر آجاتی ہے۔ یہ نظریہ صدیوں تک علمی دنیا کے مسلمات میں شامل رہا۔ چنانچہ یونانی دور کے بعد اسلامی دور میں بھی اکثر دانشور اسکی صحت پر یقین رکھتے تھے، لیکن ابن الہیثم نے اس نظریہ کو غلط ٹہرایا اور اسکے بجائے ایک نیا نظریہ پیش کیا جو موجودہ زمانے کے نظرئیے کے عین مطابق ہے۔ ان الہیثم لکھتا ہے کہ روشنی کی موجودگی میں آنکھ سے کسی قسم کی "نظر کی کرنیں" باہر نہیں نکلتی اور نہ ایسی کرنوں کو کائی وجود ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب روشنی کی کچھ شعاعیں کسی جسم پر پڑتی ہیں تو وہ جسم کی مختلف سطحوں سے پلٹ کر فضا میں پھیل جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض شعاعیں دیکھنے والے کے آنکھ میں داخل ہوجاتی ہے جنکے باعث وہ شئے آنکھ کو دکھائی دینے لگتی ہے۔

cub_soundandlight_lesson08_activity1_image1.jpg

سوئی چھید کیمرا
روشنی کے انعکاس کے دو قانون جو موجودہ زمانے میں روشنی کی ہر درسی کتاب میں درج ہوتے ہیں، انکو دریافت کرنے اور تجربے کے ذریعے انکا ثبوت بہم پہنچانے کا سہرا بھی ابن االہیثم کے سر ہے۔ ان میں سے پہلا قانون یہ ہے کہ شعاع واقع (Incident Ray) ، عمودی خط (Normal) اور شعاع منعکس (Reflected Ray) تینوں ایک ہی سطح پر ہوتی ہیں۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ زاویہ وقوع (Angle of Incidence) اور زاویہ انعکاس (Angle of Reflection) آپس میں برابر ہوتے ہیں۔

reflection201.JPG


ابن الہیثم روشنی کے انعطاف سے بخوبی واقف تھا۔ چنانچہ وہ بیان کرتا ہے کہ روشنی کی شعاع ایک واسطے (Medium) مثلا ہوا میں سے ایک دوسرے واسطے مثلا پانی میں داخل ہوتے ہیں تووہ اپنے پہلے راستے میں ایک طرف کو پھر جاتی ہے۔ انعطاف روچنی کے اس سلسلے میں وہ زاویہ وقوع اور زاویہ انعطاف بتاتے ہیں۔

ابن الہیثم نے انعطاف کے دو میں سے ایک قانون کی اپنی کتب میں درج کیا ہے۔ دوسری قانون کے بجائے اس نے کچھ ایسی شہادتیں درج کیں تھیں جو اسمیں دوسرے قانون کے متعلق بھی تھیں، لیکن اس نے اس قانوں کی مکمل وضاحت نہیں کی۔ اگر ان شہادتوں کو وہ ٹرگنومیڑی (مثلثیات) کے قوانین کے لحاظ سے یعنی زاویوں کی جیبوں (Sinθ) کی نسبت سے پیش کرتا تو انعطاف کے دوسرے قانون کی مکمل دریافت کا سہرا بھی اسکے سر ہوتا۔ اسے موجودہ شکل میں ہالینڈ کے ایک سائنس دان "اسنیل (Snell)" نے تیرہویں صدی میں دریافت کیا تھا۔ لیکن اسکے مشاہدات اور نتیجہ ابن الہیثم کی تحقیق کے ہی مطابق تھے۔

ابن الہیثم کا شاندار کارنامہ کروی آئینوں (Spherical Mirrors) کے متعلق تحقیقات ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتا ہے کہ جب روشنی کی متوازی شعاعیں ایک معقر آئینے (Concave Mirror) پر پڑتی ہیں تو وہ منعکس ہوکر ایک خاص نقطے میں سے جسکو "ماسکہ خاص (Principal Focus) کہتے ہیں، گزرتی ہے۔ معقر آئینے میں نقطہ ماسکہ سے پرے اگر ایک روشنی جسم رکھا جائے تو اسکا ایک الٹا عکس معقر آئینے کے سامنے بنتا ہے جسے پردے پر لیا جاسکتا ہے

Concave_mirror.gif

انسانی آنکھ کے مختلف حصوں کے لاطینی نام جو آج کل انگریزی کی طبعیات کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں، بیشتر ان ناموں کے لفظی تراقیم ہیں جنہیں ابن الہیثم نے اپنی عربی کی کتاب "المناظر" میں استعمال کیا تھا۔ مثال کے طور پر آنکھ کےعدسے (Lens) کا جب ابن الہیثم نے مشاہدہ کیا تو اسکی سطح دونوں طرف سے ابھری ہوئی تھی اور وہ شکل میں مسور کے دانے کے مشابہہ تھی۔ اس لئے ابن الہیثم نے اسکا نام "عدسہ" رکھ دیا کیونکہ مسور کو عربی میں "عدس" کہتے ہیں۔جب ازمنہ وسطیٰ میں کتاب المناظر کا ترجمہ لاطینی میں ہوا تو چونکہ مسور کو لاطینی میں "Lentil" کہتے ہیں، اسی لئے جسطرح مسور کے عربی مترادف عدس سے ابن الہیثم نے عدسے کی وضع اصطلاح کی تھی، اسی طرح مسور کے لاطینی مترادف (Lentil) سے کتاب المناظر کے مترجموں نے Lens کی اصطلاح بنالی۔ آج یہ اصطلاح ہر خاص و عام کی زبان پر ہے، مگر ان میں بہت کم اس بات سے واقف ہیں کہ یہ ایک مسلم نامور سائنسدان "ابن الہیثم" کی وضع کردہ عربی اصطلاح کا لاطینی چربہ ہے۔

human-eye.jpg


انسانی آنکھ
 
آخری تدوین:

حمیر یوسف

محفلین
عمر خیام:
عمر خیام نے نیشا پور میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کےبعد ریاضی پر ایک کتاب "مکعابات" کے نام سے لکھی ، جسمیں اس نے جذر Square root ، جذر المکعب Cube root کے علاوہ 4th Power ، 5th Powerاور 6th Power نکالنے کے بھی طریقے درج کئے۔


variables by Humair Yousuf, on Flickr

Square roots by Humair Yousuf, on Flickr

اسلامی دور میں الجبرے کے ماہرین نامعلوم مقدار کو ، جسے معلوم کرنا ہوتا تھا، "شئے (Quantity) کہتے تھے اور اسکو "لا" سے تعبیر کرتے تھے۔ لا2 کو وہ "مال" یا "مربع" اور لا3 کو وہ " المکعب" یا صرف " کعب" لکھتے تھے اور اس طریقے سے لا4 کو مال المال، لا 5 کو مال المکعب اور لا6 کو کعب المکعب کہتے تھے۔ عمر خیام نے اپنے الجبرے میں لا 2 کی دو درجی مساواتوں کو حل کرنے کی الجبرائی اور ہندسویں طریقے دینے کے بعد لا3، لا4، لا5اور لا6کی سہ درجی، چہار درجی، پنج درجی اور شش درجی مساواتوں کی بعض قسموں کو حل کیا ہے، لیکن الجبرے میں اسکا سب سے قابل قدر کارنامہ مسئلہ دو رقمی (Binomial Theorem ) کا انکشاف ہے۔ اس مسئلے کو سب سے پہلے عمر خیام نے دریافت کیا تھا۔ یہ مسئلہ

binomial formula by Humair Yousuf, on Flickr

کے حل کے متعلق ہے، جب کہ "ع" یعنی "n" کی کوئی سی قیمت ہو۔

اور اگر ع کو 2 کے برابر مان لیا جائے تو اسکے حل کی یہ صورت نکلتی ہے

square formula by Humair Yousuf, on Flickr
انگریزی میں
square formula eng by Humair Yousuf, on Flickr

اگر "ع" کو 3 کے برابر مان لیا جائے تو اسکے حل کی قیمت یہ ہوتی ہے۔

cube formula by Humair Yousuf, on Flickr

انگریزی میں
cube formula eng by Humair Yousuf, on Flickr


یہ صورتیں براہ راست بھی نکل سکتی ہیں ، لیکن فرض کریں کہ ہم ع کو 8 لیتے ہیں تو اس صورت میں (الف + ب)8 براہ راست حل نکالنا بہت مشکل ہے۔ البتہ مسئلہ دو رقمی (Binomial Theorem) کا حل مندرجہ زیل طریقے سے دیا جاتا ہے۔

binomial formula urdu by Humair Yousuf, on Flickr


انگریزی طرز تحریر کے مطابق اس مسئلے کو ہم یوں لکھ سکتے ہیں۔

binomial formula eng by Humair Yousuf, on Flickr

خیام نے ریاضی کے اہم کارناموں کے بعد علم فلکیات کے اوپر کچھ تحقیق کی اور اسکے لئے اس نے ایک اور سائنسدان، نصیر الدین طوسی کی مراغہ میں بنی ہوئی رصدگاہ میں فلکیات سے مطلق مشاہدات کئے۔ ان مشاہدات میں سب سے زیادہ اہم شمسی سال کی پیمائش کی تھی۔ شمسی سال سے مراد وہ عرصہ ہے جس میں (جدید نظریہ کےمطابق) زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

قدیم یونانی حکماء اس سال کو پورے 365 دن کا مانتےتھے۔ بطلیموس نے اسے 365 دن، 5 گھنٹے اور 55 منٹ قرار دیا تھا۔ محمد بن جابر بتانی نے اپنے مشاہدات کی بنا پر اسکی مقدار 365 دن، 5 گھنٹے، 46منٹ اور 24سیکنڈ مقرر کی تھی۔ عمر خیام کی تحقیق کے مطابق یہ پیمائش 365 گھنٹے 5گھنٹے اور 49 منٹ تھی۔ چونکہ موجودہ زمانے میں شمسی سال کو 365 دن، 5 گھنٹے 48منٹ اور 41.7سیکنڈ کا مانا جاتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ خیام نے جو مقدار معلوم کی تھی ، اسمیں اور موجودہ زمانے کی پیمائش میں صرف 1:0.3سیکنڈ کا فرق ہے۔ کوپر نیکس نے جسکا زمانہ ، ازمنہ وسطیٰ کے عظیم ہیئت دانوں میں ہوتا ہے، سال شمسی کی جو مقدار سولھویں صدی میں معلوم کی تھی، اس میں موجودہ زمانے کی پیمائش میں 17 سیکنڈ کا فرق ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیام کی پیمائش کوپر نیکس سے بھی زیادہ صحیح ہے۔

ایرانی شمسی تقویم میں خیام نے ایک بہت بڑی اصلاح یہ کی تھی کہ پانچ دزدیرہ دنوں کو سال کے بارہ مہینوں میں کھپادیا، جس سے بعض مہینے تیس دن کےاور بعض اکتیس دن کے ہوگئے تھے اور انکا پورا مجموعہ 365 دن کا ہوگیا تھا۔ شمسی سال میں 365 دنوں کے بعد تقریبا 6 گھنٹے کی جو زیادتی آتی ہے، اسے محسور کرنے کےلئے خیام نے باقاعدہ عدد کا مقرر کیا اور چوتھے سال کے لئے ایک مہینے میں ایک دن زیادہ کردیا، جس سے چوتھے سال کے دنوں کی گنتی 366 ہوگئی تھی۔ یہ وہی اصلاح ہے جو "لیپ کے سال Leap Year" کی صورت میں آج کل انگریزی کیلنڈر میں رائج ہے۔

میمون واسطی:
اسلامی دور کے تمام اطباء اور دوسرے سائنسدان مختلف اشیاء کو وزن کرنے کے لئے وزن کی دو اکائیاں درہم اور اوقیہ استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ اس دور کی طبی کتب میں مختلف ادویات کی مقداریں اوقیہ اور درہم میں لکھی ہوتی تھیں۔ جب ازمنہ وسطیٰ میں عرب کے یہ علمی خزائن لاطینی زبان میں منتقل ہوئے تو لاطینی کے ترجموں نے اوقیہ کو اونس (ounce) اور درہم کو "ڈرام Dram" بنالیا۔ چنانچہ آج بھی ہم ہسپتالوں میں ادویات کو تولنے کے لئے اونس اور ڈرام کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ڈاکٹر میں سے بہت تھوڑے اس بات سے واقف ہیں کہ انککے روزمرہ استعمال میں آنے والے "اونس اور ڈرام" دراصل عربی کے اوقیہ اور درہم سے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حمیر یوسف

محفلین
البیرونی:
ابوریحان محمد ابن احمد البیرونی، جو مختصر البیرونی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ لوگ انکو صرف ایک سیاح اور جغرافیہ دان ہی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگی کہ وہ ایک اچھے ریاضی دان بھی تھے اور بہت سی ایسی ریاضی کی دریافتیں انکے سر ہیں جو آج کے موجودہ دور میں بھی نہایت اہم مانی جاتی ہیں۔

البیرونی نے ٹرگنومیٹری (مثلثیات) کے اوپر ایک کتاب لکھی اور اسکی تیسری جلد کے دوسرے باب میں وہ "جا (الف/2( یعنی "Sin(A/2)" ، "جا ( 2الف) یعنی Sin(2A)"، جا (الف +ب) یعنی Sin(A + B)، جا (الف –ب) یعنی Sin (A-B) کے کلئیے پیش کرتا ہے اور انکے ثبوت بھی مہیا کرتا ہے۔

چوتھے باب میں وہ نصف درجے کے زاویئے کی جیب یعنی Sin1/2کو متعدد اعشارویوں تک صحیح صحیح نکالنے کے طریقوں پر بحث کرتا ہے اور پھر پانچ اعشاریوں تک اسکی صحیح قیمت نکالتا ہے۔ چونکہ جیب کی جدولوں (Sine Tables) کی صحت ایسے چھوٹے چھوٹے زاویوں کی جیب کی صحیح مقدار معلوم پر منحصر ہے، اس لئے ٹرگنومیٹری میں اس باب کی مندرجات کی اہمیت ہے۔

پانچویں باب میں پائی کی قیمت معلوم کرنے کا ٹرگنومیٹری کے طریقے دئیے ہوئے ہیں اور پھر انکے طریقوں کا اطلاق کرکے پائی
pi-clipart-black-pi-md.png
) کی قیمت اور موجودہ زمانے کی مسلممہ قیمت میں صرف 0.00016کا فرق ہے۔

ان ابواب میں البیرونی نے اس نظریہ کی بھی دریافت کی ہے جسکے ماتحت اس نے زاوئیے کے ان چھوٹے چھوٹے فروق سے جیب کی قیمتیں اخذ کی ہیں۔ اسکا یہ نظریہ عوامل (Theory of function) موجودہ زمانے میں ریاضی کی زبان میں یوں لکھا جاتا ہے۔
22 by Humair Yousuf, on Flickr
یہ سلسلہ لامتناہی ہے، مگر البیرونی نے اسے صرف تین درجے تک لکھا ہے۔ ریاضیات کی تاریخ میں اس کلئیے کو نیوٹن اور اسکے ہم عصر مغربی ریاضی دانوں کی طرف سے منسوب کیا جاتا ہے، جو سترھویں اور اٹھاریوں صدی میں گزرے ہیں، لیکن مسلم دور کے ا س نامور سائنس دان نے سات صدیوں پیشتر نہ صرف اس کلئیے کو دریافت کیا بلکہ اپنی جدولیں مرتب کرنے میں اس سے کام بھی لیا۔ اس باب میں ظل اور ظل التمام وغیرہ کی درمیانی قیمتیں نکالنے کے لئے بیرونی نے ایک عمومی کلیہ کا استخراج کیا ہے، جسکو موجودہ زمانے کی ریاضی میں یوں لکھا جاتا ہے۔


یہ کلیہ بھی البیرونی کی ریاضی دانی کے کمال کا ایک روشن ثبوت ہے، اگرچہ مغربی مصنف اسے بھی سترھویں اور اٹھاریوں صدی کے یورپی ریاضی دانوں کا کارنامہ خیال کرتے ہیں۔ اسی باب میں مثلثوں کے متعلق جیبی کلئیے (Sine Formula) کو نہایت عمدگی سے ثابت کیا گیا ہے۔ یہ کلیہ حسب زیل ہے۔

کسی مثلث الف ب ج میں جسکے ضلعے الف ب، ب ج اور الف ج ہوں اور جسکے زاویے الف، ب اور ج ہوں تو

law of sines Urdu by Humair Yousuf, on Flickr

جدید طرزِتحریر میں مثلث کے تین زاویوں کو A, B &Cاور انکے مقابل کے ضلعوں کا بالترتیب a, b & c سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس سے مذکورہ بالا کلئیے کی موجودہ صورت یہ ہوجاتی ہے۔

law of sines eng by Humair Yousuf, on Flickr

ریاضی میں ہندسویں سلسلے (Geometric Progressions) کو جمع کرنے کا قاعدہ البیرونی کی ایجاد ہے، جسکے عملی اطلاق سے اس نے
math 2 by Humair Yousuf, on Flickr

کی قیمت نکالی ہے جو اسکے تحقیق کے مطابق 1448744073709551619فعلی ہے۔ ریاضی نے اتنے بڑے جواب کا سوال بہت کم لوگوں نے حل کیا ہوگا۔
 
آخری تدوین:
Top