یہ بھی ٹھیک ہے کہ آخر اسی وجہ سے ہی تجسس ہوااس بار جب گرمی میں آپ وہاں جائیں گے تب یہ بھی پتہ کر لینا کہ مقامی لوگ کیا بولتے ہیں ننگا یا نانگا
یہ لڑی میں نے شروع تا آخر پڑھ رکھی ہےیہ بھی ٹھیک ہے کہ آخر اسی وجہ سے ہی تجس ہوا
گلگت بلتستان کے سفر کا پلان
علما کی خاطر ربط دیا تھا۔یہ لڑی میں نے شروع تا آخر پڑھ رکھی ہے
آج کل جہاں بھی دیکھو اردو میں ہمالیہ کے اس پہاڑ کا نام “نانگا پربت” لکھا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس کا مطلب برہنہ پہاڑ ہے۔
لیکن اردو، ہندی، سنسکرت اور کشمیری لغات میں کہیں بھی مجھے “نانگا” کا لفظ نہیں ملا۔
دوسری طرف “ننگا” کے معنی ہی برہنہ کے ہیں۔
تو کیا اس کا نام ننگا پربت ہے؟ یا نانگا پربت؟
انگریزی میں تو دونوں صورتوں میں Nanga Parbat ہی لکھا جائے گا۔ مریم ویبسٹر لغت کے مطابق اس کا تلفظ “ننگا پربت” ہے۔
علما کا اس بارے کیا خیال ہے؟
سید صاحب اب یہ مت کہیئے گا کہ فتاویٰ عالمگیری آپ کی نظر سے نہیں گزری ۔یہ کیسا دھاگا کھولا ہے۔ علماء شرما جائیں گے۔
بالکل ننگا پیر دیکھنے کا تو کبھی اتفاق نہیں ہوا لیکن نیم ننگے پیر تو سندھ میں بھی بہت ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کراچی کا منگھا پیر بھی ہم نے دیکھا ہوا ہے ۔سیالکوٹ کی بولی یعنی رچنا دو آب کی پنجابی میں، نانگا بمعنی ننگا استعمال ہوتے میں نے سُنا ہے جیسے کہ 'نانگا پیر' اور یہ ایسے مجذوب کو کہا جاتا تھا جو بلکہ برہنہ یعنی الف ننگا ہوتا تھا۔ ذاتی نوٹ پر یہ کہ ایک ایسے مجذوب کی زیارت کا شرف اس خاکسار کو بھی حاصل ہو چکا ہے، دہائیاں پہلے کی بات ہے اب اُن کے مزار پر عرس ہوتے ہیں۔
زبردست معلوماتی وغیرہاس طرح کے سوالوں کی اصل اور نستعلیق صورت کچھ یوں ہوتی ہے : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام بیچ اس مسئلے کے ۔
چونکہ آپ نے اس طرح احتراما نہیں پوچھا تو عین ممکن ہے کہ علماء اس لڑی کی طرف نہ آئیں ۔ سو فی الحال مجھ جیسے غیرعلماء کی رائے پر ہی اکتفا کرنا ہوگا ۔
میرے خیال میں اس سوال کا تعلق لسانیاتی تاریخ سے ہے کہ جسے انگریزی میں historical linguistics کہئے ۔ استعمال کے ساتھ ساتھ الفاظ اپنی صورت بدلتے رہتے ہیں ۔ کوئی لفظ جب ایک علاقے یا قوم سے سے دوسرے علاقے یا قوم میں پہنچتا ہے تو بولی کے فرق کی وجہ سے اس کی ادائیگی میں کچھ تغیر آسکتا ہے ۔ اردو تو ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ کتنے ہی عربی ، فارسی اور ہندی کے الفاظ ہیں جو ہم ان کے اصل تلفظ سے ہٹ کر ادا کرتے ہیں ۔ اس کی ایک دلچسپ مثال لفظ آئینہ ہے ۔ اس لفظ کی ابتدائی اور اصل صورت آہنہ تھی ۔ پہلے پہلے لوہے کو مصقل کرکے ( یعنی پالش کرکے) آئینہ بنایا جاتا تھا ۔ اسی لئے اس کا نام آہنہ پڑا ۔ جو بعد میں استعمال ہوتے ہوتے آئنہ بنا اور پھر آئینہ بن گیا ۔
ننگا کب اور کیسے پاجامہ پہن کر نانگا بنا میں اس بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن قیاس کہتا ہے کہ اس بارے میں تابش صدیقی کی بات درست ہے ۔ اسی طرح کی ایک مثال موئن جو داڑو کی ہے ۔ مقامی یعنی سندھی لوگ اسے صدیوں سے اپنی زبان میں مئن جو دڑو ( میم مضموم ، ہمزہ مفتوح اور ڑ پر ہلکی سی تشدید) کہتے آئے ہیں ۔ سندھی میں اس کا مطلب ہوا مرے ہوؤں کا ٹیلہ ۔ لیکن اردو بولنے والے اسے موئن جو داڑو کہتے ہیں ۔ میری اس بارے میں سندھی دوستوں سے کئی دفعہ بات ہوئی اورہمارا متفقہ خیال تھا کہ مئن جو دڑو کو موئن جو داڑو بنانے میں انگریزی کا بڑا دخل ہے ۔ شاید ۱۹۲۱ میں انگریز ماہرین آثارِ قدیمہ نے پہلی دفعہ اس ٹیلے پر کھدائی شروع کی (اور رفتہ رفتہ بہت کچھ آثارنکال کر برطانیہ لے گئے) ۔ انہوں نے اس کا نام انگریزی میں ٹرانسلٹریشن کے بعد Mohenjo Daro رکھا اور بقیہ ہندوستان کو اس سے متعارف کروایا ۔۔ اور پھر وہیں سے یہ اردو میں داخل ہوا ۔ بہت سارے اردو بولنے والے ابھی تک اسے موہن جو ڈارو بھی کہتے اور لکھتے ہیں ۔ لیکن اصل سندھی نام کے اثر کی وجہ سے موہن جو داڑو اور موئن جو داڑو زیادہ مقبول اور معروف ہوگئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
آپ کی اس بات پر کہ یہ لفظ 'نانگا' اردو لغات میں موجود نہیں ہے پر میں نے بھی اردو لغات دیکھیں۔ فرہنگِ آصفیہ میں موجود نہیں ہے لیکن دیگر لغات یعنی نور اللغات، فیروز اللغات اور علمی اردو لغت میں اس لفظ کو موجود پایا۔ ان میں سے نور اللغات اور علمی اردو لغت مستند ہیں۔ ان لغات کے مطابق یہ لفظ سنسکرت یا ہندی کا ہے۔ نور اللغات میں اس لفظ کی سند کے طور پر امیر مینائی کا شعر بھی موجود ہے۔لیکن اردو، ہندی، سنسکرت اور کشمیری لغات میں کہیں بھی مجھے “نانگا” کا لفظ نہیں ملا۔
زبردست وارث۔آپ کی اس بات پر کہ یہ لفظ 'نانگا' اردو لغات میں موجود نہیں ہے پر میں نے بھی اردو لغات دیکھیں۔ فرہنگِ آصفیہ میں موجود نہیں ہے لیکن دیگر لغات یعنی نور اللغات، فیروز اللغات اور علمی اردو لغت میں اس لفظ کو موجود پایا۔ ان میں سے نور اللغات اور علمی اردو لغت مستند ہیں۔ ان لغات کے مطابق یہ لفظ سنسکرت یا ہندی کا ہے۔ نور اللغات میں اس لفظ کی سند کے طور پر امیر مینائی کا شعر بھی موجود ہے۔
اگر ان لغات کے یہ اندارج درست ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ لفظ برصغیر کا مقامی ہے اور کہیں باہر سے 'ننگا' کا تلفظ بگڑ کر در آمد نہیں ہوا۔
فرہنگِ آصفیہ میں موجود نہیں ہے لیکن دیگر لغات یعنی نور اللغات، فیروز اللغات اور علمی اردو لغت میں اس لفظ کو موجود پایا۔ ان میں سے نور اللغات اور علمی اردو لغت مستند ہیں۔ ان لغات کے مطابق یہ لفظ سنسکرت یا ہندی کا ہے۔ نور اللغات میں اس لفظ کی سند کے طور پر امیر مینائی کا شعر بھی موجود ہے۔
اگر ان لغات کے یہ اندارج درست ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ لفظ برصغیر کا مقامی ہے اور کہیں باہر سے 'ننگا' کا تلفظ بگڑ کر در آمد نہیں ہوا۔
اگر کسی پرانے اردو اخبار یا کتاب تک رسائی ہو تو کنفرم ہو کہ پہلے "ننگا" پہاڑ تھا یا "نانگا" یا دونوں طرح لکھا جاتا تھا۔خدا کا شکرہے کہ یہ ننگا مقامی نکلا ۔ غیر ملکی ننگوں پر تو اپنے ہاں پابندی ہے ۔
لیکن یہ بنیادی سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ پہلے اسے ننگا پربت کہا جاتا تھا تو اب نانگا کیوں ؟! یا پھر شروع ہی سے دونوں نام مستعمل ہیں ؟! مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمیشہ اخباروں اور کتابوں میں اسے ننگا پربت ہی لکھا دیکھتے تھے ۔ سن اکیانوے بیانوے کے دور کی ایک یاد ذہن میں آتی ہے کہ انور مقصود نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں پی آئی اے کے ایک پائلٹ کا صوتی انٹرویو کیا تھا ۔ اس میں پائلٹ نے دورانِ فلائٹ اپنے کاک پٹ کی کھڑکی سے ننگا پربت اور دیگر پہاڑوں کی ویڈیو دکھائی تھی اور ساتھ ساتھ چوٹیوں کے نام بھی بتاتا جارہا تھا ۔ اُس نے بھی اسے ننگا پربت کہا تھا ۔ اور ویڈیو ختم ہونے کے بعد انور مقصود نے یہ جملہ کہا تھا کہ ناظرین پاکستان ٹی وی بہت ایڈوانس ہو گیا ہے ، ٹی وی پر ننگا دکھادیا ۔
مجھے اس بات کا تجسس ہے کہ فیروزاللغات کے مستند نہ ہونے کی کیا وجہ ہے۔ مڈل سکول کی نصابی کتب میں تو یہی شامل تھی۔دیگر لغات یعنی نور اللغات، فیروز اللغات اور علمی اردو لغت میں اس لفظ کو موجود پایا۔ ان میں سے نور اللغات اور علمی اردو لغت مستند ہیں۔
لغت بھی نصاب میں شامل ہوتی ہےکیا؟مجھے اس بات کا تجسس ہے کہ فیروزاللغات کے مستند نہ ہونے کی کیا وجہ ہے۔ مڈل سکول کی نصابی کتب میں تو یہی شامل تھی۔
فیروز اللغات اردو کو عام طور پر پہلی لغات کا چربہ سمجھا جاتا ہے اور مزید یہ کہ اس میں شاید کچھ اغلاط بھی ہیں، اس لیے اس کی ادبی سندی وقعت شاید اس طرح کی نہیں ہے جس طرح فرہنگِ آصفیہ، نور اللغات، علمی اردو لغت وغیرہ کی ہے۔ ہاں فیروز اللغات فارسی اردو ایک شاہکار ہے۔مجھے اس بات کا تجسس ہے کہ فیروزاللغات کے مستند نہ ہونے کی کیا وجہ ہے۔ مڈل سکول کی نصابی کتب میں تو یہی شامل تھی۔
شاید نہیں، کہ لغت کا شمار تو حوالہ کتب میں ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے سکول میں ہر طالبعلم کے پاس اردو کی نصابی کتاب کے ساتھ ’فیروزاللغات اردو جدید‘ کا ہونا بھی لازمی تھا۔لغت بھی نصاب میں شامل ہوتی ہےکیا؟
فیروز اللغات اردو تو بہت پہلے کہیں نظر سے گزری تھی اور بادی النظر میں بلا مبالغہ ایسا محسوس ہوا تھا کہ واقعی کوئی گئی گزری لغت ہے مضحکہ خیز حد تک بیکار ۔۔۔یہ اس وقت کے تاثرا ت ہیں ۔۔۔فیروز اللغات اردو کو عام طور پر پہلی لغات کا چربہ سمجھا جاتا ہے اور مزید یہ کہ اس میں شاید کچھ اغلاط بھی ہیں، اس لیے اس کی ادبی سندی وقعت شاید اس طرح کی نہیں ہے جس طرح فرہنگِ آصفیہ، نور اللغات، علمی اردو لغت وغیرہ کی ہے۔ ہاں فیروز اللغات فارسی اردو ایک شاہکار ہے۔