نان پے ئنگ گیسٹ

نان پے ئنگ گیسٹ
محمد خلیل الرحمٰن
(احمد ندیم قاسمی سے معذرت کے ساتھ)

کون کہتا ہے کہ اب لوٹ کے گھر جاؤں گا
میزبانی تری ٹھُکراؤں گا ، مر جاؤں گا

میں ترے گھر میں جو رہتا ہوں مسافر کی طرح
تیرا کھانا نہیں کھاؤں تو کِدھر جاؤں گا

دال کی کون سی تاریخ ہے میں بھول گیا
گوشت اب بھی نہ ملے گا تو میں مر جاؤں گا

بے بسی، بے کسی و مفلسی و کنجوسی
یوں گزارا نہ کروں گا تو گزر جاؤں گا

اب کرایہ نہ طلب کر مرے اچھے مالک
رقم ساری میں وصیّت میں ہی کر جاؤں گا

بارے آرام سے کچھ دِن ہی گزاروں گا یہاں
سال ، دو سال میں اُس پار اُتر جاؤں گا

تیرا مہمان ہوں پھِر بھی تجھے پیسے دے دوں
ایسی حرکت نہ تو کی ہے ، نہ ہی کر جاؤں گا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سمجھ نہیں پا رہا کہ آہ!کہوں یا واہ!!
بظاہر تو یہ مزاحیہ نظم نظر آتی ہے،
لیکن در حقیقت یہ اس دور کا ایک المیہ بھی پیش کرتی ہے۔
کسی قصبے یا گاؤں میں بسنے والے ہمارے آپ کے آباء و اجداد کی نظریں جہاں نماز کے بعدمسجد سے نکلتے وقت کسی اجنبی مسافرکو تلاش کیا کرتی تھیں۔ اگر کوئی مسافر نظر آ جاتا تو اس کی مہمان نوازی کو وہ اپنی سعادت خیال کرتے۔ اسے اپنے ساتھ گھر لے جاتے اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے۔ تو دوسری طرف کچھ بزرگ رات کے کھانے پر آخری بس کا انتظار کیا کرتے کہ مبادا کہیں کوئی بھولا بسرا مسافر آن پہنچے اور اس کی مہمان نوازی کی سعادت نصیب ہو جائے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ ممبئی جیسے میٹرو پولیٹن شہروں کے مکینوں کے یہاں جب ان کا کوئی رشتہ دار جا پہنچتا ہے تب وہ یہ بعد میں دریافت کرتے ہیں کہ آپ کب آئے؟ یہ پہلے پوچھ لیتے ہیں، آپ کب واپس جائیں گے؟ یا آپ کا قیام کتنے دن کا ہوگا؟ کسی نے اگر دو چار گھنٹے سے زیادہ کاوقت بتا دیا تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ دیکھیے جناب آپ کو ہم کھانا تو کھلا سکتےہیں لیکن رہنے اور سونے کے لیے جگہ نہیں دے سکتے ۔ آپ اپنے رہنے کا انتظام کہیں اور کر لیجیے۔
پاکستان کا حال ہمیں معلوم نہیں۔ انڈیا میں تو لوگ باگ اپنے بوڑھے والدین کو بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ ضعیفی میں جب انہیں اولاد کے سہارے اور ان کے ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اولاد انہیں گھر سے نکال باہر کرتی ہے اور مجبورا انہیں بوڑھوں کی پناہ گاہ میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ البتہ والدین کو گھر سے نکال باہر کرنے کے واقعات ہمارے یہاں مسلمانوں میں کم اور غیر مسلموں میں زیادہ پائے جاتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گھروں سے نکالے گئے بوڑھوں کے لیے ہندؤوں اور عیسائیوں کے ادارے تو موجود ہیں، مسلمانوں کا ایک بھی ادارہ موجود نہیں ہے، نتیجتا گھروں سے نکالے گئے بوڑھے مردوں کو مسجدوں میں پناہ لینا پڑتی ہے، اور عورتوں بزرگان دین کے مزارات پہ جا پڑتی ہیں۔
ان حالات میں نان پے انگ گیسٹ پہ جو کچھ گزرتی ہوگی وہ تو وہی جانے جس پہ گزرتی ہوگی، تاہم آپ نے نہایت نپے تلے انداز میں بڑی تلخ باتیں اپنی اس مزاحیہ نظم میں پیش کردی ہیں۔سمجھ نہیں پا رہا کہ آہ!کہوں یا واہ
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
دال کی کون سی تاریخ ہے میں بھول گیا
گوشت اب بھی نہ ملے گا تو میں مر جاؤں گا

دال کون سی کوئی گوشت سے کم ہے۔

بہت داد قبول فرمائیں۔
 
سمجھ نہیں پا رہا کہ آہ!کہوں یا واہ!!
بظاہر تو یہ مزاحیہ نظم نظر آتی ہے،
لیکن در حقیقت یہ اس دور کا ایک المیہ بھی پیش کرتی ہے۔
کسی قصبے یا گاؤں میں بسنے والے ہمارے آپ کے آباء و اجداد کی نظریں جہاں نماز کے بعدمسجد سے نکلتے وقت کسی اجنبی مسافرکو تلاش کیا کرتی تھیں۔ اگر کوئی مسافر نظر آ جاتا تو اس کی مہمان نوازی کو وہ اپنی سعادت خیال کرتے۔ اسے اپنے ساتھ گھر لے جاتے اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے۔ تو دوسری طرف کچھ بزرگ رات کے کھانے پر آخری بس کا انتظار کیا کرتے کہ مبادا کہیں کوئی بھولا بسرا مسافر آن پہنچے اور اس کی مہمان نوازی کی سعادت نصیب ہو جائے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ ممبئی جیسے میٹرو پولیٹن شہروں کے مکینوں کے یہاں جب ان کا کوئی رشتہ دار جا پہنچتا ہے تب وہ یہ بعد میں دریافت کرتے ہیں کہ آپ کب آئے؟ یہ پہلے پوچھ لیتے ہیں، آپ کب واپس جائیں گے؟ یا آپ کا قیام کتنے دن کا ہوگا؟ کسی نے اگر دو چار گھنٹے سے زیادہ کاوقت بتا دیا تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ دیکھیے جناب آپ کو ہم کھانا تو کھلا سکتےہیں لیکن رہنے اور سونے کے لیے جگہ نہیں دے سکتے ۔ آپ اپنے رہنے کا انتظام کہیں اور کر لیجیے۔
پاکستان کا حال ہمیں معلوم نہیں۔ انڈیا میں تو لوگ باگ اپنے بوڑھے والدین کو بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ ضعیفی میں جب انہیں اولاد کے سہارے اور ان کے ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اولاد انہیں گھر سے نکال باہر کرتی ہے اور مجبورا انہیں بوڑھوں کی پناہ گاہ میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ البتہ والدین کو گھر سے نکال باہر کرنے کے واقعات ہمارے یہاں مسلمانوں میں کم اور غیر مسلموں میں زیادہ پائے جاتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گھروں سے نکالے گئے بوڑھوں کے لیے ہندؤوں اور عیسائیوں کے ادارے تو موجود ہیں، مسلمانوں کا ایک بھی ادارہ موجود نہیں ہے، نتیجتا گھروں سے نکالے گئے بوڑھے مردوں کو مسجدوں میں پناہ لینا پڑتی ہے، اور عورتوں بزرگان دین کے مزارات پہ جا پڑتی ہیں۔
ان حالات میں نان پے انگ گیسٹ پہ جو کچھ گزرتی ہوگی وہ تو وہی جانے جس پہ گزرتی ہوگی، تاہم آپ نے نہایت نپے تلے انداز میں بڑی تلخ باتیں اپنی اس مزاحیہ نظم میں پیش کردی ہیں۔سمجھ نہیں پا رہا کہ آہ!کہوں یا واہ
جزاک اللہ جناب۔
 
اس میں تو کمال کر دیا آپ نے۔ ایسا مزاح جس میں سچائی اور حقیقت کا تڑکا بھی ہو، وہ زیادہ مزا دے جاتا ہے۔
بہت داد پیش ہے۔ :)
 
واہ واہ. خوب
عالم ارواح میں اپ کی معذرتوں کا چرچا ہوگا.
جیہ بٹیا ! بہتر تو یہی ہے کہ عالمِ ارواح میں چرچے رہیں وگرنہ عالمِ ہست و بود میں تو بات سب و شتم سے شروع ہوکر ہاتھ گریبان تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

ہم نے ایک مرتبہ پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل کا قیمہ بنایا تو ایک محفلین بہت جُز بُز ہوئے اور ہمیں بے نقط سنائیں۔ جوابآ ہم نے کچھ کہنے کے بجائے اسی غزل کی دو مشہور پیروڈیاں پیش کردیں جو دو انتہائی معتبر شعراء نے کی تھیں اور یوں وہ معاملہ رفع دفع ہوا ورنہ ہم تو کہیں کے نہ رہے تھے۔

ہاں البتہ اپنی ایک انتہائی خوبصورت غزل کا ستیاناس کرنے پر محترم فاتح الدین بشیر بھائی نے اُلٹا ہماری تعریف کی اور اس کارِ خیر کو سراہا ، جسے شاید ہم کبھی بھلا نہ پائیں۔

دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
 

فاتح

لائبریرین
ہاں البتہ اپنی ایک انتہائی خوبصورت غزل کا ستیاناس کرنے پر محترم فاتح الدین بشیر بھائی نے اُلٹا ہماری تعریف کی اور اس کارِ خیر کو سراہا ، جسے شاید ہم کبھی بھلا نہ پائیں۔
ایسے خوبصورت اور محبت سے بھرپور "ستیا ناس" پر سو جان سے قربان
 
جیہ بٹیا ! بہتر تو یہی ہے کہ عالمِ ارواح میں چرچے رہیں وگرنہ عالمِ ہست و بود میں تو بات سب و شتم سے شروع ہوکر ہاتھ گریبان تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

ہم نے ایک مرتبہ پروین شاکر کی ایک خوبصورت غزل کا قیمہ بنایا تو ایک محفلین بہت جُز بُز ہوئے اور ہمیں بے نقط سنائیں۔ جوابآ ہم نے کچھ کہنے کے بجائے اسی غزل کی دو مشہور پیروڈیاں پیش کردیں جو دو انتہائی معتبر شعراء نے کی تھیں اور یوں وہ معاملہ رفع دفع ہوا ورنہ ہم تو کہیں کے نہ رہے تھے۔

ہاں البتہ اپنی ایک انتہائی خوبصورت غزل کا ستیاناس کرنے پر محترم فاتح الدین بشیر بھائی نے اُلٹا ہماری تعریف کی اور اس کارِ خیر کو سراہا ، جسے شاید ہم کبھی بھلا نہ پائیں۔

دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
ایسے خوبصورت اور محبت سے بھرپور "ستیا ناس" پر سو جان سے قربان
جب آپ کسی کی غزل کی پیروڈی بناتے ہیں تو چھپے لفظوں میں یہ بات تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ یہ غزل اچھی بھی ہے اور یہ غزل اور اسکا شاعر دونوں مقبول بھی ہیں۔
یعنی آپ کہ سکتے ہیں کہ ایسی پیروڈی ایک طرح کا خراج تحسین ہوتی ہے شاعر کے لئے۔ :)
اب ہر ایرے غیرے کی غزل کی تو کوئی پیروڈی نہیں لکھتا :)
مجھے یقین ہے کہ فاتح اس باریکی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب خلیل میاں، آج کل پروازِ تخیل بھی ’اڑان پر ہے‘۔
ایک مشورہ
تیرا کھانا نہیں کھاؤں تو کِدھر جاؤں گا
اگر یوں ہو
تیرا کھانا جو نہ کھاؤں گا، کِدھر جاؤں گا
یا
تیرا کھانا جو نہ کھاؤں تو کِدھر جاؤں گا
سے تاثر بڑھ جاتا ہے
 
نان پے ئنگ گیسٹ
محمد خلیل الرحمٰن
(احمد ندیم قاسمی سے معذرت کے ساتھ)

کون کہتا ہے کہ اب لوٹ کے گھر جاؤں گا
میزبانی تری ٹھُکراؤں گا ، مر جاؤں گا

میں ترے گھر میں جو رہتا ہوں مسافر کی طرح
تیرا کھانا نہیں کھاؤں تو کِدھر جاؤں گا

دال کی کون سی تاریخ ہے میں بھول گیا
گوشت اب بھی نہ ملے گا تو میں مر جاؤں گا

بے بسی، بے کسی و مفلسی و کنجوسی
یوں گزارا نہ کروں گا تو گزر جاؤں گا

اب کرایہ نہ طلب کر مرے اچھے مالک
رقم ساری میں وصیّت میں ہی کر جاؤں گا

بارے آرام سے کچھ دِن ہی گزاروں گا یہاں
سال ، دو سال میں اُس پار اُتر جاؤں گا

تیرا مہمان ہوں پھِر بھی تجھے پیسے دے دوں
ایسی حرکت نہ تو کی ہے ، نہ ہی کر جاؤں گا
واہ واہ واہ، سبحان اللہ، محمد خلیل الرحمٰن بہت ساری داد قبول فرمائیں
کافی دنوں سے دفتری مصروفیت کی وجہ سے محفل میں حاضر نہیں ہو سکا، اور آج تھکاوٹ سے بے حال ہو رہا تھا، خیال آیا کہ محفل میں جا کر خلیل بھائی کی کوئی تازہ غزل نصیب ہو جائے تو تھکاوٹ دور ہو جائے گی :) اور ایسا ہی ہوا، سلامت رہیں، آباد رہیں

دال کی کون سی تاریخ ہے میں بھول گیا
گوشت اب بھی نہ ملے گا تو میں مر جاؤں گا

تیرا مہمان ہوں پھِر بھی تجھے پیسے دے دوں
ایسی حرکت نہ تو کی ہے ، نہ ہی کر جاؤں گا
 
خلیل الرحمٰن بھیا

آپ آئے تو میں یہ ہاتھ بھی کر جاؤں گا
گھر کے پیچھے لگی سیڑھی سے اتر جاؤں گا


آپ بیٹھے ہی رہیں گے مرے دروازے پر
اور میں رات گئے لوٹ کے گھر آؤں گا


آپ اگر چاہیں تو ہوٹل بھی ہیں، تندور بھی ہیں
پاس درگاہ بھی ہے، میں تو ادھر جاؤں گا


آپ کی شاعری جینے کے لئے لازم ہے
پڑھ نہ پایا میں کسی روز تو مر جاؤں گا
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top