سید شہزاد ناصر
محفلین
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
کیونکر نہ چاک چاک گریبانِ دل کروں
دیکھوں جو تیری زلف کو میں دست شانے میں
زینت دلیل مفلسی ہے ٹک کماں کو دیکھ
نقش و نگار چھٹ نہیں کچھ اس کے خانے میں
اے مرغِ دل سمجھ کے تو چشم طمع کو کھول
تو نے سنا ہے دام جسے، ہے وہ دانے میں
چلے میں کھینچ کھینچ کیا قد کو جوں کماں
تیر مراد پر نہ بٹھایا نشانے میں
پایا ہر ایک بات میں اپنے میں یوں تجھے
معنی کو جس طرح سخن عاشقانے میں
دستِ گرہ کشا کو نہ تزئیں کرے فلک
مہندی بندھی نہ دیکھی میں انگشت شانے میں
ہم سا تجھے تو ایک ہمیں تجھ سے ہیں کئی
جا دیکھ لے تو آپ کو آئینہ خانے میں
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
کیونکر نہ چاک چاک گریبانِ دل کروں
دیکھوں جو تیری زلف کو میں دست شانے میں
زینت دلیل مفلسی ہے ٹک کماں کو دیکھ
نقش و نگار چھٹ نہیں کچھ اس کے خانے میں
اے مرغِ دل سمجھ کے تو چشم طمع کو کھول
تو نے سنا ہے دام جسے، ہے وہ دانے میں
چلے میں کھینچ کھینچ کیا قد کو جوں کماں
تیر مراد پر نہ بٹھایا نشانے میں
پایا ہر ایک بات میں اپنے میں یوں تجھے
معنی کو جس طرح سخن عاشقانے میں
دستِ گرہ کشا کو نہ تزئیں کرے فلک
مہندی بندھی نہ دیکھی میں انگشت شانے میں
ہم سا تجھے تو ایک ہمیں تجھ سے ہیں کئی
جا دیکھ لے تو آپ کو آئینہ خانے میں
سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
آخری تدوین: