کلیم گورمانی
محفلین
اُسے سٹیج ڈرامہ بنانے والے تقریباََ سبھی جان چکے تھے، کہ وہ ایک ناکام اداکار ہے، اب تو ڈرامہ نگاروں نے اُسے کام دینا بھی چھوڑ دیا تھا،
آج اُسے پچھلے کام پر گئے ہوئے بیسواں روز تھا،
کام نہ ملنے کی وجہ سے گھر میں فاقے ہو رہے تھے۔ ماں کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی، اور اُس کی دوائ کے لیئے بھی روپے درکار تھے،
وہ گھر میں بیٹھا اپنے حالات و مجبوریاں خود کلامی کی صورت میں خود کو سنائے جا رہا تھا، اُس کا خود سے ایسے باتیں کرنا اس کے من کا بوجھ بھی ہلکا کیئے جا رہا تھا اور کچھ ادکاری کی ریہرسل بھی ہو رہی تھی۔
وہ اپنے خود کے سٹیج پر ادکاری کرنے میں اِس قدر محو تھا کہ اُسے اپنے گھر کی کنڈی کھڑکنے کی آواز بھی سنائ نہ دے رہی تھی ، دفعتاََ آنے والے نے آواز دی کہ باسو باسو ،
باسو اپنے خیالوں سے نکلا اور گھر کی کنڈی کھولی تو سامنے ایک ڈرامہ بنانے والا کھڑا تھا،
سلام دعا کے بعد اُس نے باسو کو بتایا کہ دوسرے شہر میں ایک میلہ آج سے شروع ہے اور دس دن تک رہے گا، وہاں پہ ڈرامہ کرنا بہت اچھا رہے گا
میں تجھے اِس کام کے لیئے پورے پچیس سو روپے دوں گا مگر میری ایک شرط ہے ،
باسو نے پوچھا کیا، تو اُس نے بتایا کہ میلے میں کام کے تمہیں دس روز ہر حال میں مکمل کرنے ہوں گے ، اور بصورت دیگر مجھے نقصان ہونے کا خطرہ ہے، ایسی صورت میں اپنے سٹیج کے کسی بھی فنکار کے خلاف قانونی کاروائ کا حق محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ، تم کو بهی اِس پیپر پر دستخط کرنے ہوں گے۔ اُس نے جیب سے ایک پیپر نکالا اور باسو کے آگے رکھ دیا، باسو نے چارپائ سے لگی بوڑھی ماں کو دیکھا اور ورق پہ دستخط کر دیے،
آج سٹیج پر باسو کا آخری روز تھا، دوپہر کے وقت تک باسو چار شو کر چکا تھا ، چوتھے شو کے ختم ہوتے ہی باسو سٹیج کے پاس بنے سٹیج خانے میں پہنچا تو دیکھا کے مجھ سے ملنے قریبی رشتہ دار آیا ہوا ہے، باسو جلدی سے اُس کے پاس بیٹھا اور اِس سے پہلے کہ وہ خیر خیریت پوچھتا اُس رشتے دار اُسے گلے لگا کر بتایا کہ باسو تیری ماں اللہ کو پیاری ہوگی ہے ، بیٹا گھر چلو، کفن دفن کا انتظام بهی کرنا ہے. یہ سن کر باسو کے پیروں تلے جیسے زمین ہی نکل گئ ، رشتہ دار نے آسرا دے کر چارپائ پہ بٹھایا اور باسو تھا تو ماں کے غم میں مسلسل روئے جا رہا تھا، اُسی لمحے ڈرامہ نگار سٹیج خانے میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھا باسو رو رہا ہے، کچھ پوچھے بغیر ہی اُس نے کہا چلو باسو اب جلدی سے سٹیج پر ڈرامہ شروع کرو، دیکھو ڈرامے کا وقت ہوگیا ہے، اور ہاں اس ڈرامے میں تم نے لوگوں کو ہنسانا ہے . اور تم ہو کہ رونے کی ریہرسل شروع کیئے بیٹهے ہو. اس سے پہلے وہ کچه اور کہتا
باسو کے رشتہ دار نے اُس ڈرامہ نگار کو سب کچھ بتا دیا مگر اُس پر باسو کے دکھ کا کچھ اثر بهی نہ ہوا ، اِس سے پہلے رشتہ دار باسو سے ہمدردی کے کچھ لفظ اور کہتا مگر ڈرامہ نگار نے اپنی جیب سے باسو سے معاہدے کا وہ ورق نکال کر دکھایا تو ، باسو کو بهی وہ سب کچھ یاد آگیا جو کہ باسو ماں کی وفات کا سُن کر کچھ لمحوں کے لیے بھول گیا تھا، باسو نے کچھ لمحوں میں خود کا روئے جانا قابو کیا اور منہ دھوکر سٹیج کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اِس ڈرامے میں باسو کا کردار حاضرین کو ہنسانے کا تھا، اور باسو کے باتیں اور چٹکلے سن سن کر لوگوں کا ہنس ہنس کر برا حال تھا، کچھ منچلوں نے تو خوش ہو کر سیٹیاں مارنا بهی شروع کر دیں تهیں اور ایک نے خوش ہو کر داد کی شکل میں دعا کہ باسو خدا تمییں ہمیشہ خوش رکھے، اُس ڈرامے میں لوگوں نے باسو کی ادکاری کو بہت پسند کیا ، باسو لوگوں کی تعریفیں سمیٹ کر ناٹک خانے بیٹھا پھر سے روئے جارہا تھا اُسے معلوم تھا کہ ابھی شام کے تین شو باقی ہیں،
اور اِسی طرح دو ڈرامے بھی پورے کر لیے تهے . سٹیج پہ لوگوں کو ہنساتا اور ناٹک خانے میں رشتے دار کو گلے لگا کر روتا تھا،
یہ باسو کا آخری ڈرامہ تھا ، سٹیج کے سامنے شائقین کا ہال بھرا ہوا تھا ۔ باسو سٹیج پہ آیا ہنسنے ہنسانے کی باتیں کے ساتھ ساتھ چٹکلے بھی چلتے رہے لوگ تو جیسے ہنسے کے عادی تھے ہنستے رہے، لوگ اُس وقت باسو کی باتوں سے اور ادکاری سے بہت خوش ہو رہے تھے ابھی ڈرامہ شروع ہوئے کچھ دیر ہی گزری ہو گی کہ باسو کوئ بات شروع کرنے سے پہلے اپنے سر کے بال پکڑنے لگا تها اور پھر ہنسی مذاق ایک چٹکلا سامعین کی سماعت تک پہنچاتا، ایسے کتنی دیر سے ہو رہا تها،خود باسو کو بهی خبر نہیں تهی ، ڈرامہ ختم ہو گیا تھا
سامعین باسو کو اچھی اداکاری کرنے کے اعزاز میں باسو کی پیٹه پر تهپکی دے کر گهر جانے لگے ، مگر باسو ابھی تک سٹیج پر موجود تھا، وہ اپنے بال نوچ کر اب بھی لوگوں کو ہنسانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا،
آج بھی باسو اُس رشتہ دار کو سرِراہ جب بهی ملتا ہے تو وہ اپنے بال نوچ کر ہنسی مذاق کا ایک چٹکلا اسے ضرور سناتا ہے مگر ایسی اداکاری کرنے کےلیئے معاہدے کا ایک ورق اب بھی کسی ڈرامہ نگار کی جیب میں ہے۔
urdudais.com
Urdu Dais
آج اُسے پچھلے کام پر گئے ہوئے بیسواں روز تھا،
کام نہ ملنے کی وجہ سے گھر میں فاقے ہو رہے تھے۔ ماں کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی، اور اُس کی دوائ کے لیئے بھی روپے درکار تھے،
وہ گھر میں بیٹھا اپنے حالات و مجبوریاں خود کلامی کی صورت میں خود کو سنائے جا رہا تھا، اُس کا خود سے ایسے باتیں کرنا اس کے من کا بوجھ بھی ہلکا کیئے جا رہا تھا اور کچھ ادکاری کی ریہرسل بھی ہو رہی تھی۔
وہ اپنے خود کے سٹیج پر ادکاری کرنے میں اِس قدر محو تھا کہ اُسے اپنے گھر کی کنڈی کھڑکنے کی آواز بھی سنائ نہ دے رہی تھی ، دفعتاََ آنے والے نے آواز دی کہ باسو باسو ،
باسو اپنے خیالوں سے نکلا اور گھر کی کنڈی کھولی تو سامنے ایک ڈرامہ بنانے والا کھڑا تھا،
سلام دعا کے بعد اُس نے باسو کو بتایا کہ دوسرے شہر میں ایک میلہ آج سے شروع ہے اور دس دن تک رہے گا، وہاں پہ ڈرامہ کرنا بہت اچھا رہے گا
میں تجھے اِس کام کے لیئے پورے پچیس سو روپے دوں گا مگر میری ایک شرط ہے ،
باسو نے پوچھا کیا، تو اُس نے بتایا کہ میلے میں کام کے تمہیں دس روز ہر حال میں مکمل کرنے ہوں گے ، اور بصورت دیگر مجھے نقصان ہونے کا خطرہ ہے، ایسی صورت میں اپنے سٹیج کے کسی بھی فنکار کے خلاف قانونی کاروائ کا حق محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ، تم کو بهی اِس پیپر پر دستخط کرنے ہوں گے۔ اُس نے جیب سے ایک پیپر نکالا اور باسو کے آگے رکھ دیا، باسو نے چارپائ سے لگی بوڑھی ماں کو دیکھا اور ورق پہ دستخط کر دیے،
آج سٹیج پر باسو کا آخری روز تھا، دوپہر کے وقت تک باسو چار شو کر چکا تھا ، چوتھے شو کے ختم ہوتے ہی باسو سٹیج کے پاس بنے سٹیج خانے میں پہنچا تو دیکھا کے مجھ سے ملنے قریبی رشتہ دار آیا ہوا ہے، باسو جلدی سے اُس کے پاس بیٹھا اور اِس سے پہلے کہ وہ خیر خیریت پوچھتا اُس رشتے دار اُسے گلے لگا کر بتایا کہ باسو تیری ماں اللہ کو پیاری ہوگی ہے ، بیٹا گھر چلو، کفن دفن کا انتظام بهی کرنا ہے. یہ سن کر باسو کے پیروں تلے جیسے زمین ہی نکل گئ ، رشتہ دار نے آسرا دے کر چارپائ پہ بٹھایا اور باسو تھا تو ماں کے غم میں مسلسل روئے جا رہا تھا، اُسی لمحے ڈرامہ نگار سٹیج خانے میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھا باسو رو رہا ہے، کچھ پوچھے بغیر ہی اُس نے کہا چلو باسو اب جلدی سے سٹیج پر ڈرامہ شروع کرو، دیکھو ڈرامے کا وقت ہوگیا ہے، اور ہاں اس ڈرامے میں تم نے لوگوں کو ہنسانا ہے . اور تم ہو کہ رونے کی ریہرسل شروع کیئے بیٹهے ہو. اس سے پہلے وہ کچه اور کہتا
باسو کے رشتہ دار نے اُس ڈرامہ نگار کو سب کچھ بتا دیا مگر اُس پر باسو کے دکھ کا کچھ اثر بهی نہ ہوا ، اِس سے پہلے رشتہ دار باسو سے ہمدردی کے کچھ لفظ اور کہتا مگر ڈرامہ نگار نے اپنی جیب سے باسو سے معاہدے کا وہ ورق نکال کر دکھایا تو ، باسو کو بهی وہ سب کچھ یاد آگیا جو کہ باسو ماں کی وفات کا سُن کر کچھ لمحوں کے لیے بھول گیا تھا، باسو نے کچھ لمحوں میں خود کا روئے جانا قابو کیا اور منہ دھوکر سٹیج کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اِس ڈرامے میں باسو کا کردار حاضرین کو ہنسانے کا تھا، اور باسو کے باتیں اور چٹکلے سن سن کر لوگوں کا ہنس ہنس کر برا حال تھا، کچھ منچلوں نے تو خوش ہو کر سیٹیاں مارنا بهی شروع کر دیں تهیں اور ایک نے خوش ہو کر داد کی شکل میں دعا کہ باسو خدا تمییں ہمیشہ خوش رکھے، اُس ڈرامے میں لوگوں نے باسو کی ادکاری کو بہت پسند کیا ، باسو لوگوں کی تعریفیں سمیٹ کر ناٹک خانے بیٹھا پھر سے روئے جارہا تھا اُسے معلوم تھا کہ ابھی شام کے تین شو باقی ہیں،
اور اِسی طرح دو ڈرامے بھی پورے کر لیے تهے . سٹیج پہ لوگوں کو ہنساتا اور ناٹک خانے میں رشتے دار کو گلے لگا کر روتا تھا،
یہ باسو کا آخری ڈرامہ تھا ، سٹیج کے سامنے شائقین کا ہال بھرا ہوا تھا ۔ باسو سٹیج پہ آیا ہنسنے ہنسانے کی باتیں کے ساتھ ساتھ چٹکلے بھی چلتے رہے لوگ تو جیسے ہنسے کے عادی تھے ہنستے رہے، لوگ اُس وقت باسو کی باتوں سے اور ادکاری سے بہت خوش ہو رہے تھے ابھی ڈرامہ شروع ہوئے کچھ دیر ہی گزری ہو گی کہ باسو کوئ بات شروع کرنے سے پہلے اپنے سر کے بال پکڑنے لگا تها اور پھر ہنسی مذاق ایک چٹکلا سامعین کی سماعت تک پہنچاتا، ایسے کتنی دیر سے ہو رہا تها،خود باسو کو بهی خبر نہیں تهی ، ڈرامہ ختم ہو گیا تھا
سامعین باسو کو اچھی اداکاری کرنے کے اعزاز میں باسو کی پیٹه پر تهپکی دے کر گهر جانے لگے ، مگر باسو ابھی تک سٹیج پر موجود تھا، وہ اپنے بال نوچ کر اب بھی لوگوں کو ہنسانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا،
آج بھی باسو اُس رشتہ دار کو سرِراہ جب بهی ملتا ہے تو وہ اپنے بال نوچ کر ہنسی مذاق کا ایک چٹکلا اسے ضرور سناتا ہے مگر ایسی اداکاری کرنے کےلیئے معاہدے کا ایک ورق اب بھی کسی ڈرامہ نگار کی جیب میں ہے۔
urdudais.com
Urdu Dais