ناکام ریاستوں میں پاکستان تیرھویں نمبر پر

زرقا مفتی

محفلین
200491_55633997.jpg
 

حسینی

محفلین
ہمیں اپنی غلطی تسلمی کرنی چاہیے۔۔۔۔ ہماری بہت ساری انتظامی غلطیاں ہیں۔۔۔ ان کو تسلیم کر کے ان سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 

کاشفی

محفلین
حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام مسلم اکثریتی ممالک کاحال سوڈان جیسا ہونے جارہا ہے۔۔اللہ نہ کرے ایسا ہو۔۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے۔۔پاکستان ناکام ریاست نہیں۔۔۔بلکہ ناکام عوام کا مسکن ہے۔۔
پاکستان بحثیت کامیاب ریاست ہے۔۔جو کہ بڑی طاقتوں کے لیئے ایسا میدان ہے جہاں وہ اس میدان کے آس پاس اور اس کے اندر موجود کھلاڑیوں کے ذریعے ایسا کھیل کھیلتے ہیں جس سےایک طاقت دوسری طاقت کو کامیابی یا شکست سے دوچار کرتی ہے اور دنیا پر اپنی حکمرانی کی گرفت مضبوط بناتے ہیں۔۔۔
لیکن ایک دن تو ایسا ضرور آئے گا ان کی یہ گرفت ختم ہوجائے گی۔۔
وہ دن یا تو ایسا ہوسکتا ہے جس دن پاکستان میں موجود تمام لوگ بشمول کھلاڑیوں کے سب پاکستانی بن جائیں اور ایک دوسرے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے ایک دوسرے کا حق برابری کی بنیاد پر دے دیں۔۔۔اور آپس میں اتحاد و یکجہتی کر لیں۔۔اور ان کے نزدیک سب سے پہلے صرف اور صرف پاکستان ہو۔۔نہ کچھ آگے ہو نہ پیچھے۔۔صرف پاکستان ہو۔
یا پھر وہ دن ہوسکتا ہے صور پھوکنے والا دن جس دن مسلمانوں کی دعائیں کارگر ثابت ہوئے بغیر اللہ رب العزت بڑی طاقتوں کی دنیا پر سے گرفت ختم کردے گا۔اور سب اچھے ہنسی خوشی میدانِ حشر میں حاضر ہوجائیں۔۔اور جو اچھے نہیں تھے وہ روتے ہوئے حاضر ہوں گے۔۔۔ اور اس طرح مسلمانوں کو بڑی طاقتوں کے چنگل سے آزادی مل جائے گی۔
اور ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقے ناکام ریاست ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔۔
 
محترمہ زرقا مفتی ۔
یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ناکام‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ کا پیمانہ کیا ہے؟
دوسرا سوال: اس پیمانے کے عناصر کیا کیا ہیں اور ہر عنصر میں ماڈل یعنی 100 فی صد کیا ہے؟
تیسرا سوال: اس پیمانے پر کسی ریاست کو ناپنے مانے کا طریقۂ عمل کیا ہے؟
چوتھا سوال: یہ پیمانہ مقرر کس نے کیا ہے؟
پانچواں سوال: کیا یہ پیمانہ ’’مسلّمہ‘‘ ہے؟ کس کس نے اس کو معیار تسلیم کیا ہے؟
۔۔
اور
۔۔
چھٹا سوال: ان پانچ سوالوں کا جواب کون دے گا؟
 

زرقا مفتی

محفلین
حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تمام مسلم اکثریتی ممالک کاحال سوڈان جیسا ہونے جارہا ہے۔۔اللہ نہ کرے ایسا ہو۔۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے۔۔پاکستان ناکام ریاست نہیں۔۔۔ بلکہ ناکام عوام کا مسکن ہے۔۔
پاکستان بحثیت کامیاب ریاست ہے۔۔جو کہ بڑی طاقتوں کے لیئے ایسا میدان ہے جہاں وہ اس میدان کے آس پاس اور اس کے اندر موجود کھلاڑیوں کے ذریعے ایسا کھیل کھیلتے ہیں جس سےایک طاقت دوسری طاقت کو کامیابی یا شکست سے دوچار کرتی ہے اور دنیا پر اپنی حکمرانی کی گرفت مضبوط بناتے ہیں۔۔۔
لیکن ایک دن تو ایسا ضرور آئے گا ان کی یہ گرفت ختم ہوجائے گی۔۔
یا پھر وہ دن ہوسکتا ہے صور پھوکنے والا دن جس دن مسلمانوں کی دعائیں کارگر ثابت ہوئے بغیر اللہ رب العزت بڑی طاقتوں کی دنیا پر سے گرفت ختم کردے گا۔اور سب اچھے ہنسی خوشی میدانِ حشر میں حاضر ہوجائیں۔۔اور جو اچھے نہیں تھے وہ روتے ہوئے حاضر ہوں گے۔۔۔ اور اس طرح مسلمانوں کو بڑی طاقتوں کے چنگل سے آزادی مل جائے گی۔
اور ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقے ناکام ریاست ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔۔
کتابوں میں پڑھا ہے کہ ہلاکو خان کے حملے کا سُن کر مسلمانوں کے خلیفہ نےاُسے اُلٹے ہاتھوں سے بد عائیں دیں تھیں۔ مسلمان تب ہی بچیں گے جب صحیح معنوں میں متحد ہوں گے ۔ دُشمن سے مقابلے کے لئے اتحاد کے ساتھ ساتھ دُنیاوی اسباب کی بھی ضرورت ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
محترمہ زرقا مفتی ۔
یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ناکام‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ کا پیمانہ کیا ہے؟
دوسرا سوال: اس پیمانے کے عناصر کیا کیا ہیں اور ہر عنصر میں ماڈل یعنی 100 فی صد کیا ہے؟
تیسرا سوال: اس پیمانے پر کسی ریاست کو ناپنے مانے کا طریقۂ عمل کیا ہے؟
چوتھا سوال: یہ پیمانہ مقرر کس نے کیا ہے؟
پانچواں سوال: کیا یہ پیمانہ ’’مسلّمہ‘‘ ہے؟ کس کس نے اس کو معیار تسلیم کیا ہے؟
۔۔
اور
۔۔
چھٹا سوال: ان پانچ سوالوں کا جواب کون دے گا؟
جناب تھوڑی سی زحمت ہوگی درج ذیل ربط پر معلومات موجود ہیں
http://ffp.statesindex.org/rankings-2012-sortable

یہ فہرست اس تنظیم نے مرتب کی ہے
http://global.fundforpeace.org/

کسی ریاست کی ناکامی کا درجہ طے کرنے کے لئے ١۲ پیمانے ہیں ملا حظہ کیجیے
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_countries_by_Failed_States_Index#Indicators_of_a_failed_state


Twelve factors are used by Fund For Peace to ascertain the status of a country​
Social​
Mounting demographic pressures.​
Massive displacement of refugees, creating severe humanitarian emergencies.​
Widespread vengeance-seeking group grievance.​
Chronic and sustained human flight.​
Economic​
Uneven economic development along group lines.​
Severe economic decline.​
Political​
Criminalization and/or delegitimization of the state.​
Deterioration of public services.​
Suspension or arbitrary application of law; widespread human rights abuses.​
Security apparatus operating as a "state within a state".​
Rise of factionalized elites.​
Intervention of external political agents​

 
بہت شکریہ محترمہ زرقا مفتی آپ کا۔

یہ سب کچھ دنیا کو اپنے پنجۂ استبداد میں رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ کریم ہمیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

سید ذیشان

محفلین
بہت شکریہ محترمہ زرقا مفتی آپ کا۔

یہ سب کچھ دنیا کو اپنے پنجۂ استبداد میں رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ کریم ہمیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

محترم آسی صاحب، آپ کی بات شائد درست ہو لیکن ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس (جو کہ ایک پاکستانی ایکونمسٹ کی ہی ایجاد ہے) میں بھی پاکستان کا نمبر دیکھ لیں۔
 
محترم آسی صاحب، آپ کی بات شائد درست ہو لیکن ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس (جو کہ ایک پاکستانی ایکونمسٹ کی ہی ایجاد ہے) میں بھی پاکستان کا نمبر دیکھ لیں۔

میرے عزیز بھائی یہ سارے پیمانے قارونیت پر مبنی ہیں۔
’’پاکستانی‘‘ ہونا بھی تو ’’کامل‘‘ ہونے کی دلالت نہیں کرتا۔
 

سید ذیشان

محفلین
وہ شخص اُن کا محبوب کارکن تھا، اور ہے! اُن کی عینک تو ظاہر ہے دنیا کو ہرا ہرا ہی سُجھائے گی۔

میری مراد تھی تیسری چوتھے نمبر پر برا ہوتا تھا۔ چونکہ یہ انڈیکس ایک منفی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے اس لئے نمبر جتنا اوپر ہو گا اتنا ہی برا ہوگا۔ :)
 

زرقا مفتی

محفلین
ان حالات میں تحریک ِ خلافت چلانے والے اکابرین کی بصیرت کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ خلیفہ کے جھنڈے تلے مسلمان ایک سیاسی اکائی تھے آج ہم سندھی، بلوچی، افغان، کُرد اور نہ جانے کیا کیا بن کر اپنی اہمیت ختم کر چکے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
ناکام ریاست - عباس ناصر

کون جانتا ہے کہ ایک غیر فعال یا حد سے تجاوز کردہ ریاست کیا ہوتی ہے؟ اس کی تعریفیں نصاب اور ماہرین کے لیے ہیں لیکن کیا کوئی باآسانی اس بات کا تعین کرسکتا ہے کہ ریاست اب ایسی ہوچکی۔

اب آپ ایسی ریاست کوکیا کہیں گے کہ جس میں وسائل پیدا کرنے کی قوت نہیں، جو ان سے ٹیکس وصول نہیں کرسکتی جنہیں ٹیکس دینا چاہیے، نہ کوئی نظام اور نہ ہی اس بات کی ضرورت کہ اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب کتاب رکھا جا سکے؟

وہ جو بنا کسی سوال کے بھاری قرضوں کا ڈھیر لگاتی جاتی ہے مگر دکھانے کے لیے اُس کے پاس کچھ بھی نہیں۔

اب آپ ایسی ریاست کو کیا کہہ کر پکاریں گے کہ جو کم از کم ایک بنیادی ضرورت بھی پورا نہیں کرپاتی یعنی؛

اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ؟

آپ خاص طور پر کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ اہم ہے۔ اگر آپ کا تعلق چھوٹے صوبوں سے ہے تو پھر واحد شے جو آپ حاصل کرسکتے ہیں، وہ ہے آپ کا ایمان۔ جی ہاں، خدا ہی واحد سہارا ہے۔

یہ ایک غیر فعال ریاست ہے کہ جہاں حقوق مانگنے پر کسی رات آپ کو گھر کے اندر سے اٹھا کر لے جایا سکتا ہے اور پھر ہفتوں یا مہینوں بعد ملیں گے کسی گڑھے سے، جسم پر ایسی منہ بولتی علامتوں کے ساتھ کہ اگر آپ اپنے حقوق کو سنجیدگی سے لیں گے تو پھر یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔

ملک سعد، صفوت غیور اور اُن جیسے سیکڑوں بے نام پولیس والے، جنہوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنے لہو سے بہادری کا باب لکھنے کی کوشش کی مگر کہاں ہیں ملک کے ایک حصے میں ان جیسے پولیس والے؟

ملک کے ایک حصے میں ایسا بھی اعلیٰ پولیس افسر رہا جس نے فرقہ واریت میں ملوث قاتلوں سے ڈیل کی اور پیشکش کی کہ اگر وہ اُن کے علاقے کے بجائے کہیں اور جا کر کارروائی کریں تو انہیں محفوظ راستا دیا جائے گا۔ معاملہ طے ہوا اور پولیس افسر کو ترقی سے نوازا گیا، نتیجے میں آج فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث گروہ اور بھی طاقت ور ہوچکے۔

بینظیر بھٹو، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور ابھی حال ہی میں بشیر بلور کی مثال لے لیجیے۔ یہ تمام سیاستدان دہشت گردوں، عسکریت پسندوں اورعدم برداشت نظریات کے سامنے چٹان کی مانند کھڑے ہو کر انہیں للکارتے رہے، حتیٰ کہ دہشت گردوں نے انہیں مار گرایا۔

کیا کبھی آپ نے خیبر پختون خواہ کے وزیر میاں افتخار جیسی ہمت اور جرائت کسی اور میں دیکھی ہے، جن کے اکلوتے بیٹے کو طالبان کی منحوس گولی نگل گئی تھی؟ ان کا غم اور ذاتی نقصان بھی انہیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کرسکا۔ یہ نہایت اعلیٰ مثالیں ہیں۔

وہ جنہوں نے کسی مقصد کے لیے اپنی اور اپنے پیاروں کی قربانیاں دیں، کیا ہم انہیں رائیگاں جاتے دیکھ سکتے ہیں؟

آگے بڑھو، اگر تم آگے بڑھ سکتے ہو تو لیکن جہاں تک میری بات ہے، مجھے ایسا کرنے پر سوچتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔

کیا یہ موقع ہے ذرا آسیہ بی بی کو یاد کرنے کا؟ کم از کم ہم اپنے آپ سے تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا نام یاد کر کے اچھا کیا۔

کیا ہم ان بہت سارے عیسائیوں میں سے سے کسی ایک کا بھی نام یاد کرسکتے ہیں، جنہیں گودھرا گاؤں میں، ان ہی کے ہمسائیوں نے، گھروں میں آگ لگا کر زندہ جلا ڈالا تھا؟

یقیناً، حالیہ دنوں میں ہزارہ شیعہ کے قتلِ عام پر جس غم و غصہ کا اظہار سامنے آیا، وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہم اعداد و شمار سے آگے بڑھ کر متاثرین کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوجائیں گے لیکن ہم یہ نہیں کرسکتے۔

اگر پچھلے پورے سال میں صرف دو سو شیعہ ہزارہ قتل ہوئے تھے تو رواں سال کے صرف پہلے دو ماہ میں ہی اتنے ہزارہ قتل کردیے گئے۔

بلاشبہ ہماری یاداشت تصویر کی مانند نہیں مگر پھر بھی ہمیں ان ہندو لڑکیوں میں سے کتنوں کے نام یاد ہیں، جنہیں زبردستی مشرف بہ اسلام کیا گیا؟

ہم ایک دو کے تو نام یاد رکھ سکتے ہیں مگر، اگر ریاست غیر فعال نہ ہوتی تو یہ رسم نہ بنتی اور نہ ہی اتنے زیادہ نام ہوتے کہ ذہن یاد رکھنے سے جواب دے دیتا۔

اب جب کہ حکومت خوف یا مصلحتوں کے سبب مفلوج بنی کھڑی ہے تو پھر ہمیں ہی اٹھنا ہوگا ہر اقلیت کو اس کا جائز مقام دینے کے لیے۔

عیسائی اور ہندو اب مزید پسماندہ نہیں رہ سکتے۔ احمدی خود کو کیسے محفوظ مان سکتے ہیں کہ جب وہ اپنی عبادت گاہوں میں اپنے خدا کی عبادت کے لیے بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

ہاں اب باری ہے مسلمانوں کے’اقلیتی’ فرقہ، شیعوں کی، جو اس پر بہت مغرور تصور ہوتے ہیں کہ کھلے بندوں، آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کرتے ہیں، یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔

ان کے اجتماعات پر بم پھینکے جائیں، ان کی کمیونٹی کے سرکردہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جائے اور کون جانتا ہے کہ وہ انہیں عقیدہ ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کہاں تک جاسکتے ہیں۔

آگے کیا ہوگا؟ اوہ ہاں، کافی کچھ تو چھوڑ دیا۔ یہاں ایسے بہت سے ہیں کہ جن کی اسلامی رسومات اور طرزِ عمل سے ہم کو اختلاف ہے اور مذہب میں تو تنوع کی گنجائش ہی نہیں ہونی چاہیے۔

ہمیں ہر اس شخص کو تلاش کر کے ختم کردینا چاہیے، جو اسلام کے بارے میں اُس طرح ہم سے متفق نہیں جیسا کہ ہم اسلام کو سمجھتے ہیں۔

اگلی باری ہے عورتوں کی۔ انہیں گھروں میں تالے لگا کر بند رکھو، کیوں کہ یہ ملک میں مردوں کی طرح برابر درجے کی شہری نہیں ہیں۔

شرم کی بات ہے کہ ہمارے شہری مراکز میں یہ عورتیں، مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ حتیٰ کہ یہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک بھی پہنچ رہی ہیں۔

اسی وجہ سے ان میں کریئر بنانے کی چاہ سر ابھارتی ہے۔ کیا وہ ایسا سوچ سکتی ہیں کہ اس (جرم) کے بعد بھی انہیں اکیسویں صدی میں جینے کا حق مل سکتا ہے؟ یقیناً یہ اس لائق نہیں، ہمیں ان عورتوں کو ان کا حقیقت دکھا دینی چاہیے۔

اب ایسے میں ہمارا مقدر کیا ہوسکتا ہے کہ جب خطرات کا گولہ تیزی سے ہماری طرف بڑھتا چلا آرہا ہو؟ میں اور آپ اس پر صرف اپنا خون کھولا سکتے ہیں اور شدت سے پھٹ سکتے ہیں۔

ہمارے فیصلہ سازوں کی دانش اور وژن شاید ہی ان ‘غیر اہم’ باتوں کی طرف توجہ کر کے، کچھ دینے کے قابل ہو۔

جب کیری لوگر بل منظور کیا گیا تھا، تب کسی نے ریاست کے معاملے میں سویلین پر بالادستی کے خلاف، اتفاقِ رائے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا تھا۔

اس سے قطع نظر کہ وہ سچ تھا یا نہیں، جب میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا تو آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی۔ نہ سیاستدانوں اور نہ ہی ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظوں نے اس پر اتفاقِ رائے کی ضرورت محسوس کی اور آج دن تک عدالتوں کا بھی خیال ہے کہ اس بات کی کوئی ضرورت ہی نہیں حالانکہ وہ ہماری سلامتی کے لیے کہیں بڑے خطرات تھے۔

ہم اس لڑائی میں اپنا بہت کچھ کھو چکے۔ ہم نے جتنی جنگیں لڑیں شاید ان میں ہمارا اتنا نقصان نہیں ہوا ہوگا جتنا گذشتہ پانچ برسوں میں (عسکریت پسند اور دہشت گرد) ہمیں پہنچا چکے یا اس لڑائی میں ہوا جو اُن کے خلاف ہم اب تک لڑ رہے ہیں۔

ہم نے اس لڑائی میں اپنے بہادر بیٹے، فوج ہو یا پیرا ملٹری فورسز یا پھر پولیس، ان کے بہادر افسران اور اہلکاروں کو کھویا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے پر بھی ہم اپنی سرزمین سے دہشت کا راج ختم کرنے کے لیے اب تک اتفاقِ رائے کے منتظر ہیں۔

ایک منتخب حکومت اقتدار میں اپنے پانچ سال مکمل کرچکی۔ وہ مدتِ اقتدار کی تکمیل کو اپنی سب سے بڑی اور بے مثال کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
یقیناً قانون سازوں کا یہ دور ایسا رہا کہ جس کا کسی سے کوئی تقابل نہیں۔ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وفاق کو ساتھ لیے چلاتے رہے اور ہم سب اپنی لاشوں کی گنتی کرتے رہے: مرد، عورتیں اور بچے۔

اور اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ انتخابی فہرستوں میں بہت بڑی تعداد میں نوجوان ووٹرز کا اندراج ہوا ہے، نوجوان جو آنے والے کل میں ہماری امید ہیں۔

چلو امید کرتے ہیں کہ آنے والے پانچ برسوں میں ہمیں کم لاشیں گننا پڑیں گی۔ اس سے زیادہ کچھ امید رکھنا فی الوقت محال ہے۔

ربط
 
Top