نایاب
لائبریرین
اس بارے میں آپ کی پوسٹ کا انتظار رہے گا نایاب بھائی۔
محترم بہنا ۔ یہ یاد بھی منسلک ہے میرے بچپن کی حماقتوں سے ۔
یہ بات ہے قریب 1973 کی ۔ جب کلاس پنجم میں وطیفے کے امتحان کے لیئے منتخب ہونے پر اس سوچ نے کہ " میں بہت ذہین ہوں مجھے سب آتا ہے " نے مجھے آوارگی و گمراہی کی راہ ڈال دیا تھا ۔ جب پہلی بار اپنے اک دوست " مبارک احمد مرحوم " کے کہنے پر لاہور کی سیر کرنے کے لیئے سکول سے بھاگا تھا ۔ سارا دن آوارہ گردی کرتے گزر گیا ۔ گھر جاتے ڈر لگے کہ " گھر والوں کو پتہ لگا تو مار پڑے گی " ۔ مبارک نے مجھے کہا کہ مجھے اک جادو کے طریقے کا پتہ ہے جس سے جو چاہو وہ ممکن ہوجاتا ہے ۔ ہر جگہ اپنی مرضی کا نتیجہ ملتا ہے ۔ اس سے پوچھا وہ کیا ۔ ؟
اس نے کہا اگر " چار آنے " دینے کا وعدہ کرو تو بتاتا ہوں ۔ بہت بڑی رقم تھی یہ ۔۔۔ آنے کا نان اور چنے مفت ملتے تھے ۔۔ تکرار کے بعد " وڈے آنے " یعنی " دس پیسے پر اتفاق ہو گیا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ دو اینٹیں یا دو برابر پتھر برابر کے لے لو ۔ اک کو نیچے رکھ دوسری کو سیدھے ہاتھ میں پکڑ " یا کافی یا شافی مدد کر " پڑھتے اپنی خواہش کو زبان سے بیان کرتے نیچے والی اینٹ کے اوپر رکھ دو ۔ جو سوچا ہوگا وہی ہوگا ۔
میں نے اس پر یقین کر لیا ۔ اور اک مدت تک اس طریقے پر عمل پیرا رہا ۔ اب یہ میرے یقین کا کرشمہ یا طریقے کا ۔ جو بھی سوچ ہوتی وہ حیرتناک طریقے سے جوں کی توں پوری ہو جاتی ۔
اپنی حماقتوں میں گھرا یہ یقین رکھتا رہا کہ یہ " جادو کا طریقہ " مجھے گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ مار وغیرہ سے بچاتا ہے ۔ میری آوارگی میں کی گئی غلطیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔ مجھے میرے دوستوں میں سب کا چہیتا رکھتا ہے ۔ میرے ہم عمر ہی نہیں بلکہ بلکہ میرے بزرگوں کو بھی مجھ پر مہربان رکھتا ہے ۔ سارا سال نصابی کتب کو ہاتھ لگائے بنا ہی پیپروں کے وقت سب جواب یاد دلا دیتا ہے ۔ میں جو کہتا ہوں وہ یہ جادو کا طریقہ مکمل کر دیتا ہے ۔ میرا کوئی دھوکہ کوئی چوری کوئی جھوٹ کسی کی گرفت میں نہیں آتا ۔۔۔۔
میٹرک تک اسی طرح سکول سے بھاگتے آوارگی کرتے پہنچ گیا ۔ فزکس کیمسٹری الجبراء کے مضامین پر اس طریقے کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ اور کمپارٹ آنے پر یہ حقیقت کھلی کہ ہر جگہ " جادو " نہیں چلتا ۔ یقین بھی جب ہی اثر دکھاتا ہے ۔ جب دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آگہی کے پانے کے بعد یہ طریقہ تو چھوٹ گیا مجھ سے مگر " یقین کامل " کی حقیقت پوری معنویت سے مجھ پر کھل گئی ۔۔۔۔