چاند اَور میں
چاند سے میں نے کہا! اے مری راتوں کے رفیق
تو کہ سر گشتہ و تنہا تھا سدا میری طرح
اپنے سینے میں چھپائے ہُوئے لاکھوں گھاؤ
تو دکھاوے کے لیے ہنستا رہا میری طرح
ضوفشاں حسن ترا میرے ہُنر کی صورت
اور مقدّر میں اندھیرے کی ردا میری طرح
وہی تقدیر تری میری زمیں کی گردش
وہی افلاک کا نخچیرِ جفا میری طرح
ترے منظر بھی ویراں مرے خوابوں جیسے
تیرے قدموں میں بھی زنجیرِ وفا میری طرح
وہی صحرائے شبِ زیست میں تنہا سفری
وہی ویرانۂ جاں دشتِ بلا میری طرح
آج کیوں میری رفاقت بھی گراں ہے تجھ کو
تو کبھی اتنا بھی افسردہ نہ تھا میری طرح
چاند نے مجھ سے کہا! اے مرے پاگل شاعر
تو کہ محرم ہے مرے قریۂ تنہائی کا
تجھ کو معلوم ہے جو زخم مری روح میں ہے
مجھ کو حاصل ہے شرف تیری شناسائی کا
موجزن ہے مرے اطراف میں اک بحرِ سکوت
اور چرچا ہے فضا میں تری گویائی کا
آج کی شب مرے سینے پہ وہ قابیل اترا
جس کی گردن پہ دمکتا ہے لہو بھائی کا
میرے دامن میں نہ ہیرے ہیں نہ سونا چاندی
اور بجز اس کے نہیں شوق تمنّائی کا
مجھ کو دُکھ ہے کہ نہ لے جائیں یہ دنیا والے
میری دنیا ہے خزانہ مری تنہائی کا
٭٭٭