نا معلوم دہشت گرد۔۔ !

متلاشی

محفلین
راوی: منظور راجپوت ایڈوکیٹ کراچی۔
یہ ستمبر 1980 کی ایک دوپہر تھی۔ میں سینئر سول جج کی عدالت کے سامنے کو ریڈور سے گزر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک انگریز عورت چھوٹے سے پنگھوڑے میں انگوٹھہ چوستے ہوئے بچے کے قریب کھڑی سگریٹ کے کش لگاتی اور دھواں اس معصوم بچے کے منہ پر چھوڑ دیتی۔ دھوئین کی وجہ سے بچے کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ مجھے اس کی حرکت پر تعجب ہوا۔ میں نے رک کر اس سے تعارف چاہا تو اس نے اپنا نام کیناٹا چالس بتایا۔ اور بچے کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اس کو گود لے رہی ہے۔ اور اس کی درخواست سول کورٹ میں منظوری کے لئے پیش ہے۔ میں مڑکر عدالت میں داخل ہوا تو وہاں اسی طرح کے چھ پنگھوروں میں نو مولود بچے اور ان کے پیچھے قطار میں چھ گوری عورتیں اور دو مرد کھڑے تھے جج صاحب اپنی کرسی پر براجمان دو معروف وکیلوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ میرے اندر آنے پر سب نے چونک کر مجھے دیکھا اور جج صاحب نے بے تکلفی سے پوچھا:”کہئیے !منظور صاحب کیسے آنا ہوا؟”
میں نے پنگھوڑون میں لیٹے بچوں اور قطار میں کھڑے گورے مرد و عورتوں کی طرف اشارہ کرکے استفسار کیا:”یہ کیا چکر ہے؟” جج صاحب نے بلا جھجھک بتایا کہ یہ لاوارث بچے ہیں اور ان لوگوں نے بچوں کو گود لینے کے لئے درخواست دی ہے۔
میں نے پوچھا:”یہ بچے کہاں سے آئے ہیں اور کس کے ہیں؟” ساتھ کھڑے ایک وکیل نے بتایا کہ یہ بچے ایک چرچ نے دیئے ہیں۔ یہ چرچ ناصری کالونی نیو کراچی سیکٹر فائیو ای میں واقع ہے۔ میں نے صاحب سے کہا:” یہ بچے پاکستانی ہیں اور مسلمانوں کے بچے ہیں۔ اس لئے کوئی غیر ملکی خصوصاً جبکہ وہ غیر مسلم بھی ہو، ان بچوں کو گود نہیں لے سکتا۔ ان بچو ں کو پالنے کی ذمہ داری پاکستانی حکومت کی ہے یا پھر کوئی پاکستانی مسلمان ان کو قبول کرے۔ آئین اور قانون یہی کہتا ہے۔” ساتھ ہی میں نے متعلقہ قانون کا حوالہ دیا۔ جج نے کہا کہ:” ان کا تو کوئی والی وارث بننے کے لئے تیار نہیں۔” میں نے کہا :” میں ان بچو ں کو گود لینے کے لئے تیار ہوں اور ابھی باقاعدہ درخواست بھی آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔” ساتھ کھڑے وکیلوں نے مجھے سو پچاس پونڈ دے کر اس معاملے سے باز رکھنے کی کوشش کی تو میں نے حقارت سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور تھوڑی دیر میں درخواست لکھ کر عدالت میں پیش کر دی۔ اس درخواست میں، میں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ”میں پاکستانی ہوں، دوسرا مسلمان ہوں اور تیسرا یہ کہ میں لاولد ہوں، اس سب سے پہلے ان بچوں پر میرا حق بنتا ہے۔ اور پھر عدالت اس بات کی مجاز نہیں کہ ان بچوں کو ایسے لوگوں کے سپرد کرے جو انہیں دوسرے ممالک لے جائیے اور عدالت ان سے کبھی باز پرس نہ کرسکے ۔ عدالت میں کھڑے گورے مرد و عورتوں اور ان کے وکیلوں کے چہروں پر مدنی چھا گئی۔ میں درخواست دے کر بار روم میں آ بیٹھا۔ تھوڑی دیر بعد دونوں وکیل بھی بار روم میں آگئے اور بے تکلفی سے کہنے لگے:” یار تم نے خوامخواہ پھڈا ڈال دیا۔ ہماری روزی پر بھی لات مر رہے ہو اور خود بھی فضول میں پنگا لے رہے ہو۔ تم نے سات بچے لے کر کیا کرنے ہیں؟” میں نے کہا :” میری دینی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ مسلمانوں کے یہ بچے باقی عمر عیسائی بن کر جیئیں۔”
دونوں نے مجھے اپنے مؤقف سے دستبردار کرنے کے لئے مالی پیش کش میں اضافہ کردیا۔ وہ اچانک ہزاروں سے لاکھوں میں آگئے۔ میں نے کہا:” یہ مال کا مسئلہ نہیں ایمان کا مئسلہ ہے۔” میری درخواست کی سماعت اور قدمے کی کاروائی بڑھی تو تحقیق حال سے پتہ چلا کہ اس سے پہلے بھی 9 بچے اسی عدالت کے ذریعے یہی لوگ لے کر چاچکے ہیں۔
یہ لوگ مالٹا کی ایک عیسائی این جی اوز کے نمائندے ہیں اور یہی کام کرتے ہیں۔ جس چرچ کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ بچے اس کے باہر پڑے پائے گئے۔ تفتیش میں اس چرچ کا وجود ہی سرے سے نہیں تھا۔ عدالت میں دو پیشیوں کے بعد یہ گورے مدعی غائب ہوگئے، ان کے درج شدہ پتے پر چھاپہ مارا گیا تو وہ بھی ایک خالی پلاٹ نکلا۔ یہ خالی پلاٹ ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع تھا۔ گویا پورا سلسلہ ہی دھوکہ دہی پر مبنی تھا۔ لیکن ان گوروں کی پیروی کرنے والے وکیلوں نے حقِ خدمت ادا کرنے کے لئے مجھ پر ہر طرح کا دباؤ ڈالنا شروع کردیا۔ جس میں لالچ بھی تھا اور دھونس بھی۔ میرے ایک قریبی بے تکلف دوست نے ایک دن مجھے گھر بلایا اور کہا:” یار! زندگی میں یہ مواقع بار بار نہیں آیا کرتے۔ کہاں ساری عمر تھانے کچہری میں جوتیاں جٹخاتے پھرو گے۔ تین کروڑ روپے اور امریکی ویزہ لو اور موجاں مارو۔ لوگ تو ان دونوں میں کسی ایک کے لئے جان لٹانے کو تیار رہتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ مولویوں کے ساتھ رہ رہ کر تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے، تمہاری کھوپڑی میں سوراخ بھی ہوسکتا ہے۔” دوست کی ان بوتوں میں تفکر بھی تھا، تشویش بھی اور تحریص بھی تھی اور معاملے کی سنگینی کا اظہار بھی۔ میرے سامنے سرخ رنگ کا سوالیہ نشان آکھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا:”تم درست کہتے ہو۔ یہ میرے دماغ کی خرابی ہے کہ میں تین کروڑ روپے اور امریکی ویزے کو ٹھکرارہا ہوں ۔ مجھے یہ بات معلوم ہے کہ میں ساری عمر کی محنت کے بعد بھی تین کروڑ روپے جمع نہیں کر سکتا لیکن مجھے یہ بات کھائے جارہی ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے مسلمان بچوں کو عیسائیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی یقینی ہے کہ بڑے ہوکر یہ بچے عیسائی ہی ہوں گے۔ یہ سوچ کر میرا دماغ پھٹتا ہے اور پھر ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ اس اب لالچ یا خوف مجھے اس سے روک نہیں سکتا۔” میرے دوست نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا:” کیا تم اس بات میں سنجیدہ ہو کہ تم ان سات بچو کو گود لے لو گے۔ ایک یا دو بچوں کو سنبھالنا بڑا مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ سات بچے ایک عمر کے۔ کیا تم نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا ہے؟” میں نے کہا:” میری اہلیہ نے ہی میری حوصلہ افزائی کی ہے۔”
مقدمہ کی کاروائی تین سال چلتی رہی۔ اصل مدعی فرار ہوگئے، کیونکہ یہ بات سامنے آچکی تھی کہ ڈینس چارلس اور کینٹا چارلس یہ دونوں میاں بیوی (بظاہر) جو مالٹا میں ایک نام نہاد این جی اوز چلارہے ہیں،حقیقت میں بردہ فروش ہیں، اور اس کی آڑ میں غریب ملکوں کے مسلمان بچوں کی تجارت کرتے ہیں۔ یہ محض الزام نہیں ہے اس لئے یہ بات بھی سول جج نے مجھے خود ہی بتادی تھی کہ یہی لوگ اس سے پہلے بھی 9 بچے اسی عدالت کے توسط سے لے جاچکے ہیں اور اس حقیقت کے کھل جانے کے خوف سے انہیں راہِ فرار اختیار کرنی پڑی۔ یہ نو بچے بھی انہیں اس چرچ نے فراہم کئے تھے جس کا وجود دنیا میں نہیں تھا۔ ان میاں بیوی کا دیا ہوا ایڈریس بھی جعلی ثابت ہوا۔
اس تین سالہ عدالتی کاروائی کے دراون اور بھی حیران کن انکشافات ہوئے ۔ میں نے جب مزید عدالتوں سے ایسے لاوارث بچوں کا ریکارڈ جمع کرنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر میری آنکھی پھٹ گئیں کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں تئیس ہزار لاوارث بچے غیر ملکی این جی اوز یا ان کے ایجنٹوں کے حوالے کئے گئے ہیں۔ یہ تئیس ہزار بچے ایک سماجی تنظیم نے مہیا کئے تھے۔ بچے اکٹھے کرنے کے لئے یہ سماجی تنثیم بڑے شہروں میں پبلک مقامات پر پنگھوڑے اور جھولے رکھتی ہے۔ ان جھولوں پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ:” قتل نہ کریں اپنا بچہ یہاں ڈال دیں” (کیا یہ زنا ، فحاشی اور حرام کاری کی سر پرستی اور پشت پناہی نہیں ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
اس پر ان کو بھی عدالت میں طلب کیا گیا۔ ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ انہوں نے عدالت میں کھڑے ہوکر مجھے دھمکانا شروع کردیا۔ جس پر جج نے نہیں ڈانٹا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ ان سے یہ نہ پوچھا جاسکا کہ انہوں نے 23 ہزار بچے کتنے میں فروخت کئے؟ یقیناً ن کی پشت پر ایسے لوگ یا تنظیمیں موجود ہیں جو سات بچوں کی سودے بازی میں تین کروڑ روپے کی پیشکش کرسکتی ہیں۔ اس سے آپ ان کی طاقت اور اس کالے دھن کا اندازہ لگائیے جس پر انکم ٹیکس کی شرح لاگو نہیں ہوتی۔
آئیے اب غور کیجئیے ان ہوش ربا نتائج پر جو اِن بچو ں کی خریدوفروخت پر مرتب ہوتے ہیں۔ آپ سوچئے! یہ بچے کہاں گئے؟ یہ کسی طبّی تحقیق کی بھینٹ تو نہیں چڑھ گئے؟ کیا ان کے اعضاء فروخت کئے جاتے ہیں؟ کیا ان سے حرام کاری کا پیشہ کرایاجات ہے؟ کیا ان کو گندی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے؟ کیا ان سے عیسائیت کی تبلیغ یا فحاشی کی ترویج کروائی جاتی ہے؟
کیا وہ یہی دہشت گرد تو نہیں ہیں جن کو ضرورت پڑنے پر خودکش حملوں میں استعمال کرکے نامعلوم حملہ آور قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر حسب منشاء ان کا کُھرا پاکستان بھی پہنچ جاتا ہے ۔ کیوںکہ ڈی این اے ٹیسٹ سے وہ پاکستانی ثابت ہوجاتے ہیں ۔ کیا کبھی عدالتوں نے ان کا کھوج لگایا؟ اور وہ کھوج لگا بھی کیسے سکتی ہیں کہ اب وہ بچے ان کے دائرہِ اختیار سے باہر ہیں۔ حالانکہ پاکستان کی کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ پاکستانی بچے کسی ایسے فرد یا تنظیم کے حوالے کرے جس کو چیک نہ کیا جاسکے۔
چلو یہ نہ سہی انہی بچوں کا حال احوال معلوم کرلیا جائے جو ایس او ایس ویلیج میں پرورش پارہے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد ان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟
حکومت کو اپنے ذرائع سے اس کا سراغ لگانا چاہئیے کہ یہ مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے خلاف دھماکوں اور ہنگاموں کی بنیاد پر جو الزامات لگ کر عالمی سطح پر اس کو اچھالا جاتا ہے، یہ جو نامعلوم حملہ آوروں کی ناقابلِ شناخت لاشیں ملتی ہیں ، کہیں ان معصوم لاوارث بچوں کی نہ ہوں ، جن کو بے حس اور بے غیرت لوگوں نے ڈالروں کے لالچ میں فروخت کردیا۔
دینی مدرسوں اور مسجدوں میں دہشت گردی کے عوامل کو تلاش کرنے کی بجائے ان این جی اوز کو کھنگالا جائے جنہوں نے، 23 ہزار بچوں کو فروخت کیا ہے۔ جرأت اور ہمت سے کام لیا جائے تو بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔

ربط
 
یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے کام ہو رہے ہیں
مگر فاضل مصنف نے اس میں اپنی آرا شامل کر کے مضمون کے متنازع بنا دیا ہے
بات اگر سچ بھی ہو تو دلیل اور ثبوت کے بغیر کوئی تسلیم نہیں کرے گا
دوسرے میں نے دیکھا ہے کہ یہاں کچھ لوگ ذاتیات پر اتر آتے ہیں جو مجھے پسند نہیں
تبصرہ کرتے وقت اعتدال سے کام لینا چاہئے
اگر تبصرہ کسی کو ناگوار گزرے تو اس کا ردعمل بھی ضرور ہو گا
اور کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا خفت تبصرہ کرنے والے کو ہی اٹھانی پڑے گی
 

نایاب

لائبریرین
کس قدر اپنے مقاصد میں سچے ہیں یہ این جی اوز والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو بندوں نے کتنے ہی وکیل سول جج سمیت اپنے ساتھ ملا لیئے ۔
یہ " ایدھی " ٹرسٹ کے خلاف اک سوچی سمجھی سازش ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس کے ڈانڈے حالیہ ایدھی صاحب کو ملنے والے " امن کا انعام " سے ملتے ہیں ۔ تینتیس سال پرانی بات پر اب تک کوئی حقیقت سامنے نہ آ سکی ۔۔۔ حیرت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

متلاشی

محفلین
کس قدر اپنے مقاصد میں سچے ہیں یہ این جی اوز والے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ دو بندوں نے کتنے ہی وکیل سول جج سمیت اپنے ساتھ ملا لیئے ۔
یہ " ایدھی " ٹرسٹ کے خلاف اک سوچی سمجھی سازش ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ جس کے ڈانڈے حالیہ ایدھی صاحب کو ملنے والے " امن کا انعام " سے ملتے ہیں ۔ تینتیس سال پرانی بات پر اب تک کوئی حقیقت سامنے نہ آ سکی ۔۔۔ حیرت ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
حیرت ہے نایاب بھائی آپ تینتیس سال پہلے والی سازش(بقول آپکے) کے ڈانڈے حال میں ایدھی صاحب کو ملنے والے انعام سے ملا رہے ہیں؟ یعنی ایکشن بعد میں اور ری ایکشن پہلے ۔۔۔! عجب منطق ہے ۔۔۔!
 

نایاب

لائبریرین
حیرت ہے نایاب بھائی آپ تینتیس سال پہلے والی سازش(بقول آپکے) کے ڈانڈے حال میں ایدھی صاحب کو ملنے والے انعام سے ملا رہے ہیں؟ یعنی ایکشن بعد میں اور ری ایکشن پہلے ۔۔۔ ! عجب منطق ہے ۔۔۔ !

محترم بھائی تینتیس سال پہلے یہ مہم شروع ہوئی تھی کہ ایدھی صاحب کو بدنام کیا جائے ۔ لیکن کہیں سے بھی ان صاحب مضمون کو سوکھی گھاس بھی نہیں ملی تھی ۔ اب جبکہ ایدھی صاحب امن کا انعام پا چکے ہیں ۔ اک بار پھر اس مضمون کو بنیاد بناتے آسمان پہ تھوکنے کی کوشش شروع کی گئی ہیں ۔
ذرا غور وفکر کیا کریں متلاشی بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منطق خود آپ کو راہ لگا دیا کرے گی ۔
 

متلاشی

محفلین
محترم بھائی تینتیس سال پہلے یہ مہم شروع ہوئی تھی کہ ایدھی صاحب کو بدنام کیا جائے ۔ لیکن کہیں سے بھی ان صاحب مضمون کو سوکھی گھاس بھی نہیں ملی تھی ۔ اب جبکہ ایدھی صاحب امن کا انعام پا چکے ہیں ۔ اک بار پھر اس مضمون کو بنیاد بناتے آسمان پہ تھوکنے کی کوشش شروع کی گئی ہیں ۔
ذرا غور وفکر کیا کریں متلاشی بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ منطق خود آپ کو راہ لگا دیا کرے گی ۔
شکریہ نایاب بھائی ۔۔۔ ایک اور بات وہ یہ کہ مجھے تو اس سارے مضمون میں ایدھی ہوم کے خلاف کوئی اشارہ کنایہ تک نہیں ملا۔۔۔! نامعلوم آپ نے اس کو ایدھی سینٹر سے کیسے جوڑ دیا۔۔۔!
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ نایاب بھائی ۔۔۔ ایک اور بات وہ یہ کہ مجھے تو اس سارے مضمون میں ایدھی ہوم کے خلاف کوئی اشارہ کنایہ تک نہیں ملا۔۔۔ ! نامعلوم آپ نے اس کو ایدھی سینٹر سے کیسے جوڑ دیا۔۔۔ !

محترم بھائی اس پیراگراف پر غور کر لیں ۔​
بچے اکٹھے کرنے کے لئے یہ سماجی تنثیم بڑے شہروں میں پبلک مقامات پر پنگھوڑے اور جھولے رکھتی ہے۔ ان جھولوں پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ:” قتل نہ کریں اپنا بچہ یہاں ڈال دیں”​
 

محمد امین

لائبریرین
اگر ایک شخص لوگوں کو بچوں کا قتل کرنے کے بجائے انہیں اپنے ادارے کو دینے کی تلقین کر رہا ہے تو اس سے یہ مطلب نکالا جائے کہ وہ فحاشی اور زنا کی ترغیب دے رہا ہے تو یہ انتہائی بیوقوفانہ بات ہے۔
 
Top