ابن آدم
محفلین
قرآن کریم کوالله نےفرقان کہا تو اسکا مطلب یہ تھا کہ مسلمان کسی بھی بات کو ماننے سے پہلے اسکی تصدیق اس کتاب کے ذریعہ کر لیں.جیسے جیسے اسلام پھیلا ویسے ویسے اسلام پر مختلف صورتوں میں حملےبھی بڑھتے رہے اور ان میں قرآن پر شکوک وشبھات کے ساتھ نبی کی زندگی پر بھی نقب لگایا گیا نبی کریم (ص) کی زندگی کو شان نزولوں اور دیگر روایات کی روشنی میں جو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں ایک روایت آپ (ص) پر ایک یہودی کے ذریعہ جادو کیے جانے کا بھی واقعہ گھڑا گیا. جس کا بنیادی مقصد نبی کریم (ص) کی ذات پر سوال اٹھانا اور قرآن کی عظمت کو گہنانے کے سوا کچھ نہیں
پہلےکچھ اس زمانے کےحالات سےآشنائی لے لیتے ہیں. یہ واقعہ ٧ہجری کا بیان کیا جاتا ہے، اس وقت تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا. مسلمانوں سے مکہ والوں کی دشمنی عروج پر تھی. ٣ جنگیں ہوچکی تھیں اور مکہ والوں میں بدلہ لینے کی آگ بجھی نہیں تھی تو ایسے میں اگر کوئی شخص جادو کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوتا تومکہ والوں کا کیا ردعمل ہوتا وہ سوچنا مشکل نہیں. لیکن ہمیں کسی ایسے ردعمل کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا. بلکہ قرآن کی دو سورتیں تو بتاتی ہیں کہ مکہ والے تو نبی کریم(ص) پر سحرزدہ ہونے کا الزام برسوں سے لگا رہے تھے اور اگر ان کو اس الزام کی کسی بھی صورت میں کہیں بھی چھوٹی سی تصدیق مل جاتی تو وہ یقیناً اس کو اپنے بیانئے اور نظریے کی جیت سمجھتے. لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا
قرآن میں سوره تحریم میں الله نےنبی اور ان کی زوجہ کےدرمیان ہونےوالی گفتگو جس کوکسی تیسرے نے نہیں سنا اس کو بھی بیان کیا کیونکہ اس میں امت کے لئے پیغام ہے.اسی طرح سوره الانفال میں غزوہ بدر میں قیدی بنانے کے عمل کو بھی بیان کیا. تو اگر نبی(ص) کسی ایسے شر کا شکار ہوتے تو الله ضرور اس کو بیان کرتے.
پھرقرآن کی ٢ سورتیں واضح طور پرکہہ رہی ہیں کہ نبی(ص) پر جھوٹا الزام لگایاجاتاہےکہ ان پرجادو ہوگیا ہے.اور ساتھ ہی الله یہ بھی کہتا ہےکہ ایساکہنےوالے ظالم لوگ ہیں.اور ان لوگوں کوظالم سوره بنی اسرائیل اور سوره فرقان میں کہاگیا ہے.تو اس کوماننے والےسوچ لیں کہ وہ کن میں شامل ہوتے ہیں.
نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِۦٓ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰٓ إِذْ يَقُولُ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جارہے ہو
أَوْ يُلْقَىٰٓ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُۥ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی)روزی حاصل کرتا۔ اور ظالم کہتے ہیں”تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔“
مزیدیہ کہ معوّذتین، جو جادو کے توڑ پر بتائی جاتی ہیں ان کے مکی ہونے پر تقریباً سب کاہی اتفاق ہے جو کہ واقعہ سے سالوں پہلے نازل ہو چکی ہوں گی، تو جس ذات کے دل پر یہ سورتیں نازل ہوئیں اورمحفوظ رہیں اگروہ جادو کو ہونے سے روک نہیں سکیں تو پھر قرآن جادو کا توڑ ہم جیسے لوگوں کے لئے کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا نبی نےان سورتوں کی تلاوت متروک کردی تھی؟ نعوز باللہ. یا ان سورتوں کااثر زیادہ دیر نہیں رہتا نعوز باللہ. یہ بھی یاد رہےکہ الله نےقرآن کی سوره طہ میں فرمایا لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی(69) جادوگر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا یا کامیاب نہیں ہو گا. تو کیا وہ نبی(ص) کے خلاف کامیاب ہو سکتے ہیں؟
بہت سےلوگ پھراس جھوٹی روایت کوماننے کےلئےحضرت موسیٰ پربھی الزام لگادیتےہیں کہ وہ بھی سحر کےاثر میں چلےگئے. جبکہ قرآن کی دو سورتوں میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے.ایک تو سورہ طہ میں.اس میں جو بیان ہےاس میں یہ نہیں کہاگیاکہ حضرت موسی پرسحر ہوا، اور ان کو رسیاں سانپ کی صورت میں نظر آئیں- لیکن کیونکہ ہمارے یہاں نبی پاک پر جادو کی روایت کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے، تو یہاں تشریح کی ہی اس طرح جاتی ہے کہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ حضرت موسی کے خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان پر سحر ہو گیا تھا اور انکو لاٹھیاں جادو کے زور پر سانپوں کی مانند دوڑتی ہوئی نظر آرہی تھین- سورہ طہ کا بیان یہ ہے کہ حضرت موسی کو خیال گیا (نظر نہیں آیا بلکہ خیال گیا) کہ لاٹھیاں جادو کے زور پر دوڑ رہی ہیں، اور ظاہر ہے یہ خیال ان کو لوگوں کے چہروں کے تاثر سے آرہا تھا نہ کہ اپنے آپ دیکھنے سے- اگر دیکھنے سے آیا ہوتا تو یہاں بھی الفاظ سورہ اعراف کی مانند ہی استعمال ہوتے اور سوره اعراف میں آیا کہ حضرت موسی کو صرف خیال گیا ہے. اور خیال اس لئے گیا کہ جادوگر لوگوں پر سحر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور حضرت موسی کی پریشانی یہ تھی کی فرعون اور لوگ جادو کے سحر میں آگئے ہیں اور لوگوں کے تاثر سے حضرت موسی کو خیال گزرا کہ جادو کے زور پر یہ سانپ بن گئی ہیں.
قران میں حضرت موسی کے لئے صرف خیال آنے کا ذکر ہے. اور انکو خوف یہ ہوا کہ اب جب میں لاٹھی پھینکوں گا تو وہ بھی محض سانپ ہی نظر آئے گی، تو لوگ معجزہ اور سحر میں فرق کیسے کر پائیں گے جس کی بنیاد پر لوگوں بشمول فرعون نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت موسیٰ(ع) سچے نبی ہیں کہ نہیں. مزید یہ کہ حضرت موسیٰ (ع) اور جادوگروں میں حضرت موسیٰ ایک فریق تھےاور فرعون نے لوگوں کو اپنےملک سے نکالےجانے کے خوف سے ہی ڈرایا ہوا تھا. تو ایسےمیں حضرت موسیٰ(ع) اور جادوگروں کا مقصد لوگوں کو اپنے حق پر ہونے کا یقین دلانا تھا. اسی لئے جب حضرت موسیٰ نے عصا پھینکا تو لوگوں سے پہلے جادوگرسجدے میں گر گئے اور اقرار کیا کہ جو حضرت موسیٰ(ع) نےدکھایا وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہے تو بات خود ہی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ پر کوئی جادو نہیں ہوا.کیونکہ اگر حضرت موسیٰ پر سحر اثرکر چکا ہوتا تو جادوگر کیوں باجماعت سجدے میں گرتے اس شخص کے لئے جس کو انھوں نے تھوڑی دیر پہلے ہی مسحور کر دیا تھا؟
جادو کی روایت کےدو راوی ہشام اورابو معاویہ ضریر پر کئی لوگوں اورمحدثین نےسوالات اٹھائے ہوئے ہیں جیسےحافظ ابن القطان، مولانا شبیر احمد میرٹھی، حبیب الرحمٰن کاندھلوی اور دیگر کئی علما نے.
مزید یہ کہ جادو کی روایات کی میں تغیر اور اختلاف اس کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے کہ کیسے سوالات اٹھنے پر قصہ میں تبدیلی کی جاتی رہی اور نئی روایات گھڑی گئیں. شروع میں اس کو ایک یہودی/منافق پر ڈالا گیا جس کا نام لبید بن عاصم بیان کیا جاتا ہے. جبکہ دیگر روایات میں آتا ہے کہ اس نے اپنی لڑکیوں کو جادو سکھایا تھا جنھوں نے تانت کےدھاگے کو لےکر اس میں گرہیں باندھیں تھیں اوراس تانت کے دھاگےکو کنگھے کے اندر لگا دیا تھا. اس کی بنیادی وجہ یہ سوره الفلق میں گِرہوں میں پُھونکنے والیوں کے شر سے بچنے کی آیت ائی ہے تولہٰذا ایک دوسری روایت بنا کر اس میں اس کی بیٹیوں کو شامل کیا. اسی طرح اس کےاثر کو زائل کرنے کے لئےجن کو بھیجا ان میں بھی بہت سے تضادات ہیں کچھ روایت کے مطابق جادو کا سامان نکالنے کے لیے سیدنا علی اور عمار(رض) کو بھیجا تھا، جب کہ بعض روایتوں کے مطابق سیدنا جبیر بن یاس زرقی (رض) کو بھیجا تھا، اور بعض روایتوں کے مطابق آپ خود تشریف لے گئے تھے۔ اگرآپ سیاسی حالات سےواقف ہوں توان ناموں کوڈالنےکی وجہ سمجھ جائیں گے.
قرآن کےسچےہونےکی دلیل میں یہ بات بھی ہےکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں لیکن قرآن جیسی سچی اور اختلاف سے پاک کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم نبی کریم پرایک الزام کو ثابت کرنےکے لئے کیسے کیسے تضادات سے بھری روایات کوقبول کر لیتے ہیں یادرکھیں الله نےیہ نہیں کہاکہ کافر/مشرک نبی(ص) کوسحرزدہ کہتے بلکہ الله نے فرمایا کہ ظالم لوگ آپ کو سحر زدہ مانتے ہیں. اس بعد بھی ہمارا اس بات پراصرار کہ نبی(ص) پرجادو کو مانو، انسان کو حیران کر دیتا ہے کہ پروپیگنڈا ذہنوں کو کس قدر ماؤف کر دیتا ہے. الله ہم سب کو ہدایت کو ماننے اور اس پر چلنے کی توفیق دے. آمین
پہلےکچھ اس زمانے کےحالات سےآشنائی لے لیتے ہیں. یہ واقعہ ٧ہجری کا بیان کیا جاتا ہے، اس وقت تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا. مسلمانوں سے مکہ والوں کی دشمنی عروج پر تھی. ٣ جنگیں ہوچکی تھیں اور مکہ والوں میں بدلہ لینے کی آگ بجھی نہیں تھی تو ایسے میں اگر کوئی شخص جادو کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوتا تومکہ والوں کا کیا ردعمل ہوتا وہ سوچنا مشکل نہیں. لیکن ہمیں کسی ایسے ردعمل کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا. بلکہ قرآن کی دو سورتیں تو بتاتی ہیں کہ مکہ والے تو نبی کریم(ص) پر سحرزدہ ہونے کا الزام برسوں سے لگا رہے تھے اور اگر ان کو اس الزام کی کسی بھی صورت میں کہیں بھی چھوٹی سی تصدیق مل جاتی تو وہ یقیناً اس کو اپنے بیانئے اور نظریے کی جیت سمجھتے. لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا
قرآن میں سوره تحریم میں الله نےنبی اور ان کی زوجہ کےدرمیان ہونےوالی گفتگو جس کوکسی تیسرے نے نہیں سنا اس کو بھی بیان کیا کیونکہ اس میں امت کے لئے پیغام ہے.اسی طرح سوره الانفال میں غزوہ بدر میں قیدی بنانے کے عمل کو بھی بیان کیا. تو اگر نبی(ص) کسی ایسے شر کا شکار ہوتے تو الله ضرور اس کو بیان کرتے.
پھرقرآن کی ٢ سورتیں واضح طور پرکہہ رہی ہیں کہ نبی(ص) پر جھوٹا الزام لگایاجاتاہےکہ ان پرجادو ہوگیا ہے.اور ساتھ ہی الله یہ بھی کہتا ہےکہ ایساکہنےوالے ظالم لوگ ہیں.اور ان لوگوں کوظالم سوره بنی اسرائیل اور سوره فرقان میں کہاگیا ہے.تو اس کوماننے والےسوچ لیں کہ وہ کن میں شامل ہوتے ہیں.
نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِۦٓ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰٓ إِذْ يَقُولُ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جارہے ہو
أَوْ يُلْقَىٰٓ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُۥ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی)روزی حاصل کرتا۔ اور ظالم کہتے ہیں”تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔“
مزیدیہ کہ معوّذتین، جو جادو کے توڑ پر بتائی جاتی ہیں ان کے مکی ہونے پر تقریباً سب کاہی اتفاق ہے جو کہ واقعہ سے سالوں پہلے نازل ہو چکی ہوں گی، تو جس ذات کے دل پر یہ سورتیں نازل ہوئیں اورمحفوظ رہیں اگروہ جادو کو ہونے سے روک نہیں سکیں تو پھر قرآن جادو کا توڑ ہم جیسے لوگوں کے لئے کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا نبی نےان سورتوں کی تلاوت متروک کردی تھی؟ نعوز باللہ. یا ان سورتوں کااثر زیادہ دیر نہیں رہتا نعوز باللہ. یہ بھی یاد رہےکہ الله نےقرآن کی سوره طہ میں فرمایا لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی(69) جادوگر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا یا کامیاب نہیں ہو گا. تو کیا وہ نبی(ص) کے خلاف کامیاب ہو سکتے ہیں؟
بہت سےلوگ پھراس جھوٹی روایت کوماننے کےلئےحضرت موسیٰ پربھی الزام لگادیتےہیں کہ وہ بھی سحر کےاثر میں چلےگئے. جبکہ قرآن کی دو سورتوں میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے.ایک تو سورہ طہ میں.اس میں جو بیان ہےاس میں یہ نہیں کہاگیاکہ حضرت موسی پرسحر ہوا، اور ان کو رسیاں سانپ کی صورت میں نظر آئیں- لیکن کیونکہ ہمارے یہاں نبی پاک پر جادو کی روایت کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے، تو یہاں تشریح کی ہی اس طرح جاتی ہے کہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ حضرت موسی کے خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان پر سحر ہو گیا تھا اور انکو لاٹھیاں جادو کے زور پر سانپوں کی مانند دوڑتی ہوئی نظر آرہی تھین- سورہ طہ کا بیان یہ ہے کہ حضرت موسی کو خیال گیا (نظر نہیں آیا بلکہ خیال گیا) کہ لاٹھیاں جادو کے زور پر دوڑ رہی ہیں، اور ظاہر ہے یہ خیال ان کو لوگوں کے چہروں کے تاثر سے آرہا تھا نہ کہ اپنے آپ دیکھنے سے- اگر دیکھنے سے آیا ہوتا تو یہاں بھی الفاظ سورہ اعراف کی مانند ہی استعمال ہوتے اور سوره اعراف میں آیا کہ حضرت موسی کو صرف خیال گیا ہے. اور خیال اس لئے گیا کہ جادوگر لوگوں پر سحر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور حضرت موسی کی پریشانی یہ تھی کی فرعون اور لوگ جادو کے سحر میں آگئے ہیں اور لوگوں کے تاثر سے حضرت موسی کو خیال گزرا کہ جادو کے زور پر یہ سانپ بن گئی ہیں.
قران میں حضرت موسی کے لئے صرف خیال آنے کا ذکر ہے. اور انکو خوف یہ ہوا کہ اب جب میں لاٹھی پھینکوں گا تو وہ بھی محض سانپ ہی نظر آئے گی، تو لوگ معجزہ اور سحر میں فرق کیسے کر پائیں گے جس کی بنیاد پر لوگوں بشمول فرعون نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت موسیٰ(ع) سچے نبی ہیں کہ نہیں. مزید یہ کہ حضرت موسیٰ (ع) اور جادوگروں میں حضرت موسیٰ ایک فریق تھےاور فرعون نے لوگوں کو اپنےملک سے نکالےجانے کے خوف سے ہی ڈرایا ہوا تھا. تو ایسےمیں حضرت موسیٰ(ع) اور جادوگروں کا مقصد لوگوں کو اپنے حق پر ہونے کا یقین دلانا تھا. اسی لئے جب حضرت موسیٰ نے عصا پھینکا تو لوگوں سے پہلے جادوگرسجدے میں گر گئے اور اقرار کیا کہ جو حضرت موسیٰ(ع) نےدکھایا وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہے تو بات خود ہی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ پر کوئی جادو نہیں ہوا.کیونکہ اگر حضرت موسیٰ پر سحر اثرکر چکا ہوتا تو جادوگر کیوں باجماعت سجدے میں گرتے اس شخص کے لئے جس کو انھوں نے تھوڑی دیر پہلے ہی مسحور کر دیا تھا؟
جادو کی روایت کےدو راوی ہشام اورابو معاویہ ضریر پر کئی لوگوں اورمحدثین نےسوالات اٹھائے ہوئے ہیں جیسےحافظ ابن القطان، مولانا شبیر احمد میرٹھی، حبیب الرحمٰن کاندھلوی اور دیگر کئی علما نے.
مزید یہ کہ جادو کی روایات کی میں تغیر اور اختلاف اس کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے کہ کیسے سوالات اٹھنے پر قصہ میں تبدیلی کی جاتی رہی اور نئی روایات گھڑی گئیں. شروع میں اس کو ایک یہودی/منافق پر ڈالا گیا جس کا نام لبید بن عاصم بیان کیا جاتا ہے. جبکہ دیگر روایات میں آتا ہے کہ اس نے اپنی لڑکیوں کو جادو سکھایا تھا جنھوں نے تانت کےدھاگے کو لےکر اس میں گرہیں باندھیں تھیں اوراس تانت کے دھاگےکو کنگھے کے اندر لگا دیا تھا. اس کی بنیادی وجہ یہ سوره الفلق میں گِرہوں میں پُھونکنے والیوں کے شر سے بچنے کی آیت ائی ہے تولہٰذا ایک دوسری روایت بنا کر اس میں اس کی بیٹیوں کو شامل کیا. اسی طرح اس کےاثر کو زائل کرنے کے لئےجن کو بھیجا ان میں بھی بہت سے تضادات ہیں کچھ روایت کے مطابق جادو کا سامان نکالنے کے لیے سیدنا علی اور عمار(رض) کو بھیجا تھا، جب کہ بعض روایتوں کے مطابق سیدنا جبیر بن یاس زرقی (رض) کو بھیجا تھا، اور بعض روایتوں کے مطابق آپ خود تشریف لے گئے تھے۔ اگرآپ سیاسی حالات سےواقف ہوں توان ناموں کوڈالنےکی وجہ سمجھ جائیں گے.
قرآن کےسچےہونےکی دلیل میں یہ بات بھی ہےکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں لیکن قرآن جیسی سچی اور اختلاف سے پاک کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم نبی کریم پرایک الزام کو ثابت کرنےکے لئے کیسے کیسے تضادات سے بھری روایات کوقبول کر لیتے ہیں یادرکھیں الله نےیہ نہیں کہاکہ کافر/مشرک نبی(ص) کوسحرزدہ کہتے بلکہ الله نے فرمایا کہ ظالم لوگ آپ کو سحر زدہ مانتے ہیں. اس بعد بھی ہمارا اس بات پراصرار کہ نبی(ص) پرجادو کو مانو، انسان کو حیران کر دیتا ہے کہ پروپیگنڈا ذہنوں کو کس قدر ماؤف کر دیتا ہے. الله ہم سب کو ہدایت کو ماننے اور اس پر چلنے کی توفیق دے. آمین