نبی کریم(ص) اورجادو

ابن آدم

محفلین
قرآن کریم کوالله نےفرقان کہا تو اسکا مطلب یہ تھا کہ مسلمان کسی بھی بات کو ماننے سے پہلے اسکی تصدیق اس کتاب کے ذریعہ کر لیں.جیسے جیسے اسلام پھیلا ویسے ویسے اسلام پر مختلف صورتوں میں حملےبھی بڑھتے رہے اور ان میں قرآن پر شکوک وشبھات کے ساتھ نبی کی زندگی پر بھی نقب لگایا گیا نبی کریم (ص) کی زندگی کو شان نزولوں اور دیگر روایات کی روشنی میں جو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں ایک روایت آپ (ص) پر ایک یہودی کے ذریعہ جادو کیے جانے کا بھی واقعہ گھڑا گیا. جس کا بنیادی مقصد نبی کریم (ص) کی ذات پر سوال اٹھانا اور قرآن کی عظمت کو گہنانے کے سوا کچھ نہیں

پہلےکچھ اس زمانے کےحالات سےآشنائی لے لیتے ہیں. یہ واقعہ ٧ہجری کا بیان کیا جاتا ہے، اس وقت تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا. مسلمانوں سے مکہ والوں کی دشمنی عروج پر تھی. ٣ جنگیں ہوچکی تھیں اور مکہ والوں میں بدلہ لینے کی آگ بجھی نہیں تھی تو ایسے میں اگر کوئی شخص جادو کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوتا تومکہ والوں کا کیا ردعمل ہوتا وہ سوچنا مشکل نہیں. لیکن ہمیں کسی ایسے ردعمل کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا. بلکہ قرآن کی دو سورتیں تو بتاتی ہیں کہ مکہ والے تو نبی کریم(ص) پر سحرزدہ ہونے کا الزام برسوں سے لگا رہے تھے اور اگر ان کو اس الزام کی کسی بھی صورت میں کہیں بھی چھوٹی سی تصدیق مل جاتی تو وہ یقیناً اس کو اپنے بیانئے اور نظریے کی جیت سمجھتے. لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا

قرآن میں سوره تحریم میں الله نےنبی اور ان کی زوجہ کےدرمیان ہونےوالی گفتگو جس کوکسی تیسرے نے نہیں سنا اس کو بھی بیان کیا کیونکہ اس میں امت کے لئے پیغام ہے.اسی طرح سوره الانفال میں غزوہ بدر میں قیدی بنانے کے عمل کو بھی بیان کیا. تو اگر نبی(ص) کسی ایسے شر کا شکار ہوتے تو الله ضرور اس کو بیان کرتے.

پھرقرآن کی ٢ سورتیں واضح طور پرکہہ رہی ہیں کہ نبی(ص) پر جھوٹا الزام لگایاجاتاہےکہ ان پرجادو ہوگیا ہے.اور ساتھ ہی الله یہ بھی کہتا ہےکہ ایساکہنےوالے ظالم لوگ ہیں.اور ان لوگوں کوظالم سوره بنی اسرائیل اور سوره فرقان میں کہاگیا ہے.تو اس کوماننے والےسوچ لیں کہ وہ کن میں شامل ہوتے ہیں.

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِۦٓ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰٓ إِذْ يَقُولُ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جارہے ہو

أَوْ يُلْقَىٰٓ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُۥ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی)روزی حاصل کرتا۔ اور ظالم کہتے ہیں”تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔“

مزیدیہ کہ معوّذتین، جو جادو کے توڑ پر بتائی جاتی ہیں ان کے مکی ہونے پر تقریباً سب کاہی اتفاق ہے جو کہ واقعہ سے سالوں پہلے نازل ہو چکی ہوں گی، تو جس ذات کے دل پر یہ سورتیں نازل ہوئیں اورمحفوظ رہیں اگروہ جادو کو ہونے سے روک نہیں سکیں تو پھر قرآن جادو کا توڑ ہم جیسے لوگوں کے لئے کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا نبی نےان سورتوں کی تلاوت متروک کردی تھی؟ نعوز باللہ. یا ان سورتوں کااثر زیادہ دیر نہیں رہتا نعوز باللہ. یہ بھی یاد رہےکہ الله نےقرآن کی سوره طہ میں فرمایا لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی(69) جادوگر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا یا کامیاب نہیں ہو گا. تو کیا وہ نبی(ص) کے خلاف کامیاب ہو سکتے ہیں؟

بہت سےلوگ پھراس جھوٹی روایت کوماننے کےلئےحضرت موسیٰ پربھی الزام لگادیتےہیں کہ وہ بھی سحر کےاثر میں چلےگئے. جبکہ قرآن کی دو سورتوں میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے.ایک تو سورہ طہ میں.اس میں جو بیان ہےاس میں یہ نہیں کہاگیاکہ حضرت موسی پرسحر ہوا، اور ان کو رسیاں سانپ کی صورت میں نظر آئیں- لیکن کیونکہ ہمارے یہاں نبی پاک پر جادو کی روایت کو درست ثابت کرنا ہوتا ہے، تو یہاں تشریح کی ہی اس طرح جاتی ہے کہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ حضرت موسی کے خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان پر سحر ہو گیا تھا اور انکو لاٹھیاں جادو کے زور پر سانپوں کی مانند دوڑتی ہوئی نظر آرہی تھین- سورہ طہ کا بیان یہ ہے کہ حضرت موسی کو خیال گیا (نظر نہیں آیا بلکہ خیال گیا) کہ لاٹھیاں جادو کے زور پر دوڑ رہی ہیں، اور ظاہر ہے یہ خیال ان کو لوگوں کے چہروں کے تاثر سے آرہا تھا نہ کہ اپنے آپ دیکھنے سے- اگر دیکھنے سے آیا ہوتا تو یہاں بھی الفاظ سورہ اعراف کی مانند ہی استعمال ہوتے اور سوره اعراف میں آیا کہ حضرت موسی کو صرف خیال گیا ہے. اور خیال اس لئے گیا کہ جادوگر لوگوں پر سحر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور حضرت موسی کی پریشانی یہ تھی کی فرعون اور لوگ جادو کے سحر میں آگئے ہیں اور لوگوں کے تاثر سے حضرت موسی کو خیال گزرا کہ جادو کے زور پر یہ سانپ بن گئی ہیں.

قران میں حضرت موسی کے لئے صرف خیال آنے کا ذکر ہے. اور انکو خوف یہ ہوا کہ اب جب میں لاٹھی پھینکوں گا تو وہ بھی محض سانپ ہی نظر آئے گی، تو لوگ معجزہ اور سحر میں فرق کیسے کر پائیں گے جس کی بنیاد پر لوگوں بشمول فرعون نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت موسیٰ(ع) سچے نبی ہیں کہ نہیں. مزید یہ کہ حضرت موسیٰ (ع) اور جادوگروں میں حضرت موسیٰ ایک فریق تھےاور فرعون نے لوگوں کو اپنےملک سے نکالےجانے کے خوف سے ہی ڈرایا ہوا تھا. تو ایسےمیں حضرت موسیٰ(ع) اور جادوگروں کا مقصد لوگوں کو اپنے حق پر ہونے کا یقین دلانا تھا. اسی لئے جب حضرت موسیٰ نے عصا پھینکا تو لوگوں سے پہلے جادوگرسجدے میں گر گئے اور اقرار کیا کہ جو حضرت موسیٰ(ع) نےدکھایا وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہے تو بات خود ہی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ پر کوئی جادو نہیں ہوا.کیونکہ اگر حضرت موسیٰ پر سحر اثرکر چکا ہوتا تو جادوگر کیوں باجماعت سجدے میں گرتے اس شخص کے لئے جس کو انھوں نے تھوڑی دیر پہلے ہی مسحور کر دیا تھا؟

جادو کی روایت کےدو راوی ہشام اورابو معاویہ ضریر پر کئی لوگوں اورمحدثین نےسوالات اٹھائے ہوئے ہیں جیسےحافظ ابن القطان، مولانا شبیر احمد میرٹھی، حبیب الرحمٰن کاندھلوی اور دیگر کئی علما نے.
مزید یہ کہ جادو کی روایات کی میں تغیر اور اختلاف اس کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے کہ کیسے سوالات اٹھنے پر قصہ میں تبدیلی کی جاتی رہی اور نئی روایات گھڑی گئیں. شروع میں اس کو ایک یہودی/منافق پر ڈالا گیا جس کا نام لبید بن عاصم بیان کیا جاتا ہے. جبکہ دیگر روایات میں آتا ہے کہ اس نے اپنی لڑکیوں کو جادو سکھایا تھا جنھوں نے تانت کےدھاگے کو لےکر اس میں گرہیں باندھیں تھیں اوراس تانت کے دھاگےکو کنگھے کے اندر لگا دیا تھا. اس کی بنیادی وجہ یہ سوره الفلق میں گِرہوں میں پُھونکنے والیوں کے شر سے بچنے کی آیت ائی ہے تولہٰذا ایک دوسری روایت بنا کر اس میں اس کی بیٹیوں کو شامل کیا. اسی طرح اس کےاثر کو زائل کرنے کے لئےجن کو بھیجا ان میں بھی بہت سے تضادات ہیں کچھ روایت کے مطابق جادو کا سامان نکالنے کے لیے سیدنا علی اور عمار(رض) کو بھیجا تھا، جب کہ بعض روایتوں کے مطابق سیدنا جبیر بن یاس زرقی (رض) کو بھیجا تھا، اور بعض روایتوں کے مطابق آپ خود تشریف لے گئے تھے۔ اگرآپ سیاسی حالات سےواقف ہوں توان ناموں کوڈالنےکی وجہ سمجھ جائیں گے.

قرآن کےسچےہونےکی دلیل میں یہ بات بھی ہےکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں لیکن قرآن جیسی سچی اور اختلاف سے پاک کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم نبی کریم پرایک الزام کو ثابت کرنےکے لئے کیسے کیسے تضادات سے بھری روایات کوقبول کر لیتے ہیں یادرکھیں الله نےیہ نہیں کہاکہ کافر/مشرک نبی(ص) کوسحرزدہ کہتے بلکہ الله نے فرمایا کہ ظالم لوگ آپ کو سحر زدہ مانتے ہیں. اس بعد بھی ہمارا اس بات پراصرار کہ نبی(ص) پرجادو کو مانو، انسان کو حیران کر دیتا ہے کہ پروپیگنڈا ذہنوں کو کس قدر ماؤف کر دیتا ہے. الله ہم سب کو ہدایت کو ماننے اور اس پر چلنے کی توفیق دے. آمین
 

سید عمران

محفلین
پہلے بھی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ہلکا ثابت کرنے کے لیے ایک توہین آمیز مضمون لکھا تھا۔ اس بار بھی شوگر کوٹڈ مضمون میں وہی زہر بھرا ہوا ہے۔
جس حدیث میں آپ پر جادو ہونے کی روایت ہے وہ متفق علیہ بالاجماع صحیح حدیث ہے۔ لیکن آپ شاید منکر حدیث میں سے ہیں۔ جس طرح انبیاء کرام جسمانی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں، بھوک کے وقت بھوک اور پیاس کے وقت پیاس کی شدت محسوس کرسکتے ہیں، انہیں کوئی ایذا پہنچائے چاہے زبانی یا جسمانی اس کی تکلیف محسوس کرسکتے ہیں اسی طرح ان پر جاود کے اثرات بھی ہوسکتے ہیں یہ ان کی علو شان کے خلاف نہیں۔ یہ روایت تو جھوٹی نہیں افسوس کہ گزشتہ کی طرح یہ مضمون بھی سراسر جھوٹ اور گمراہی پر مبنی ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
قرآن کریم کوالله نےفرقان کہا تو اسکا مطلب یہ تھا کہ مسلمان کسی بھی بات کو ماننے سے پہلے اسکی تصدیق اس کتاب کے ذریعہ کر لیں.جیسے جیسے اسلام پھیلا ویسے ویسے اسلام پر مختلف صورتوں میں حملےبھی بڑھتے رہے اور ان میں قرآن پر شکوک وشبھات کے ساتھ نبی کی زندگی پر بھی نقب لگایا گیا نبی کریم (ص) کی زندگی کو شان نزولوں اور دیگر روایات کی روشنی میں جو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں ایک روایت آپ (ص) پر ایک یہودی کے ذریعہ جادو کیے جانے کا بھی واقعہ گھڑا گیا. جس کا بنیادی مقصد نبی کریم (ص) کی ذات پر سوال اٹھانا اور قرآن کی عظمت کو گہنانے کے سوا کچھ نہیں
اس واقعہ سے نہ قرآن کی عظمت میں فرق آیا ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس داغ دار ہوئی ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
پہلےکچھ اس زمانے کےحالات سےآشنائی لے لیتے ہیں. یہ واقعہ ٧ہجری کا بیان کیا جاتا ہے، اس وقت تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا. مسلمانوں سے مکہ والوں کی دشمنی عروج پر تھی. ٣ جنگیں ہوچکی تھیں اور مکہ والوں میں بدلہ لینے کی آگ بجھی نہیں تھی تو ایسے میں اگر کوئی شخص جادو کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوتا تومکہ والوں کا کیا ردعمل ہوتا وہ سوچنا مشکل نہیں. لیکن ہمیں کسی ایسے ردعمل کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا. بلکہ قرآن کی دو سورتیں تو بتاتی ہیں کہ مکہ والے تو نبی کریم(ص) پر سحرزدہ ہونے کا الزام برسوں سے لگا رہے تھے اور اگر ان کو اس الزام کی کسی بھی صورت میں کہیں بھی چھوٹی سی تصدیق مل جاتی تو وہ یقیناً اس کو اپنے بیانئے اور نظریے کی جیت سمجھتے. لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا
پہلی بات مکہ والوں نے یہ الزام لگایا کہ آپ خود جادو گر ہیں (معاذ اللہ!!!)

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِۦٓ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰٓ إِذْ يَقُولُ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں تو دراصل کیا سُنتے ہیں، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جارہے ہو

أَوْ يُلْقَىٰٓ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُۥ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ ٱلظَّ۔ٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یااس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی)روزی حاصل کرتا۔ اور ظالم کہتے ہیں”تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔“

دوسری بات مکہ والے جو یہ کہتے تھے کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے وہ ان کے آپس کے گٹھ جوڑ کے بعد باہمی مشورہ سے طے پایا تھا کہ ہم ان میں کوئی خامی نہیں پاتے پھر ان کی اسلام کی تبلیغ کو روکنے کے لیے کیا حربہ آزمائیں۔ آخر یہ طے پایا کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے آپ پر یہ الزام لگائیں گے کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے۔ اور یہ پرو پیگنڈا اس لیے کیا گیا تاکہ لوگ معاذ اللہ آپ کو جادو کے زیر اثر مخبوط الحواس سمجھیں جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
اور آپ پر جادو کے جو اثرات آئے تھے ان کی وجہ سے آپ صرف کوئی کام کرکے بھولنے لگے تھے کہ یہ کام کیا یا نہیں، نہ عقل پر کوئی اثر پڑا تھا کہ کسی کی بات غلط سمجھیں یا خود کچھ غلط بات کہیں اور نہ ہی جسم پر کوئی اثر تھا کہ عبادات نہ کرسکیں۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
قرآن میں سوره تحریم میں الله نےنبی اور ان کی زوجہ کےدرمیان ہونےوالی گفتگو جس کوکسی تیسرے نے نہیں سنا اس کو بھی بیان کیا کیونکہ اس میں امت کے لئے پیغام ہے.اسی طرح سوره الانفال میں غزوہ بدر میں قیدی بنانے کے عمل کو بھی بیان کیا. تو اگر نبی(ص) کسی ایسے شر کا شکار ہوتے تو الله ضرور اس کو بیان کرتے.
دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کو ایسی بہت سی ایذائیں پہنچائیں جن کا قرآن نے ذکر نہیں کیا۔ لہٰذا اس واقعہ کو ذکر کرکے بلاوجہ اپنے مضمون میں لانا محض گمراہ کن صورت حال پیدا کرنا ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
مزیدیہ کہ معوّذتین، جو جادو کے توڑ پر بتائی جاتی ہیں ان کے مکی ہونے پر تقریباً سب کاہی اتفاق ہے جو کہ واقعہ سے سالوں پہلے نازل ہو چکی ہوں گی، تو جس ذات کے دل پر یہ سورتیں نازل ہوئیں اورمحفوظ رہیں اگروہ جادو کو ہونے سے روک نہیں سکیں تو پھر قرآن جادو کا توڑ ہم جیسے لوگوں کے لئے کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا نبی نےان سورتوں کی تلاوت متروک کردی تھی؟ نعوز باللہ. یا ان سورتوں کااثر زیادہ دیر نہیں رہتا نعوز باللہ. یہ بھی یاد رہےکہ الله نےقرآن کی سوره طہ میں فرمایا لَا یُفۡلِحُ السَّاحِرُ حَیۡثُ اَتٰی(69) جادوگر جہاں جائے فلاح نہیں پائے گا یا کامیاب نہیں ہو گا. تو کیا وہ نبی(ص) کے خلاف کامیاب ہو سکتے ہیں؟
ایک اور جھوٹ کہ معوذتین کے مکی ہونے پر سب کا اجماع ہے۔ حضرت حسن بصری وغیرہ سمیت کچھ تابعین اس کو مکی کہتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن زبیر اور عقبہ بن عامر جو صحابہ ہیں ان سمیت مفسرین کی اکثریت ان سورتوں کو مدنی کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
قرآن کےسچےہونےکی دلیل میں یہ بات بھی ہےکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں لیکن قرآن جیسی سچی اور اختلاف سے پاک کتاب پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم نبی کریم پرایک الزام کو ثابت کرنےکے لئے کیسے کیسے تضادات سے بھری روایات کوقبول کر لیتے ہیں یادرکھیں الله نےیہ نہیں کہاکہ کافر/مشرک نبی(ص) کوسحرزدہ کہتے بلکہ الله نے فرمایا کہ ظالم لوگ آپ کو سحر زدہ مانتے ہیں. اس بعد بھی ہمارا اس بات پراصرار کہ نبی(ص) پرجادو کو مانو، انسان کو حیران کر دیتا ہے کہ پروپیگنڈا ذہنوں کو کس قدر ماؤف کر دیتا ہے. الله ہم سب کو ہدایت کو ماننے اور اس پر چلنے کی توفیق دے. آمین
آخر میں گزشتہ مضمون کی طرح یہ بھی غیر منطقی انجام کو پہنچا۔ اللہ نے جن ظالموں کا ذکر کیا کہ وہ آپ کو سحر زدہ مانتے ہیں وہ اس لیے کیا کہ وہ یہ جھوٹ اس لیے بولتے تھے کہ آپ کو مجنون اور ایسا انسان ثابت کریں جو عقل نہیں رکھتا (معاذ اللہ)۔
ورنہ آپ پر جو یہودی لبید کے سحر کے اثرات تھے وہ عارضی تھے جس سے نہ آپ کی عقل پر اثر پڑا تھا نہ جسم مفلوج ہوا تھا۔
گزشتہ کی طرح یہ مضمون بھی محض جھوٹ پر مبنی گمراہ کن نظریات کا مجموعہ ہے جس سے امت کو نہ کوئی علمی فائدہ پہنچا نہ عملی نہ اخلاقی اور نہ اصلاحی!!!
 

ابن آدم

محفلین
پہلے بھی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ہلکا ثابت کرنے کے لیے ایک توہین آمیز مضمون لکھا تھا۔ اس بار بھی شوگر کوٹڈ مضمون میں وہی زہر بھرا ہوا ہے۔
جس حدیث میں آپ پر جادو ہونے کی روایت ہے وہ متفق علیہ بالاجماع صحیح حدیث ہے۔ لیکن آپ شاید منکر حدیث میں سے ہیں۔ جس طرح انبیاء کرام جسمانی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں، بھوک کے وقت بھوک اور پیاس کے وقت پیاس کی شدت محسوس کرسکتے ہیں، انہیں کوئی ایذا پہنچائے چاہے زبانی یا جسمانی اس کی تکلیف محسوس کرسکتے ہیں اسی طرح ان پر جاود کے اثرات بھی ہوسکتے ہیں یہ ان کی علو شان کے خلاف نہیں۔ یہ روایت تو جھوٹی نہیں افسوس کہ گزشتہ کی طرح یہ مضمون بھی سراسر جھوٹ اور گمراہی پر مبنی ہے۔
نبی کریم (ص) کو سحر زدہ مان کر ان کی ذات کو ہلکا کیا جائے گا کہ ان کو سحر سے پاک مان کر؟
باقی میرا کام منوانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ ایسا مانتے ہیں وہ ظالم ہیں. الله مجھے ہر ظلم سے محفوظ رکھے. آمین
 
***کلامِ سعدی: ایک غلط فہمی کا ازالہ***

اس تحریر کا مقصد آپ تمام بیوقوف اور سادہ لوح قارئین تک یہ اطلاع پہنچانا ہے کہ میں نے بارہ سال تک فارسی زبان پڑھی ہے ۔ اگرچہ فارسی میری مادری زبان نہیں لیکن فارسی گرامر کی درجنوں کتابیں چاٹنے ، لغات کھنگالنے اور برسوں کے گہرے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شیخ سعدی کا کلام اتنا مشہور ہونے کے باوجود آج تک صحیح طرح سے کسی کی سمجھ میں آہی نہیں سکا۔ شروع ہی سے لوگ کلامِ سعدی کو غلط طریقے سے سمجھتے آرہے ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شیخ سعدی کے کلام کی جتنی بھی شرحیں آج تک لکھی گئی ہیں وہ سب کی سب غلط فہمی پر مبنی ہیں اور بالکل بھی درست نہیں ہیں۔ دراصل یہ لوگ شیخ سعدی کے کلام کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ نہ تو انہیں سعدی کے کسی شعر کے پس منظر کا پتہ ہے اور نہ ہی وہ ان کے الفاظ کی اصل روح تک پہنچ سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام شارحین غور و فکر اور تجزیے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ مزید دکھ تو اس بات کا ہے کہ غیر فارسی دان تو ایک طرف خود فارسی اہل ِزبان میں سے بھی کوئی آج تک سعدی کے کلام کو سمجھ نہ سکا۔ حد تو یہ ہے کہ شیخ سعدی کے معاصرین، ان کے شاگرد اور حلقہ بردار اصحاب بھی ان کے کلام کومطلق نہ سمجھ سکے۔ بلکہ کلام کی تشریح میں آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور غلط سلط باتیں کتابوں میں لکھ ڈالیں۔ خیر ، یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ الحمدللہ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ یہ خاکسار کلامِ سعدی کے اصل مطالب تک پہنچ چکا ہے۔ صدیوں بعد بالآخر کلامِ سعدی کی روح کو دریافت کرنے کا سہرا اس عاجز ہی کے سر بندھا ہے۔ (این سعادت بزورِ بازو نیست ۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ)۔ اللہ عز و جل نے اپنے کرم سے مجھے اپنی فارسی دانی اورعمیق غور و خوض کی بدولت کلام سعدی کی درست اور بالکل صحیح تشریح کرنے کا شرف بخشا ہے۔ اور یہ امر آپ تمام قارئین لئے بھی باعثِ شرف ہونا چاہئے کہ روزِ اول سے کلام ِسعدی پرغلط فہمیوں اور غلط آرائیوں کی جو دھول جمی ہوئی تھی اسے صاف کرنے کا کام میں اپنی نوکِ قلم سے انجام دے رہا ہوں۔ الحمدللہ ، میں فارسی شعر فہمی کے اس درجے پر پہنچ چکا ہوں کہ اب میں آپ کو سعدی کے شعر کا وہ اصل روپ اور چہرہ دکھا سکوں گا جو آج تک سارے زمانے سے پوشیدہ رہا ۔ اپنے تدبر اور تفکر کی بدولت میں نے سعدی کے اشعار سے ایسے ایسے نکتے برآمد کئے ہیں کہ جن تک شاید خود شیخ سعدی کی نظر بھی نہ پہنچ سکی ہو۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ صرف مجھ حقیر ناچیز ہی پر اس نے عقل و دانائی کے یہ روشن دروازے وا کئے اور شیخ سعدی کے باطن میں جھانکنے اور ان کے کلام کی اصل روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائی۔ مجھے امید ہے کہ یہ کار خیر میرے لئے رہتی دنیا تک ایک صدقہء جاریہ اور آخرت میں باعثِ بخشش ثابت ہوگا ۔ وما توفیقی الا باللہ۔
********************************************************* ******************************************************** ******************************************************************************************************************
"کلامِ سعدی: غلط فہمی کا ازالہ" کے عنوان سے جو تحریر میں نے اوپر لکھی ہے اس کی مضحکہ خیزی اوربیہودہ پن روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اول تو مجھے اس درجے کی فارسی آتی ہی نہیں ہے لیکن اگر آتی بھی ہو تو زبان دانی اور شعر فہمی کے یہ دعوے کرنا کہ کلامِ سعدی کو آج تک کوئی بھی کماحقہ نہیں سمجھ سکا اور اس کا صحیح مفہوم صرف مجھ پر ہی کھلا ہے کتنی کھوکھل ، بیہودہ اور بیکارسی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کلامِ سعدی کے بارے میں اس طرح کی بات کرنا تو بیہودہ اور بیوقوفانہ ہے لیکن کلامِ الہی کے بارے میں ایسے دعوے کرنا اب علمی گفتگو کہلاتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے احمقانہ دعووں کو نظر انداز کرنے کے بجائے اب میں اور آپ اس "علمی بحث" میں شریک ہوجاتے ہیں۔

آپ ذرا دیر کے لئے میری مندرجہ بالا تحریر میں کلامِ سعدی کی جگہ کلامِ الٰہی رکھ کر دیکھئے۔ تمام استعارے آپ پر کھل جائیں گے اور میرے دعووں کی احمقانہ نوعیت واضح تر ہوجائے گی۔ قرآن فہمی کے لئے حدیث اور روایت کے سلسلوں کو نظرانداز کردینا اور محض لغات اور گرامر کی رو سے کلامِ الٰہی کی تفہیم و تفسیر کرنا دراصل خودقرآن کے انکار کی طرف پہلا قدم ہے۔ یعنی اگر کسی عمارت کو علی الاعلان ڈھانا ممکن نہ ہو تو چپکے چپکے اس کی بنیاد کو تباہ کردینا چاہئے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں عمارت کا خود بخود ڈھے جانا لازم ہے۔ یعنی قرآن فہمی کے نام پر حدیث کا انکار کرکے دراصل قرآن کی عمارت ڈھانے کا چپکے چپکے اہتمام کیا جارہا ہے۔

کلامِ الٰہی کی تفسیر و تشہیر کا انتظام خود صاحبِ کلام نے کیا۔ اس نے اپنے کلام کو تختیوں کی صورت میں نازل کرنے کے بجائے ایک چلتی پھرتی زندہ تفہیم و تفسیر کی صورت میں ایک پیغام رساں کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا ہے۔ اس پیغام رساں کے کردار کو درمیان سے نکال کر کلامِ الٰہی کو کس طرح سمجھا اور اپنایا جاسکتا ہے؟! اتنی سی بات تو مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ لیکن نہیں آتی تو ان علاموں اور دانشوروں کی سمجھ میں نہیں آتی جو عربی زبان کی چار کتابوں اور لغات کی مدد سے قرآن فہمی کا منفرد دعوی کررہے ہیں اور یہ راگ بھی الاپتے جاتے ہیں کہ آج تک کلامِ الٰہی کو جس طرح سمجھا گیا وہ سب غلط تھا۔چودہ سو سال کے بعد اب صرف ہم ہی اس کلام کو صحیح طور پر سمجھے ہیں۔

خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے


٭٭٭واٹس ایپ سے منقول ٭٭٭
 

سید عمران

محفلین
نبی کریم (ص) کو سحر زدہ مان کر ان کی ذات کو ہلکا کیا جائے گا کہ ان کو سحر سے پاک مان کر؟
باقی میرا کام منوانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ ایسا مانتے ہیں وہ ظالم ہیں. الله مجھے ہر ظلم سے محفوظ رکھے. آمین
’’سحر زدہ‘‘ کہہ کر آپ یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے عمر بھر آپ سحر میں رہے۔۔۔
آپ کو تو بخار بھی ہوا تھا تو کیا آپ کو بخار زدہ کہا جائے گا؟؟؟
سحر ہوا اور اتر گیا، تکلیف پہنچی اور دور ہوگئی، اس میں تردد کی کیا بات ہے؟؟؟
 

ابن آدم

محفلین
’’سحر زدہ‘‘ کہہ کر آپ یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے عمر بھر آپ سحر میں رہے۔۔۔
آپ کو تو بخار بھی ہوا تھا تو کیا آپ کو بخار زدہ کہا جائے گا؟؟؟
سحر ہوا اور اتر گیا، تکلیف پہنچی اور دور ہوگئی، اس میں تردد کی کیا بات ہے؟؟؟
مسلمانوں کو بخار زدہ نبی (ص) کی پیروی کرنے کا کوئی الزام قرآن بتا نہیں رہا، قرآن صرف اسی الزام کا بتا رہا ہے جس کو آپ ماننے پر مصر ہیں.
اور جو ظالم لوگ آپ پر سحرزدہ ہونے کا الزام لگاتے تھے وہ بھی آپ کو ہر وقت سحرزدہ نہیں مانتے تھے کیونکہ ہجرت کے وقت تک اپنی امانتیں نبی کریم (ص) کے پاس رکھواتے رہے ہیں. تو اگر وہ آپ پر ہر وقت سحر زدہ ہونے کو مان رہے ہوتے تو اپنی امانتیں تو کم از کم آپ (ص) کے پاس نہ رکھواتے.
بہرحال، اگر آپ ظالم لوگوں والے الزام کی تائید کرتے ہیں تو مجھے سچی اس پر کوئی اعتراض نہیں. میں نے اپنے دلائل دے دیے ہیں آپ سوچیں اور آپ کو بات نہیں ٹھیک لگ رہی تو نہ مانیں.
 

سید عمران

محفلین
مسلمانوں کو بخار زدہ نبی (ص) کی پیروی کرنے کا کوئی الزام قرآن بتا نہیں رہا، قرآن صرف اسی الزام کا بتا رہا ہے جس کو آپ ماننے پر مصر ہیں.
اور جو ظالم لوگ آپ پر سحرزدہ ہونے کا الزام لگاتے تھے وہ بھی آپ کو ہر وقت سحرزدہ نہیں مانتے تھے کیونکہ ہجرت کے وقت تک اپنی امانتیں نبی کریم (ص) کے پاس رکھواتے رہے ہیں. تو اگر وہ آپ پر ہر وقت سحر زدہ ہونے کو مان رہے ہوتے تو اپنی امانتیں تو کم از کم آپ (ص) کے پاس نہ رکھواتے.
بہرحال، اگر آپ ظالم لوگوں والے الزام کی تائید کرتے ہیں تو مجھے سچی اس پر کوئی اعتراض نہیں. میں نے اپنے دلائل دے دیے ہیں آپ سوچیں اور آپ کو بات نہیں ٹھیک لگ رہی تو نہ مانیں.
منکرین حدیث نے پہلے دن سے حدیث وسنت کی تاریخیت ‘ حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک بنانے کے لیے سینکڑوں عقلی اعتراضات اٹھائے ، کبھی کہا گیا رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ذمہ صرف قرآن پہنچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، اس پر لاجواب ہوئے تو کہا گیا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات صحابہ پر تو حجت تھے، لیکن ہم پر حجت نہیں۔اسکا معقول جواب دیا گیا تو یہ حیلے گھڑے گئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں ،لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں، کبھی روایات واحادیث کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام کی احتیاطی تدابیر کو بنیاد بناکر مکثرین صحابہ بالخصوص حضرت ابوھریرہ ؓ کی روایات میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کوئی عجم سے تعلق رکھتے تھے تو اس کے لئے سیاسی اعتقاد محرکات کو نمایاں کرکے ان کی مساعی حسنہ کو عجمی سازش باور کرایا گیا ۔ اور راوی کے لئے عجمی وفارسی ہونا ہی موجب طعن قراردے دیا گیا ۔ ایرانی سازش کے افسانے گھڑے گئے ، کہا گیا کہ وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو ‘صحیح حدیث’کا نام دے دیا ۔ تدوین حدیث کے عمل کو دوسری اور تیسری صدی کی کوشش قرار دیا گیا ۔ اسکا معقول جواب آیا تو موضوع اور من گھڑت روایات کے سہارے صحیح روایات کو بھی مجروح کرنے اور ذخیرہ احادیث سے بدگمان کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں کہا گیا ۔ ۔ منکرین حدیث کی ساری علمی تاریخ ایسے ہی حیلے بہانوں سے بھری پڑی ہے۔ربط
 

ابن آدم

محفلین
منکرین حدیث نے پہلے دن سے حدیث وسنت کی تاریخیت ‘ حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک بنانے کے لیے سینکڑوں عقلی اعتراضات اٹھائے ، کبھی کہا گیا رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ذمہ صرف قرآن پہنچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، اس پر لاجواب ہوئے تو کہا گیا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات صحابہ پر تو حجت تھے، لیکن ہم پر حجت نہیں۔اسکا معقول جواب دیا گیا تو یہ حیلے گھڑے گئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں ،لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں، کبھی روایات واحادیث کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام کی احتیاطی تدابیر کو بنیاد بناکر مکثرین صحابہ بالخصوص حضرت ابوھریرہ ؓ کی روایات میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کوئی عجم سے تعلق رکھتے تھے تو اس کے لئے سیاسی اعتقاد محرکات کو نمایاں کرکے ان کی مساعی حسنہ کو عجمی سازش باور کرایا گیا ۔ اور راوی کے لئے عجمی وفارسی ہونا ہی موجب طعن قراردے دیا گیا ۔ ایرانی سازش کے افسانے گھڑے گئے ، کہا گیا کہ وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو ‘صحیح حدیث’کا نام دے دیا ۔ تدوین حدیث کے عمل کو دوسری اور تیسری صدی کی کوشش قرار دیا گیا ۔ اسکا معقول جواب آیا تو موضوع اور من گھڑت روایات کے سہارے صحیح روایات کو بھی مجروح کرنے اور ذخیرہ احادیث سے بدگمان کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں کہا گیا ۔ ۔ منکرین حدیث کی ساری علمی تاریخ ایسے ہی حیلے بہانوں سے بھری پڑی ہے۔ربط
جس موضوع پر بات ہو رہی ہو اس موضوع پر ہی بات کو رکھا جائے تو کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے.
دوسری بات امام مسلم نے صحیح بخاری کی ١٧٠٠ کے قریب حدیثوں کو لیا اور باقیوں کو چھوڑ دیا. تو کیا وہ بھی منکر حدیث ہیں؟ دوسری بات الله نے صرف قرآن کے بارے میں کہا کہ اس میں کچھ اختلاف نہیں اور یہ سچی سچی باتیں بتاتی ہیں.
میرا تو سادہ سے اصول ہے کہ جو روایت قرآن کے مطابق ہو گی اس کو اپنا لیا جائے اور جو نہیں ہے اس کو چھوڑ دیا جائے، میں کم از کم منکر قرآن نہیں ہونا چاہتا.
باقی آپ نے اپنا فیصلہ خود کرنا ہے.
مزید یہ کہ اگر آپ کے پاس موضوع کے حوالے سے کوئی بات ہے تو ضرور کریں لیکن ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے لئے کوئی دوسری لڑی بنا لی جائے. شکریہ
واسلام
 
Top