نثری نظمیں : ’’ بلاعنوان ‘‘ ۔۔۔ م۔م۔مغل ؔ

مغزل

محفلین
(چار نثری نظمیں گزشتہ سال فروری کی ایک رات بہت مایوسی کے عالم میں قبرستان میں بیٹھا تھا تو وہاں ہوئیں۔چاروں کا عنوان دانستہ طو ر پر ”بلا عنوان“ ہی رکھا ہے ۔)

”بلا عنوان“

مجھے شب و روز کی مسافت میں ۔۔
بہت دنوں تک ۔۔
تعلق کی بے چہرگی نے ۔۔
آزمائش میں مبتلا کیے رکھا۔۔۔
قربت کی دُھند چھَٹی تو کھُلا ۔۔۔
تعلق پیٹ کی طرح ہوتا ہے ۔۔
جو ملاقات کے چند نوالوں سے بھرجاتا ہے !
============

”بلا عنوان“

اخلاص !
بکری کے بچّے کی طرح ہوتا ہے۔۔
جسے چرواہا ۔۔
کتّوں کے حریص جبڑوں سے ۔۔
بچانے کی خاطر۔۔۔
مجبوری کے جنگل میں ۔۔۔
ذبح کر کے کھا جاتا ہے۔
============

”بلا عنوان“

تنہائی !
مایوسی کی چھاتی سے لگے ہوئے ۔۔
بچے کی طرح ہوتی ہے۔۔
جب دودھ نہ اُترتا ہو۔
اور وہ بھوک کے جبر میں۔۔
خون کی آخری بوند سے۔۔
اپنا حلق تر کرنے میں مصروف رہے !
============

”بلا عنوان“

خوشیاں !
بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں ۔۔
جنہیں ہم پال پوس کر ۔۔
دوسرے گھروں کو روانہ کر دیتے ہیں۔۔
دکھ !
بیٹوں کی طرح۔۔
گھر نہیں بدلتے۔۔۔
ایک ہی گھر میں افزائشِ نسل کرتے ہیں ۔۔۔۔

م۔م۔مغل ؔ
 

فاتح

لائبریرین
  1. مجھے شب و روز کی مسافت میں بہت دنوں تک تعلق کی بے چہرگی نے آزمائش میں مبتلا کیے رکھا، قربت کی دُھند چھَٹی تو کھُلا تعلق پیٹ کی طرح ہوتا ہے جو ملاقات کے چند نوالوں سے بھرجاتا ہے۔
  2. اخلاص بکری کے بچّے کی طرح ہوتا ہے جسے چرواہا کتّوں کے حریص جبڑوں سے بچانے کی خاطرمجبوری کے جنگل میں ذبح کر کے کھا جاتا ہے۔
  3. تنہائی مایوسی کی چھاتی سے لگے ہوئے بچے کی طرح ہوتی ہے۔ جب دودھ نہ اُترتا ہو اور وہ بھوک کے جبر میں خون کی آخری بوند سے اپنا حلق تر کرنے میں مصروف رہے۔
  4. خوشیاں بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں جنہیں ہم پال پوس کر دوسرے گھروں کو روانہ کر دیتے ہیں۔ دکھ بیٹوں کی طرح گھر نہیں بدلتے، ایک ہی گھر میں افزائشِ نسل کرتے ہیں۔
م۔م۔مغل ؔ
اچھے کاٹ دار جملے ہیں جو بیک وقت کتھارسس اور معاشرے کی سنگ دلی پر طنز کے پہلو کو خود میں سموئے ہوئے ہیں۔
(جا بجا بلا ضرورت لائن بریکس نے قرات کی روانی کو مجروح کیا)
 

فاتح

لائبریرین
ہم آپ کی نظموں کے مداح ہیں کہ آپ بہت اعلیٰ نظم لکھنے پر قادر ہیں۔۔۔ کیوں نثر جیسی کھردری اور بے مزا صنف میں سر کھپاتے ہیں۔
 
جناب محمود مغل مغزل بھائی کی چار انتہائی خوبصورت نثری نظموں بعنوان’’ بلا عنوان’’ اور اس پر بشیر الدین فاتح بھائی اور استادِ محترم جناب الف عین اعجاز عبید صاحب کے تبصرے ہمیں اپنی لائبریری سے کنفیوشس ( ابنِ صفی والے) ، کرنل شفیق الرحمٰن( اس نے خراٹے سنے) ، جناب مشتاق احمد یوسفی اور ابنِ انشاء جیسے فلاسفر حضرات کی کتابیں چھاننے پر مجبور کرگئے، ان کے اقوالِ زریں کی تلاش میں۔​
قطع نظر اسکے کہ ہم جیسے نوآموز شعراء یعنی کندگانِ ناتراش جب بھی غزل کہنے کی کوشش فرماتے ہیں ، نہ جانے کہاں سے ، آپ ہی آپ، نثری نظم تیار ہوجاتی ہے، محمود مغل صاحب ایک کہنہ مشق اور خوبصورت منفرد غزل گو شاعر جب دانستہ طور پر نثری نظم کی طرف توجہ نگہ التفات کرتے ہیں تو بلا عنوان جیسے خوبصورت اقوالِ زریں وجود میں آتے ہیں۔​
نثری نظم کب اور کیونکر وجود میں آئی؟ کیا ن ۔م۔ راشد ، اور میراجی سے پہلے بھی نثری نظم کا وجود تھا؟ یہ کچھ ایسے غیر متعلق اور عجائبِ روزگار سوالات ہیں جن کا موجودہ بحث سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ویسے بھی بقول شاعر​
عشق کی بات بیسوا جانیں​
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں​
ہم بیچارے نثری نظم کو کیا جانیں۔ البتہ اتنا ضرور محسوس کرتے ہیں کہ آج کی نثری نظم کے ڈانڈے ماضی میں رجب علی بیگ سرور کی مرقع و مسجع اردو نثر اور مولانا محمد حسین آزاد کی سادہ نثری نظموں ( دھوبی کپڑے دھو رہا ہے، کھانا پک رہا ہے ، اونٹنی کی سواری وغیرہ) سے ضرور جاملتے ہیں۔​
ھیھات ، ھیھات، جہاں تک مستند غزل گو شعراء حضرات کے جدید نثری نظم کی بابت متعصبانہ رویے کا تعلق ہے، وہ تو محمود بھائی کی نثری نظموں پرمحفل کے شعرائے کرام کی آراء سے بخوبی آشکارا ہے۔ ایک حضرت نے تو جدت طرازی اور بزلہ سنجی کی حد کردی۔ انھوں نے کمال سادگی سے ہر ایک نثری نظم کے تمام مصرعوں کو، لائن فیڈز ختم کرکےایک جملے کی شکل دے دی اور ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہوئے انھیں اوالِ زریں قرار دے دیا، دوسرے صاحب نے بھی کسی قسم کی رائے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے ان نظموں کو خوب اور بہت کاٹ دار کہنے پر اکتفاء کیا، تیسرے حضرت نے بھی اِن اقوالِ زریں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔​
اس خوبصورت صنف سخن یعنی نثری نظموں کے اِس قابلِ رشک ماضی اور انتہائی شاندار مستقبل کے پیشِ نظر آئیندہ سالوں اور اکیسویں صدی کے پہلے نصفیے میں ہم نثری نظم کو کہاں دیکھتے ہیں؟ نثری نظم کی علامتی حیثیت کے پیشِ نظر اس کی قلبِ ماہیئت کا بھر پور اندیشہ ہے۔ ہوسکتا ہے بلکہ قوی امکان ہے کہ اگلی صورت اسمائیلیز کے استعمال سے جدید نظم کی آرائش ہو اور اس کے بعد صریرِ خامہ کی شکل میں یعنی صرف قلم کی آوازیں( الفاظ کی قید سے آزاد)اور پھر ایک انتہائی شکل خاموش نظم ہو گی جس میں شاعر منہ سے کچھ نہ کہے گا بلکہ اپنے چہرے مہرے کے تاثرات سے اپنی نظم کا اظہار کرسکتا ہے۔ملکِ خدا تنگ نیست۔ پائے گدا لنگ نیست۔ اسکائی از دا لمٹ۔ وللہ اعلم۔​
اب آخر میں ہم اپنے قارئینِ محفلین کے لیے دو معرکتہ الآراء نثری نظمیں پیش کررہے ہیں۔ گر قبول افتد۔۔۔۔​

ایک
دور وہ تھا
کہ فنون لطیفہ کے لیے
سیکھنے سکھانے کی خاطر
استاد
اور
شاگرد
لازم و ملزوم قرار پائے تھے
جو
ان دنوں
کم کم ہی نظر آتے ہیں
اور آج
آپس میں شعراء
مشورہ سخن
تو
دور کی بات ہے
تنقید
بھی
برداشت نہیں کر پاتے
جس کا نتیجہ
یہ ہوا ہے کہ
مختلف اصنافِ سخن میں
تجربوں کو
اچھی نظروں سے
نہیں
دیکھا جاتا

نثری نظم کے لیے نہ تو عروض میں سر کھپانے کی ضرورت اور نہ قافیہ ردیف کے جھنجھٹ میں پڑنا لازم۔ بس ایک سادہ سی تحریر کو ان گنت سطروں میں بانٹنا آنا چاہیے۔ اور یہ کام میری تین سالہ بیٹی بھی نہایت نفاست سے کرتی ہے (یعنی جا بجا enter کی کلید دباتے جانا
clip_image001.gif
)
clip_image002.gif
clip_image002.gif
clip_image002.gif

"صفر بٹا صفر"
ابنِ صفی

ٹیلی فون پر
مسز صائمہ سلیمان نے گہری سانس لیتے ہوئے
اپنی گونج دار آواز میں مزے لے لے کر کہا
میری جان تم غلط سمجھی ہو
بات بال پوائنٹ کی نہیں ہے
بال پوائنٹ تو عصر تازہ کی ایجاد ہے
جس نے دوات اور قلم بلکہ فاؤنٹین پین بھی
ایک عرصے سے متروک کررکھے ہیں
اب کسی کو بھی
پتلی گول مخروطی لکڑی کے سرے پر لگے ہوئے
نوک دار نب والے قلم کی ضرور نہیں
لکھنے والے تو ہر چیز سے لکھ لیتے ہیں
چاہے وہ کوئلہ ہو برش ہو یا انگلی ہو
اب تم خود ہی دیکھ لو
میرا کتا اپنی دم کو نیلی روشنائی میں ڈبو ڈبو کر
میرے شوہر کی قمیض کی پشت پر
میرا ٹیلی فون نمبر لکھ رہا ہے
ٹیلی فون کا نمبر
جس کی ابتدا صفر ہے
اور انتہا بھی
خدا جانتا ہے بس صفر ہی ہے
بس ڈائل گھومتا رہتا ہے
اور ہندسے گزرتے رہتے ہیں
ابھی تو صرف پانچواں ہندسہ چل رہا ہے
ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے
آٹا بھی چینی بھی سبزی بھی اور گوشت بھی
روپے میں قوت خرید باقی نہیں رہی ہے
ڈالر جو روز بروز مہنگا ہوتا جارہا ہے
لوگ ڈالر کمانے دبئی جارہے ہیں
پھر بےچارہ روپیہ کیا کرے
زندگی کتے کی دم ہوکر رہ گئی ہے
جو اب کبھی سیدھی نہیں ہوگی
روپیہ گول ہوتا ہے
صفر بھی گول ہوتا ہے
اور ٹیلی فون کا ڈائل بھی گول ہوتا ہے
اور گول گول گھومتا ہے
عقل کی طرح
ہندسے ختم نہیں ہوں گے
اور صفر بھی آتے ہی رہیں گے
کیونکہ ابتدا بھی صفر ہے
اور شاید انتہا بھی
لیکن یہ بیچ کے ہندسے
کیا کہا زور سے بولو
بور ہو گئی ہو
تمہارا سر صفی کہ تکرار سن سن کر چکرا رہا ہے
اچھا۔۔۔۔۔ تو پھر
بائی بائی
خدا حافظ
 

فاتح

لائبریرین
محمد خلیل الرحمٰن! آداب عرض ہے۔ گو کہ آپ کے اس مراسلے کے شکم سے کم از کم دس نثریاں ضرور خارج ہو سکتی ہیں لیکن اندیشہ ہائے گردن زدنی و ملامتِ یاراں کے باعث آپ کے بقول ہماری جانب سے خاموشی ہی کو مستقبل کی نظم جانیے۔ :D
 

فاتح

لائبریرین
ھیھات ، ھیھات، جہاں تک مستند غزل گو شعراء حضرات کے جدید نثری نظم کی بابت متعصبانہ رویے کا تعلق ہے، وہ تو محمود بھائی کی نثری نظموں پرمحفل کے شعرائے کرام کی آراء سے بخوبی آشکارا ہے۔ ایک حضرت نے تو جدت طرازی اور بزلہ سنجی کی حد کردی۔ انھوں نے کمال سادگی سے ہر ایک نثری نظم کے تمام مصرعوں کو، لائن فیڈز ختم کرکےایک جملے کی شکل دے دی اور ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہوئے انھیں اوالِ زریں قرار دے دیا
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
 

مغزل

محفلین
محترمی محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔۔۔
آپ کی محبت کے لیے سراپا سپاس ہوں ۔۔ نثری نظم کا میں خود بھی مقدمہ رکھتا ہوں ، سو ’’ ذرا سی بات پہ میں دل بُرا نہیں کرتا ‘‘۔۔
وقت وقت کی بات ہے ۔۔ کبھی شکوہِ الفاظ کے خوگر ۔۔’’ملیح آبادی‘‘ لہجے میں ’’ آزاد نظم ‘‘ کو ’’ مینڈکو ں کا جلوس ‘‘ قرار دیا کرتے تھے ۔۔۔
وہ وقت نے ثابت کیا کہ مینڈکوں کا جلوس ’’ لانگ مارچ ‘‘ سے کم ثابت نہیں ہوا۔۔ سو آنے والے وقتوں میں اگر ’’نثم ‘‘ نثری شاعری کا وجود رہا۔۔
تو وقت فیصلہ کرنے میں ہچکچاتا نہیں ہے ۔۔۔ میرا کام چراغ جلانا اور ہوا سے بچانا ہے ۔۔ ’’ اب آگے جس کی خوشی ہے وہ سرفراز کرے ‘‘ کے مصداق
منتظرم ، متشکرم ۔۔ کی صورت بنے بیٹھا ہوں۔۔۔ سو کبھی ہم مل بیٹھیں گے تو خوب گفتن گفتن رہے گی ۔۔ آپ بھی میری طرح ’’ ٹک دیدم ‘‘ بنے رہیں ۔۔
اختلاف کرنا سبھی احباب کا حق ہے سو اختلاف کرنے دیجے ۔۔ ہم سب ایک ہی تو ہیں ۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔۔ آمین
 

فاتح

لائبریرین
محترمی محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔۔۔
آپ کی محبت کے لیے سراپا سپاس ہوں ۔۔ نثری نظم کا میں خود بھی مقدمہ رکھتا ہوں ، سو ’’ ذرا سی بات پہ میں دل بُرا نہیں کرتا ‘‘۔۔
وقت وقت کی بات ہے ۔۔ کبھی شکوہِ الفاظ کے خوگر ۔۔’’ملیح آبادی‘‘ لہجے میں ’’ آزاد نظم ‘‘ کو ’’ مینڈکو ں کا جلوس ‘‘ قرار دیا کرتے تھے ۔۔۔
وہ وقت نے ثابت کیا کہ مینڈکوں کا جلوس ’’ لانگ مارچ ‘‘ سے کم ثابت نہیں ہوا۔۔ سو آنے والے وقتوں میں اگر ’’نثم ‘‘ نثری شاعری کا وجود رہا۔۔
تو وقت فیصلہ کرنے میں ہچکچاتا نہیں ہے ۔۔۔ میرا کام چراغ جلانا اور ہوا سے بچانا ہے ۔۔ ’’ اب آگے جس کی خوشی ہے وہ سرفراز کرے ‘‘ کے مصداق
منتظرم ، متشکرم ۔۔ کی صورت بنے بیٹھا ہوں۔۔۔ سو کبھی ہم مل بیٹھیں گے تو خوب گفتن گفتن رہے گی ۔۔ آپ بھی میری طرح ’’ ٹک دیدم ‘‘ بنے رہیں ۔۔
اختلاف کرنا سبھی احباب کا حق ہے سو اختلاف کرنے دیجے ۔۔ ہم سب ایک ہی تو ہیں ۔۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔۔ آمین
یہ سب کہنا آپ کا حق ہے لیکن یہ بتاتے جائیے کہ جو کچھ آپ نے لکھا اسے جملے یا اقوالِ زریں کیوں نہ کہا جائے اور نظم کیوں کہا جائے؟ کیا صرف لائن بریکس کی وجہ سے؟
 
محترمی محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔۔۔
آپ کی محبت کے لیے سراپا سپاس ہوں ۔۔ نثری نظم کا میں خود بھی مقدمہ رکھتا ہوں ، سو ’’ ذرا سی بات پہ میں دل بُرا نہیں کرتا ‘‘۔۔
ہمیں یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم نادانستہ طور پر بھس میں چنگاری لگانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کیا کہیں! محمود مغل مغزل بھائی کی خوبصورت نثری نظموں پر اس قدر رسیلے (جوسی کا ترجمہ) تبصرےپڑھ کر ذہنی رو بہک گئی ( جسے انگریزی میں برین ویو کہتے ہیں) ہماری رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور ہم نے اُس موضوع پر قلم اُٹھا لیا جس پر سنجیدہ گفتگو کے ہم اپنے آپ کو بالکل اہل نہیں پاتے۔ جس کا اظہار بھی ہم نے اسی نوٹ کے شروع میں ہی کردیا تھا۔


کوٹ ’’
قطع نظر اسکے کہ ہم جیسے نوآموز شعراء یعنی کندگانِ ناتراش جب بھی غزل کہنے کی کوشش فرماتے ہیں ، نہ جانے کہاں سے ، آپ ہی آپ، نثری نظم تیار ہوجاتی ہے‘‘ ان کوٹ​
گو خود شاعری اور اِس کی نازک مزاجی ہم نو واردانِ بساطِ ہوائے دِل کے لیے ادرک اور زعفران کے مترادف ہی ہے ، چہ جائیکہ اردو نظم کے نئے رجحانات۔ ہم برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک طرف غزلِ قدیم کی ندرتیں و نزاکتیں اور دوسری جانب جدید اردو نظم دونوں ہی طبقہ ھائے فکر ہمارے لیے( اپنی ذاتی کم فہمی و کج فہمی کے باعث) نہ صرف ہماری فہم سے بالاتر ہیں بلکہ ہمارے لیے دونوں ہی قابلِ احترام ہیں۔ اگر ہم مغل مغزل بھائی، فاتح بھائی، محمد وارث بھائی، الف عین استادِ محترم اعجاز عبید صاحب سمیت تمام محفلین میں سے کسی کی بھی دِل آزاری کے باعث بنے ہیں تو ہماری طرف سے دلی معذرت قبول کیجیے اور ہماری جانب سے اپنے دِل کو صاف کیجیے۔

پیرے میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات​
مقصود اِس سے قطعِ محبت نہیں ہمیں​
 

محمد وارث

لائبریرین
نثری نظم کب اور کیونکر وجود میں آئی؟ کیا ن ۔م۔ راشد ، اور میراجی سے پہلے بھی نثری نظم کا وجود تھا؟​

صرف ایک وضاحت خلیل صاحب اور وہ یہ کہ راشد اور میرا جی کی نظم، نثری نظم نہیں ہے بلکہ آزاد نظم ہے، اور یہ تو آپ بخوبی جانتے ہی ہونگے کہ آزاد نظم میں صرف قافیہ ردیف کی آزادی ہوتی ہے، وزن کی نہیں، آزاد نظمیں ضرور کسی نہ کسی وزن میں ہوتی ہیں، مثلاً راشد

زندگی سے ڈرتے ہو
فاعلن مفاعیلن

اسی تناظر میں مولانا محمد حسین آزاد کی نظمیں یا شفیق الرحمٰن کی مزاحیہ نظمیں دیکھیں تو آپ کو وزن میں نظر آئیں گی۔ اور آزاد نظم تو ایک مستقل صنف ہے، اور بعض شعرا نے تو شہرت ہی صرف آزاد نظم سے حاصل کی ہے۔

جب کہ نثری نظم میں وزن کی پابندی بھی نہیں کی جاتی، اسی لیے نثری کہلاتی ہے۔
 

مغزل

محفلین
یہ سب کہنا آپ کا حق ہے لیکن یہ بتاتے جائیے کہ جو کچھ آپ نے لکھا اسے جملے یا اقوالِ زریں کیوں نہ کہا جائے اور نظم کیوں کہا جائے؟ کیا صرف لائن بریکس کی وجہ سے؟
فاتح بھیا ، میں نے خلیل بھائی سے عرض گزاری کا شرف حاصل کیا تھا، بہر کیف و بہ ہر حال آپ سمیت سبھی احباب کو رائے دینے کی مکمل آزادی ہے۔۔ میں نے خدانخواستہ کوئی قدغن نہیں لگائی ۔۔:applause:
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھیا ، میں نے خلیل بھائی سے عرض گزاری کا شرف حاصل کیا تھا، بہر کیف و بہ ہر حال آپ سمیت سبھی احباب کو رائے دینے کی مکمل آزادی ہے۔۔ میں نے خدانخواستہ کوئی قدغن نہیں لگائی ۔۔:applause:
حضور! ہم نے تو محض سوال کیا تھا کہ
نثری نظم کیا چیز ہے؟
اس کی پہچان کیسے ممکن ہے؟
اگر میں یہ کہوں کہ میرا یہ مراسلہ ایک نثری نظم ہے تو کیا یہ کافی ہے؟
کوئی ایسی جامع تعریف بتا دیں ہمیں جس سے اقوال زریں/جملوں اور نثری نظم میں تفریق ممکن ہو سکے۔
ممنون رہوں گا۔
 

مغزل

محفلین
حضور! ہم نے تو محض سوال کیا تھا کہ
نثری نظم کیا چیز ہے؟
اس کی پہچان کیسے ممکن ہے؟
اگر میں یہ کہوں کہ میرا یہ مراسلہ ایک نثری نظم ہے تو کیا یہ کافی ہے؟
کوئی ایسی جامع تعریف بتا دیں ہمیں جس سے اقوال زریں/جملوں اور نثری نظم میں تفریق ممکن ہو سکے۔
ممنون رہوں گا۔
فاتح بھائی معافی چاہتا ہوں اس سلسلے میں ، میں آپ کی خواہش کا احترام نہ کرسکوں گا، لکھنے کو دفتر درکار ہیں اور مصروفیات سرکھجانے کاموقع بھی نہیں دے رہی ہیں ۔۔۔:unsure:
 
محمد خلیل الرحمٰن! آداب عرض ہے۔ گو کہ آپ کے اس مراسلے کے شکم سے کم از کم دس نثریاں ضرور خارج ہو سکتی ہیں لیکن اندیشہ ہائے گردن زدنی و ملامتِ یاراں کے باعث آپ کے بقول ہماری جانب سے خاموشی ہی کو مستقبل کی نظم جانیے۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::laughing::laughing::laughing:
 
Top