بھائی، حق تو یہ ہے کہ
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کا یہ فقرہ ان سے زیادہ مجھ پہ صادق آتا ہے کہ
گو خود شاعری اور اِس کی نازک مزاجی ہم نو واردانِ بساطِ ہوائے دِل کے لیے ادرک اور زعفران کے مترادف ہی ہے ، چہ جائیکہ اردو نظم کے نئے رجحانات۔
میں ٹھہرا من چاہی روایات کا پابند۔ غزل مجھے بھاتی ہے۔ سو اس کی رمزیں پہچاننے کی سعی رہی۔ نظم میں چاہے انیسؔ کے پردرد مرثیے ہی کیوں نہ ہوں، جن کی تاثیر کا قائل نہ ہونا گویا ایک قسم کا ذوقی کفر ہے، الا ماشاءاللہ مجھے کچھ پسند نہیں آتا۔ اس لیے سمجھنے کا تردد بھی کچھ خاص نہیں کیا۔
ایک تاثر البتہ ہے۔ معلوم نہیں اسے نثری نظم کی تعریف کہنا چاہیے یا آدرش۔ لیکن ہے یوں کہ نثری نظم درحقیقت دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اسے نظم ہونا چاہیے۔ یعنی نظم کے تمام لوازمات بشمول شعریت، غنائیت، معنویت، کلیت وغیرہ اس میں ہوں۔ دوسرا پہلو استثنا کا ہے کہ نظم میں جو وزن کی قید ہے اس سے مبرا ہو۔
اب دیکھا جائے تو نثری نظم کے مصاریع یا سطور کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انھیں اگر انھیں قطع کیے بغیر لگاتار لکھا یا پڑھا جائے تو نثرپارہ معلوم ہو۔ بلکہ ہر مصرع کی، جیسا کہ نظم کا کلاسیکی دستور رہا ہے، ایک جداگانہ حیثیت بھی ضروری ہے۔ یہ جداگانہ حیثیت معنوی اور لفظی دونوں پہلوؤں سے ہونی چاہیے۔ لفظی حیثیت میں شعریت اور غنائیت کا بڑا تعلق لفظوں کی ترتیب سے ہے۔ یہ غنائیت بسا اوقات نثر نگاروں کے ہاں بھی غیرشعوری طور پر پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن فرق پھر وہی ہے کہ نثر نگار کے جملے اپنی الگ لفظی اور معنوی حیثیت میں مصرعوں کے مقابل نہیں رکھے جا سکتے۔
آزاد نظم چونکہ ہمارے ہاں انگریزی ادبیات کے تتبع میں شروع ہوئی اس لیے اس میں الفاظ کے اس الٹ پھیر سے کام کم لیا گیا جو عروضی ضروریات کے باعث اردو فارسی شاعری میں کم و بیش لازم تھا۔ نثری نظم آزاد نظم ہی کے نقوشِ قدم پہ رواں ہوئی۔ لہٰذا جنھیں مصرعے ہونا چاہیے تھا وہ واقعی محض جملے بن کر رہ گئے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یورپی شاعری میں ترتیبِ نحوی سے انحراف ہماری روایت کے مقابلے میں کالمعدوم ہے۔ شعریت کے فقدان نے اسی طرح "اقوالِ زریں" کا التباس پیدا کیا۔
منٹو نے اپنے مضامین میں کہیں "ادبِ لطیف" کی بھد اڑاتے ہوئے کچھ شذرات پیش کیے ہیں۔ یاد ہوتے تو یہاں لکھتا۔ ان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ غنائیت اور شعریت بہرحال نثر میں ہو سکتی ہے۔ معنویت تو ہے سو ہے۔ باقی رہ گئی نظم کی جداگانہ حیثیت سو اس کے لیے وہی قاعدہ شاید ہو جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔
نثری نظم کی علامتی حیثیت کے پیشِ نظر اس کی قلبِ ماہیئت کا بھر پور اندیشہ ہے۔
علامتیت نثری نظم کے عناصرِ ترکیبی میں شامل نہیں۔ نثری نظم سے اس کا تعلق فی نفسہ اتنا ہی ہے جتنا افسانے سے۔ فن کار کی افتادِ طبع اور رجحانات موافق ہوں تو علامتیت ظہور کر سکتی ہے ورنہ کوئی ایسا لزوم میں نہیں دیکھتا۔