محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
ویسے یہ ہم سندھ والے "لسانی مسئلوں" کیوں اتنا الجھتے ہیں؟؟؟ایک لسانی مسئلے کو اجاگر کرنے
ویسے یہ ہم سندھ والے "لسانی مسئلوں" کیوں اتنا الجھتے ہیں؟؟؟ایک لسانی مسئلے کو اجاگر کرنے
بے شک راحل بھائی !۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ہی کے طفیل اُردُو کے دو ماہرین کے اِس مباحثے سےماشاء اللہ، کیا زبردست علمی مذاکرہ ہوا ہے. لطف اگیا.
جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور قبلہ سید عاطف علی بھائی کا تہہ دل سے شکریہ کہ انہوں نے وقت نکال کر اتنی تفصیل سے اپنا اپنا موقف بیان کیا.
دیگر احباب جو اس نادر علمی بحث سے محظوظ و مستفید ہوئے ہوں، برائے مہربانی میرا کمیشن بذریعہ ایزی پیسہ مجھے بھیج دیں کہ اس قمیتی مذاکرے کا محرک یہ ناچیز بنا
گفتگو سمیٹ دی گئی ہے جو اس بات پر ختم ہوئی کہ ایسی بعض صورتیں ماضی میں دستیاب ہیں مگر بہت شاذ ہیں سو ان سے گریز بہتر ہے حالانکہ میں نے یہ پڑھ رکھا تھا کہ
رشید حسن خان نے لکھا ہے کہ :
*”اعلان یا اخفا سے متعلق اصل معیار ذوقِ سلیم ہوگا۔ مصرعے کی روانی اور اس کا آہنگ اگر اخفا کا متقاضی ہو تو وہی صحیح ہے۔ اور اگر اعلان کا طالب ہو تو وہی درست ہے۔ لفظ مفرد ہو یا مرکب، کچھ فرق نہیں پڑتا“*
[زبان اور قواعد - صفحہ 288]
اور پھر نصیر ترابی صاحب کا یہ کلیہ کہ
”فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے. مثلاً غالب کا یہ مصرع
*؏" نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے"*
شعریات ۔ صفحہ نمبر 167 - پیرا ماؤنٹ پبلشنگ انٹر پرائز، کراچی، پاکستان]
اور پھر اسی تحریر سے ایک مزید ٹکڑا
(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے“*)
[دورِ شاعری ۔ صفحہ نمبر 158 - ناشر : سید حسن اکمال، سیکرٹری "انجمن محافظِ اردو" لکھنؤ]
اب بتائیں میرے لیے کیا حکم ہے کیا میں مسلک شافعی درست ہونے کے با وجود مسلک حنفی ہے اختیار کروں
’’بعض اساتذہ‘‘ سے شاید ان کی مراد حضرت جگرؔ مراد آبادی ہوں۔ ’’فخرِ ہندوستان‘‘ کے حاشیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اس طرح اعلانِ نون کو جائز سمجھتے ہیں ۔۔۔ تاہم قبلہ و استاذی جناب سرور عالم سرورؔ صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ یہ جگرؔ کا اجتہاد ہے، جو ہم کو کفایت نہیں کرتا۔ واللہ اعلم!"فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے۔"
باقی رہی نصیر ترابی صاحب کی بات تو اب میں کیا کہوں۔ اس بارے میں میرا خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ان کی علمیت تو ان کی اسی محولہ بالا بات سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ "فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے۔" لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے لکھے ایک جملے کو آپ نے "نصیر ترابی صاحب کا کلیہ" بنادیا ۔ صاحب ، اتنا ظلم مت کیجئے ۔
راحل بھائی ، نصیر ترابی صاحب سے منسوب کردہ اس اقتباس پر وجۂ اعتراض اور باعثِ حیرت یہ بعض اساتذہ والا ٹکڑا نہیں تھا بلکہ ان کا یہ بیان تھا کہ: " فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا ۔۔۔" ۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بیان ہے ۔ عربی میں تو نون غنہ نہیں ہوتا لیکن فارسی میں تو بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ بے شمار فارسی الفاظ میں نون غنہ ہے ۔ مرکبات میں اخفائے نون کا اصول تو فارسی ہی سے اردو میں آیا ہے۔ ان صاحب کو شاید اس بات سے غلط فہمی ہوئی کہ فارسی میں نون معلنہ اور نون غنہ دونوں نقطے کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ یعنی فارسی میں ایں اور آں کو بھی این اور آن لکھا جاتا ہے ۔ شروع شروع میں اردو میں بھی دونوں قسم کے نون فارسی کی اتباع میں منقوط ہی لکھے جاتے تھے ۔ اکثر پرانی کتب میں آپ ہیں اور وہاں وغیرہ کو ہین اور وہان لکھا ہوا پائیں گے ۔ بعد میں علمائے اردو نے یہ طے کیا کہ لفظ کے آخر میں نون غنہ کو بغیر نقطے کے لکھا جائے گا۔ (لفظ کے درمیان میں تو نون غنہ اب بھی منقوط لکھا جاتا ہے ۔ اس درمیانی نون غنہ کو نون معلنہ سے ممتاز کرنے کے لئے ایک اعرابی علامت بھی تجویز کی گئی ہے لیکن اردو میں اعراب لگانے کی روایت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بعض لغات میں شاید اس علامت کا اہتمام کیا گیا ہو ۔)’’بعض اساتذہ‘‘ سے شاید ان کی مراد حضرت جگرؔ مراد آبادی ہوں۔ ’’فخرِ ہندوستان‘‘ کے حاشیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اس طرح اعلانِ نون کو جائز سمجھتے ہیں ۔۔۔ تاہم قبلہ و استاذی جناب سرور عالم سرورؔ صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ یہ جگرؔ کا اجتہاد ہے، جو ہم کو کفایت نہیں کرتا۔ واللہ اعلم!