نحیف جسم پہ ہجرِگران ٹوٹ پڑا

اردو عروض چوں کہ فارسی سے ماخوذ ہے اس لیے فارسی الفاظ کے معاملے میں میری ذاتی رائے ہے کہ سند بھی وہیں سے لی جانے چاہیے۔ یعنی اگر گران و کران فارسی میں کہیں فعول کے وزن پر مستعمل ہیں تو انھیں اعلانِ نون کے ساتھ باندھنا درست ہوگا وگرنہ روایت شکنی۔
 
ماشاء اللہ، کیا زبردست علمی مذاکرہ ہوا ہے. لطف اگیا.
جناب ظہیراحمدظہیر بھائی اور قبلہ سید عاطف علی بھائی کا تہہ دل سے شکریہ کہ انہوں نے وقت نکال کر اتنی تفصیل سے اپنا اپنا موقف بیان کیا.

دیگر احباب جو اس نادر علمی بحث سے محظوظ و مستفید ہوئے ہوں، برائے مہربانی میرا کمیشن بذریعہ ایزی پیسہ مجھے بھیج دیں کہ اس قمیتی مذاکرے کا محرک یہ ناچیز بنا :D:D:D
بے شک راحل بھائی !۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ہی کے طفیل اُردُو کے دو ماہرین کے اِس مباحثے سے
ہم طفلانِ مکتب کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی نثر پڑھنے
کو ملی جس میں موضوع کی جو خشکی تھی وہ۔۔۔۔ محبت اور یگانگت اور باہمی احترم کی نرم و لطیف
اور مہکتی ہواؤں سے آخری لفظ تک تر اور معطررہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واہ!

خاک کس مستِ محبت کی ہے ساقی اِن میں
کہ ۔مجھے۔ بوئے وفا۔ آتی ہے، پیمانوں سے​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گفتگو سمیٹ دی گئی ہے جو اس بات پر ختم ہوئی کہ ایسی بعض صورتیں ماضی میں دستیاب ہیں مگر بہت شاذ ہیں سو ان سے گریز بہتر ہے حالانکہ میں نے یہ پڑھ رکھا تھا کہ
رشید حسن خان نے لکھا ہے کہ :
*”اعلان یا اخفا سے متعلق اصل معیار ذوقِ سلیم ہوگا۔ مصرعے کی روانی اور اس کا آہنگ اگر اخفا کا متقاضی ہو تو وہی صحیح ہے۔ اور اگر اعلان کا طالب ہو تو وہی درست ہے۔ لفظ مفرد ہو یا مرکب، کچھ فرق نہیں پڑتا“*
[زبان اور قواعد - صفحہ 288]

اور پھر نصیر ترابی صاحب کا یہ کلیہ کہ

”فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے. مثلاً غالب کا یہ مصرع
1f618.png

*؏" نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے"*
شعریات ۔ صفحہ نمبر 167 - پیرا ماؤنٹ پبلشنگ انٹر پرائز، کراچی، پاکستان]

اور پھر اسی تحریر سے ایک مزید ٹکڑا

(شاعر کے لیے جہاں تک ممکن ہو، بغیر ترکیب نون غُنّہ کا اعلان کرے. گو اعلان نہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن فصاحت اعلان ہی میں ہے“*)
[دورِ شاعری ۔ صفحہ نمبر 158 - ناشر : سید حسن اکمال، سیکرٹری "انجمن محافظِ اردو" لکھنؤ]

اب بتائیں میرے لیے کیا حکم ہے کیا میں مسلک شافعی درست ہونے کے با وجود مسلک حنفی ہے اختیار کروں

جناب رضوی صاحب ، میں تو اس بحث کو اپنی طرف سے کل سمیٹ چکا اور جو کچھ مجھے اس موضوع پر کہنا تھا وہ میں کہہ چکا۔ لیکن آپ کا محولہ بالا مراسلہ دیکھنے کے بعد یہ سطور لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ آپ نے رشید حسن خان کی تحریر کا حوالہ دینے میں ایمانداری سے کام نہیں لیا اور ان کے الفاظ کو بدل دیا ۔ انہوں نے یہ قطعی نہیں کہا کہ "لفظ مفرد ہو یا مرکب ، کچھ فرق نہیں پڑتا"۔ آپ دوبارہ دیکھئے اور حوالہ درست کیجئے ۔ دوسری اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے سترہ صفحات پر مشتمل مفصل مضمون کی ابتدا میں سے یہ ایک جملہ (جو ان کی رائے پر مبنی ہے) لینے سے بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ اس پورے مضمون میں انہوں نے کم و بیش وہی باتیں کی ہیں کہ جو میں نے مختصراً اپنے پچھلے مراسلوں میں لکھیں ۔ اعلانِ نون کی بحث ایک قدیم بحث ہے جس پر پچھلے سو سالوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن اکثر مباحث مرکبات میں اعلانِ نون و اخفائے نون سے متعلق ہیں۔ مفرد الفاط پر بات بہت کم کی گئی ہے۔ رشید حسن صاحب بہت بڑے ماہرِ لسانیات اور محقق تھے اور انہوں نے اردو زبان پر بیش بہا کام کیا ہے۔ ایک دنیا ان کے کام کی معترف ہے۔ ہم طلبائے اردو تو ان کے خوشہ چینوں میں سے ہیں۔ باقی رہی نصیر ترابی صاحب کی بات تو اب میں کیا کہوں۔ اس بارے میں میرا خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ان کی علمیت تو ان کی اسی محولہ بالا بات سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ "فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے۔" لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے لکھے ایک جملے کو آپ نے "نصیر ترابی صاحب کا کلیہ" بنادیا ۔ صاحب ، اتنا ظلم مت کیجئے ۔ اس موضوع کے ہر اختلافی پہلو پر مفصل بحث و تمحیص کے بعد کوئی کلیہ تو رشید حسن خان نے بھی نہیں بنایا ۔ انہوں نے بھی اس مسئلے کا جائزہ لینے کے بعد دیگر محققین اور شارحین کی طرح ایک نتیجہ نکالا اور پھر اپنی رائے پیش کی ہے۔ اگر آپ اس موضوع پر مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو محترمی سرور عالم راز سرور کا ایک مضمون " اعلانِ نون اور اخفائے نون ۔ چند تصریحات" ان کی ویبگاہ پر موجود ہے ۔ سات آٹھ صفحات کا مضمون ہے ۔ جی چاہے تو دیکھ لیجئے ۔
خیر ، یہ بحث تو یہاں ختم ہوئی ۔ میں اپنا مؤقف پیش کرچکا۔ اس طرح کے اختلافی مسائل میں قاری کو تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اپنے لئے فیصلہ خود کرنا پڑتا ہے ۔ چونکہ یہ ساری گفتگو آپ کی غزل کے ضمن میں شروع ہوئی تو ایک بات اس بارے میں بھی عرض کرتا چلوں ۔ "ٹوٹ پڑنا" ایک معروف محاورہ ہے جس کے معانی سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں یعنی اچانک حملہ کرنا ، پل پڑنا ، ہجوم کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ ٹوٹ پڑنا کو آپ نے اس غزل کی ردیف بنایا ہے اور اس کے بعد بے کران ٹوٹ پڑا ، دھیان ٹوٹ پڑا ، وغیرہ استعمال کیا ہے جو میری رائے میں کچھ عجیب و غریب سا ہے ۔ کسی شخص کا کسی مزار پر بیکراں ٹوٹ پڑنا ؟! اس کا کیا مطلب ہوا ۔ بیکراں کی صفت کسی فعل کے لئے کس طرح استعمال کی جاسکتی ہے؟
 
"فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے۔"
’’بعض اساتذہ‘‘ سے شاید ان کی مراد حضرت جگرؔ مراد آبادی ہوں۔ ’’فخرِ ہندوستان‘‘ کے حاشیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اس طرح اعلانِ نون کو جائز سمجھتے ہیں ۔۔۔ تاہم قبلہ و استاذی جناب سرور عالم سرورؔ صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ یہ جگرؔ کا اجتہاد ہے، جو ہم کو کفایت نہیں کرتا۔ واللہ اعلم!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
باقی رہی نصیر ترابی صاحب کی بات تو اب میں کیا کہوں۔ اس بارے میں میرا خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ ان کی علمیت تو ان کی اسی محولہ بالا بات سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ "فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا، لہٰذا بعض اساتذہ کے نزدیک اضافت کے ساتھ نون کا اعلان بھی جائز سمجھا گیا ہے۔" لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے لکھے ایک جملے کو آپ نے "نصیر ترابی صاحب کا کلیہ" بنادیا ۔ صاحب ، اتنا ظلم مت کیجئے ۔
’’بعض اساتذہ‘‘ سے شاید ان کی مراد حضرت جگرؔ مراد آبادی ہوں۔ ’’فخرِ ہندوستان‘‘ کے حاشیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اس طرح اعلانِ نون کو جائز سمجھتے ہیں ۔۔۔ تاہم قبلہ و استاذی جناب سرور عالم سرورؔ صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ یہ جگرؔ کا اجتہاد ہے، جو ہم کو کفایت نہیں کرتا۔ واللہ اعلم!
راحل بھائی ، نصیر ترابی صاحب سے منسوب کردہ اس اقتباس پر وجۂ اعتراض اور باعثِ حیرت یہ بعض اساتذہ والا ٹکڑا نہیں تھا بلکہ ان کا یہ بیان تھا کہ: " فارسی و عربی میں چونکہ "ن" بغیر نقطے کے مستعمل نہیں، یعنی "نون غُنّہ" نہیں ہوتا ۔۔۔" ۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بیان ہے ۔ عربی میں تو نون غنہ نہیں ہوتا لیکن فارسی میں تو بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ بے شمار فارسی الفاظ میں نون غنہ ہے ۔ مرکبات میں اخفائے نون کا اصول تو فارسی ہی سے اردو میں آیا ہے۔ ان صاحب کو شاید اس بات سے غلط فہمی ہوئی کہ فارسی میں نون معلنہ اور نون غنہ دونوں نقطے کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ یعنی فارسی میں ایں اور آں کو بھی این اور آن لکھا جاتا ہے ۔ شروع شروع میں اردو میں بھی دونوں قسم کے نون فارسی کی اتباع میں منقوط ہی لکھے جاتے تھے ۔ اکثر پرانی کتب میں آپ ہیں اور وہاں وغیرہ کو ہین اور وہان لکھا ہوا پائیں گے ۔ بعد میں علمائے اردو نے یہ طے کیا کہ لفظ کے آخر میں نون غنہ کو بغیر نقطے کے لکھا جائے گا۔ (لفظ کے درمیان میں تو نون غنہ اب بھی منقوط لکھا جاتا ہے ۔ اس درمیانی نون غنہ کو نون معلنہ سے ممتاز کرنے کے لئے ایک اعرابی علامت بھی تجویز کی گئی ہے لیکن اردو میں اعراب لگانے کی روایت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بعض لغات میں شاید اس علامت کا اہتمام کیا گیا ہو ۔)
جہاں تک مرکبات میں اعلانِ نون کا تعلق ہے تو میں خود اس بارے میں کوئی سخت موقف نہیں رکھتا (اپنے دو تین اشعار میں اعلانِ نون کے ساتھ ترکیب استعمال کی ہے)۔ جگر مراد آبادی سے پہلے بھی دیگر اساتذہ نے مرکبِ اضافی میں اعلانِ نون کیا ہے ۔ میر ، میر درد، غالب، مومن ، مصحفی، انشاء، جرات ، آتش، حالی ، اقبال ، فراق ، اور دیگر مشاہیر کے ہاں مرکبات میں اعلانِ نون کی مثالیں موجود ہیں۔ جو بحث اس لڑی میں اوپر ہوئی وہ تو ساری کی ساری اس بات پر ہوئی ہے کہ گران اور بیکران اردو میں مستعمل ہی نہیں ہیں۔ ہمیشہ گراں اور بیکراں استعمال ہوتے ہیں ، خواہ مجرد ہوں یا کسی ترکیب کا حصہ ہوں ۔ اس لئے گران اور بیکران لکھنا درست نہیں ہے ۔
 
Top