دادا مرحوم کا قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو نذرانۂ عقیدت، احبابِ محفل کی خدمت میں پیش ہے۔

قائدِ اعظمؒ (1)

یہ فطرت ہے بشر ہوتا ہے از نسلِ بشر پیدا
یہ قدرت ہے جو تم سا کر دیا اک شیرِ نر پیدا

چمن باقی تو ہوں گے سیکڑوں گل ہائے تر پیدا
یہ دنیا ہے تو ہوں گے سیکڑوں اہلِ بصر پیدا

ہزاروں لاکھوں ہوں گے صاحبِ فکر و نظر پیدا
نہیں ہونے کا اے قائد پہ تم سا راہبر پیدا

تمہیں اس مصرعِ اقبال کے مصداق ہو قائد
"بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا"

زمانہ منقلب ہوتا رہے پر مٹ نہیں سکتا
جو تیری یاد کا ہے دل میں نقشِ کالحجر پیدا

ترے ہاتھوں خدا نے مملکت ہم کو یہ دلوائی
اسی خاطر کیا تھا جیسے تجھ کو خاص کر پیدا

تو اپنی دھن کا پکا تھا جو کہتا تھا وہ کرتا تھا
شبِ تاریک میں تو نے کیا نورِ سحر پیدا

شکستہ پر مسلماں تھے کہاں اڑنے کی طاقت تھی
دمِ اعجاز سے تیرے ہوئے تھے بال و پر پیدا

ترے گنتی کے ساتھی تھے ہوا جب عازمِ منزل
ترے اقبال سے لاکھوں ہوئے پھر ہمسفر پیدا

نگاہوں میں تھی گو منزل مگر ناپید تھا رستہ
قدم زن جب ہوا تو ہو گئی خود رہ گزر پیدا

بھرے مجمع پہ ہو جاتا تھا سناٹا عجب طاری
تری تقریر سے ہوتا تھا جادو سا اثر پیدا

نہ چین آیا تجھے دن کو نہ نیند آئی تجھے شب بھر
بحالِ قوم جب سے دل میں تھا سوز و شرر پیدا

تری ہیبت مسلّم تھی تری سیرت جلالی تھی
اٹھا سکتا نہ فتنہ سر کہیں ہوتا بھی گر پیدا

ترا اعجاز یہ دیکھا ہے اے معمارِ پاکستاں
بنا رکھتے ہی گھر کی ہو گئے سب بام و در پیدا

پٹی راہوں پہ چلنا عار جانا آخری دم تک
کیا کرتا تھا چلنے کو الگ اپنی ڈگر پیدا

وطن کی خاک سے چنتے رہے ہم تو خزف ریزے
اسی مٹی سے تُو ہوتا تو کر لیتا گہر پیدا

بہر نخلِ چمن لگتے ہیں پھل پر غیر مطلوبہ
تجھے ارماں تھا جن کا وہ نہیں اب تک ثمر پیدا

تو خورشیدِ درخشاں ہے چمکتا ہی رہے گا تو
اُفق بدلا ہے بس تیرا اِدھر پنہاں اُدھر پیدا

سلام اے مطمئنہ روحِ پاکِ قائدِ اعظم
بنا کر تو نے پاکستاں کیا اک مستقر پیدا

ترے اس سبز پرچم کو ثریا تک جو پہنچا دے
خدا سے ہے دعا ایسا کرے بالغ نظرؔ پیدا
٭٭٭٭٭

قائدِ اعظمؒ (2)

نئی منزل کے جب ابھرے نشاں تھے
وہی بانگِ رحیلِ کارواں تھے

چراغِ راہ تھے منزل نشاں تھے
امیرِ مسلمِ ہندوستاں تھے

وہ ہندی میکدے میں اک اذاں تھے
نوائے خوش سروشِ دلستاں تھے

دماغ و دل تھے وہ سب کی زباں تھے
وہ پوری قوم کی روحِ رواں تھے

ضعیفی تھی مگر بوڑھے کہاں تھے
اولو العزمی کے پہلو سے جواں تھے

بظاہر گو نحیف و ناتواں تھے
بباطن وہ مگر کوہِ گراں تھے

تنِ مسلم میں وہ قلبِ بتاں تھے
رگِ ملت میں وہ خونِ رواں تھے

سدا افروختہ داغِ نہاں تھے
سکوتِ شب میں وہ سوتے کہاں تھے

دمِ تقریر یوں معجز بیاں تھے
کہ سب انگشت حیرت در دہاں تھے

خموشی بھی سخن پرور تھی ان کی
کبھی جب بولتے تو دُر فشاں تھے

نگاہوں سے ٹپکتی تھی ذہانت
متانت کے وہ اک کوہِ گراں تھے

سپہرِ بخت کے رخشندہ نیّر
ہمیں منزل میں مثلِ کہکشاں تھے

غمِ دنیا سے تھی گو بے نیازی
غمِ ملت سے لیکن خوں چکاں تھے

مذاقِ غزنوی رکھتے تھے دل میں
بتوں کے حق میں تیغِ بے اماں تھے

ہلے ان کے نہ پائے استقامت
وہیں تھے تا دمِ آخر جہاں تھے

اٹھایا قم باذن اللہ کہہ کر
مسیحا دم برائے مردہ جاں تھے

ستائش کیجئے جتنی بھی کم ہے
وہ اپنے عہد کی اک داستاں تھے

نظرؔ رحمت کی ہو ان پر خدایا
وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے
٭٭٭٭٭

قطعات --- بیادِ قائدِ اعظم

بسلسلۂ جشنِ صد سالہ 1977ء

1
لکھیں اہلِ قلم ان کے قصائد
کہ ان پر فرض یہ ہوتا ہے عائد
نظرؔ میں تو کہوں بس ایک جملہ
کروڑوں رحمتیں بر روحِ قائد

2
وہ اک مردِ مجاہد مردِ مومن
وہ خوش باطن مسلمانوں کا محسن
نہ بھولی ہے نہ بھولے یاد اس کی
منائیں ہر برس ہم یاد کا دن

3
چمک اٹھا شرارِ دردِ باطن
ہوئی بیدار چشمِ مردِ مومن
وطن آزاد پاکستاں بنایا
کٹی ظلمت کی شب آخر ہوا دن

4
ضمانت دے کے اک نو مملکت کی
کیا ثابت کہ تھا سچا وہ ضامن
زہے یومِ ولادت پر سعادت
کہیں سب لوگ اس دن کو بڑا دن

5
ہیں پاکستان کے بانی جنابِ قائدِ اعظم
حقیقت بن گیا دیکھیں کہ خوابِ قائدِ اعظم
سوالِ قومِ مسلم ہے تمام اقوامِ عالم سے
کہیں سے لا کے دکھلائیں جوابِ قائدِ اعظم

6
مردِ مؤمن وہ اک تہِ افلاک
تیز و طرار و دیدہ ور بے باک
موجِ طوفاں اسے خس و خاشاک
سرنگوں اس سے فتنۂ چالاک

محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی​
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ہیں پاکستان کے بانی جنابِ قائدِ اعظم
حقیقت بن گیا دیکھیں کہ خوابِ قائدِ اعظم
سوالِ قومِ مسلم ہے تمام اقوامِ عالم سے
کہیں سے لا کے دکھلائیں جوابِ قائدِ اعظم
 

الف نظامی

لائبریرین
ستائش کیجئے جتنی بھی کم ہے
وہ اپنے عہد کی اک داستاں تھے

نظرؔ رحمت کی ہو ان پر خدایا
وہ پاکستان کے بابا تھے جاں تھے​
 
Top