حسان خان
لائبریرین
نذرِ خالدہ
(مسلم یونیورسٹی میں خالدہ ادیب خانم کا خیر مقدم)
دل مسرت کی فراوانی سے دیوانہ ہے آج
دیکھنا یہ کون آخر زیبِ کاشانہ ہے آج
کیفِ صہبائے طرب میں غرق مے خانہ ہے آج
ہر شجر ساقئ مے، ہر پھول پیمانہ ہے آج
غنچہ و گل تھے یہی لیکن یہ رعنائی نہ تھی
اس گلستاں میں بہار اس دھوم سے آئی نہ تھی
نرگسِ مخمور ہے لذت کشِ خوابِ نشاط
پھوٹ نکلا ہے گل و نسریں سے سیلابِ نشاط
اہلِ محفل کے لیے مشکل ہے اب تابِ نشاط
آج پیمانوں سے چھلکے گی مئے نابِ نشاط
پرفشاں ہے جذبۂ پنہاں ابھرنے کے لیے
مضطرب ہے ذرہ ذرہ رقص کرنے کے لیے
پھر ادھر آئے نہ آئے یہ شمیمِ جاں فزا
پھر میسر ہو نہ ہو ایسا سماں ایسی ہوا
چھیڑ اس انداز سے اے مطربِ رنگیں نوا!
ٹوٹ جائے آج اک اک تار تیرے ساز کا
ذکر جس کا زہرہ و پرویں کے کاشانے میں ہے
وہ صنم بھی آج اپنے ہی صنم خانے میں ہے
خالدہ تو ہے بہشتِ ترکمانی کی بہار
تیری پیشانی پہ نورِ حریت آئینہ کار
تیرے رخ سے پرتوِ معصوم مریم آشکار!
تیرے جلوؤں کی صباحت سے فرشتے شرمسار
گل پیشماں قلبِ بلبل رشک سے دو نیم ہے
تیری باتوں میں خمارِ کوثر و تسنیم ہے
یوں تو ہم ہر شمعِ علم و فن کے پروانے رہے
یہ حقیقت ہے کہ ہم تیرے بھی دیوانے رہے
مدتوں اپنی زباں پر تیرے افسانے رہے
تو رہی بیگانہ لیکن ہم نہ بیگانے رہے
یاد تیری اک زمانے سے ہمارے دل میں تھی
تو یہاں آنے سے پہلے بھی اسی محفل میں تھی
شوق کی شورش، جمال و نور کا سیلاب ہے
ہر کلی سازِ طرب ہے، ہر نظر مضراب ہے
آنکھ حیراں، روحِ اربابِ وفا بیتاب ہے
یہ ہمارے خواب کی تعبیر ہے یا خواب ہے
لالہ و گل کیا چمن بھی تیرے قدموں پر نثار
یہ گہر ہائے سخن بھی تیرے قدموں پر نثار
اے مقدس حور! اے پروردۂ موجِ نسیم!
روحِ عشرت گاہِ ساحل، جانِ طوفانِ عظیم
تو نے تُرکوں کو دکھائی ہے صراطِ مستقیم
پھونک ڈالے ہیں تعصب کے حجاباتِ قدیم
ضعف دکھلایا ہے جب بھی فطرتِ احرار نے
آگ برسادی ہے تیرے نطقِ گوہر بار نے
رہ چکی ہے ہات میں تیرے وہ تیغِ بے نیام
جس کی جنبش نے بدل ڈالا حکومت کا نظام
تُرکِ افتادہ کو تو نے ہی دیا اذنِ خرام
تیرے ہی ہاتھوں نے چھلکائے ہیں آزادی کے جام
تو نے جو احساں کیے ہیں ملتِ احرار پر
نقش ہیں اب تک سمرنا کے در و دیوار پر
ہاں بتا دے ہم کو بھی اے روحِ اربابِ نیاز!
کس طرح مٹتا ہے آخر رنگ و خوں کا امتیاز
دل پہ کیوں کر فاش ہو جاتے ہیں آزادی کے راز
چھیڑتے ہیں کس طرح محفل میں بیداری کا ساز
تیری آنکھوں میں سرورِ عشرتِ جمہور ہے
آہ! یہ جوہر ہماری دسترس سے دور ہے
محرمِ درد و مسرت، راز دارِ صبح و شام
محفلِ فطرت کی خاموشی ہے تجھ سے ہمکلام
تیری ہستی آسمانِ تُرک کا ماہِ تمام
تو محبت، ہر نفس تیری محبت کا پیام
گلشنِ مشرق میں مانندِ صبا آئی ہے تو!
صبحِ روشن کا پیامِ جانفزا لائی ہے تو!
قربتِ گل کس قدر جاں بخش ہے خاروں سے پوچھ
چاند کی تنویر میں کیا لطف ہے تاروں سے پوچھ
نشۂ صہبا میں کیا لذت ہے میخواروں سے پوچھ
چارہ سازی میں مزا کیا ہے یہ بیماروں سے پوچھ
روح و دل کو جگمگا دے جلوہ آرائی تری
کم سے کم اتنا تو کر جائے مسیحائی تری
کوئی دم میں اس گلستاں سے نکلنا ہے ہمیں
فرشِ گل سے دور انگاروں پہ چلنا ہے ہمیں
خارزارِ غم کو پیروں سے کچلنا ہے ہمیں
جادۂ منزل میں گرنا ہے، سنبھلنا ہے ہمیں
درس ایسا دے کہ دل آزردۂ منزل نہ ہو
فکرِ لاحاصل نہ ہو، اندیشۂ باطل نہ ہو
(اسرار الحق مجاز)