نذر عقیدت بحضور امام عالی مقام

الف نظامی

لائبریرین
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ لاش جگر گوشہ بتول
اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
سیراب کرگیا تجھے خونِ رگ رسول
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول
کٹ جائے چڑھ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول​
اس دھاگہ میں امام عالی مقام کے بارے میں اپنے خیالات ، اشعار ، مضمون لکھیں۔
میری طرف سے:
آزادی و انقلاب کے امام
 
حُسینیت اب کہاں نہیں‌ہے

گلی گلی میں اسُی کا پرَچم
اسُی کا سَجدہ جَبیِں جَبیِں ہے
قَدم قَدم پے سَبیِل اُس کی
نظر نظر میں وہی مَکِیں ہے
ہَوا ہَوا میں اسُی کے نوحے
وہی تصویر خلا نشیں ہے
اسُی کا ماتم ہے آگ پر بھی
اسُی کا غم خلُد کا امَیں ہے
فَلک فَلک پہ لہُو اسی کا
اسُی کی مَجلس زَمیں زَمیں ہے
حسُینیت کو مٹِانے والو
حسُینیت اب کہاں نہیں ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست دردست یزید
حقا کہ بناے لاالہ است حسین
از خواجہ معین الدین حسن چشی رحمۃ اللہ علیہ​
 
بولے حسین علیہ السلام مولا تیری رضا کی خاطر
اک اک کرکے میں نے ہیرے لٹا دیے ہیں
سید نے کربلا میں وعدے نبھا دیے ہیں​
 
قرآن اور حسین(ع) کے ہیں حرف چار چار
دو ان میں نقطے ہیں دوران میں نقطہ دار
آخر میں "ن" دونوں کے کیا ربط نیک ہے
قرآن اور حسین (ع) کا مفہوم ایک ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ بالیقیں حسین ہے

لباس ہے پھٹا ہوا ،غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے​
یہ جسکی ایک ضرب سے ، کمالِ فنِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اٹھی صدائے الاماں زبان شرق وغرب سے

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کانورِ عین ہے​
عبا بھی تار تار ہے تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی ، فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محو کارزار ہے

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے​
دلاوری میں فرد ہے بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جسکے دبدے سے دشمنوں کا رنگ زرد ہے
حبیبِ مصطفی ہے مجاہدِ خدا ہے یہ
کہ جسطرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے​
اُدھر سیاہ شام ہے ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں ادھر فقط امام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے
از حفیظ جالندھری​
 
تو ہی بخششوں کی نوید ہے تو شفاعتوں کا پیام ہے
تو یقین پنہ تو ہی دیں پنہ تو ہی رفعتوں کا امام ہے
تو دل علی(ع)و بتول(ع) ہے تو سوار دوش رسول(ص) ہے
چلے جس کا سکہ ابدتلک تو وہ شاہ عالی مقام ہے
تری چشم لطف وہ عطار ہے سدا کاسہ میرا بھرا رہے
کہ جو تیرے در کے غلام ہیں، یہ ندیم انکا غلام ہے​
(محمد اختر ندیم)​
 
Top