غزل قاضی
محفلین
نذر غالب
اس کشمکشِ ذہن کا حاصِل نہیں کچھ بھی
انکارار کو ٹھکرائے ، نہ اقرار کو چاہے
مفرور طلب رات کو حاصل کرے بن باس
مغرور بدن گرمیء بازار کو چاہے
سنبھلے نہ زخمِ زیست سے بوجھ آب و ہوا کا
آسائش ِ دُنیا در و دیوار کو چاہے
آنکھیں روشِ دوست پہ بچھتی چلی جائیں
اور دوست کہ طبعِ سَر خوددار کو چاہے
قوم ایسی کہ چلتے ہُوئے اشعار سے مانوس
مضمون کہ اِس صورتِ دشوار کو چاہے
اِک دل کہ بھرا آئے نہ سمجھے ہوئے غم سے
اِک شعر کہ پیرائیہ اظہار کو چاہے
(مصطفیٰ زیدی از کوہِ ندا )
اس کشمکشِ ذہن کا حاصِل نہیں کچھ بھی
انکارار کو ٹھکرائے ، نہ اقرار کو چاہے
مفرور طلب رات کو حاصل کرے بن باس
مغرور بدن گرمیء بازار کو چاہے
سنبھلے نہ زخمِ زیست سے بوجھ آب و ہوا کا
آسائش ِ دُنیا در و دیوار کو چاہے
آنکھیں روشِ دوست پہ بچھتی چلی جائیں
اور دوست کہ طبعِ سَر خوددار کو چاہے
قوم ایسی کہ چلتے ہُوئے اشعار سے مانوس
مضمون کہ اِس صورتِ دشوار کو چاہے
اِک دل کہ بھرا آئے نہ سمجھے ہوئے غم سے
اِک شعر کہ پیرائیہ اظہار کو چاہے
(مصطفیٰ زیدی از کوہِ ندا )