فرخ منظور
لائبریرین
یہ نظم اتنی اچھی ہے کہ میں اسے بغیر سیدہ شگفتہ کی اجازت کے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں - کیونکہ شاعری والے سیکشن میں ہر شخص نہیںجاتا -
یہ نظم سحر انصاری کی کتاب نمود سے شگفتہ صاحبہ نے ٹائپ کی ہے اور انہی کو اس نظم کا ثواب جاتا ہے - بہت شکریہ سیدہ شگفتہ
مزید کلام کے لیے یہاں دیکھیے -
نسلِ زیاں گزیدہ
ہم آج تہذیب کے سفر میں
کہاں سے کس سمت آ گئے ہیں
ہمارے احساس کے نگر میں
یہ کیسے آسیب چھا گئے ہیں
نہ کوئی اوّل ، نہ کوئی آخر
نہ کوئی باطن ، نہ کوئی ظاھر
نہ کوئی پنہاں ، نہ کوئی پیدا
نہ کوئی توریت ہے ، نہ گیتا
نہ کوئی گوتم ، نہ کوئی عیسٰی
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
ہماری دنیا کہیں نہیں ہے
کہیں ہماری زمیں نہیں ہے
مہیب وسعت میں بے علاقہ گروہ ہیں ہم
چلے تھے انسانیت کا سرخیل بن کے لیکن
قدم قدم ٹھوکریں ہی کھائیں
ہمیں ملے آگہی کے طعنے
ہماری بینائیاں ہمارے لیے سزا تھیں
ہماری سچائیاں ہمارے لیے سزا تھیں
ہماری اقدار مختلف تھیں
ہم اپنے دل میں یہ سوچتے تھے
نہ کوئی قاتل ، نہ کوئی مجرم
نہ کوئی سارق ، نہ کوئی رہزن
یہ نام وقتی سیاستوں کی فریب کاری
مگر ہماری تمام اقدار پر طمانچوں کے وہ نشاں ہیں
جو آئینہ خانہ تمدن میں نوحہ خواں ہیں
ہم اپنے ماضی کی خاک سے اب کسے ابھاریں
ہم اپنی گونگی صداقتوں سے کسے پکاریں
رفاقتوں کا غرور بھی غم
محبتوں کا شعور بھی غم
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
یہی ہماری خطا ہے شاید
کہ ہم نے جینے کی سعی کی ہے
ہمیں یہ دنیا عزیز بھی ہے
جبھی ہمارے تمام دعووں کے رد کی خاطر
عداوتیں ہیں کدورتیں ہیں
یہ سب ہمارے دوام کا مضحکہ اڑانے کی صورتیں ہیں
ہمارا ماحول
اب ہمارے وجود سے ہو چکا ہے نالاں
ہمارے سب خط وخال دھندلا کے رہ گئے ہیں
ہم ایک تنکے کی طرح بحر تعب کی موجوں میں بہہ گئے ہیں
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ کے خواب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے ہونے کے بر گزیدہ عذاب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے
صدی کی ساتوں دہائیاں ہم پہ خندہ زن ہیں
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے
وہ عہد جس میں ہماری نسل زیاں گزیدہ نے بار پایا
زمیں کی آنکھوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا
اس آدم عہد نو کو دیکھو
کبھی سمندر میں ہے یہ رقصاں
کبھی ہے صحرا میں پا بجولاں
کبھی خدائے فضائے عریاں
ہے اک ہتھیلی پہ ہیر و شیما ، تو دوسری پہ قمر فروزاں
زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ چھپا ہوا ہے
سب اس کے دامن میں آ رہا ہے
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے
اس ارتقا کے سفر میں ہم گردِ کارواں ہیں
ہماری حیرت ، ہمارے لمحے
ہمارے رشتوں پہ نوحہ خواں ہیں
ہم آئنسٹائن ، مارکس اور ڈارون سے پوچھیں
فرائیڈ کی معملوں سے گذریں
کہ ماؤ اور ہوچی منہہ کو دیکھیں
ہماری درد آشنا کتابیں
نمود احساس کی نقابیں
تو سازشوں کے سیاہ شعلوں میں جل رہی ہیں
جنہیں کتابوں کی آگ سے ہات تاپنے میں خوشی ملی ہو
ہم ان سے تعبیرِ لفظ و معنی کی کس توقع پہ داد پائیں
ادھر چتائیں
اُدھر چتائیں
ہمارے چاروں طرف تو ہے وحشتوں کا اک غولِ ہول انگیز
لرز رہا ہے وجود چنگیز
زباں نہ کھولو ، زباں نہ کھولو
دلیل و دعوے کی منزلیں اب گذر چکی ہیں
نشید و نغمات کی روایات مر چکی ہیں
ہمارے محبوب جسم ہر سُو سسک رہے ہیں
وہ بے یقینی کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں
کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
کسی کے پستاں کٹے ہوئے ہیں
یہ آگ اور خون کے سمندر
اُبھر رہے ہیں عتاب در بر
نہ جنگ نا وار و دار ہے اب
نہ پھول ہے اب ، نہ خار ہے اب
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
بہار دیدہ ، خزاں رسیدہ
ہماری خاطر کوئی نہ سوچے
کہ آج تو سوچ سوچ کر خود ہمارے اذہان تھک گئے ہیں
یہ لوگ جن کی زباں ہے خنجر
یہ لوگ جن کا نفس ہے اژدر
یہ لوگ کیا یوں بھی سوچتے تھے
کہ چھین لیں حق زیست ہم سے
نہ کوئی ان میں اداس ہوگا
نہ کوئی لاشوں کے پاس ہوگا
جو شہر صحرا میں ہم نے بوئے
اب ان کے سائے بھی ڈس رہے ہیں
سمندروں کو اسیر کر کے
ہم اوس تک کو ترس رہے ہیں
حریم و ریشم کی کار گاہیں بنا کے خود بے لباس ہیں ہم
بجا کہا : بے اساس ہیں ہم
میں جن کا قصہ سنا رہا تھا
اسی گروہ زیاں رسیدہ کا قرض ہوں میں
مگر یہ تم شرمسار کیوں ہو
ادھر ذرا میری سمت دیکھو
کسی سے میں نے یہ کب کہا ہے
کہ میں ہوں مایوس آدمی سے
ہبوطِ انساں کا ذکر ہی کیا
مجھے خبر ہے کہ جو بھی طوفان نوح کے بعد بچ گئے تھے
وہی علامت تھے روشنی کی
وہی صداقت تھے آدمی کی
وہی شہادت تھے زندگی کی
اس ایک طوفاں کا ذکر ہی کیا
افق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی تھی
اُفق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی ہے
یہ نظم سحر انصاری کی کتاب نمود سے شگفتہ صاحبہ نے ٹائپ کی ہے اور انہی کو اس نظم کا ثواب جاتا ہے - بہت شکریہ سیدہ شگفتہ
مزید کلام کے لیے یہاں دیکھیے -
نسلِ زیاں گزیدہ
ہم آج تہذیب کے سفر میں
کہاں سے کس سمت آ گئے ہیں
ہمارے احساس کے نگر میں
یہ کیسے آسیب چھا گئے ہیں
نہ کوئی اوّل ، نہ کوئی آخر
نہ کوئی باطن ، نہ کوئی ظاھر
نہ کوئی پنہاں ، نہ کوئی پیدا
نہ کوئی توریت ہے ، نہ گیتا
نہ کوئی گوتم ، نہ کوئی عیسٰی
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
ہماری دنیا کہیں نہیں ہے
کہیں ہماری زمیں نہیں ہے
مہیب وسعت میں بے علاقہ گروہ ہیں ہم
چلے تھے انسانیت کا سرخیل بن کے لیکن
قدم قدم ٹھوکریں ہی کھائیں
ہمیں ملے آگہی کے طعنے
ہماری بینائیاں ہمارے لیے سزا تھیں
ہماری سچائیاں ہمارے لیے سزا تھیں
ہماری اقدار مختلف تھیں
ہم اپنے دل میں یہ سوچتے تھے
نہ کوئی قاتل ، نہ کوئی مجرم
نہ کوئی سارق ، نہ کوئی رہزن
یہ نام وقتی سیاستوں کی فریب کاری
مگر ہماری تمام اقدار پر طمانچوں کے وہ نشاں ہیں
جو آئینہ خانہ تمدن میں نوحہ خواں ہیں
ہم اپنے ماضی کی خاک سے اب کسے ابھاریں
ہم اپنی گونگی صداقتوں سے کسے پکاریں
رفاقتوں کا غرور بھی غم
محبتوں کا شعور بھی غم
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
یہی ہماری خطا ہے شاید
کہ ہم نے جینے کی سعی کی ہے
ہمیں یہ دنیا عزیز بھی ہے
جبھی ہمارے تمام دعووں کے رد کی خاطر
عداوتیں ہیں کدورتیں ہیں
یہ سب ہمارے دوام کا مضحکہ اڑانے کی صورتیں ہیں
ہمارا ماحول
اب ہمارے وجود سے ہو چکا ہے نالاں
ہمارے سب خط وخال دھندلا کے رہ گئے ہیں
ہم ایک تنکے کی طرح بحر تعب کی موجوں میں بہہ گئے ہیں
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ کے خواب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے ہونے کے بر گزیدہ عذاب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے
صدی کی ساتوں دہائیاں ہم پہ خندہ زن ہیں
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے
وہ عہد جس میں ہماری نسل زیاں گزیدہ نے بار پایا
زمیں کی آنکھوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا
اس آدم عہد نو کو دیکھو
کبھی سمندر میں ہے یہ رقصاں
کبھی ہے صحرا میں پا بجولاں
کبھی خدائے فضائے عریاں
ہے اک ہتھیلی پہ ہیر و شیما ، تو دوسری پہ قمر فروزاں
زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ چھپا ہوا ہے
سب اس کے دامن میں آ رہا ہے
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے
اس ارتقا کے سفر میں ہم گردِ کارواں ہیں
ہماری حیرت ، ہمارے لمحے
ہمارے رشتوں پہ نوحہ خواں ہیں
ہم آئنسٹائن ، مارکس اور ڈارون سے پوچھیں
فرائیڈ کی معملوں سے گذریں
کہ ماؤ اور ہوچی منہہ کو دیکھیں
ہماری درد آشنا کتابیں
نمود احساس کی نقابیں
تو سازشوں کے سیاہ شعلوں میں جل رہی ہیں
جنہیں کتابوں کی آگ سے ہات تاپنے میں خوشی ملی ہو
ہم ان سے تعبیرِ لفظ و معنی کی کس توقع پہ داد پائیں
ادھر چتائیں
اُدھر چتائیں
ہمارے چاروں طرف تو ہے وحشتوں کا اک غولِ ہول انگیز
لرز رہا ہے وجود چنگیز
زباں نہ کھولو ، زباں نہ کھولو
دلیل و دعوے کی منزلیں اب گذر چکی ہیں
نشید و نغمات کی روایات مر چکی ہیں
ہمارے محبوب جسم ہر سُو سسک رہے ہیں
وہ بے یقینی کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں
کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
کسی کے پستاں کٹے ہوئے ہیں
یہ آگ اور خون کے سمندر
اُبھر رہے ہیں عتاب در بر
نہ جنگ نا وار و دار ہے اب
نہ پھول ہے اب ، نہ خار ہے اب
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
بہار دیدہ ، خزاں رسیدہ
ہماری خاطر کوئی نہ سوچے
کہ آج تو سوچ سوچ کر خود ہمارے اذہان تھک گئے ہیں
یہ لوگ جن کی زباں ہے خنجر
یہ لوگ جن کا نفس ہے اژدر
یہ لوگ کیا یوں بھی سوچتے تھے
کہ چھین لیں حق زیست ہم سے
نہ کوئی ان میں اداس ہوگا
نہ کوئی لاشوں کے پاس ہوگا
جو شہر صحرا میں ہم نے بوئے
اب ان کے سائے بھی ڈس رہے ہیں
سمندروں کو اسیر کر کے
ہم اوس تک کو ترس رہے ہیں
حریم و ریشم کی کار گاہیں بنا کے خود بے لباس ہیں ہم
بجا کہا : بے اساس ہیں ہم
میں جن کا قصہ سنا رہا تھا
اسی گروہ زیاں رسیدہ کا قرض ہوں میں
مگر یہ تم شرمسار کیوں ہو
ادھر ذرا میری سمت دیکھو
کسی سے میں نے یہ کب کہا ہے
کہ میں ہوں مایوس آدمی سے
ہبوطِ انساں کا ذکر ہی کیا
مجھے خبر ہے کہ جو بھی طوفان نوح کے بعد بچ گئے تھے
وہی علامت تھے روشنی کی
وہی صداقت تھے آدمی کی
وہی شہادت تھے زندگی کی
اس ایک طوفاں کا ذکر ہی کیا
افق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی تھی
اُفق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی ہے