رحیم ساگر بلوچ
محفلین
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اور میرا دوست ہدایت ہائی سکول میں پڑھا کرتے تھے...محلے میں اک نیا فیشن آ چکا تھا..نسوار کرنا..
ہر کسی کے جیب سی دو تین بوری نسوار کے ہوتے تھے..کسی بھی محفل میں جس کے پاس نسوار ہوتا اس کی عزت کی جاتی تھی اور ہم احساس کمتری کے شکار ہوتے جا رہے تھے..
بالآخر ہم نے نسوارو بننے کی ٹھان لی..قریبی دوکان سے نسوار کی ایک تھیلی خرید کر جیب میں رکھ لی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں نسوار کرنا سکھائے گا کون ؟
کافی تگ و دو کے بعد ایک دوست جو ابھی نسوارو نہیں تھا ان سے مشورہ کیا اور دعوت نسوار دی..
انہوں نے اس دعوت کو بخوشی قبول کیا..اور کہا کہ وہ ایک خان صاحب کو جانتے ہیں.. وہ ہمیں سکھا دیں گے..
چنانچہ شام کو ہم خان صاحب کے گھر پہنچے اور اپنا مسئلہ بیان کیا..خان صاحب بظاہر تو بڑے سادہ معلوم ہوتے تھے مگر بعد میں بڑے چالاک ثابت ہوئے..
خیر انہوں نے ہمارا خیر مقدم کیا اور یقین دلایا کہ وہ ہم کو پکا نسوارو بنائیں گے.. انہوں نے بتایا کہ شروع شروع میں نسوار کروگے تو کچھ دن الٹیاں آئیں گی اس کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا..
انہوں نے جیب سے نسوار کی ڈبیہ نکالی اور ایک لڈو بنا کر میرے حوالے کیا..اور منہ میں رکھنے کو کہا..میں نے ڈرتے ڈرتے اسے لیا اور اپنے دوست کی طرف دیکھا تو اس نے بھی اشارہ کیا کہ منہ میں ڈال دو.. میں نے آہستہ آہستہ اسے منہ کے قریب کیا..
اس وقت جو کیفیت تھی وہ ناقابل بیاں تھا بقول ساغر صدیقی
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
خیر میں نے آنکھیں بند کیں اور نسوار کا لڈو منہ میں رکھ لیا..اور پھر ایک لڈو خان صاحب سے لے کر اپنے دوستوں کو بھی دیا تاکہ اگر کچھ ہوگیا تو سب کو ہوجائے..
ہم خان صاحب سے اجازت لیکر واپس آنے لگے..
آج ہم بہت خوش تھے جیسے ہواؤں میں اڑ رہے تھے..
تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے کوئی زلزلہ ہو رہا ہے..زمین و آسماں گھوم رہے تھے..
زلزلہہہہہ... میں نے اپنے دوستوں سے کہا تو انہوں نے کہا نہیں تمہیں چکر آ رہے ہیں..نسوار نکال دو منہ سے..
میں نے کہا..کیا ؟ نسوار سیکھنا نہیں ہے ؟
ہدایت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اسے الٹیاں آنی شروع ہوگئیں..
وہ نیچے بیٹھ کر الٹیاں کرنے لگا
یہ دیکھ کر مجھے اس پر رشک ہونے لگا کہ اسے مجھ سے پہلے الٹی آگئی..
اس نے جی بھر کے الٹیاں کیں..
میں الٹی کے انتظار میں تھا مگر الٹی نہیں آ رہی تھی
خیر ہم وہاں کھیتوں میں ٹہلتے رہے..
کچھ دیر بعد الٹی مہرباں ہو کر آگئی..
ہم سب ساتھ میں الٹیاں کرتے رہے..
نسوار منہ میں ڈالتے اور ہر پندرہ منٹ بعد الٹی کرتے..
کافی دیر ہوچکی تھی اب ہم نے صبح ملنے کا وعدہ کیا
عشا کی نماز کے بعد سب اپنے اپنے گھر چلے آئے..
آج کھانا کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا میں طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کر کے سوگیا..
صبح اٹھا تو بھوک کی شدت اور رات کی الٹیوں کی وجہ سے نڈھال تھا..
جلدی جلدی ناشتہ کر کے کھیتوں میں پہنچا وہ دونوں نسواروں کی بہت ساری تھیلیوں کے ساتھ میرے منتظر تھے..
بنا وقت ضایع کئے ہم لوگ نسوار بناکر منہ میں ڈالتے اور الٹی کا انتظار کرتے اور جب الٹی آتی تو پھر اک اور لڈو بناتے اور پھر الٹی..اس وقت ہمیں اپنی صحت کا ہوش کہاں تھا بس ہمیں نسوار کرنے کا طریقہ سیکھنا تھا اور محلے میں اپنا معیار بلند رکھنا تھا..
شام تک ہم ساری تھیلیاں ختم کرچکے تھے..
اب الٹیاں بھی کم آنے لگیں تھیں..
چار پانچ دن ایسا کرنے کے بعد ہم مستند نسوارو بن گئے تھے..
اب بنو نسوار کو چھوڑ کر اسپیشل نسوار کرنے کی باری تھی جو کہ کافی تیز تھی..
مگر دنیا میں کسی کام کے کرنے کیلئے جنون کی ضرورت تھی.. اور ہم جنون کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے..
چنانچہ اب اسپیشل نسوار کی تھیلیاں خریدتے اور منہ میں ڈالتے.. منہ جلتا رہتا الٹیاں آتے سر چکراتا رہتا مگر ہم اپنی دھن میں اپنے آپ سے بھی غافل تھے..
خیر چار پانچ دن میں ہم اسپیشل نسوارو بھی بن گئے تھے..
اب ہماری گزر اوقات صرف نسوار پر ہوتی.. صبح شام اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے نسوار منہ میں رہتا..ایک دن میں ایک شخص کئی تھیلیاں ختم کرتا..
سکول میں بھی نسوار منہ میں ہوتا..
ایک دن ٹیچر نے ہم تینوں کو پکڑ لیا..
ہمارے منہ میں نسوار دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی..کیونکہ کلاس کے اچھے طلبا میں ہمارا شمار ہوتا تھا..مگر اس دن قیامت آگئی..ٹیچر نے ہمارے ساتھ کیا کیا اس بات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں مگر اس پر ستم یہ کہ انہوں نے ہمارے والدین کو بھی اس بات سے آگاہ کیا..
پھر کیا تھا پورا محلہ ہماری زندگی بھر کی اچھائیوں کو فراموش کر کے ہمیں لعن طعن کرنے لگا..
والدین نے کیا کیا ؟ مت پو چھیں..
بس جینا مشکل ہوگیا تھا..روز مار کھاتے اور نسوار چھوڑنے کا وعدہ کرتے اور روز نسوار کرتے ہوئے پکڑے جاتے کیونکہ ہم کہیں بھی جاتے ہمارے پیچھے جاسوس لگا دیے جاتے..
مگر ہم اب لائسنس کے حصول کیلئے بھی روز مار کھاتے کیونکہ جو بچہ اتنا مار کھانے کے بعد بھی اپنی عادت نہیں چھوڑتا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا یعنی پھر اسے لائسنس مل جاتی اور وہ کچھ بھی کر سکتا تھا..
اب ہمیں لائسنس حاصل کرنے تھے..
پندرہ بیس دن پندرہ بیس جوتے کھا کر ساری زندگی نسوار کرنے کا لائسنس حاصل کرنا ہمارے لئے اتنا مہنگا سودا نہیں تھا..
آخر کار ہمیں لائسنس تو مل گیا تھا مگر خرچہ پانی بند کر دیا گیا..
اب نسوار خریدنے کیلئے پانچ روپے بھی نہیں تھے..
خیر کچھ روز تو مانگ کر نسوار کرتے رہے مگر اس کے بعد ہر کوئی ہمیں دور سے آتے دیکھ کر راستہ بدل دیتا یا اپنے نسوار چھپا دیتا..
ہم نے سوچا اب خان صاحب ہماری مدد کر سکتے ہیں..
خان صاحب کے پاس گئے اور اپنی مجبوری بتا دی..
انہوں نے کہا "کوئی بات نہیں... نسوارو نسوارو کا بھائی ہوتا ہے..اب ہم تم کو نسوار دے گا "
ہم بہت خوش ہوئے روز خان صاحب کے رستے میں بیٹھ کر انتظار کرتے.وہ صبح اپنے کام پہ جاتے تو ان سے نسوار لیتے اور شام کو واپسی پہ بھی ان سے نسوار ملتا..
کچھ روز تو خان صاحب خوشی خوشی نسوار دیتے رہے..بالآخر وہ بھی اب ہم سے کترانے لگے..آخر کتنے دن تک وہ ہمیں نسوار دیتے..
ایک دن صبح ہم خان صاحب کے راہ میں بیٹھے تھے..جب وہ آئے تو کہا کہ آج ان کے پاس نسوار نہیں..
ہمیں یقین نہیں آیا.. خان صاحب اور نسوار نہیں؟
ہم نے ان کے جیبوں کی تلاشی لی مگر ناکام..
خیر ہم نے کہا کہ کل ضرور لانا.. انہوں نے کہا ٹھیک ہے..
اور دوسرے دن بھی خان صاحب نے کہا کہ نسوار نہیں..
اسی طرح چار پانچ روز خان صاحب اپنی مجبوریوں کا بہانہ کرتے رہے کہ اب ان کے پاس بھی نسوار تک کے پیسے نہیں..
ایک دن ہم نے خان صاحب کا پیچھا کیا.. تھوڑی دور جانے کے بعد ہم نے دیکھا کہ خان صاحب نے اپنی ٹوپی اتاری تو ٹوپی کے نیچے سے نسوار نکال کر منہ میں ڈالی..اتنے میں ہم ان کے قریب پہنچے..ہمیں دیکھ انہوں نے جلدی سے ٹوپی پہن لی..مگر ہم کہاں چھوڑنے والے تھے..ہم نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا..
آج کافی عرصہ بعد نسوار ملا تھا..سب خوش تھے.. خان صاحب کا ٹوپی ڈرامہ بھی ناکام بنا دیا تھا..
اس طرح دس پندرہ دن ہمارا گزارا ہوتا رہا..پھر خان صاحب نے کہا کہ ان کے پاس نسوار نہیں.. ہم نے ٹوپی جیب وغیرہ سب جگہ تلاشی لی مگر نسوار نہیں ملا..خیر ایک بار پھر ان کا پیچھا کیا..
ایک جگہ پر خان صاحب نے رک کر پیشاب کیا..پیشاب کے بعد ان کے ہاتھ میں نسوار تھا.. یہ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ انہوں نے شلوار کے جیب میں چھپائے تھے..اس طرح ایک بار پھر نسوار کا سلسلہ شروع ہو گیا..تقریبا کوئی پچیس چھبیس دن بعد خان صاحب نے پھر کہا کہ اب وہ نسوار نہیں خریدتا..مگر اب کیسے یقین کر سکتے تھے پہلے بھی دو بار ایسا کہہ چکے تھے..
چنانچہ اب ہم نے ان کا پیچھا کیا مگر اب وہ راستے میں رکنے کا نام ہی نہیں لیتے..اب ہمیں یقین ہوگیا کہ واقعی خان صاحب نے نسوار چھوڑ دیا ہے..ہم نے کچھ روز پیچھا کرنا چھوڑ دیا..ایک دن ہم نے دیکھا کہ خان صاحب اپنے جوتوں سے کوئی چیز نکال رہے ہیں.. ہم وہاں چھپ کر دیکھنے لگے.. خان صاحب نے اپنے جوتوں کے اندر سے نسوار نکال کر منہ میں ڈال دیا..اتنے میں ہم موقعے پر پہنچ گئے..
اور نسوار کی تھیلی کو اپنی تحویل میں لے لیا..
ایک بار پھر موج مستیاں شروع ہوگئیں تھیں..اب تو خان صاحب کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوتا تھا..چپ چاپ شرافت سے صبح و شام نسوار دینے لگے..زندگی کافی پرسکون گزر رہی تھی..
تقریبا دو ماہ بعد خان صاحب نے قسم اٹھا کر کہا کہ اب انہوں نے نسوار کرنا چھوڑ دیا ہے..وہ تھک گئے تھے ہمارے اور اپنے نسوار کے خرچے سے..
ہم کافی پریشان ہوگئے تھے..کافی جاسوسی کی مگر خان صاحب واقعی نسوار چھوڑ چکے تھے..
ہم نے سوچا چلو کوئی تو اچھا کام کیا زندگی میں کہ کسی خان صاحب سے نسوار چھڑوا دی..
اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا..
ہم نے سوچا اب نسوار چھوڑ کر گھر والوں کو مناکر اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کیا جائے..اور خرچہ پانی بھی کافی عرصے سے بند ہے..
اسی شام ہم مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور ایک اک شخص کو بتاتے رہے کہ ہم نے نسوار چھوڑ دیا ہے..
کچھ دن بعد سب کو یقین ہوگیا کہ ہم سدھر گئے ہیں.. اور آخر کار وہ دن بھی آگیا جب ہم سب کو خرچہ ملنا شروع ہوگیا..
اب تو نسوار کا فیشن بھی زوال پزیر تھا..اب نیا فیش آچکا تھا..جی ہاں سگریٹ پینے کا...
اس کے بعد کیا ہوا کیسے ہوا بڑی لمبی کہانی ہے پھر کبھی سہی..
لیکن ہم اب بھی سگریٹ پیتے ہیں مگر کسی کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں...
تحریر : رحیم ساگر بلوچ
ہر کسی کے جیب سی دو تین بوری نسوار کے ہوتے تھے..کسی بھی محفل میں جس کے پاس نسوار ہوتا اس کی عزت کی جاتی تھی اور ہم احساس کمتری کے شکار ہوتے جا رہے تھے..
بالآخر ہم نے نسوارو بننے کی ٹھان لی..قریبی دوکان سے نسوار کی ایک تھیلی خرید کر جیب میں رکھ لی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں نسوار کرنا سکھائے گا کون ؟
کافی تگ و دو کے بعد ایک دوست جو ابھی نسوارو نہیں تھا ان سے مشورہ کیا اور دعوت نسوار دی..
انہوں نے اس دعوت کو بخوشی قبول کیا..اور کہا کہ وہ ایک خان صاحب کو جانتے ہیں.. وہ ہمیں سکھا دیں گے..
چنانچہ شام کو ہم خان صاحب کے گھر پہنچے اور اپنا مسئلہ بیان کیا..خان صاحب بظاہر تو بڑے سادہ معلوم ہوتے تھے مگر بعد میں بڑے چالاک ثابت ہوئے..
خیر انہوں نے ہمارا خیر مقدم کیا اور یقین دلایا کہ وہ ہم کو پکا نسوارو بنائیں گے.. انہوں نے بتایا کہ شروع شروع میں نسوار کروگے تو کچھ دن الٹیاں آئیں گی اس کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا..
انہوں نے جیب سے نسوار کی ڈبیہ نکالی اور ایک لڈو بنا کر میرے حوالے کیا..اور منہ میں رکھنے کو کہا..میں نے ڈرتے ڈرتے اسے لیا اور اپنے دوست کی طرف دیکھا تو اس نے بھی اشارہ کیا کہ منہ میں ڈال دو.. میں نے آہستہ آہستہ اسے منہ کے قریب کیا..
اس وقت جو کیفیت تھی وہ ناقابل بیاں تھا بقول ساغر صدیقی
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
خیر میں نے آنکھیں بند کیں اور نسوار کا لڈو منہ میں رکھ لیا..اور پھر ایک لڈو خان صاحب سے لے کر اپنے دوستوں کو بھی دیا تاکہ اگر کچھ ہوگیا تو سب کو ہوجائے..
ہم خان صاحب سے اجازت لیکر واپس آنے لگے..
آج ہم بہت خوش تھے جیسے ہواؤں میں اڑ رہے تھے..
تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ مجھے ایسا لگا جیسے کوئی زلزلہ ہو رہا ہے..زمین و آسماں گھوم رہے تھے..
زلزلہہہہہ... میں نے اپنے دوستوں سے کہا تو انہوں نے کہا نہیں تمہیں چکر آ رہے ہیں..نسوار نکال دو منہ سے..
میں نے کہا..کیا ؟ نسوار سیکھنا نہیں ہے ؟
ہدایت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اسے الٹیاں آنی شروع ہوگئیں..
وہ نیچے بیٹھ کر الٹیاں کرنے لگا
یہ دیکھ کر مجھے اس پر رشک ہونے لگا کہ اسے مجھ سے پہلے الٹی آگئی..
اس نے جی بھر کے الٹیاں کیں..
میں الٹی کے انتظار میں تھا مگر الٹی نہیں آ رہی تھی
خیر ہم وہاں کھیتوں میں ٹہلتے رہے..
کچھ دیر بعد الٹی مہرباں ہو کر آگئی..
ہم سب ساتھ میں الٹیاں کرتے رہے..
نسوار منہ میں ڈالتے اور ہر پندرہ منٹ بعد الٹی کرتے..
کافی دیر ہوچکی تھی اب ہم نے صبح ملنے کا وعدہ کیا
عشا کی نماز کے بعد سب اپنے اپنے گھر چلے آئے..
آج کھانا کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا میں طبیعت خراب ہونے کا بہانہ کر کے سوگیا..
صبح اٹھا تو بھوک کی شدت اور رات کی الٹیوں کی وجہ سے نڈھال تھا..
جلدی جلدی ناشتہ کر کے کھیتوں میں پہنچا وہ دونوں نسواروں کی بہت ساری تھیلیوں کے ساتھ میرے منتظر تھے..
بنا وقت ضایع کئے ہم لوگ نسوار بناکر منہ میں ڈالتے اور الٹی کا انتظار کرتے اور جب الٹی آتی تو پھر اک اور لڈو بناتے اور پھر الٹی..اس وقت ہمیں اپنی صحت کا ہوش کہاں تھا بس ہمیں نسوار کرنے کا طریقہ سیکھنا تھا اور محلے میں اپنا معیار بلند رکھنا تھا..
شام تک ہم ساری تھیلیاں ختم کرچکے تھے..
اب الٹیاں بھی کم آنے لگیں تھیں..
چار پانچ دن ایسا کرنے کے بعد ہم مستند نسوارو بن گئے تھے..
اب بنو نسوار کو چھوڑ کر اسپیشل نسوار کرنے کی باری تھی جو کہ کافی تیز تھی..
مگر دنیا میں کسی کام کے کرنے کیلئے جنون کی ضرورت تھی.. اور ہم جنون کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے..
چنانچہ اب اسپیشل نسوار کی تھیلیاں خریدتے اور منہ میں ڈالتے.. منہ جلتا رہتا الٹیاں آتے سر چکراتا رہتا مگر ہم اپنی دھن میں اپنے آپ سے بھی غافل تھے..
خیر چار پانچ دن میں ہم اسپیشل نسوارو بھی بن گئے تھے..
اب ہماری گزر اوقات صرف نسوار پر ہوتی.. صبح شام اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے نسوار منہ میں رہتا..ایک دن میں ایک شخص کئی تھیلیاں ختم کرتا..
سکول میں بھی نسوار منہ میں ہوتا..
ایک دن ٹیچر نے ہم تینوں کو پکڑ لیا..
ہمارے منہ میں نسوار دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی..کیونکہ کلاس کے اچھے طلبا میں ہمارا شمار ہوتا تھا..مگر اس دن قیامت آگئی..ٹیچر نے ہمارے ساتھ کیا کیا اس بات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں مگر اس پر ستم یہ کہ انہوں نے ہمارے والدین کو بھی اس بات سے آگاہ کیا..
پھر کیا تھا پورا محلہ ہماری زندگی بھر کی اچھائیوں کو فراموش کر کے ہمیں لعن طعن کرنے لگا..
والدین نے کیا کیا ؟ مت پو چھیں..
بس جینا مشکل ہوگیا تھا..روز مار کھاتے اور نسوار چھوڑنے کا وعدہ کرتے اور روز نسوار کرتے ہوئے پکڑے جاتے کیونکہ ہم کہیں بھی جاتے ہمارے پیچھے جاسوس لگا دیے جاتے..
مگر ہم اب لائسنس کے حصول کیلئے بھی روز مار کھاتے کیونکہ جو بچہ اتنا مار کھانے کے بعد بھی اپنی عادت نہیں چھوڑتا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا یعنی پھر اسے لائسنس مل جاتی اور وہ کچھ بھی کر سکتا تھا..
اب ہمیں لائسنس حاصل کرنے تھے..
پندرہ بیس دن پندرہ بیس جوتے کھا کر ساری زندگی نسوار کرنے کا لائسنس حاصل کرنا ہمارے لئے اتنا مہنگا سودا نہیں تھا..
آخر کار ہمیں لائسنس تو مل گیا تھا مگر خرچہ پانی بند کر دیا گیا..
اب نسوار خریدنے کیلئے پانچ روپے بھی نہیں تھے..
خیر کچھ روز تو مانگ کر نسوار کرتے رہے مگر اس کے بعد ہر کوئی ہمیں دور سے آتے دیکھ کر راستہ بدل دیتا یا اپنے نسوار چھپا دیتا..
ہم نے سوچا اب خان صاحب ہماری مدد کر سکتے ہیں..
خان صاحب کے پاس گئے اور اپنی مجبوری بتا دی..
انہوں نے کہا "کوئی بات نہیں... نسوارو نسوارو کا بھائی ہوتا ہے..اب ہم تم کو نسوار دے گا "
ہم بہت خوش ہوئے روز خان صاحب کے رستے میں بیٹھ کر انتظار کرتے.وہ صبح اپنے کام پہ جاتے تو ان سے نسوار لیتے اور شام کو واپسی پہ بھی ان سے نسوار ملتا..
کچھ روز تو خان صاحب خوشی خوشی نسوار دیتے رہے..بالآخر وہ بھی اب ہم سے کترانے لگے..آخر کتنے دن تک وہ ہمیں نسوار دیتے..
ایک دن صبح ہم خان صاحب کے راہ میں بیٹھے تھے..جب وہ آئے تو کہا کہ آج ان کے پاس نسوار نہیں..
ہمیں یقین نہیں آیا.. خان صاحب اور نسوار نہیں؟
ہم نے ان کے جیبوں کی تلاشی لی مگر ناکام..
خیر ہم نے کہا کہ کل ضرور لانا.. انہوں نے کہا ٹھیک ہے..
اور دوسرے دن بھی خان صاحب نے کہا کہ نسوار نہیں..
اسی طرح چار پانچ روز خان صاحب اپنی مجبوریوں کا بہانہ کرتے رہے کہ اب ان کے پاس بھی نسوار تک کے پیسے نہیں..
ایک دن ہم نے خان صاحب کا پیچھا کیا.. تھوڑی دور جانے کے بعد ہم نے دیکھا کہ خان صاحب نے اپنی ٹوپی اتاری تو ٹوپی کے نیچے سے نسوار نکال کر منہ میں ڈالی..اتنے میں ہم ان کے قریب پہنچے..ہمیں دیکھ انہوں نے جلدی سے ٹوپی پہن لی..مگر ہم کہاں چھوڑنے والے تھے..ہم نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا..
آج کافی عرصہ بعد نسوار ملا تھا..سب خوش تھے.. خان صاحب کا ٹوپی ڈرامہ بھی ناکام بنا دیا تھا..
اس طرح دس پندرہ دن ہمارا گزارا ہوتا رہا..پھر خان صاحب نے کہا کہ ان کے پاس نسوار نہیں.. ہم نے ٹوپی جیب وغیرہ سب جگہ تلاشی لی مگر نسوار نہیں ملا..خیر ایک بار پھر ان کا پیچھا کیا..
ایک جگہ پر خان صاحب نے رک کر پیشاب کیا..پیشاب کے بعد ان کے ہاتھ میں نسوار تھا.. یہ دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ انہوں نے شلوار کے جیب میں چھپائے تھے..اس طرح ایک بار پھر نسوار کا سلسلہ شروع ہو گیا..تقریبا کوئی پچیس چھبیس دن بعد خان صاحب نے پھر کہا کہ اب وہ نسوار نہیں خریدتا..مگر اب کیسے یقین کر سکتے تھے پہلے بھی دو بار ایسا کہہ چکے تھے..
چنانچہ اب ہم نے ان کا پیچھا کیا مگر اب وہ راستے میں رکنے کا نام ہی نہیں لیتے..اب ہمیں یقین ہوگیا کہ واقعی خان صاحب نے نسوار چھوڑ دیا ہے..ہم نے کچھ روز پیچھا کرنا چھوڑ دیا..ایک دن ہم نے دیکھا کہ خان صاحب اپنے جوتوں سے کوئی چیز نکال رہے ہیں.. ہم وہاں چھپ کر دیکھنے لگے.. خان صاحب نے اپنے جوتوں کے اندر سے نسوار نکال کر منہ میں ڈال دیا..اتنے میں ہم موقعے پر پہنچ گئے..
اور نسوار کی تھیلی کو اپنی تحویل میں لے لیا..
ایک بار پھر موج مستیاں شروع ہوگئیں تھیں..اب تو خان صاحب کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہوتا تھا..چپ چاپ شرافت سے صبح و شام نسوار دینے لگے..زندگی کافی پرسکون گزر رہی تھی..
تقریبا دو ماہ بعد خان صاحب نے قسم اٹھا کر کہا کہ اب انہوں نے نسوار کرنا چھوڑ دیا ہے..وہ تھک گئے تھے ہمارے اور اپنے نسوار کے خرچے سے..
ہم کافی پریشان ہوگئے تھے..کافی جاسوسی کی مگر خان صاحب واقعی نسوار چھوڑ چکے تھے..
ہم نے سوچا چلو کوئی تو اچھا کام کیا زندگی میں کہ کسی خان صاحب سے نسوار چھڑوا دی..
اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا..
ہم نے سوچا اب نسوار چھوڑ کر گھر والوں کو مناکر اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کیا جائے..اور خرچہ پانی بھی کافی عرصے سے بند ہے..
اسی شام ہم مسجد میں نماز پڑھنے گئے اور ایک اک شخص کو بتاتے رہے کہ ہم نے نسوار چھوڑ دیا ہے..
کچھ دن بعد سب کو یقین ہوگیا کہ ہم سدھر گئے ہیں.. اور آخر کار وہ دن بھی آگیا جب ہم سب کو خرچہ ملنا شروع ہوگیا..
اب تو نسوار کا فیشن بھی زوال پزیر تھا..اب نیا فیش آچکا تھا..جی ہاں سگریٹ پینے کا...
اس کے بعد کیا ہوا کیسے ہوا بڑی لمبی کہانی ہے پھر کبھی سہی..
لیکن ہم اب بھی سگریٹ پیتے ہیں مگر کسی کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں...
تحریر : رحیم ساگر بلوچ