نسوار اندازی کے مزے
دل پشوری۔۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور
جب میں صوبہ سرحد کے گوشے گوشے میں چھوٹی چھوٹی تازہ و سوکھی گلولیاں (گولیاں) دیکھتا ہوں تو عجیب احساس ہوتا ہے‘ دیواروں اور کرسیوں کو ہاتھ لگانے سے ڈر لگتا ہے کہ برادہ ہاتھ سے ٹکرائے گا۔ میں نے تہذیب و ثقافت کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے اور بڑی تقریریں کی ہیں مگر اسے سمجھانے کے لئے مجھے اس سے بہتر مثال ہاتھ نہیں آتی کہ سگریٹ تہذیب ہے اور نسوار ثقافت‘ تہذیب میں ہر بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں کسی کی دلآزاری نہ ہو۔ ثقافت میں اپنے دل کو خوش کیا جاتا ہے‘ دوسرا جائے بھاڑ میں‘ یہی وجہ ہے کہ نسوار کی چھوٹی چھوٹی خشک و تر گٹھلیاں دیکھ کر مجھے کلچر بہت یاد آتا ہے۔
کلچر میں کوئی بھی کام کیا جائے اس میں برائی نظر نہیں آتی۔ تہذیب میں اگر پیالی کو ذرا ٹیڑھا رکھ دیا جائے یا پرچ میں ذرا سی چائے آ جائے تو اسے بدتہذیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نسوار کے بڑے فوائد ہوں گے‘ بڑی کارآمد اور قابل احترام شے ہے مگر افسوس کہ مجھے اس کا علم نہیں البتہ جب لاکھوں مرد و زن کو اس میں مبتلا پاتا ہوں تو سوچتا ہوں ہو گا اس میں کوئی جادوئی مزہ و نشہ۔
کئی بار جی چاہا کہ ایک آدھ گٹھلی لے کر منہ کے کسی کونے میں داب کر دانا نکال لوں مگر پیر مرشد سخن کے بقول طبیعت ادھر نہیں آتی۔ شراب تہذیب و کلچر دونوں بن چکی ہے‘ اعلیٰ قسم کی ولایتی شراب خوبصورت جاموں میں پی جائے تو تہذیب‘ سستا گھر کا ٹھرا پیتل کے گلاس میں پیا جائے تو ثقافت۔ خیر یہ تہذیب و ثقافت کا کھیل اسی طرح جاری رہے گا۔ نسوار کی گٹھلیاں اسی طرح فرش‘ برآمدوں و سیڑھیوں کی زینت بنی نظر آتی رہیں گی۔ میں نے بارہا سوچا کہ اس گٹھلی نما چیز کو کھا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا مگر ہنروروں نے بتایا کہ اس کا مزہ بس منہ میں رکھ کر اور ایک آدھ طرف الار کر لیا جا سکتا ہے‘ اس کے کھانے میں وہ لطف ہرگز نہیں ہے۔
کسی زمانے میں حقہ یا چلم بھی بڑے شوق سے پی جاتی تھی‘ یہ بھی ثقافت کی نشانی تھی‘ مزے سے دور بیٹھے حقہ گڑگڑا رہے ہیں یا چلم کی نے میں منہ ڈالے اس کے مزے لے رہے ہیں‘ یہ کم بخت سگار و سگریٹ جب سے آئے ہیں انہوں نے اس ثقافتی نشانی کو بھی تقریباً مٹا دیا ہے۔ ایک زمانے میں ناک میں بھی نسوار ڈالی جاتی تھی‘ اس کا رنگ صحیح نسواری ہوتا تھا اس لئے اس رنگ کا نام بھی نسواری پڑا ہے‘ اس نسوار سے چھینکیں بہت آتی تھیں اور شنید ہے کہ دماغ کھل جاتا تھا پھر اس کو اس قدر کمزور و کج احترام بھی نہیں سمجھا گیا تھا جس طرح گٹھلی والی نسوار کو۔
اب سنا ہے بعض نفیس لوگ اس گٹھلی والی نسوار کو ٹشو پیپر میں رکھ کر منہ کا ابھار بڑھاتے ہیں‘ اس میں کم از کم یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کا پسماندہ برادہ کسی میز‘ دیوار یا کرسی کے آس پاس لیپ نہیں کرنا پڑتا۔ جو لوگ بسوں و ویگنوں میں سفر کرتے ہیں وہ بس و ویگن کے اندر کرسی یا ہینڈل کو ہاتھ لگانے کی کوشش نہ کریں اور نشست کے نچلے حصے کو تو ہرگز ہرگز ٹچ نہ کریں کیونکہ وہاں 90 فیصد نسوار کے پسماندگان لگے چمٹے مل جائیں گے۔ بعض ہوشیار لوگ اس نسوار اندازی کو بڑی ہوشیاری سے کرتے ہیں‘ منہ کا حلیہ بالکل ٹائٹ نہیں ہوتا نہ احساس ہوتا ہے کہ یہ شے شریف کہیں رکھی اور لگی ہے اور گراتے وقت بھی اِدھر اُدھر دیکھ لیتے ہیں۔
ضرور یہ ذائقے دار چیز ہو گی‘ جب موٹر کے شیشے بند ہوں اور ایک آدھ نسوار انداز اندر بیٹھا تیر اندازی کر رہا ہو تو پھر تو موجاں ہی موجاں‘ کھڑکی کھولیں تو ٹھنڈی ہوا آتی یا ٹھنڈی ہوا باہر جاتی ہے‘ بند رکھیں تو اس فن شریف کے مفت کے موج مزے اڑائیں۔ دنیا میں بڑی ترقی ہوئی ہے مگر آج تک کوئی مائی کا لعل اس کا متبادل کہیں سے نہ لا سکا۔
مجھے معلوم ہوا ہے دروغ برگردن ڈاکٹر امجد حسین امریکہ میں بھی بعض لوگ نسوار نما قسم کی چیز منہ میں رکھتے ہیں۔ اتنا عرصہ قیام کے باوجود میں کسی ایسے آدمی سے نہیں مل سکا البتہ یہ بات کنفرم طور پر معلوم ہوئی کہ ’دَ باڑے نسوار‘ افغانستان میں بڑی مقبول ہے اور اس نے امریکی و مغربی فوجیوں کو اس راہ پر ڈال دیا ہے اور نسوار فروشوں کے مزے ہو گئے ہیں جو نسوار بازار میں پانچ دس روپے میں بکتی ہے وہاں یہ پانچ یا دس ڈالر میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی ثقافت کو ان کی تہذیب پر فوقیت دلا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اصل زورآور چیز تہذیب نہیں ثقافت ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر سارا امریکہ و مغرب اس ثقافتی مظہر کی عادی ہو جائے تو وہ ہمارے ہاتھوں شکست کھا جائے۔ میرے ایک جانکار دوست نے کہا ہے کہ ان فوجیوں پر گولیاں برسانے کی جگہ نسوار کی تروتازہ گولیاں و گٹھلیاں برسائی جائیں‘ جس طرح ایک زمانے میں برطانیہ نے چین پر عام بارودی گولیاں برسانے کی بجائے ان پر افیون کے پیکٹ گرا کر ساری قوم کو افیونی بنا دیا تھا۔ ان کی تہذیب کو اپنی ثقافت سے بدلنا ضرور ہمارے اختیار میں ہے‘ خاص طور پر نسوار کے حوالے سے جو بڑا مابعد الطبیعاتی قسم کا مزہ رکھتی ہے اور جس سے میں مکمل طور پر ناآگاہ ہوں۔
دل پشوری۔۔۔بشکریہ روزنامہ آج پشاور
جب میں صوبہ سرحد کے گوشے گوشے میں چھوٹی چھوٹی تازہ و سوکھی گلولیاں (گولیاں) دیکھتا ہوں تو عجیب احساس ہوتا ہے‘ دیواروں اور کرسیوں کو ہاتھ لگانے سے ڈر لگتا ہے کہ برادہ ہاتھ سے ٹکرائے گا۔ میں نے تہذیب و ثقافت کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے اور بڑی تقریریں کی ہیں مگر اسے سمجھانے کے لئے مجھے اس سے بہتر مثال ہاتھ نہیں آتی کہ سگریٹ تہذیب ہے اور نسوار ثقافت‘ تہذیب میں ہر بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں کسی کی دلآزاری نہ ہو۔ ثقافت میں اپنے دل کو خوش کیا جاتا ہے‘ دوسرا جائے بھاڑ میں‘ یہی وجہ ہے کہ نسوار کی چھوٹی چھوٹی خشک و تر گٹھلیاں دیکھ کر مجھے کلچر بہت یاد آتا ہے۔
کلچر میں کوئی بھی کام کیا جائے اس میں برائی نظر نہیں آتی۔ تہذیب میں اگر پیالی کو ذرا ٹیڑھا رکھ دیا جائے یا پرچ میں ذرا سی چائے آ جائے تو اسے بدتہذیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ نسوار کے بڑے فوائد ہوں گے‘ بڑی کارآمد اور قابل احترام شے ہے مگر افسوس کہ مجھے اس کا علم نہیں البتہ جب لاکھوں مرد و زن کو اس میں مبتلا پاتا ہوں تو سوچتا ہوں ہو گا اس میں کوئی جادوئی مزہ و نشہ۔
کئی بار جی چاہا کہ ایک آدھ گٹھلی لے کر منہ کے کسی کونے میں داب کر دانا نکال لوں مگر پیر مرشد سخن کے بقول طبیعت ادھر نہیں آتی۔ شراب تہذیب و کلچر دونوں بن چکی ہے‘ اعلیٰ قسم کی ولایتی شراب خوبصورت جاموں میں پی جائے تو تہذیب‘ سستا گھر کا ٹھرا پیتل کے گلاس میں پیا جائے تو ثقافت۔ خیر یہ تہذیب و ثقافت کا کھیل اسی طرح جاری رہے گا۔ نسوار کی گٹھلیاں اسی طرح فرش‘ برآمدوں و سیڑھیوں کی زینت بنی نظر آتی رہیں گی۔ میں نے بارہا سوچا کہ اس گٹھلی نما چیز کو کھا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا مگر ہنروروں نے بتایا کہ اس کا مزہ بس منہ میں رکھ کر اور ایک آدھ طرف الار کر لیا جا سکتا ہے‘ اس کے کھانے میں وہ لطف ہرگز نہیں ہے۔
کسی زمانے میں حقہ یا چلم بھی بڑے شوق سے پی جاتی تھی‘ یہ بھی ثقافت کی نشانی تھی‘ مزے سے دور بیٹھے حقہ گڑگڑا رہے ہیں یا چلم کی نے میں منہ ڈالے اس کے مزے لے رہے ہیں‘ یہ کم بخت سگار و سگریٹ جب سے آئے ہیں انہوں نے اس ثقافتی نشانی کو بھی تقریباً مٹا دیا ہے۔ ایک زمانے میں ناک میں بھی نسوار ڈالی جاتی تھی‘ اس کا رنگ صحیح نسواری ہوتا تھا اس لئے اس رنگ کا نام بھی نسواری پڑا ہے‘ اس نسوار سے چھینکیں بہت آتی تھیں اور شنید ہے کہ دماغ کھل جاتا تھا پھر اس کو اس قدر کمزور و کج احترام بھی نہیں سمجھا گیا تھا جس طرح گٹھلی والی نسوار کو۔
اب سنا ہے بعض نفیس لوگ اس گٹھلی والی نسوار کو ٹشو پیپر میں رکھ کر منہ کا ابھار بڑھاتے ہیں‘ اس میں کم از کم یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کا پسماندہ برادہ کسی میز‘ دیوار یا کرسی کے آس پاس لیپ نہیں کرنا پڑتا۔ جو لوگ بسوں و ویگنوں میں سفر کرتے ہیں وہ بس و ویگن کے اندر کرسی یا ہینڈل کو ہاتھ لگانے کی کوشش نہ کریں اور نشست کے نچلے حصے کو تو ہرگز ہرگز ٹچ نہ کریں کیونکہ وہاں 90 فیصد نسوار کے پسماندگان لگے چمٹے مل جائیں گے۔ بعض ہوشیار لوگ اس نسوار اندازی کو بڑی ہوشیاری سے کرتے ہیں‘ منہ کا حلیہ بالکل ٹائٹ نہیں ہوتا نہ احساس ہوتا ہے کہ یہ شے شریف کہیں رکھی اور لگی ہے اور گراتے وقت بھی اِدھر اُدھر دیکھ لیتے ہیں۔
ضرور یہ ذائقے دار چیز ہو گی‘ جب موٹر کے شیشے بند ہوں اور ایک آدھ نسوار انداز اندر بیٹھا تیر اندازی کر رہا ہو تو پھر تو موجاں ہی موجاں‘ کھڑکی کھولیں تو ٹھنڈی ہوا آتی یا ٹھنڈی ہوا باہر جاتی ہے‘ بند رکھیں تو اس فن شریف کے مفت کے موج مزے اڑائیں۔ دنیا میں بڑی ترقی ہوئی ہے مگر آج تک کوئی مائی کا لعل اس کا متبادل کہیں سے نہ لا سکا۔
مجھے معلوم ہوا ہے دروغ برگردن ڈاکٹر امجد حسین امریکہ میں بھی بعض لوگ نسوار نما قسم کی چیز منہ میں رکھتے ہیں۔ اتنا عرصہ قیام کے باوجود میں کسی ایسے آدمی سے نہیں مل سکا البتہ یہ بات کنفرم طور پر معلوم ہوئی کہ ’دَ باڑے نسوار‘ افغانستان میں بڑی مقبول ہے اور اس نے امریکی و مغربی فوجیوں کو اس راہ پر ڈال دیا ہے اور نسوار فروشوں کے مزے ہو گئے ہیں جو نسوار بازار میں پانچ دس روپے میں بکتی ہے وہاں یہ پانچ یا دس ڈالر میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی ثقافت کو ان کی تہذیب پر فوقیت دلا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اصل زورآور چیز تہذیب نہیں ثقافت ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر سارا امریکہ و مغرب اس ثقافتی مظہر کی عادی ہو جائے تو وہ ہمارے ہاتھوں شکست کھا جائے۔ میرے ایک جانکار دوست نے کہا ہے کہ ان فوجیوں پر گولیاں برسانے کی جگہ نسوار کی تروتازہ گولیاں و گٹھلیاں برسائی جائیں‘ جس طرح ایک زمانے میں برطانیہ نے چین پر عام بارودی گولیاں برسانے کی بجائے ان پر افیون کے پیکٹ گرا کر ساری قوم کو افیونی بنا دیا تھا۔ ان کی تہذیب کو اپنی ثقافت سے بدلنا ضرور ہمارے اختیار میں ہے‘ خاص طور پر نسوار کے حوالے سے جو بڑا مابعد الطبیعاتی قسم کا مزہ رکھتی ہے اور جس سے میں مکمل طور پر ناآگاہ ہوں۔