حمیرا عدنان
محفلین
نسوار کو دیکھ کر ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ نشہ ہے جسے منہ میں ڈالنے کے لئے بھی بندے کو نشے میں ہونا چاہیئے۔ ہم سمجھتے ہیں نسوار منہ میں وہ رکھتے ہیں جن کے پاس اسے رکھنے کے لئے بہتر جگہ نہیں ہوتی۔سنا ہے اسے پہلے پریاں کھایا کرتی تھیں۔ ہمارے سامنے تو کوئی پری بھی کھائے تو ہم اسے پری کی بجائے "پرے پرے" ہی کہیں گے کہ وہ پَری نہیں خانہ پُری ہے، جس کے چہرے پر زیرِ لب مسکراہٹ کی بجائے زیرِ لب نسوار ہو۔
پیتا ہے ہیروئن جو یہاں وہ بھی آدمی
نسوار میں جو پائے اماں وہ بھی آدمی
ہمیں یہ تو نہیں پتا کہ سب سے پہلے نسوار کس نے دریافت کی ، یہ پتا ہے کہ آج کل پشاور میں ہر تیسرا شخص اسی کے بارے میں دریافت کررہا ہوتا ہے۔وہاں تو لوگوں کے تھوکنے کے لئے اُگال دان نہیں، نسوار دان ہوتی ہے۔کہتے ہیں نسوار لینے سے برے خیالات قریب نہیں پھٹکتے، خیالات تو کیا کوئی بھی قریب نہیں پھٹکتا۔
لہو کو اس طرح اب گرم رکھتا ہے مرا شاہدؔ
کبھی چائے کبھی سگریٹ کبھی نسوار سردی میں
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب "جوک در جوک" سے اقتباس)
پیتا ہے ہیروئن جو یہاں وہ بھی آدمی
نسوار میں جو پائے اماں وہ بھی آدمی
ہمیں یہ تو نہیں پتا کہ سب سے پہلے نسوار کس نے دریافت کی ، یہ پتا ہے کہ آج کل پشاور میں ہر تیسرا شخص اسی کے بارے میں دریافت کررہا ہوتا ہے۔وہاں تو لوگوں کے تھوکنے کے لئے اُگال دان نہیں، نسوار دان ہوتی ہے۔کہتے ہیں نسوار لینے سے برے خیالات قریب نہیں پھٹکتے، خیالات تو کیا کوئی بھی قریب نہیں پھٹکتا۔
لہو کو اس طرح اب گرم رکھتا ہے مرا شاہدؔ
کبھی چائے کبھی سگریٹ کبھی نسوار سردی میں
(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب "جوک در جوک" سے اقتباس)