نشاطِ بے خودی ہر شئے پہ چھا جانے کے دن آئے ۔ منصور صدیقی

محمد امین

لائبریرین
نشاطِ بے خودی ہر شئے پہ چھا جانے کے دن آئے،
خزاں کے دوش پر، ہاں، غم کو اپنانے کے دن آئے،

تمہیں، اے لذتِ آزار کے ہر دم طلب گارو!
یہ مژدہ ہو کہ دل کو پھر سے تڑپانے کے دن آئے،

مبارک، اے تمنائے جنوں! کہ کامرانی ہو!
تری بے تابیاں اب حد سے بڑھ جانے کے دن آئے،

تصور بار بار اک بے وفا کا اب تو آئے گا،
کسی کی یاد میں رہ رہ کے کھو جانے کے دن آئے،

سدا چھٹتی رہی ہیں زیست کی تاریکیاں جس سے،
اسی جذبِ دروں کو پھر سے بھڑکانے کے دن آئے،

نوازش ہائے بے جا سے سدا شاکی رہا ہوں میں،
مگر، اہلِ جہاں! لو تم سے من جانے کے دن آئے،

ستم ہے آرزوؤں کے خیابانوں کا کھل اٹھنا،
مقدر حسرتِ پامال بن جانے کے دن آئے،

ہوا اک مرحلہ طے آنسوؤں کا اور آہوں کا،
اور اب دل سے جگر سے خون ٹپکانے کے دن آئے،

یہ چرچا ہر طرف منصور کی دیوانگی کا ہے،
کسی کی زلف کا شیدائی کہلانے کے دن آئے۔

منصور صدیقی

منصور صدیقی میرے ناناجان، راس مسعود صدیقی کا قلمی نام ہے۔ یہ غزل ان کے مجموعۂ کلام "درِّ منصور" سے لی گئی ہے۔
 
Top