حسن محمود جماعتی
محفلین
صبح سویرے منہ اندھیرے سفر کا یہ پہلا تجربہ نہیں تھا۔ بچپن سے یہ معمول رہا جب پو پھوٹنے سے بہت پہلے گھر سے ریلوے سٹیشن کی جانب مارچ ہوتا تھا۔ آج مدت بعد اس واقعے سے بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اندازہ تھا کہ سٹیشن پر رش ہوگا لیکن پہنچنے پر معلوم پڑا یہاں کے تالے کھولنے والے ہم ہیں۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ٹکٹ گھر کی کھڑکی کھلی۔ ٹکٹ خرید ، پلیٹ فارم کی جانب بڑھ گئے۔ وہی پرانا پلیٹ فارم، وہی رنگ ڈھنگ وہی پرانے کھابے۔ ابھی چونکہ چیونٹیوں کی قطاریں نظر نہیں آئی تھیں ، سو مخلوق خدا ابھی کونے کھدروں سے باہر نہیں نکلی تھی۔ ہم بھی کسی کونے کھدرے میں گھسنےکے ارادے سے گئے معلوم پڑا یہاں بکل پوش حضرات کا ڈیرہ ہے۔ مناسب سا بنچ دیکھ کر اسی پر برا جمان ہو گئے اور یادوں کی حسین وادی میں چہل قدمی شروع کر دی۔ لیکن یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا ۔ پلیٹ فارم پر لوگوں کی آمدو رفت ہونے لگی۔ احباب بنچ تاڑ کر اس جانب لپکے۔ نظر دوڑانے پر معلوم پڑا کچھ احباب ایسے کونوں کھدروں میں دبکے کھڑے ہیں، جہاں خود انہیں بھی اپنی خبر نہ تھی۔ اب رش بڑھنے لگا۔ ریل کے آنے کا وقت قریب آنے پر کونوں کھدروں کی بکل پوش مخلوق پلیٹ فارم پر جا بجا پھیل گئی۔ کچھ احباب پلیٹ فارم پر مخصوص جگہ سنبھال مورچہ بند ہونے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ساری عوام پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آ رہی تھی۔ پلیٹ فارم کے اگلے حصے پر کھڑے اماموں کےپیچھے صف بندیاں ہونے لگیں۔ فقط اقامت اور تکبیر کہنا باقی تھی۔ کچھ احباب نا جانے کس حکمت کے تحت پٹری سے اس پار اتر کر چوکنے کھڑے ہو رہے تھے۔ ہم متعجب اس ساری صورت حال کو سمجھنے کی کوشش میں تھے کہ ریل کی اقامت بلند ہوئی۔ اب پلیٹ فارم کا منظر یکا یک ایک سیاسی جلسے کی سی کیفیت میں بدل گيا۔ عوام پر جوش تھی اور اپنے عوامی لیڈر کی آواز پر لبیک کہنے کو تیار۔ ابھی حکم ہو اور مخالف پارٹی پر ٹوٹ پڑے۔ جوں جوں ریل قریب آنے لگی ۔ ماحول میں بے چینی بڑھنے لگی۔ مائیں بچے سنبھالنے لگیں۔ میڈمیں بستے بغل میں دابنے لگیں۔ آپسی مواخات نظر آنے لگا۔ کسی کا بچہ کسی کی بغل، کسی کا سامان کسی کے کاندھے پر۔ دور کی پھپھو اور خالہ کا جنم ہو چکا تھا۔ بکل اترنے لگے تھے۔ اب منظر کسی محاذ کا نقشہ پیش کرنے لگا۔ گویا دشمن کی فوج سے بھری ریل آ رہی ہے۔ جس پر حملہ آور ہو کر دشمن کی کمک روکنی ہے ۔ اور رسد قابو کر لینی ہے۔ ہم بھی ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے لگے۔ اس سارے منظر نامے میں ریل پلیٹ فارم پر آ رکی۔ بکلیں کھل چکی تھیں ہاتھ ہتھیار باہر آ گئے۔ عوام ریل پر یوں لپکی جیسے ولیمے میں روٹی کھلنے کے اعلان پر ۔ عوام دشمن فوج پر حملے کے لیے جذباتی ہوئے جا رہی تھی۔ ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی جدو جہد میں تھا۔ دروازے میں سے فرد واحد کے گزرنے کی گنجائش تھی۔ لیکن نگاہیں دیکھ رہی تھیں ، جیسے ابھی کوئی مرد مجاہد نعرۂ مستانہ بلند کر اپنا عصا دے مارے گا۔ ریل کا ڈبہ شق ہوگا اور بیک وقت سب کو خود میں سمیٹ لے گا۔ ایسے میں ہم آج کے دور میں ہونے والے اس معجزے کے عینی شاہد و راوی ہوتے۔ ہم اسی خیال میں تھے کہ ریل کی صدا بلند ہوئی ۔ پلیٹ فارم پر ہو کا عالم تھا۔ گویا ساری عوام ریل میں سمو چکی ہے۔ کوئی آواز و صدا سنائی نہ دے رہی تھی۔ اب کچھ لٹے پٹے مفلوک الحال مسافرنظر آئے جو جان اور بچے سو لاکھوں پائے مع گھٹنے کے مصداق ریل سے اتر کر دوڑ پڑے۔ اب کے انجن نے اپنی روانگی کا بگل بجایا اور ہم بھی بھاگ کر ایک ڈبے پر سوار ہوگئے۔ ڈبے کے سکون سے گمان گزرا یہاں کشت و خون تو ہوا ہی نہیں۔ لہذا سوار ہونے کا جذبہ اور اب کا سکون پتا دے رہا تھا یہاں لنگر تقسیم ہونا تھا جس کے حصول کے لیے کسی کی گردن اور کسی کی ٹانگ کام آئی تھی۔ ڈبے میں آگے بڑھے تو یہ گمان بھی باطل نکلا ۔ احباب اپنی اپنی نشستوں پر پر سکون برا جمان تھے۔ بکل پھر سے پھیر لیے گئے تھے۔ ایک خالی نشست پا کر ہم بھی دبک کر بیٹھ گئے۔ صورت حال سمجھ سے باہر تھی۔ ریل چل پڑی تو بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دینے لگیں۔ ساتھ بیٹھے ایک محترم سے اپنی پریشانی کا حل چاہا اور ہمت کر کے پوچھ لیا۔ عزت مآب ریل کی آمد اور اس پر سوار ہونے سے متعلق ایک عجیب جذباتی منظر دیکھا تھا۔ عوام کسی انقلابی مقصد کے حصول میں سرگرداں نظر آئی ۔ اس ساری جدوجہد عظیم کا مقصد و مدعا کیا تھا۔ صاحب نے یوں گھور کا دیکھا جیسے ہم پرات میں بچ جانے والا آخری سیخ کباب ہوں۔ جس پر مختلف سمتوں سے چمچے تان لیے جاتے ہیں۔ ہماری اپنی کیفیت اس لمحے کسی فوج کے آخری بچ جانے والے سپاہی جیسی تھی۔ جسے اپنے ملک جا کر شکست کا حال روایت کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ محترم نے پہلے کھنگورا مارا اورزور دے کر گویا ہوئے۔
"پائن ! جے انج نہ کریے تے سیٹ نئیں جے لبدی"۔
"پائن ! جے انج نہ کریے تے سیٹ نئیں جے لبدی"۔
آخری تدوین: