سید زبیر
محفلین
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نظر ملے تو چھلک جائیں دل کے پیمانے
شراب شوق سے بوجھل لبوں کے پیمانے
تری نگاہ کو ایسے میں کون پہچانے
کہیں کلی نے تبسم کا راز سمجھا ہے
جو خود چمن ہے وہ اپنی بہار کیا جانے
عجب نہیں جو محبت مجھے سمجھ نہ سکے
وہ اجنبی ہوں جسے زیست بھی نہ پہچانے
جو ہوش میں تھا تو کوئی نہ مے بہ جام آیا
بہک گیا ہوں تو دنیا چلی ہے سمجھانے
یہیں سجود محبت کی بستیاں تھیں کبھی
بتا رہے ہیں یہ دیر و حرم کے ویرانے
کہیں چراغ جلانے کی ہو رہی ہے سبیل
بجھارہے ہیں یہاں شمع خود ہی پروانے
فریب ِمشرق و مغرب ہیں رہروانِ جدید
یہ بد نصیب نہ عاقل ہوئے نہ دیوانے
وہ زندہ ہے جو بہے موجِ وقت کی رو میں
وہ زندہ تر ہے جو طوفاں میں ٹھیرنا جانے
میں اپنی بزم سے اتنی دور ہوں کہ نشور
مری نوأوں سے کچھ آشنا ہیں بیگانے
نشور واحدی